JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مہاجر،مجاہد،مرابط وشہید فی سبیل اللہ …شیخ ابوخالد السوری رحمہ اللہ
شہیدِ فتنہ شیخ ابو خالد السوری رحمہ اللہ کی شہادت پر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کا تعزیتی بیان

خونِ مسلم کی حرمت کے بارے میں شیخ عطیۃ اللہ اللیبی رحمہ اللہ کے بیان میں سے ایک اقتباس:
ایک مسلمان نفس کی عظمت و ضخامت اور خونِ مسلم کی حرمت کو بیان کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہی کافی ہے :لزوال الدنیا اھون عند اللہ من قتل رجل مسلم ’’اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا ختم ہونا ایک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں بہت ہلکی بات ہے ‘‘…چاہے دنیا کوزوال آجائے، ہماری تنظیمیں اور جماعتیں ختم ہو جائیں اور تمام منصوبے ناکام ہوجائیں لیکن ہمارے ہاتھوں پر کسی بے گناہ مسلمان کا خون نہیں ہونا چاہیے ۔یہ بہت واضح اور طے شدہ مسئلہ ہے ۔

بسم اللہ والحمدللہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ و آلہ و صاحبہ ومن والاہ۔
ساری دنیا کے مسلمان بھائیو!السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اما بعد۔آج مجھے امت ِ مسلمہ کو بیک وقت مبارک باد بھی پیش کرنی ہے اور تعزیت بھی ! مبارک باد تو بطلِ عظیم ،مہاجر و مجاہد و مرابط اور قید وبند کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے والے شیخ ابوخالد سوری (رحمہ اللہ)کی شہادت پر پیش کرنی ہے ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ ان پر اپنی ڈھیروں رحمتیں نازل کرے اور ہمیں ذلت و ندامت اورفتنوں سے بچا کر ان سے ملادے۔

جہاں تک تعزیت کا تعلق ہے تو وہ شام کی مقدس سرزمین پر اٹھنے والے گھمبیر فتنے کے بارے میں کرنی ہے اور اس بے وقوف مجرم کے لیے جو اس فتنے میں پڑ کر دھوکہ کھا گیا۔جسے کسی اکسانے والے نے ‘جہالت ،ہوائے نفس ،دشمنی اور برتری کے لالچ میں شیوخِ جہاد میں سے ایک عظیم شخصیت کے قتل پر آمادہ کر دیا۔

وہ شیخ جنہوں نے اپنی جوانی کی بہار جہاد میں لگادی اور ساری عمر مجاہدین کی تربیت اور حق کی نشر و اشاعت میں گزار دی۔اسیری کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا اور راہِ حق کی تکلیفوں اور آزمائشوں کی شدت ذرا بھی ان کے ارادے اور عزم کو ڈگمگا نہ سکی ۔میں ان کو روس کے خلاف جہادکے دنوں سے جانتا ہوں۔تب سے لے کر پاکستان میں ان کی گرفتاری تک سارا عرصہ انہوں نے استاد المجاہدین الشیخ ابو مصعب السوری (اللہ ان کو جلد رہائی عطا کرے)کے قریبی رفیق کے طور پر گزارا۔ دس سال قبل ان کی گرفتاری سے کچھ عرصہ پہلے ان کا آخری پیغام جو مجھے موصول ہوا وہ میرے اس بیان کی تائید میں تھا جس کا عنوان تھا:’’انما النصرصبر ساعۃ‘‘ (بے شک فتح ایک گھڑی صبر کے فاصلے پر ہے )۔ پھر جلد ہی وہ گرفتار ہوگئے اور ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا۔یہاں تک کہ شام کی مبارک انقلابی تحریک کھڑی ہوئی اور ایسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے علم ِ جہاد بلندہوا جو شریعت کی حاکمیت قائم کرے ،عدل اور شورائیت کو نافذ کرے ،مسجدِ اقصٰی اور تمام مسلم مقبوضات کو آزاد کرائے ۔جو مظلوموں کی داد رسی کرے اور اسلامی ممالک کو غیروں کی غلامی اور داخلی فساد سے نجات دلائے۔شیخ ابوخالد رحمہ اللہ کو جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بعثی نصیریوں کی قید سے رہائی عطا فرمائی تو اللہ کی مدد سے ہمارے درمیان دوبارہ رابطہ قائم ہو گیا۔وہ میرے اور میرے رفقا کے لیے بہترین ناصح اور مشیر تھے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ رہا ہونے تک سات سال اپنے استاذ اور رفیقِ سفر شیخ ابومصعب السوری کے ہمراہ رہے۔ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے محبوب بھائی ابومصعب حفظہ اللہ کو جلد از جلد رہائی عطا فرمائے۔ انہوں نے مجھے آگاہ کیا کہ وہ شام میں اسی فتنے کو اٹھتا ہوا دیکھ رہے ہیں جسے پشاور میں کھڑا کیا گیا تھا۔جہالت،ہوائے نفس اور ظلم کا فتنہ!ایسا فتنہ جس میں محض افواہوں اور شبہات کی بنا پراور طمع اور خواہشاتِ نفس کی تسکین کے لیے جانیں ضائع اور عزتیں پامال کر دی جاتی ہیں۔اس فتنے سے مجھے پشاور کے دور کاایک کرب انگیز لطیفہ یاد آیا ۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں اپنے محبوب بھائی شیخ ابو محمد المقدسی (اللہ ان کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھے اور جلد رہائی عطا کرے)سے ملنے گیا۔میں نے ان سے کہا کہ ’’ایک گروہ اس وجہ سے میری تکفیر کرتا ہے کہ میں افغان مجاہدین کی تکفیر نہیں کرتا‘‘۔وہ مسکرائے اور کہنے لگے:’’آپ نہیں جانتے کہ وہ میری اس وجہ سے تکفیر کرتے ہیں کہ میں آپ کی تکفیر نہیں کرتا‘‘۔

یہ وہی جہالت ،ہوائے نفس اور طمع ہے جس نے امیر المومنین ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حرمت کا بھی پاس نہیں رکھا۔جاہل اور خواہشاتِ نفس کے بندوں نے انہیں اس حال میں قتل کیا جب وہ قرآن ِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔پھر انہی لوگوں نے امیر المومنین اسد اللہ الغالب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حرمت کا بھی لحاظ نہیں کیا اور ان میں سے ایک نے ان پر اس وقت حملہ کیا جب وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔یہ وہ فتنہ ہے جسے شیخ ابوخالد رحمہ اللہ بھانپ گئے تھے اور اس سے خبردار کر رہے تھے ،اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ وہ اسی فتنے سے شہادت پاگئے۔آج اس فتنے میں احترام ،بزرگی اور سبقت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس میں ہجرت و جہاد، اسیری پر صبر اور راہِ حق پر ثبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔

آج ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس فتنے کا راستہ روکے اور اس کے خلاف رائے عامہ بنائے اور ہر اس فرد کے خلاف بھی جو اس فتنے میں آزاد،غیرجانب دار شرعی فیصلے پر راضی نہ ہواور میں ’’آزاد،غیر جانب دار‘‘پر زور دیتا ہوں۔کیوں کہ ایسی تحکیم کا کوئی اعتبار نہیں جس میں جھگڑنے والے فریقین خود ہی منصف ہوں۔ہر مسلمان اور مجاہد پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں سے برأ ت کا اظہار کرے جو ایسے غیر جانب دار شرعی فیصلے سے انکار کریں۔

ہر مسلمان مجاہد کا فرض ہے کہ مجاہدین کے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگے اور ان کے مراکز کو تباہ کرنے اور ان کے شیوخ کو قتل کرنے سے انکار کردے۔وہ شیوخ جو اکابرمجرمین کا ہدف ہیں، جنہیں شہید کرنے کے لیے کفار ہر طریقے سے کوشش کر رہے ہیں…یہ جاہل نادان اٹھے اور ان کا ناحق خون کر دیا۔تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے لوگوں سے ہرگز تعاون نہ کریں جو مجاہدین کے مراکز پر دھماکے کرتے ہیں یا ان کے لیے بارودی گاڑیاں یا بم بار روانہ کرتے ہیں اور اس فتنے کی کسی صورت حمایت نہ کریں۔

جو کوئی اس فتنے میں مبتلا ہو چکا ہے وہ یاد رکھے کہ وہ اپنے ہاتھوں دشمنانِ اسلام کے وہ مقاصد پورے کر رہا ہے جو وہ اپنے سارے وسائل استعمال کر کے بھی حاصل نہیں کر سکے ۔

مجاہد و مہاجر،مرابط و مصابر شیخ ابوخالد السوری رحمہ اللہ کے قتل سے مجھے ، جماعتِ اسلامیہ المقاتلہ الجزائر کے ہاتھوں دو عظیم شیوخ محمد سعید اور رجّام رحمہم اللہ کے قتل کا واقعہ یاد آگیا۔جو اس جماعت کی معنوی اور پھر مادی موت کا سبب بن گیا۔اس جرم میں کون ملوث ہے یہ معاملہ مخفی نہیں رہے گااور ابھی نہیں توکچھ عرصہ بعد پتہ چل جائے گا۔جیسے پہلے جماعت اسلامیہ مقاتلہ نے بھی شیخین محمدسعید اور رجّام رحمہم اللہ کے قتل سے انکار کیا تھا۔

اے ابوخالد ہم آپ کے رحمان و رحیم رب سے دعاگو ہیں،سوال کرتے ہیں کہ ہجرت و جہاد اور اسیری گزارتے گرازتے آپ پر آنے والے بڑھاپے پر رحم فرمائے۔آپ کے گناہوں کی مغفرت فرمائے،آپ کے درجات بلند کرے اور آپ کو اجر سے محروم نہ کرے اور آپ کے فراق میں غمگین اہلِ خانہ ،ساتھیوں ،چاہنے والوں اور تمام انصارِ جہاد کو صبر دے ۔

شیخ الوغی فارحل لربک راقیًا * * درج الشہادۃ فائزًا مأجورا
شیخِ مردِ میدان شہادت اور اجرِ عظیم پاکراپنے رب کے حضور کامیابی کے بلند مرتبے پر فائز ہوگئے۔

لیثٌ یدافع عن عرینٍ غاضبًا * * متقدمًا أشبالہ منصورا
وہ شیرجس نے دھاڑ کر اپنی کچھار کا دفاع اور اپنے بیٹوں کی نصرت کی

بدرٌ تقاصرت الدیاجی دونہ * * شمسٌ تغالب بالحقائق زورا
ایسا بدرِ روشن ‘راتیں جس کے بغیر اندھیری ہیں۔ایسا شمس جو حقائق کے اجالوں سے جھوٹ پر غالب آگیا۔

طودٌ شموخٌ طامحٌ لا ینحنی * * تنبو العواصف دونہ مقرورا
عزم و عظمت کا نہ جھکنے والاجبلِ عظیم،طوفان جس سے ٹکرا کر اپنا رخ بدل لیں۔

لم تکتسب منک النوائب ہنۃً * * أو تنتزع منک الخطوب فتورا
مصائب آپ سے کچھ چھین نہ سکے نہ ہی شدائد آپ کو کمزور کر سکے

أمضیت عمرک ہجرۃً وتزہدًا * * ورحلت عنا بالثنا موفورا
آپ نے ساری عمر ہجرت و زہد میں گزار دی اور ہم سے وافر ثنا کے ساتھ رخصت ہوئے

رافقت أستاذ الجہاد المصطفی * * فی ہجرۃٍ ومطاردًا وأسیرا
آپ نے ہجرت ،روپوشی اور اسیری میں اپنے استادِ جہاد مصطفٰی (شیخ ابو مصعب ) کی رفاقت نبھائی۔

فرقیت فی قمم الثغور مجاہدًا * * وربحت فی قید السجون أجورا
آپ نے اگلے مورچوں میں جہاد کیا اورتعذیب خانوں کی قید میں اجرِ عظیم کمایا۔

حتی أتتک من الجہالۃ غدرۃٌ * * لم ترع سبقًا أو تؤد شکورا
حتیٰ کہ جہالت کا غدر بپا ہوا جس میں نہ سبقت کی رعایت ہے نہ خدمات کا تشکر

لکنہا نالت علیًا قبلکم * * عثمان أیضًا صابرًا مغدورا
لیکن اسی فتنے نے پہلے بھی علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔

ہذا الذی قد کنت تحذر شرہ * * فکتبت منہ محذرًا ونذیرا
اسی کے شر سے آپ پریشان تھے اور ہمیں خبردار کر رہے تھے

وخشیت عقباہ فقمت مناصحًا * * بنصوع رأیٍ مخلصًا ومشیرا
آپ اس کے انجام پر متفکر تھے اس لیے شفاف اور مخلص رائے سے نصیحت و مشورہ دے رہے تھے۔


بشکریہ: نوائے افغان جہاد
اختتام