JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت ’’الدولۃ‘‘ اوراس سے متعلق شرعی حکم
flag_of_the_al-nusra_front_svg_small.png
جبھۃ النصرہ، ولایت درعا


الحمدللہ رب العالمین والصلاۃوالسلام علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین و بعد:

ایسے وقت میں جب اہل شام، شام کے اندر نصیری طاغوت کو گرانے کی سعی کر رہے، جو کئی دہائیوں سے یہاں فساد پھیلانے میں مصروف رہا، ایسے وقت میں مسلمانوں کی امیدیں دوبارہ جاگ اٹھیں، جب ارضِ شام میں اسلامی مجاہد قوت کا ظہور ہوا ، جو امت کو اس کی عزت اور کرامت کو واپس دلا نے میں مصروف ہو گئی ،اور اس سائے تلے جب مجاہدین مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہے تھے، ان ساحاتِ جہاد میں ایک نئی تنظیم کا ظہور ہوا، اور وہ ہے (جماعت الدولۃ)، اور اُس دن سے مسلمان تنزلی کی طرف جا رہے ہیں اور مجاہدین میں تفریق پیدا ہونی شروع ہوئی ہے، الا اس پر جس پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرما دیا۔ دوسری طرف نصیری نظام پیش قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا ہے، تمام مسلمانوں پربیانات اور ان کے اعمال کی وجہ سے حقیقت واضح ہوئی، جن کا علماء،قیادت عامہ اور عوام الناس نے مکمل رد کیا۔

بہت سے لوگوں نے اس جماعت کے حکم سے متعلق استفسار کیا، اور ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کی وضاحت کریں گے اور اس کے لیے راسخین علمائے متقدمین اور متاخرین کے اقوال کے ذریعے اس کی وضاحت کریں گے۔ اس بات پر تنبیہ ضروری ہے کہ کسی بھی فرد یا جماعت سے متعلق حکم بیان کرتے ہوئےضروری ہے کہ وہ حجت اور دلائل کی بنیاد پر قائم ہو، اور ہوائے نفس اور تعصب کا اس سے دور کا بھی تعلق نہ ہو، پس ہم اس بارے میں یہ کہتے ہیں، اور تمام قسم کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے:

اس جماعت(الدولۃ) کے اصول اور خصائل کا اطلاق کلی طور پر غالی خوارج کے اصول اور خصائل سے کیا جا سکتا ہے، خوارج کے فرقہ کا شمار اولین گمراہ فرقوں میں ہوتا ہے، جو اسلام میں ظاہر ہوا اور جس کی شناخت غلو اور شدت پسندی بنی،ا ور اس وقت سے اُن کا خروج ہوتا رہا ہے، بلکہ اِن کا خروج دجال کے دور تک ہوتا رہے گا جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے، اور انہوں نے جدید وقدیم جہادی ساحات کو فتنہ زدہ کیا ہے، اوریہ بات معلوم ہے کہ یہ خوارج کے اصول اور خصائل ہیں جن کو معتبر اہل علم نے واضح کیا ہے۔

ان کو یہ نام(خوارج) اس وجہ سے دیا گیا کیونکہ انہوں نے سنت سے بدعت کی راہ اپنائی، جماعت المسلمین کے خلاف خروج کیا، اور دین سے نکل گئے، اور ان کے کچھ نمایاں خصائل یہ ہیں:

(۱) امامت اور بیعت کے مسئلہ میں غلو:
خوارج اپنے امیر کی بیعت کو واجب جانتے ہیں اور اُسے امامِ اعظم کے طور پر تعبیر کرتے ہیں، اور اُن سب کے خون کا بہانا جائز سمجھتے ہیں جو ان کے امیر کی بیعت نہیں دیتا، اس حجت کے ساتھ کہ اس نے کفر کیا یا بغاوت اختیار کر لی ہے:

شھرستانی کہتے ہیں:
[جس کو یہ (خوارج) اپنی رائے کے ذریعے انتخاب کرتے ہیں، اور جو لوگوں کے درمیان وہ عدل قائم کرتا ہے جس کو یہ (خوارج)عدل سمجھتے ہیں، اور اُس چیز سے روکتا ہےجسے یہ (خوارج) ظلم سمجھتے ہیں، وہ ان کا امام بن جاتا ہے، اور جو کوئی بھی اس امام کے خلاف خروج کرتا ہے، تو اُس کے خلاف قتال کرنا واجب ہوجاتا ہے]

ان کی یہ صفت روافض سے مشابہت رکھتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امامت دین کا ایک رکن ہے، اسی لیے وہ امامت کو واجب قرار دیتے ہیں چاہے وہ تمکین یا مسلمانوں کے مشورے کے بغیر ہی کیوں نہ ہو۔

اور اس صفت کی تطبیق جماعت الدولۃ پر بھی ہوتی ہے کیونکہ ان کا نام امامت کے معاملہ میں غلو کی طرف نشاندہی کرتا ہے جس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صرف ان کی جماعت میں ہی شامل ہوا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنی اس دولت(ریاست) کا اعلان کیا جبکہ اس وقت یہ فقط ایک وہمی، الیکٹرونک دولت تھی اور ان کا امیر اُس وقت اَن دیکھا، ضعف میں اور چھپا ہوا تھا، اور انہوں نے اس کی بیعت کرنے کو دورِ حاضر کا واجب جانا اور ان سب کے خون کو بہانا حلال جانا جو اُس کی بیعت نہ کرے، اور کہا کہ ایسے افراد کو دماغ میں گولیوں مار کرسر کو کھول دیا جائے، جیسا کہ ان کے ترجمان نے بیان میں کہا، اور انہوں نے اپنی دولت کو ’باقیہ‘(باقی رہنے والی) سے متصف کیا جبکہ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، بلکہ اس جملے (باقیہ) کو اپنے شعار کے طور پر لیا ہے، اور اِن کی طرف کسی بھی شخص کی فقط بیعت کر لینے سے اس کے باقی سابقہ گناہوں کی تلافی ہو جاتی ہے، چاہیے وہ کوئی شبیحہ(کٹر نصیری فوجی) ہو، کوئی مجرم ہو یا کوئی نشہ آور آدمی ہی کیوں نہ ہو، انہی وجوہات کی بنیاد پر ان کے کثیر امراء بعثی ، راہزن، مجرم یا خفیہ کارندے ہیں جن کو پناہ اورجائے امن ان کے گروہ میں ہی ملا ہے، پھر اس کے بعد ان کا معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے جس سے یہ خلافت کا اعلان تمام مسلمانوں پر کرتے ہیں اور جو خلافت دنیا میں جاری باقی تمام جماعتوں کے جہاد کو باطل قرار دے دیتا ہے۔

(۲) علمائے امت اور قیادتِ امت کے اوپر طعن و تشنیع کرنا:
ان خوارج کے جدِ امجد ذوالخویصرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کیا اور انہیں ناانصافی اور ظلم سے متصف کیا، اور یہی اِن کا طریقہ سابقہ بھی تھا اور حالیہ بھی یہی ہے، انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور باقی صحابہؓ کی تکفیر کی، اور آج یہ علمائے امت اور ائمہ جہاد کی قیادت اور ان کے موقف پر طعن و تشنیع کر رہے ہیں، جیسا کہ شیخ الظواہری پر ان کے بےوقوف شام کے زوابری (جماعت المقاتلہ الجزار کے خوارج کے امیر کا نام)کے بیان سے واضح ہے، اور اسی طرح انہوں نے کثیر مشائخ پر طعن کیا جیسا کہ شیخ ابو محمد المقدسی، شیخ ابوقتادۃ فلسطینی، شیخ ھانی السباعی اور دیگر اہل علم کے خلاف بھی یہی کام کیا، حتی کہ لوگوں کے سامنے کوئی قیادت نہ بچی سوائے ان کے اپنے جہلاء اور کم عمر بےوقوفوں کے، اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ علماء اور اہل فضل پر طعن کرنا یہ روافض کا منہج ہے جس کے ذریعے وہ امت کا سقوط کرتے ہیں؛ امت کے پاس اپنے علماء کے بعد باقی ہی کیا بچتا ہے؟ پھر ہمارے لیے یہ کیسے ممکن ہو پائے گا کہ ہم اپنے دین کو وضاحت کے ساتھ ان علم اٹھانے والوں کےبغیر سمجھ سکیں جنہوں نے غالیوں کی تحریف کو واضح کیا،شریعت کا انکار کرنے والوں کا رد کیا اور جہلاء کی تاویلات کا جواب دیا؟

(۳) تکفیر میں غلو:
تکفیر(کسی کلمہ گو کو کافر قرار دینا) ایک خطرناک شرعی حکم ہے، جو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتا ہے، اس لیے تکفیر معین کرنا تب تک جائز نہیں جب تک کہ ان لوگوں کی طرف سے جو اس تکفیر کے معاملہ میں قابلیت و مہارت رکھتے ہیں، وہ تکفیر کی شروط اور موانع کی تحقیق نہ کر لیں۔ ایک ہزار کافروں کو چھوڑ دینے کی غلطی اس خطا کی نسبت بہت ہلکی ہے جو ایک مسلمان(جس کا خون حرام ہے) کے خون بہانے میں واقع ہو جائے۔ خوارج تکفیر کے معاملہ میں بہت شدت پسند تھے یہاں تکہ وہ اسی صفت کی وجہ سے مشہور بھی ہو گئے کہ انہوں نے سیدنا علیؓ اور صحابہؓ کی پہلے تکفیر کی، پھر اس کے بعد امت کی تکفیر کی، سوائے ان لوگوں کے جو اُن کی جماعت میں شامل ہو گئے، ان کا یہ غلو فقط کبیرہ گناہ کے مرتکب تک ہی محیط نہ تھا بلکہ ان کا مذہب اِس سے بھی آگے بڑھا، اور وہ ایسے امور کچھ خاص معین صورتوں کے ذریعے اعتقاد کے طور پرلائے، اور پھر ان اعتقادات کو ایمان کی اصل بنا دیا، اور جس کسی نے ان کی ان معاملات میں مخالفت کی اسے کافر مرتد قرار جانا۔

ابن تیمیہؒ بیان کرتے ہیں:
[خوارج وہ پہلا فرقہ ہے جس نے مسلمانوں کی تکفیر ان کے گناہوں کی وجہ سے کی، اور جس کسی نے ان کی بدعت کی مخالفت کی ان کو بھی کافر جانا اور ان کے خون (کو بہانا) اور مال(کو لوٹنا) حلال قرار دیا، اور یہی حال اہل بدعت کا ہوتا ہے، وہ بدعت کی ابتداء کرتے ہیں، اور جو کوئی اس بدعت کی مخالفت کرے اس کی تکفیر کرتے ہیں]

انہیں وجوہات کی بنا پر وہ ظن ،تنائج اور احتمالات کی بنیاد پر تکفیر کرتے ہیں، جس میں وہ چستی اور جرأت دکھاتے ہیں ، جس میں نہ ہی معاملہ ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسا کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر مسئلہ تحکیم کی وجہ سے کی تھی، اور اسی طرح جماعت الدولۃ کی جانب سے بہت صراحت سے تکفیر میں غلو کو نشر ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے، انہوں نے عمومی طور پر جماعتوں کی تکفیر کی ہے، جس میں جبھۃ النصرہ بھی شامل ہے، اور انہیں صحوات(مرتدین) کے نام سے متصف کیا ہے، جس میں بیان کی گئی حجت مکڑی کے جالے کے گھر سے بھی زیادہ کمزور ہیں، اور یہ شیخ الظواہری کی تکفیر تک اس حجت کے ساتھ کر گئے ہیں کہ انہوں نے منہج سےانحراف اختیار کر لیا ہے، انہوں نے ایمان کے ساتھ بہت ہی عجیب شروط کو لگا دیا ہے۔

انہوں نے مشرکین کی اعانت کرنے اور ان کے ساتھ جائز معاملات کرنے کے معاملہ کو خلط ملط کیا، حتی کہ ان کے نزدیک تکفیر کرنے کا معاملہ پانی بہانے سے بھی آسان ہو گیا، انہوں نے شام کے مشرقی علاقہ میں جملۂ امور میں مسلمانوں کی تکفیر کی اور انہوں نے یہ اعتقاد رکھاکہ ان اہل علاقہ کی اصل کفر ہے اور انہوں نے وہاں اوراق نشر کیے جس کو انہوں نے ’توبہ کی دعوت‘ کا نام دیا، جو لوگوں پر لازم کرتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر اس بات کی شہادت دیں کہ وہ کفر اور ارتداد پر تھے، واللہ المستعان۔

(۴) جماعت المسلمین کے خلاف خروج کرنا اور انکے جان و مال کو جائز قرار دینا:
تکفیر میں غلو کا حتمی نتیجہ جماعت المسلمین کے خلاف خروج اور ان کے جان و مال کو جائز قرار دینے کی طرف لے جاتا ہے،جب بھی کوئی قوم بدعت کی ابتداء کرتی ہے تو ضرور ساتھ تلوار اٹھانے کو بھی جائز قرار دیتی ہے، اور تاریخ میں کوئی بھی ایسی تلوار نہیں ہے جو امت پر خوارج کی تلواروں سے زیادہ میان سے باہر آئی ہو، انہوں نے دو خلفائے راشد سیدنا عثمان ؓو علیؓ کو قتل کیا اور بہت سے امت کے محترم لوگوں کا خون بھی بہایا۔

امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:
[کوئی بھی گروہ خوارج کی تلواروں سے زیادہ(قتال و فساد میں) بڑا ہونے میں معرفت نہیں رکھتا]

اور ادھر یہی جماعت الدولۃ ہے جو اہل شام کو تباہ کر رہی ہے بلکہ مجاہدین میں بہترین لوگوں کو قتل کرتی ہے، ان کے اموال، اسلحہ اور مراکز پر قبضہ جماتی ہے اور مجاہدین کے گھروں کو دھماکوں سے اڑاتی ہے۔ نصیری نظام کے اندر بھی وہ استطاعت نہ تھی کہ وہ ان مجاہدین کو قتل کرتے، جن کو جماعت الدولۃ نے قتل کیا، بلکہ یہ تو مردہ لاشوں کے مناظر پر فخر کرنے لگے اور خون پینے پر اترانے لگے، اور ہر کسی کو جو ان کی مخالفت کرے کو وحشت ناک ذبح کے طریقہ سے دھمکانے لگے، ولا حول ولاقوۃ الا باللہ۔

(۵) جہالت، قلتِ علم اورتفقہ کا نہ ہونا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (خوارج) کے بارے میں فرمایا:
[کم عمر،بےوقوف لوگ، یہ قرآن کو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا]

ان کی بدعت کی اصل ان کا قرآن و سنت سے لاعلم ہونا ہےبجز اس کے جو اس گروہ کی طرف سے جو ظاہر ہوتا ہے، اُس میں عبادت، نیکی اور دھوکہ دینے والے شعارات شامل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے ان پر جہالت غالب ہے، نہ ہی فقہ جانتے ہیں نہ ہی علم رکھتے ہیں اور نہ ہی علماء میں سے کوئی ان کو لے کر چل رہا ہے، بلکہ یہ بے وقوف غیر معروف افراد کا مجموعہ ہے، اور یہی حالت دولۃ کی آج ہے، یہی حالت ان کی شرعی عدالتوں کی ہے اور ان کے شرعی طلباء کی ہے، جہل مرکب ہیں، بےوقوف ہیں اور عجیب و غریب فتاوی دیتے ہیں۔ واللہ المستعان۔

(۶) غداری، خیانت اور جھوٹ:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو توڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ]

مصعب بن سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے اس آیت کریمہ کے معانی سے متعلق استفسار کیا، تو آپ نے جواب دیا: ان سے مراد حروریہ ہیں ؛ یعنی خوارج۔

جو کچھ بھی جماعت الدولۃ سے متعلق معروف ہوا ہے اس میں غداری، عہد شکنی اور میثاق کو توڑنا اور امانت میں خیانت کرناہے۔ اور کتنے ہی ایسے معاہدے ہیں جو انہوں نے مجاہدین کے ساتھ کیے، سوائے اس کے کہ آخر میں اُن کو توڑ دیا گیا، چاہے وہ حلب میں ہوئے یا البادیہ میں یا الشرقیہ میں، اور ان کی یہ خصلت روافض سے مشابہت رکھتی ہے جو کہ غدر اور خیانت میں معروف ہیں۔

(۷) بڑائی، غلاظت اور سوئے اخلاق کا منبع ہونا:
خوارج مسلمان پر اپنی شدت کی وجہ سے معروف ہیں کیونکہ وہ انہیں کفار مرتدین سمجھتے ہیں اور کفارِ اصلی کو اس حجت کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں کہ مرتدین سے قتال کو باقی جماعتوں سے قتال کی نسبت فوقیت حاصل ہے،جیسا کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہل شرک کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘، اور اب یہاں جماعت الدولۃ کے سپاہی بھی ارضِ شام میں فساد پھیلارہے ہیں اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں شدت اور سختی دکھاتے ہیں۔ اللہ کے بندے ان کے جرائم اور رکاوٹوں کے سبب اللہ تعالیٰ سے مدد کی فریاد کر رہے ہیں، اور یہ بہت جلدی اور آسانی سے اپنے مخالف سے برات کا اظہار کرتے ہیں،اور سوئے ظن بھی کثرت سے رکھتے ہیں، ایسے وقت میں نصیری اور روافض ان خوارج سے محفوظ ہیں؛ اے اللہ، سوائے ان امثال کے جو الدولۃ کا جھوٹا دھوکے باز میڈیا لوگوں کے سامنے ظاہر کرتا ہے۔

خوارج کا حکم:
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب خوارج کی بدعت ظاہر ہو جائے اور وہ مسلمانوں کی جماعت کے خلاف خروج کریں اور ان کی جان اور اموال کو حلال و جائز قرار دیں، تو خوارج کےخلاف قتال کے وجوب کی اجازت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

[مسلمان خوارج، روافض اور ان جیسے دیگر گروہوں کے خلاف قتال کے وجوب پر جمع ہیں، جبکہ وہ جماعتِ مسلمین سے نکل جائیں،جیسا کہ سیدنا علیؓ نے اُن (خوارج) کے خلاف قتال کیا تھا، اور عمر بن عبدالعزیزؓ سے روایت ہے: انہوں نے خوارج کے متعلق حکم دیا کہ ان کے خلاف قتال سے باز رہا جائے جب تک کہ وہ ناحق خون نہ بہائیں یا ناحق مال کو نہ لوٹیں، پس اگر وہ ایسا کریں، تو اِن (خوارج) سے قتال کیا جائے،اگرچہ وہ میرا بیٹا ہی کیوں نہ ہو]

جماعت الدولۃ کے خلاف قتال کے وجوب میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہ تمام کام کیے ہیں، اس بات کی حقیقت کو بھی ساتھ رکھتے ہوئے کہ یہی وہ حملہ آور معتدی ہیں جنہوں نے مجاہدین کے مراکز اور ان کے رباط کے علاقوں پر بھی مستقل حملے کیے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے حملے کے خلاف اپنا دفاع کیا جائے اور ان کے حملے کو پسپا کیا جائے۔ اس معاملہ میں بڑھ کر بات یہ ہے کہ،انہوں نے شریعت کی حاکمیت کا انکار کیا ہے، چاہے وہ غیر جانبدار شرعی عدالت کے ذریعے ہو یا مشترکہ شرعی عدالت کے قیام کے ذریعے ممکن ہو، جو کہ شام اور جہادِ شام کو ایک بہت بڑے فساد کی صورت میں ان کی طرف سے ملا ہے، نصیریوں اور روافض کا ظلم اہل سنت پر کم نہ تھا کہ انہوں نے بھی اُس ظلم پر ظلم کا اضافہ کر دیا، واللہ المستعان۔

ابن حجر ابن ھبیرہ سے روایت کرتے ہیں:
بلاشبہ خوارج کے خلاف قتال مشرکین کے خلاف قتال پر فوقیت رکھتا ہے، اور اس میں حکمت یہ ہے کہ خوارج کے خلاف قتال سے اسلام کے بیت المال کی حفاظت ہو پاتی ہے، جبکہ مشرکین کے خلاف قتال کے ذریعے فائدے کو حاصل کیا جاتا ہے،اور اِس وجہ سے بیت المال کی حفاظت کو فوقیت حاصل ہے؛ ( پس اس کے لیے بشارت ہے جو اِن(خوارج) کو قتل کرے یا اِن خوارج کے ہاتھوں قتل ہو)، جیسا کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ارشاد ہوا ہے۔

معاصر اہل علم کا جماعت الدولۃ سے متعلق اقوال:

شیخ ڈاکٹر ایمن الظواہری:
اِن سے اور اِن کی جماعت سے برات کا اظہار کیا اور انہیں ابن ملجم (خارجی) کے جانشین قرار دیا، اور ان سے اختلاف کو منہج اور عقیدے کا اختلاف قرار دیا، نہ کہ اسے کوئی سیاسی اختلاف جانا۔

شیخ ابو قتادۃ فلسطینی:
مجھ پر یہ بات یقینی طور پر واضح ہو چکی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے، کہ یہ گروہ (الدولۃ) اپنی عسکری قیادت اور شرعی لوگوں سمیت، جو کہ ان کے افعال پر فتوی دیتے ہیں، وہ جہنم کے کتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے اندر یہ داخل ہونے کے حقدار ٹھہرتے ہیں:
[یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے، اور اہل شرک کو چھوڑ دیں گے، اگر مجھے اِن کا ادراک ہو جائے، تو میں انہیں قومِ عاد کی طرح قتل کروں گا]

شیخ ابو محمد المقدسی:
تنظیم الدولۃ برائے عراق و شام، ایک ایسی تنظیم ہے جو حق کے رستے سے منحرف ہو گئی ہے، جومجاہدین کے خلاف بغاوت کرتی ہے، غلو کی طرف گئی ہے، اورانہوں نے معصوم خون بہانے کے کام میں حصہ ڈالا ہے، اور یہ ان اموال، اموالِ غنیمت اور علاقوں پر قبضہ گیری کر رہی ہے جو مجاہدین نے نصیری نظام سے چھڑائے ہیں، اور یہ جہاد کو مسخ کرنے کا سبب بنے ہیں، اور مجاہدین کی صفوں میں تفریق ڈالی ہے، اور اپنے اسلحے کا رخ مرتدین اور محاربین کی بجائے مجاہدین اور مسلمانوں کے سینوں کی جانب کر دیا ہے۔

اور انہوں نے اس جماعت کے بارے میں یہ بھی کہا کہ:
یہ ایسا گروہ ہے جس کا غالب حصہ غالی منہج پر ہے، اور ایسا منہج رکھتے ہیں جس سے دوسروں کو دور کرتے ہیں اور جو ان کی مخالفت کریں اُن کو قتل کرتے ہیں، اور علمائے امت اور کبارِ امت پر اعتبار نہیں کرتے، یہ تحکیمِ شریعت کی بات امت پر کرتے ہیں، لیکن یہ خود پر شرعی محاکمے (جانبدار یا مشترکہ) کا انکار کر تے ہیں، اُن اختلافات میں بھی جو اموال اور خون بہا اور دیگر معاملات سے متعلق اِن سے سرزد ہوا ہے۔

شیخ ھانی السباعی اورشیخ طارق عبدالحلیم:
اِن(الدولۃ) کو خوارج ، مارقہ،حروریہ،قرامطہ،باطنیہ گروہوں سے متصف کیا۔

اختتاماً:
ہم تمام مسلمانوں اور مجاہدین کو اِن(الدولۃ) سے متعلق تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اس جماعت کے دھوکہ میں نہ آئیں اور ان کے اندر شمولیت اختیار کرنے سے گریز کریں کیونکہ پھروہ بھی ظالموں کی معاونت کرنے والوں میں سے بن جائیں گے، اور اس سے مسلمانوں کا ناحق خون بہے گا اور اُن کی تکفیر کا سبب بنے گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے تمام امر پر غالب ہیں لیکن اکثر لوگ شعور نہیں رکھتے۔

(۱) زوابری:
انتار الزوابری جماعتِ اسلامیہ المقاتلہ الجزائر کا امیر تھا، جس کو اپنے شدت پسند تکفیری نظریات اور مسلمانوں کے قتل کرنے کی وجہ سے خوارج کے فرقے کے ساتھ متصف کیا گیا تھا۔

(۲) مارقہ:
خوارج کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو مستعمل ہے، جس کا مطلب وہ جو( دین سے) نکل گئے، جو کہ خوارج سے متعلق حدیث سے اخذ کیا گیا ہے، (وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے ایک تیر کمان سے نکل جاتا ہے)

(۳)حروریہ:
خوارج کے حوالے سے ہی ایک دوسرا نام ہے۔

(۴)قرامطہ:
عباسی خلافت کے دورِ حکومت میں خروج کرنے والے خوارج کے گروہ کا نام ہے۔

متن(عربی):
https://ia902602.us.archive.org/25/items/byanaat/42.pdf

ترجمہ (انگریزی):
http://justpaste.it/RegardingDawlah