JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا آپ کے نزدیک شہرحلب اور ریف حلب (حلب کے گردونواح کے علاقہ)
میں چوری کی حد کا نفاذ درست ہے؟

شیخ ابو بصیر الطرطوسی


سوال:
ہمارے محترم شیخ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، ہم حلب اور ریف حلب (حلب کے گردونواح کے علاقے)میں محکمہ شریعہ رکھتے ہیں ، ہم آپ سے یہ سوال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں کہ فالوقت ان ایام میں چوری کی حد کی تطبیق کرنا (حلب میں) آپ کی نظر میں کیسا ہے؟ اگراس چوری کی حد کا نفاذ کیا جائے تو اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟


جواب:
الحمدللہ رب العالمین، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، وبعد،

ہم حلب اور اس کے گردونواح (ریف حلب کے علاقے)میں رہنے والوں کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے چوری کی حد کی تطبیق کو (اس وقت) درست نہیں جانتے ہیں اور اس کی دو وجوہات ہیں:

ا)اس کی پہلی وجہ اِس کا ’دارالحرب‘ ہونا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’دارالحرب‘ میں اقامتِ حدود سے منع فرمایا ہے۔
۲)عمومی طور پر اہل شام پر غربت اور قحط سالی کی آفت کا شبہ ہونا اور حدود کے نفاذ کو شبہات کی بنیاد پر روک دیا جاتا ہے۔

تاہم اگر چوری کرنے والا پیشہ ور مجرم ہے اور مالدار بھی ہے، اور اس چرانے کے عمل کے ساتھ ساتھ اس نے خود کو صفتِ محاربہ(راہزنی) کے عمل پر بھی جمع کیا ہوا ہے اور راستے بھی منقطع کرنےکا سبب بن رہا ہے، اور لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا بھی ہے، تواس قسم کی مثل کے افرادکے لیے جی ہاں! میں ان کے اوپر چوری کی حد کی تطبیق کو درست سمجھتا ہوں،اور اِس کے ساتھ ساتھ اِن پر دوسری سزائیں اور حدود کے نفاذکو بھی جمع کیا جا سکتا ہے جس کے وہ مستحق ہوں، جیسا کہ آیتِ حرابہ میں مذکور ہے۔

واللہ اعلم۔

آیتِ حرابہ:
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔‘‘
(المائدہ: ۳۳)

عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
15.01.2015

مصدر:
http://www.altartosi.net/forum/upload/showthread.php?694