عیدالاضحی کی مناسبت سے عالی قدر امیرالمؤمنین شیخ الحدیث ہبۃ اللہ اخندزادہ حفظہ اللہ کا پیغام
بسم الله الرحمن الرحیم
الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر، لا اله الا الله والله اکبر، الله اکبر و لله الحمد
الحمد لله الذي أنعم علينا بنعمةِ الإيمان والإسلام، حيث أنزل علينا خيرَ كُتبه، وأرسل إلينا أفضلَ رسُلُه، وشرع لنا أفضلَ شرائع دينه، له الحمد كلُّه، وبيده الخير كلُّه، وإليه يُرجع الأمر كلُّه، يخلق ما يشاء ويختار، ما كان لنا الخِيَرة، سبحانه له الحمدُ في الأولى والآخرة، وله الحكم وإليه ترجعون. وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أنّ محمدًا عبده ورسوله،بلّغ الرسالة، وأدّى الأمانة، ونصح الأمّة، وجاهد في الله حقّ جهاده،فصلوات ربي وسلامهُ عليه، وعلى آله الطيبين الطاهرين، وعلى أصحابه والتابعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين. وبعد :
فقدقال الله تعالی : فصل لربک وانحر. صدق الله العلی العظیم
مؤمن ہموطنو اور دنیا کے گوشے گوشے سے ہم عقیدہ بہن بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے صحت، عافیت اور سعادت کی روشنیوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ آپ کو بقر عید(عیدالاضحی) کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی آپ کی تمام عبادات، قربانیاں، صدقات اور اُسی کی رضا کی خاطر انجام دیے گئے اعمالِ صالحہ قبول فرمائیں۔
عیدالاضحی کی مبارک باد کے ساتھ تمام مجاہد عوام اور بالخصوص راہِ حق کے مجاہدین کو ان فتوحات کی مبارک باد دیتا ہوں، جو حالیہ دنوں اللہ تعالی نے اپنے خصوصی فضل و نصرت، مجاہدین کی قربانیوں اور عوام کے تعاون سے مجاہدین کو عطا فرما ئی ہیں۔ دشمن کی ہر قسم کی زور آزمائی، بیرونی افواج کی کثرت اور مختلف طیاروں کے فضائی حملوں کے باوجود افغانستان کے مختلف صوبوں کے بیشتر اضلاع اور علاقے دشمن کے ناپاک وجود پاک ہو گئے ہیں۔ الحمدللہ! اب وہاں امارت اسلامیہ کا سفید پرچم لہرا رہا ہے۔
مجاہد بھائیو! اگرچہ جارحیت کے ابتدائی سالوں میں ہماری ذمہ داری صرف دشمن کے خلاف قتال اور مقابلہ کی تھی، لیکن اب چوں کہ افغانستان کے بیشتر رقبے پر ہمارا کنٹرول ہے۔ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پندرہ سالہ جہادی اہداف کا تحفظ کرتے ہوئے اس محنت کے ثمرات حاصل کریں۔جہاد کے عظیم اہداف میں اللہ تعالی کی زمین پر شریعت الہی کا نفاذ ہے۔ امن و امن کا استحکام ہے۔ اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت اور اس مملکت کے باشندوں کے جان، مال، عزت اور تمام حقوق کا تحفظ شامل ہے۔
فوجی کمیشن کے ذمہ دار، گورنر، عدالتی امور کے کارکن، صوبائی کمیشنز کے اراکین، ضلعی سربراہان، جہادی کمانڈرز نیز تمام سویلین کمیشنز کے ذمہ داران اِن مفتوحہ علاقوں میں امن و انصاف کا استحکام یقینی بنائیں۔ شریعت کا نفاذ، بہترین حکمرانی سمیت دینی و عصری علوم کی ترقی اور عام المنفعت رفاہی کاموں مثلا راستوں، پلوں، صحت کے شعبے، پینے کا پانی، زراعت اور تجارت کی پیش رفت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ جو اس راہ میں رکاوٹ بنے، اس کا سدباب کیا جائے، تاکہ مؤمن عوام شرعی حاکمیت کے زیر سایہ خوش حال، روشن اور غیرمحتاج زندگی کی سعادت سے روشناس ہو کر امن کی فضا میں سکون کا سانس لے سکیں۔
جب مجاہدین عظیم امتحان میں کامیاب ہوجائیں تو انہیں خصوصی طور پر درج ذیل نکات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے :
نیت خالص اللہ تعالی کے لیے ہو۔ تمام مجاہدین خود کو تقوی سے مزین کریں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کریں، جس نے جہاد کے مقدس فریضے کی توفیق دی۔ عدل کریں۔ حسن سلوک کو زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔غرور، خودپسندی، ظلم اور غداری سے بچیں۔ قوم پرستی، علاقائی، لسانی اور دوست پرستی سے شدید گریز کریں۔ امتیازات صرف اورصرف تقوی اور امانت داری کے بنیاد پر ہونے چاہییں۔ آپس میں اعتماد اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔ ایسے حرکات سے بچیں، جو آپس میں بے اعتمادی کو جنم دیں۔ مجاہد بھائی اپنی صفوف میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو ہرگز نظرانداز نہ کریں۔ نماز باجماعت ادا کریں۔ بیت المال میں خیانت سے بچيں۔ شہداء اور قیدیوں کی اولادوں کی بہتر کفالت کری۔ اُنہیں کبھی فراموش نہ کریں۔ اپنے اس دنیا سے چلے جانے والے محبوب قائدین ’’مرحوم امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ اور شہید امیرالمؤمنین ملا اختر محمدمنصور رحمہ اللہ‘‘ کی دانش مندانہ شرعی پالیسی کو بھرپور قوت سے تھامے رہیں۔ مسلمانوں کی خدمت، عوام کی دیکھ بھال اور رفاہ عامہ کے کاموں کو دینی خدمت سمجھ کر عظیم انجام دیں۔ کیوں کہ اللہ تعالی کے ہاں عوام کو فائدہ پہنچانا سب سے محبوب عمل ہے۔
عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أحب الناس إلى الله أنفعهم، وأحب الأعمال إلى الله عز وجل سرور تدخله على مسلم، أو تكشف عنه كربة، أوتقضي عنه ديناً، أوتطرد عنه جوعاً، ولأن أمشي مع أخي المسلم في حاجة أحب إلي من أن أعتكف في المسجد شهراً. رواه الطبرانی.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین افراد میں سے وہ شخص ہے، جو عوام کو فائدہ پہنچائے۔ اللہ تعالی کے ہاں سب سے محبوب عمل یہ ہے کہ ایک مسلمان کے دل کو خوش کیا جائے۔ کسی مسلمان کی پرشانیوں کو ختم کرنے میں مدد دی جائے۔ کسی مقروض مسلمان بھائی کی طرف سے قرض ادا کیا جائے۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلایا جائے۔ مَیں اسے بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک ماہ کا مسجد میں اعتکاف کرنے کے بجائے کسی مسلمان کی حاجت کو پورا کرنے کے لیے اس کے ساتھ جاؤں۔‘‘
مجاہد بھائی اپنی صفوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دیں۔ بدکار، بدنام، عیاش، دنیا پرست، بداخلاق اور عوام کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے افراد کو اپنی صف میں جگہ مت دیں، تاکہ عوام کو ایذا سے بچایا جا سکے۔ مجاہدین کو چاہیے علمائے کرام، مذہبی پیشواؤں، قومی عمائدین اور دین دار اہل اللہ حضرات کے ساتھ تعلقات استوار کیے جائیں۔ ان سے مشورے لیں۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ عام مجاہدین کو فوجی اور عسکری ٹریننگ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے اچھابرتاؤ کرنے، شہری نقصانات کا سدباب کرنے، انصاف کا تحفظ کرنے اور سنجیدہ چال چلن کی بھی تربیت دی جائے۔ وقتافوقتا ان کے حقوق اور حیثیت کی تحفظ کے حوالے سے لازمی ہدایات دی جائیں۔ جو افراد کابل کرپٹ انتظامیہ سے دست بردار ہو جائیں یا قیدی بن جائیں، مجاہدین اُن کے ساتھ بہترین سلوک کیا کریں۔
مجاہد بھائیوں کو میری ہدایت یہ ہے کہ جہادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ دین کی دعوت کے ذریعے دشمن کی صفوف سے وابستہ افراد کو مجاہدین کے ساتھ مل جانے کے سلسلے میں بھرپور توجہ دیں۔ اس راہ میں عام مجاہدین، دعوت و ارشاد کے ذمہ داران، ثقافتی اور میڈیا کے شعبے سے وابستہ کارکن، اہل علم و قلم اور اہل زبان افراد کو چاہیے کہ کابل انتظامیہ کے ساتھ کے سائے میں زندگی برباد کرنے والے افرد کی شکوک و شبہات دور کر کے مجاہدین کا ساتھ دینے کے لیے دعوت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مجاہدین اور نئی نسل کی تربیت کے ساتھ ساتھ دشمن کی صف میں موجود افراد کے لیے ایسے پیغامات نشر کیے جائیں، جن سے وہ جہادی صف کی سچائی اور کامیابی کو سمجھ پائیں۔ اپنی اسلامی اور غیرت پر مبنی تاریخ سے واقف ہو جائیں۔ غلامی اور محکومیت کے نقصانات سے آگاہ ہو جائیں۔ استعماری لشکر میں ان کی موجودگی کو ایک نقصان دِہ اور مہلک عمل کے طور پر باور کرایا جائے۔
دنیا کے گوشے گوشے میں وہ مخیر حضرات، جو امارت اسلامیہ سے تعاون کر رہے ہیں اور اس جہادی صف کے ساتھ محبت رکھتے ہیں، وہ علمائے کرام اور قلم کار حضرات، جو ہمارے مدعا کی تائید اور حمایت کرتے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ اپنے نیک اور ہمدردی پر مبنی مشوروں سے تعاون کیا، خاص کر گزشتہ وقت میں مرحوم امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات اور امیرالمؤمنین ملااختر محمد منصور رحمہ اللہ کی شہادت کے سانحے کے دوران ہمارے غم میں شریک ہوئے، ہم ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ مَیں اللہ تعالی سے دست بدعا ہوں کہ اُن کے اِس اخلاص کے بدلے اُنہیں اجرعظیم عطا فرمائے۔ آمین
عیدالاضحی کی مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر بیرونی استعمار کے فوجی اور سویلین شعبوں میں مصروف عمل افغانوں کو کہتا ہوں کہ کم از کم ایک لمحے کے لیے اپنے کردار پر نظرثانی کریں۔ اُنہیں سمجھنا چاہیے کہ افغانستان پر امریکا اور اُس کے اتحادیوں کا حملہ امت مسلمہ کے خلاف کافروں کی عالمی جنگ کا ایک حصہ ہے، جس کا ہدف حقیقی اسلامی نظام کا خاتمہ ہے۔ اس کی جگہ اپنے تربیت یافتہ غلاموں کو برسراقتدار لانا ہے۔ اسلامی سرزمین میں مغرب کے اسلام سے متضاد قوانین، افکار ، نظریات اور رسومات کی ترویج کرنا ہے۔ جارحیت پسندوں کے ساتھ کاندھا ملا کر کھڑے افغانوں کو اپنے اس خطرناک عمل کے بارےمیں گہرا غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنگجو کافروں کے ساتھ تعاون کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی کھلی مخالفت ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْيُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( النور)
’’جو لوگ اُس (اللہ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کو ڈرنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ اُن پر کوئی آفت آ پڑے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو جائے۔‘‘
اسلامی ممالک اور دنیا کی حریت پسند اقوام کو میرا پیغام ہے کہ ہماری جدوجہد کوئی غیرشرعی جنگ یا ناجائز مفادات پر مبنی بغاوت ہے اور نہ ہی شرعی فتوی کے بغیر محض جذبات کا اظہار ہے، بلکہ افغانستان پر حملہ ہوا ہے اور افغان عوام کے دین، فکر اور حریت پسند مزاج کے خلاف ایک اسلام مخالف نظام کو چند کٹھ پتلیوں کے ذریعے سے ٹینک، توپ اور طیاروں کے بل بوتے پر افغانستان پر مسلط کیا گیاہے۔ اسلامی نظام اور افغانستان کی آزادی ہمارا مذہبی اور انسانی حق و فریضہ ہے۔ اسلامی ممالک اور دنیا کی آزاد اقوام کو چاہیے کہ اپنے انسانی و دینی فریضے کی بنیاد پر ہمارے اس برحق مدعا کی حمایت کریں۔ اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے افغانستان کے مظلوم عوام کی حمایت کی طرف توجہ دیں۔
امارت اسلامیہ افغان مسئلے کے حل کے لیے فوجی پالیسی کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد بھی کر رہی ہے۔ اس بارے میں دنیا اور دیگر تحریکوں کے ساتھ تعلقات کی خاطر سیاسی دفتر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ہم دنیا کے ساتھ روابط چاہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں ان کی تشویش اور سوالات ختم ہو جائیں، تاکہ مستقبل میں افغانستان کو کسی کی طرف سے اور کسی کو افغانستان کی طرف سے نقصان نہ پہنچے۔
دنیا کے بیشتر حصوں میں مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ہو رہے ہیں۔ خاص کر شام میں مختلف ناموں سے عام مسلمانوں پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ عوام کے گھر، مساجد، صحت اور تعلیمی مراکز ملیامیٹ کر دیے گئے ہیں۔ ہم ہر طرح کے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں باضمیر افراد سے کہتے ہیں کہ ہر قسم کے مظالم کی روک تھام کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔ آج کمزور اقوام پر جو ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے، اگر ان کا سدباب نہ کیا گیا تو یاد رہنا چاہیے کہ اِن نقصان کی آگ سب کو جلا دے گی۔ کیوں کہ ایک جانب ظالم اپنے مظالم اور طاقت کے استعمال کو جاری رکھے گا اور دوسری طرف مظلوم اپنی مظلومیت کے خاتمے کے لیے انتقام کے ہر طریقے کو عملی جامہ پہنائے گا۔ یقینا اس سے دنیا کا امن و امان مزید بگڑ جائے گا۔
آخر میں تمام دولت مند اور مخیر بہن بھائیوں سے اپیل ہے کہ عید کے ان مبارک ایام میں شہداء کے خاندانوں، قیدیوں اوران کے خاندانوں، معذور، یتیم اور جہاد کی راہ کے حقیقی محافظوں کے گھرانوں اور اُن کی اولادوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک فرمائیں۔ حسب توفیق ان کے ساتھ تعاون کریں۔
اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔ والسلام
عالی قدر امیرالمؤمنین شیخ الحدیث ہبۃ اللہ اخندزادہ حفظہ اللہ
زعیم امارت اسلامیہ افغانستان
7/ذوالحجہ الحرام 1437 ھ بمطابق 9 سپتمبر / 2016ء