JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شام میں بہتا خون روکنے کی خاطر ایک شہادت
شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ

بسم اللہ والحمدللہ والصلاۃ والسلام علیکم رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ

دنیا بھر میں بسنے والے میرے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

میں یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ شام میں مجاہدین کی صفوں میں پھیلنے والے فتنے سے متعلق جو کچھ میں ابھی تک کہہ چکا ہوں اسی پر اکتفاکروں گا لیکن پھر میں نے دعوت و ابلاغ اورنصیحت وخیر خواہی کے محاذ پر صبر کے ساتھ کاربنداپنے قابل قدر اور محبوب مہاجر بھائی،محترم شیخ،ابوکریم ڈاکٹر ہانی السّباعی کی اپیل سنی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہرقسم کے شر سے ان کی حفاظت فرمائے،حق پر انہیں ثابت قدم فرمائے اور مسلمانوں،بالخصوص مجاہدین کی اصلاح کرنے میں ان کی مدد فرمائے۔چنانچہ میں نے استخارے اور مشورے کے بعد دوبارہ اس موضوع کو کھولنے اور بالخصوص اُن سوالات کے جوابات دینے کا فیصلہ کیا جو انہوں نے مجھ سے جمادی الاولیٰ کی پچیس تاریخ کو مقریزی ریڈیو پر نشر ہونے والے اپنے ایک خطاب میں پوچھے ہیں۔

میں یہ واضح کرتا چلوں کہ اس مسئلے پر دوبارہ بات کرنے کے پیچھے دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو محترم شیخ ہانی السّباعی کی یہ امید ہے کہ ان سوالات کا جواب مجاہدین کے درمیان پھیلے فتنے کی آگ بجھانے میں مددگار ہوسکتا ہے،لہٰذا میں نے سوچا کہ اگر میری چند باتوں سے مسلمانوں کا بہتا خون رک جائے تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوسکتی ہے۔

جب کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں اپنے شفیق اور خیرخواہ بھائی کی اِس طلب پر انکار نہیں کرسکتا اور ان کی باتوں کا جواب دینا ان کا مجھ پر حق ہے۔میری گفتگو درج ذیل امورپر مبنی ہوگی:

ایک گواہی
ایک عدد حکم
ایک ہمدردانہ اپیل
اورایک یاددہانی اورنصیحت

سب سے پہلے،جس بات کی میں گواہی دینا چاہتا ہوں وہ دولۃ عراق الاسلامیہ اور اس کے قابل احترام امیر شیخ ابوبکرالحسینی البغدادی حفظہ اللہ کے جماعت قاعدۃ الجہاد کے ساتھ تعلق سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ دولۃ عراق الاسلامیہ ‘جماعت القاعدۃ الجہاد کی تابع ایک ذیلی شاخ تھی۔میں یہ چاہتا ہوں کہ یہاں اس سلسلے میں کچھ مزید تفاصیل بھی بیان کردوں:

1۔جس وقت دولۃ عراق الاسلامیہ کا اعلان ہواتو جماعت القاعدۃ الجہاد کی قیادت اور ان میں سرفہرست شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ سے نہ تو اس سلسلے میں اجازت لی گئی اور نہ ہی ان سے مشورہ کیا گیا۔اس کے بعد شیخ ابوحمزہ المہاجررحمہ اللہ نے جماعت القاعدۃ الجہاد کی قیادتِ عامہ کے نام ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے دولہ کے قیام کے اسباب اور وجوہات بیان کیے اور ساتھ ہی تاکید کے طور پر یہ بات بھی واضح کی کہ دولہ الاسلامیہ مرکزی جماعت القاعدۃ الجہاد کے تابع ہی رہے گی۔انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ دولہ کی شوریٰ نے شیخ ابوعمر البغدادی رحمہ اللہ سے یہ عہد لیا ہے کہ اُن کے امیر شیخ اسامہ بن لادن ہی ہوں گے اور دولہ الاسلامیہ ‘جماعت القاعدۃ الجہاد کے تابع ہوگی۔لیکن اس وقت عراق والے بھائیوں کی رائے یہ تھی کہ عراق کے مخصوص حالات اوربعض سیاسی مصلحتوں کی بنا پر اس بات کا اعلان نہ کیا جائے اور اس تفصیل کو صرف اپنے بھائیوں تک ہی محدود رکھا جائے۔

جماعت القاعدہ الجہاد اور دولہ عراق الاسلامیہ کی قیادت اسی قاعدے پر باہمی معاملات چلاتے رہے کہ دولہ عراق الاسلامیہ‘قاعدۃ الجہاد کا ایک جزو ہے۔اس کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:

الف: شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے گھر سے ملنے والے وہ خطوط جو امریکیوں نے نشرکیے تھے،ان میں سے خط نمبر:SOCOM-2012-0000011 Orig

جوکہ شیخ عطیہ رحمہ اللہ نے شیخ مصطفی ابوالیزیدرحمہ اللہ کے نام لکھا تھا۔اس خط میں شیخ عطیہ نے شیخ مصطفی ابوالیزیدرحمہ اللہ کو شدت سے یہ تاکید کی تھی کہ وہ ’کرّومی‘ (جس سے ان کی مراد شیخ ابوحمزۃ المہاجر ہیں)،شیخ ابوعمراوران کے ساتھیوں کے نام واضح ہدایات اورنصیحتیں لکھیں کیونکہ اُنہیں عراق میں سیاسی غلطیاں ہونے کا شدید اندیشہ تھا۔

ب۔ جب شیخ ابوبکر الحسینی البغدادی،اللہ انہیں خیر کی توفیق دے،تنظیم قاعدۃ الجہاد کی اجازت کے بغیردولہ الاسلامیہ کے امیر بنے تو شیخ عطیہ رحمہ اللہ نے دولہ عراق الاسلامیہ کی قیادت کے نام بروز۷جمادی الأولیٰ ۱۴۳۱ ہجری کو خط لکھا جس میں اُنہیں نے کہا:

’’قیادت میں موجود ہمارے بھائیوں کے سامنے ہم یہ تجویز رکھتے ہیں کہ جب تک اس موضوع پر مشاورت جاری ہے،اس وقت تک ایک عارضی قیادت متعین کردی جائے، ہمارے رائے میں بہتر یہی ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی نہ ک جائے ،الاّ یہ کہ ایسی شدید نوعیت کی ضرورت ہو جس کی وجہ سے باضابطہ طور پر ایک مستقل قیادت کا اعلان کرنا ناگزیر ہوجائے۔ چنانچہ فی الحال قیادت کے لیے جتنے مجوزہ افراد ہیں ان کے نام اور ان کے مکمل تعارف اور صلاحیتوں پر مبنی ایک رپورٹ بھیج دی جائے۔ہم یہ رپورٹ شیخ اسامہ کو بھیجیں گے تاکہ وہ اس معاملے میں فیصلہ کریں‘‘۔

ٍج: شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے شیخ عطیۃ اللہ رحمہ اللہ کے نام ۲۴رجب ۱۴۳۱ہجری کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا:

’’بہت اچھا ہواگر آپ ہمارے بھائی ابوبکر البغدادی،جوہمارے بھائی ابوعمرالبغدادی رحمہ اللہ کی جگہ امیر بنے ہیں،ان کا تفصیلی تعارف بھجوا دیں۔ اسی طرح ان کے نائبِ اول اورابوسلیمان الناصرلدین اللہ کا بھی تفصیلی تعارف بھجوا دیں۔بہترہوگا کہ عراق میں موجود ہمارے دیگر بااعتماد ساتھیوں سے بھی ان کے متعلق پوچھیں اوران کی رائے ہم تک پہنچائیں تاکہ معاملات ہمارے سامنے اچھی طرح واضح ہوسکیں‘‘۔

یہ خط امریکیوں کو شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے گھر سے ملا اور اس خط کو درج ذیل نمبر کے تحت امریکیوں نے نشرکیا:SOCOM-2012-0000019 Orig

د۔ شیخ عطیۃ رحمہ اللہ نے انہیں اپنا جواب مورخہ ۵شعبان ۱۴۳۱ہجری کو لکھ بھیجا جس میں آپ نے کہا :

’’ہم ان شاء اللہ ابوبکر بغدادی اوران کے نائب اورابوسلیمان الناصرلدین اللہ کے متعلق معلومات اورمزید تفصیلات طلب کررہے ہیں،تاکہ ہمارے سامنے صورت حال مکمل طورپر واضح ہوسکے‘‘۔

ھ۔ شیخ عطیۃ اللہ نے دولہ عراق الاسلامیہ کی وزارتِ اعلام کے نام مورخہ ۲۰ شوال۱۴۳۱ہجری کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا:

’’مشائخ نے آپ کی جدیدقیادت(اللہ تعالیٰ انہیں خیر کی توفیق دے)کے متعلق تعارف پر مبنی ایک مختصر رپورٹ مانگی ہے جن میں دولہ عراق الاسلامیہ کے امیر المومنین شیخ ابوبکر البغدادی ،ان کے نائب،وزیر حرب، اوراگرآپ چاہیں تو دیگر مسئولین کا ایک تعارف طلب کیا گیا ہے۔یہ بات آپ اپنے مشائخ تک پہنچا دیں۔وہ چاہیں تو خود اپنا ایک تعارف لکھ کے بھیج دیں یا پھر صوتی انداز میں ریکارڈ کرکے ہمیں بھیج دیں‘‘۔

و۔ اس پر دولہ عراق الاسلامیہ کی شوریٰ کے نمائندے نے ذوالقعدۃ ۱۴۳۱ہجری کی اوّل تاریخ کو ایک جوابی خط بھیجا جس میں انہوں نے کہا:

’’محترم بھائی!آپ کا خط ہمیں رجبِ حرام ۱۴۳۱ہجری میں موصول ہوا جس کے ساتھ ہی آپ کا ایک پچھلا خط بھی تھا جس میں مشائخ کرام(اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرے) کی جانب سے یہاں دولہ کی صورت حال اور نئے امیر کے متعلق حتمی فیصلے میں کچھ عرصہ انتظارکی تاکید تھی۔لیکن ہمیں یہ خط نئی امارت کے اعلان کے بعد ملا۔بہرصورت،یہاں پہلے دن سے بھائی یہ طے کرچکے ہیں کہ آپ کے یہاں مشائخ کو یہاں کی صورت حال اور اصل حقائق سے مکمل طورپرآگاہ رکھا جائے۔ہمارے مشائخ اورمحترم امرائے کرام!ہم آپ کو آگاہ کرتے چلیں کہ عراق میں آپ کی دولہ الاسلامیہ خیریت سے ہے اور مضبوطی سے قائم ہے‘‘۔

اس کے بعد وہ کہتے ہیں:

’’ہمارے محترم مشائخ!دونوں شیوخ(شیخ ابوعمر البغدادی اور شیخ ابوحمزۃ المہاجر) کی شہادت کے بعد شوریٰ نے کسی نئے امیر کی تقرری کااعلان آپ کی جانب سے کسی محفوظ رابطے کے ذریعے امر آنے تک موخر کرنے کی کوشش کی،لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر بالخصوص عراق اور عراق سے باہر دشمنوں کی چالوں کے پیش نظر،انتظار کی یہ مدت طویل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا‘‘۔

اس کے بعد وہ مزید کہتے ہیں:

’’یہاں موجود تمام بھائی،بالخصوص شیخ ابوبکرحفظہ اللہ اور مجلس شوریٰ اس بات پر متفق ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ یہ امارت عارضی نوعیت کی ہو۔اور اگر آپ کے یہاں مشائخ کی جانب سے کسی شخص کو یہاں امیر مقرر کرکے بھیجا جائے اور اگر آپ اسی میں مصلحت دیکھتے ہیں تو ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اور اگر آپ نے عراق کے محاذ کے لیے کسی کو امیر بنا کر بھیجا تو ہم سب اس کے وفادار سپاہی ہوں گے جن پہ امیر کی سمع و طاعت واجب ہوگی۔مجلس شوریٰ او رشیخ ابوبکر حفظھم اللہ سب اس بات پر متفق ہیں‘‘۔

ز۔ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد محترم شیخ ابوبکر الحسینی البغدادی نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا:

’’مجھے اس بات کا مکمل یقین ہے کہ شیخ اسامہ کی شہادت ہمارے بھائیوں کے لیے اس راہ میں مزید ثابت قدمی کا باعث بنے گی،میں ساتھ ہی تنظیم القاعدہ میں موجود اپنے بھائیوں ، اوربالخصوص مجاہد شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ اور تنظیم کی قیادت میں موجود ان کے بھائیوں کو یہ کہنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اجر کوبڑھائے اور مشکل کی اس گھڑی میں آپ کے لیے آسانی فرمائے۔اللہ تعالیٰ کی برکت سے اپنے معاملات کو جاری رکھیے۔ ہماری طرف سے آپ کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ دولہ عراق الاسلامیہ میں آپ کے ایسے وفادار سپایہ موجود ہیں جو حق کے راستے پر رواں دواں ہیں،نہ وہ ہمت ہارتے ہیں اور نہ ہی اس راستے سے پیچھے ہٹتے ہیں۔اللہ کی قسم خون کا ہم خون سے لیں گے اور تباہی کا بدلہ تباہی سے‘‘۔

ح۔ اس بیان کے فوراً بعد دولہ عراق الاسلامیہ کے رابطہ کار نے شیخ عطیۃ اللہ رحمہ اللہ کے نام مورخہ ۲۰ جمادی الثانی ۱۴۳۲ہجری کو ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے کہا:

’’شیخ نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ ہم یہاں کے حالات سے متعلق آپ کو اطمینان دلائیں۔الحمدللہ یہاں معاملات نہ صرف مضبوط بنیادوں پر چل رہے ہیں بلکہ مزید بہتری کی جانب گامزن ہیں۔شیخ نے تنظیم کے نئے امیر کے متعلق آپ کا نقطۂ نظرجاننا چاہا ہے۔کیا دولہ الاسلامیہ ‘تنظیم کے ساتھ اپنی بیعت کی اعلانیہ تجدید کرے یا یہ معاملہ پہلے کی طرح مخفی ہی چلتا رہے جیسا کہ معلوم ہے اور اس پر عمل جاری ہے؟یہ بات بھی مدنظر رہے کہ یہاں موجود ہر بھائی بہرحال آپ کے ترکش میں موجودتیروں کی مانندہیں اوران کا آپ کے ساتھ تعلق اسی طرح ہے جس طرح شیخ ابوبکرالبغدادی نے اپنے بیان ’’الدم الدم والہدم الہدم‘میں بیان کیا ‘‘۔

ط۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد جب میں نے ان کی جگہ امارت کی زمام کار سنبھالی تو شیخ ابوبکرالبغدادی الحسینی مجھے اپنے خطوط میں اپنا ’امیر‘ کہہ کر ہی مخاطب کرتے رہے۔حتیٰ کہ ۲۹ جمادی الأولیٰ ۱۴۳۴ہجری کو اُن کا جو آخری خط مجھے ملا اس کی ابتدا بھی ان الفاظ سے ہوتی ہے ’ہمارے محترم و مہربان امیر کے نام‘۔

اس خط کا اختتام انہوں نے کچھ یوں کیا:

’’مجھے ابھی یہ خبر ملی ہے کہ جولانی نے ایک صوتی بیان میں آپ کے ساتھ بلاواسطہ بیعت کا اعلان کیا ہے۔یہی وہ بات تھی جس کے لیے وہ پہلے سے تیاری کررہا تھا،تاکہ اپنے اور اپنے گرد موجود افراد کی اُن غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے سے بچا سکے جو اس نے کیں۔شام میں یہاں موجود میرے بھائیوں اور اس بندۂ فقیرکی رائے یہ ہے کہ خراسان میں ہمارے مشائخ پر لازم ہے کہ وہ ایسے واضح موقف کا اعلان کریں جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو،تاکہ اس سازش کو یہیں ختم کیا جاسکے،قبل اس کے کہ خون بہے اور ہم امت کے لیے کسی نئے المیے کا سبب بن جائیں۔ہمارے رائے میں اس خائن کی اس اقدام کی تائید…چاہے وہ اشارے کنایے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو…کسی بہت بڑے فتنے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے،جس کے نتیجے میں شامہ جہاد کے وہ ثمرات ضائع ہوجائیں گے جن کی خاطر اتنا خون بہہ چکا ہے۔لہٰذا اس عاملے میں درست موقف بیان کرنے میں کسی قسم کی تاخیر موجودہ صورت حال کو نا صرف مزید گھمبیر بنادے گی بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں پھوٹ بھی پڑجائے گی،جماعت کا رعب ختم ہوجائے گااورمزید خون بہائے بغیر اس معاملے کا تدارک نہ ہوسکے گا‘‘۔

ی: اسی طرح شیخ ابومحمد العدنانی نے بھی مجھے اس معاملے میں اپنی گواہی بھیجی جس کے اختتام پر انہوں نے لکھا:

’’یہ گواہی بندۂ فقیرابومحمد العدنانی نے بروز۱۹جمادی الاولیٰ ۱۴۳۴ہجری کو اللہ تعالیٰ کے حضور،اپنی امت کے سامنے اور اپنے امرا کے سامنے اپنا عذر پیش کرنے کے لیے تحریر کی جن میں سرفہرست شیخ ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ اور شیخ ابوبکر البغدادی حفظہ اللہ شامل ہیں‘‘۔ ک۔ شیخ ابوبکرالحسینی البغدادی حفظہ اللہ نے مورخہ ۲۱رمضان ۱۴۳۴ھ کو جماعت کے ایک مسئول کے نام خط لکھا ،جس میں انہوں نے کہا:

’’شیخ ظواہری کے آخری خط پر غوروفکر تین مراحل سے گزرا:
۱۔شام میں موجود دولہ الاسلامیہ کی قیادت کے ساتھ مشاورت۔
۲۔شام کی مختلف ولایات میں موجودہ امرا جو کہ وہاں ہماری مجلسِ شوریٰ کے بھی رکن ہیں،ان کے ساتھ مشاورت۔
۳۔دولہ الاسلامیہ میں موجود لجنہ شرعیہ کی جانب سے اس خط کے مندرجات پر غوروفکر۔

ہم نے شام میں ٹھہرنے کا فیصلہ تب ہی کیا جب ہمیں یہ واضح نظر آیا کہ ہمارے امیر کی اطاعت میں ہمارے رب کی معصیت اور ہمارے ساتھ موجود مجاہدین اوربالخصوص مہاجرین کی ہلاکت ہے۔لہٰذا ہم نے اپنے رب کی اطاعت کی اور اس کی اطاعت کو اپنے امیر کی مرضی پر ترجیح دی۔اورجوکوئی اپنے امیر کے کسی ایسے امر کی مخالفت کرے جس میں اسے مجاہدین کی ہلاکت اور رب کی نافرمانی نظرآتی ہو،اس کے بارے میں یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس نے بے ادبی کا مظاہرہ کیا‘‘۔

اس مسئلے پر میں انہی مثالوں پہ اکتفا کرتا ہوں۔

2۔ باقی جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اس مشکل کے حل کے لیے جو فیصلہ جاری کیا گیا اس کی نوعیت کیا ہے؟کیا وہ ایک امیر کا حکم ہے جو اپنے ماتحت افراد کے مابین فیصلہ کررہا ہے،یا اس کی نوعیت ایک ایسے مقدمے کی ہے جس میں دو فریقین نے ایک قاضی کی طرف معاملہ لوٹایا ہو؟اس حوالے سے میں دولہ میں اپنے بھائیوں کے نام مورخہ ۲۸شوال۱۴۳۴ہجری کے اپنے طویل خط میں اس امر کی وضاحت کرچکا ہوں کہ یہ ایک امیر کی جانب سے اپنے ماتحت افراد کے مابین فیصلہ ہے کسی قاضی کا حکم نہیں جودوفریقین کے مابین کسی خاص مشکل میں فیصلہ کررہا ہو۔

3۔ اسی طرح بعض اوقات یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جماعت اور اس کی قیادت دولہ عراق الاسلامیہ کی تو تعریفیں کرتی رہی اور اس پر راضی بھی رہی جب کہ عراق اور شام میں دولہ پر وہ راضی نہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر دولہ عراق الاسلامیہ کے اعلان سے پہلے جماعت القاعدہ الجہاد کی قیادتِ عامہ اور جماعت کے امیر شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ سے نہ تو اجازت لی گئی تھی نہ ان سے مشورہ کیا گیا تھا اور نہ ہی اس ضمن میں انہیں کوئی اطلاع ہی کی گئی تھی،لیکن پھر بھی قیادت نے دولہ عراق الاسلامیہ کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کی وجہ وہ بہت سے فروق ہیں جو دولہ عراق الاسلامیہ اوردولہ اسلامیہ عراق وشام کے مابین پائے جاتے ہیں،جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں الف: دولہ عراق الاسلامیہ ایسے کسی فتنے کی بنیاد پر قائم نہ ہوئی تھی جس میں جبہہ کی تائید کی صورت میں خون بہانے کی دھمکیاں دی جاررہی ہوں۔

ب: دولہ عراق الاسلامیہ مجاہدین کی شوریٰ اور اہل سنت کے قبائل کے ساتھ وسیع مشاورت کے بعد قیام پذیر ہوئی تھی،جیسا کہ شیخ ابوحمزہ المہاجررحمہ اللہ نے ہمیں اس حوالے سے تفاصیل بتائی تھیں اور شیخ ابوحمزہ کے ساتھ طویل تعلق کی بنا پر ہم اُن کی سچائی پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے دولہ کے قیام کے لیے تمام جہادی جماعتوں کے ساتھ رابطے کیے تھے،جب کہ دولہ الاسلامیہ عراق وشام کے اعلان سے پہلے سوائے جماعت کے اندر کے کچھ لوگوں کے کسی سے مشورہ نہیں کیا گیا،یہاں تک کہ خود جبہۃ النصرہ نے یہ اعلان کیا کہ اس ضمن میں ان سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔

ج: عراق وشام میں دولہ کا اعلان جماعت قاعدۃ الجہادکی قیادت کے اس حکم کی صریح نافرمانی میں کیا گیا جس میں قیادت نے یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ شام میں القاعدہ کے ساتھ منسوب کسی قسم کے وجود کا اعلان نہ کیا جائے،بلکہ جماعت قاعدۃ الجہاد کی قیادت کا عمومی موقف یہ ہے کہ اس مرحلے میں کسی قسم کی امارت کااعلان نہ کیا جائے۔اس امر کی وضاحت شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ ‘شیخ عطیۃ اللہ رحمہ اللہ کے نام اپنے خط میں بھی اچھی طرح کرچکے ہیں جسے بعد ازاں امریکیوں نے درج ذیل نمبر کے تحت نشرکیا: SOCOM-2012-0000019 Orig

اس امر کی تاکید شیخ ابویحییٰ رحمہ اللہ دولہ عراق کے اپنے بھائیوں کے نام اپنے ایک خط میں کرچکے تھے جس کے بعد میں نے اسی بات کا اعادہ شیخ ابوبکرالحسینی البغدادی کے نام اپنے ۲۵جمادی الثانی ۱۴۳۴ہجری کے خط میں بھی کیا تھا،جس میں مَیں نے ان کو لکھا تھا کہ :

’’اگر اس دولہ کے اعلان سے پہلے آپ ہماری رائے پوچھتے تو ہم آپ کے ساتھ ہرگز اتفاق نہ کرتے ،کیونکہ میں اور میرے بھائی یہ دیکھتے ہیں کہ اس اعلان کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں،کیونکہ شام میں دولہ کے قیا م کے بنیادی عناصر ابھی میسر نہیں‘‘۔

د: عراق وشام میں دولہ الاسلامیہ کا اعلان اہلِ شام کے لیے سیاسی طور پر ایک حادثہ ثابت ہوا،چنانچہ ایک ایسے وقت میں جب کہ اہلِ شام جبہۃ النصرہ کی تائید میںاور امریکہ کے خلاف مظاہرے کررہے تھے کہ اس نے جبہۃ النصرہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں کیوں شامل کیا؟وہی لوگ دولہ کے اس اعلان کی مذمت کرنے لگے جسے دولہ نے بشارالاسد کو سونے کی طشتری میں رکھ کرپیش کردیا اورشام میں موجود دیگر جہادی جماعتیں بھی یہ سمجھنے لگیں کہ دولہ ان پر بغیر مشورے اور بغیران کی رضا کے خود کو مسلط کرنا چاہتی ہے۔

ھ: عراق وشام میں دولہ کے اعلان کے سبب ایک ہی جہادی جماعت کے درمیان شدید اختلاف نے جنم لیا،جس کی نوبت بالآخر آپس کے قتال تک جا پہنچی۔جب کہ شیخ ابوبکر الحسینی البغدادی نے خود یہ دھمکی دی تھی کہ جبہۃ النصرہ کی کسی قسم کی تائید یا جس موقف کو وہ درست سمجھتے ہیں اس کے اعلان میں تاخیر کا نتیجہ بہتے خون کی صورت میں نکلے گا اور جوکہ بعدازاں بالفعل بہنے لگا۔

و: شام میں ابھی تک خون کی آبشاریں بہہ رہی ہیں جب کہ اگر ودلہ اس حکم کو مان لیتی جو اس مشکل کے حل کے لیے جاری کیا گیا تھا اور جس کا مقصد کسی قسم کی خوں ریزی سے بچنا تھا،تو اس متوقع فتنہ سے بچا جاسکتا تھا۔اگر دولہ کے بھائی عراق کے لیے فارغ ہوجاتے جسے اُن کی مجموعی قوت سے کہیں زیادہ قوت کی اب بھی ضرورت ہے اور اس امر کو قبول کرلیتے اورشوریٰ اورامیر کی سمع وطاعت کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی قیادت اور امیر کی صریح خلاف ورزی نہ کرتے،تو وہ مسلمانوں کو اس بہتے خون سے بچا سکتے تھے۔اس صورت میں وہ رافضی صفوی حکومت کو بھی ناکوں چنے چبواتے اورعراق میں اہل سنت کی نصرت کا حق بھی کہیں بڑھ کر ادا کرپاتے۔تاہم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر اور اسی کی تعریف ہے۔

یہ ایک گواہی تھی جس کے بعد میں ایک حکم دینا چاہوں گا اور ایک اپیل کرنا چاہوں گا۔

حکم شیخ فاتح ابومحمد الجولانی حفظہ اللہ اور جبہۃ النصرہ کے تمام محترم سپاہیوں کے لیے ہے جب کہ اپیل ارضِ رباط،شا کے تمام جہادی مجموعات اور جماعتوں کے لیے ہے کہ وہ فوری طور پر ایسے کسی بھی قتال سے رک جائیں جس میں ان کے مجاہد بھائیوں اور دیگر مسلمانوں کی جان اور عزت وناموس پر ظلم وزیادتی کا اندیشہ ہو اور اپنی تمام تر قوت بعثی نُصَیری اوران کی حامی رافضی قوتوں کے خلاف قتال پر مرکوز کریں۔

اسی طرح میں اس امر کا بھی اعادہ کرتا ہوں جس کا میں پہلے بھی متعدد دفعہ ذکر کرچکا ہوں کہ سب لوگ اپنے باہمی اختلافات اور جھگڑوں کے فیصلے کے لیے ایک مستقل اور خودمختار شرعی عدالت کی جانب رجوع کریں۔

اسی طرح میری سب سے یہ درخواست ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کے وسائل پر کھلے بندوں ایک دوسرے پر الزام تراشی،غیر مناسب القاب اور فتنے کو ہوا دینے والے الفاظ استعمال کرنے سے مکمل اجتناب کریں اور خیر کی کنجیاں اور شرکو روکنے والے بنیں۔

اورآخر میں رہ گئی ایک نصیحت اور یاددہانی جوکہ شام میںموجود تمام مجاہدین کے لیے ہے کہ امت مسلمہ کے معصوم خون کے ساتھ ہولی کا یہ کھیل اب بہت ہوچکا! جہادی قیادت اور ان کے مشائخ کا قتل بہت ہوچکا!بس اب بہت ہوچکا!کیونکہ آپ کا خون ہم سب کے لیے حددرجہ قیمتی اورگراں قدر ہے ،جس کے بارے میں ہم سب کی یہ خواہش تھی کہ یہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف دین کی نصرت کی خاطر بہتا۔

اورایک نصیحت اور یاددہانی خصوصی طور پر محترم ومکرم شیخ ابوبکر الحسینی البغدادی اور ان کے ساتھیوں کے نام،کہ اپنے امیر کی سمع وطاعت کی جانب لوٹ آئیے!اس مقصد کی جانب لوٹ آئیے جس کے حصول کے لیے آپ کے مشائخ،امرا اور ہجرت وجہاد کے رستے پر آپ سے پہلے چلنے والوں نے اپنی کوششوں کو صرف کیا۔زخموں سے چُور عراق کے لیے خود کو فارغ کرلیجیے جسے اس سے کہیں بڑھ کر آپ کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اپنی توجہ کو اس جانب مرکوز کرلیجیے تاکہ اس خونی قتل گاہ کو بندکیاجاسکے اورعراق میں اسلام اور اہل سنت کے دشمنوں کا رخ کیجیے!چاہے آپ یہ سمجھیں کہ آپ پر ظلم ہوا یا آپ کی حق تلفی ہوئی۔مسلمانوں کے بہتے خون کو روکنے ،ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور دشمن کے خلاف ان کی نصرت کرنے کی خاطر میری اس نداپر لبیک کہیے!چاہے آپ اسے خود پر ظلم وزیادتی اور ناانصافی ہی کیوں نہ سمجھتے ہوں۔

اورایک نصیحت میں خصوصی طور پر محترم ومکرم شیخ ابوبکر الحسینی البغدادی کوکرنا چاہوں گا کہ آپ اپنے دادا،سیدنا حسن السبط رضی اللہ عنہ کی پیروی کیجیے!جنہوں نے اپنے حقِ خلافت سے دست بردار ہوکر مسلمانوں کے بہتے خون کو روک لیا،چنانچہ اُن کے اس اقدام سے وہ اپنے نانا،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کے حق دار ٹھہرے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

اِنَّ ابْنِی ھَذٓاسَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے مابین صلح کروا دیں گے‘‘۔

کیاآپ کے لیے یہ بشارت کافی نہیں ؟اور کیا آپ اس عظیم سرداری پر راضی نہیں؟کیا آپ کو ایک ایسا فیصلہ پسند نہیں جس کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے اذن وتوفیق سے دنیاوآخرت میں آپ کا مقام ومرتبہ بلند فرمادیں اور آپ عراق میں دشمنان اسلام کے مقابلے پر پوری قوت سے کھڑے ہوسکیں جسے اس سے کہیں بڑھ کر کوششوں کی ضرورت ہے۔اپنے اس اقدام سے آپ مسلمانوں کے مابین فتنے کی آگ بجھا کر ان کے مابین محبت واخوت کے جذبے کو دوبارہ زندہ کردیں گے۔پس آپ اللہ تعالیٰ پر توکل کیجیے! اوریہ فیصلہ کرگزریے!آپ اپنے تمام مجاہد بھائیوں اور تمام انصارِجہاد کو اپنا حامی و ناصراورمددگار دیکھیں گے!

اے محترم ومکرم شیخ!آپ اپنے داد کے اسوہ کو اختیار کریں اور اپنے بہترین اسلاف کے بہترین جانشین بن کرخانوادۂ نبوت کے عظیم کارناموں میں ایک اور عظیم کارنامے کا اضافہ کردیجیے!اللہ کی توفیق سے دنیاوآخرت کی کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

من معشرٍحبُھم دینٌ وبغضُھم
کفرٌوقربُھم منجیً ومعتصمُ

یہ وہ خانوادۂ نبوت ہے جس کی محبت جزوِ دین اور جس سے بغض کفر ہے
ان کی قربت باعث نجات اور ان کے چمٹ رہنا ہدایت کا سبب ہے

وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین،وصلی اللہ علی سیدنا محمدوآلہ وصحبہ وسلم
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بشکریہ: نوائے افغان جہاد
اختتام