JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم

jn-basira-jpi_small.png



البصیرۃ میڈیا برائے نشرواشاعت
گواہیوں کی سلسلہ(۲)
شیخ ابو فراس السوری
- حفظہ اللہ -

testimony-template-2-cover-final_small.j

[ویڈیو کا آغاز ہوتا ہے]

قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِين
[آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں] (۱۲:۱۰۸)

اہم نکات جو شیخ نے اپنی اس گواہی میں بیان کیے درجہ ذیل ہیں:

• جماعت الدولۃ کی طرف سے شیخ خالد السوری کو قتل کی دھمکی دینے پر گواہ ہونا
• جماعت الدولۃ کا لوگوں کی تکفیر ایسے اعمال کی بنیاد پر کرنا جو گناہ نہیں ہیں ، بلکہ نیک اعمال ہیں، اور اِس پر گواہ ہونا

[شیخ ابو فراس السوری کی مختصر سوانح حیات]

شیخ ابو فراس السوری (شامی) ۱۳۶۹ ھ (۱۹۴۹ء) میں دمشق کے مضافاتی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ملٹری یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی اور وہاں سے سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر سند حاصل کی۔ اُن کو اسلامی نظریات کی بنیاد پر اُن کےعسکری منصب سے ۱۹۷۹ءمیں ہٹا دیا گیا، جس کی وجہ توپ خانہ سکول میں پیش آنے والے حادثات تھے۔

افغانستان میں قیام کے دوران، شیخ ابو فراس نے ۱۹۸۳ ء میں شیخ عبداللہ عزام ؒ اور شیخ اسامہ بن لادنؒ سے ملاقات کی، جہاں پر آپ مجاہدین کی تربیت اُن مخصوص تربیتی مراکز میں کرواتے رہے جو انڈیا، انڈونیشیا، برما اور ایران میں عملیات کرنےکے لیے قائم کیے گئے تھے۔

وہ شیخ اسامہ بن لادنؒ کی طرف سے پاکستان میں جہاد کی دعوت دینے کے لیے نمائندہ تھے، اور اُنہوں نے پاکستان میں امرائے جہاد کے وفد سے ملاقات کی، جن میں سمیع الحق شامل ہیں، جو حقانی مدرسہ کے مہتمم اعلیٰ تھے، جہاں سے بہت سےافغانی اور طالبان علماء نے سندِ فراغت حاصل کی۔

انہوں نے جماعت اہلحدیث کوایک جہادی جماعت کا قیام عمل میں لانے پر قائل کرنے کے لیے بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا، اور اُن کی بعض قیادت سے ملاقات کی۔ علاوہ ازیں، بعض اُن کے کردار کی وجہ سے راغب ہوئے اور ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں لائے، جماعت الدعوۃ اورعسکری جماعت لشکرِ طیبہ، جس کو شیخ ابو فراس نے تربیت دی جبکہ اُس کی مالی معاونت شیخ اسامہؒ کی طرف سے آتی رہی اور جس کی قیادت زکی الرحمٰن کر رہےتھے۔

شیخ ابو ابراہیم عراقی اور شیخ ابو فراس نے حکمت یار کے لیے’ تندرفتار جوابی قوت‘کا لشکر تیار کیا۔ شیخ ابو فراس، شیخ ابو عبیدہ بنشیری اور شیخ ابو حفص مصری مل کر ’ماسدہ مجلس عسکری شوری ‘کا قیام عمل میں لائے۔ انہوں نے شیخ ابو مصعب زرقاویؒ سے بھی ملاقات کی اور ارضِ شام میں اپنی(جہادی) کاوشوں کے خطوط کو استوار کرنے کے حوالے سےاکٹھا کام کیا۔ امریکی مداخلت کےوقت، انہوں نے پاکستانی مجاہدین کےاہلِ خانہ کو محفوظ جگہوں پر منتقلی کےلیے بھی کام کیا۔

۲۰۰۳ء میں آپ یمن ہجرت کر گئے، اور وہاں پر ۲۰۱۳ء تک سکونت اختیار کی اور پھر شام کی طرف ہجرت کر گئے، جہاں جبھۃ النصرہ اور جماعت الدولۃ کا آپس میں تنازعہ شروع ہوا۔ انہوں نے شیخ ابو خالد السوریؒ کے ساتھ مل کر اِن تنازعات کو حل کرنے کے لیے بے تحاشا کوششیں صرف کیں، تاہم اُن کی یہ کاوشیں جماعت الدولۃ کی ہٹ دھرمی کے سبب ناکام ہو گئیں۔ وہ تنظیم القاعدۃ الجہاد کی شام میں شاخ جبھۃ النصرۃ میں شامل ہیں اور اُس کے رسمی ترجمان ہیں،اور اب تک تنظیم میں موجود ہیں۔

[گواہی کا آغاز ہوتا ہے]


بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سید المرسلین، نبینا محمد، وعلى آله وصحبه أجمعين، اما بعد

میں نے اس بات سے متعلق نہیں سوچا تھا کہ میں دولۃ کے متعلق گفتگو کروں گا اور جو اس نے امتِ مسلمہ پر جرائم کیےہیں، اس پر بات کروں گا، بلکہ یہ تعارض اسلام کے خلاف بھی کیا گیا ہے، لیکن عدنانی کے بیان کے بعد، جس میں اس نے ہمارے بھائی ابو عبداللہ شامی پر جھوٹ اور بہتان کی تہمت لگائی اور انہیں دعوتِ مباہلہ دیا، پس اِس کو دیکھتے ہوئے میں اس معاملہ پردو نکات سے متعلق بات کروں گا، اس میں پہلا نکتہ شیخ ابو خالدؒکا قضیہ ہے، اور دوسرا قضیہ اِن سے متعلق یہ بیان کروں گا کہ یہ نیک اعمال کی بنیاد پر تکفیر کرتے ہیں۔

جہاں تک شیخ ابو خالد السوریؒ کی تکفیر کرنے کا قضیہ ہے:

اسی جگہ پر، میری شیخ ابو خالد السوری(رحمہ اللہ) سے ملاقات اُن کی شہادت سے کچھ گھنٹےقبل ہوئی،
اور انہوں نے مجھ سے کہا:
انہوں(دولۃ) نے مجھے(شیخ ابو خالد السوری) کو اپنی ’سیاہ فہرست‘ میں ڈال دیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے اُن کو مسکرا کر دیکھا اور کہا:
’زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘ (آپ کی موت کا وقت معین ہے)
انہوں نے جواباً کہا:
’اور آپ بھی احتیاط کریں کیونکہ آپ بھی اُن کا ہدف ہیں‘
میں نے اس پر بہت زیادہ تبصرہ نہ کیا اور انہیں جواب دیا:
’ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے، ہماری زندگی کے معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔‘
لیکن اُن کو میری طرف سےیہ ٹھنڈا مزاج پسند نہ آیا، اور مجھ سے اصرار کیا کہ ہم اپنی احتیاط کریں اور کہا کہ ہم لوگ اِن(دولۃ) کا ہدف ہیں اور اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔

میں نے اُن سے کہا:
’ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور آپ اپنا خیال رکھیں‘

اور انہوں نے اس بات کی تائیدکرتے ہوئے کہا کہ:
’مجھ تک اُن (الدولہ) کی طرف سے بہت سی دھمکیاں پہنچیں ہیں۔ میں یہ بات کسی ظن کی بنیاد پر نہیں کر رہا، بلکہ اُن کی طرف سے مجھے کثیر تعداد میں دھمکیاں ملی ہیں اور انہوں نے مجھے اس معاملہ پر تنبیہ کی ہے‘

اس کے اگلے دن، صرف کچھ گھنٹوں بعد ہی، مجھے اُن کی شہادت کی خبر ملی، اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائیں۔

جہاں تک دوسرےنکتہ کا تعلق ہے، جس کا قضیہ یہ ہے کہ وہ نیک اعمال پر تکفیر کرتے ہیں:

پہلے دن سے جب سے یہ تنازعہ دوسری جماعتوں اور اِن (دولۃ)کے مابین شروع ہوا، شیخ ابو محمد جولانی اور ہماری طرف سے کوششیں شروع ہوئیں تاکہ سب کے ساتھ مل کر کسی مصالحت کی طرف جایا جائے اور ان تمام تنازعات کو حل کیا جائے، ہم جماعت الدولۃ کے پاس گئے تاکہ صلح کی جا سکے اور مسئلہ کو ختم کیا جا سکے،
اور میری پہلی ملاقات میں ابو علی انباری(عراقی) نے کہا:
’آپ لوگ کیا چاہتے ہو؟‘ ہم نے اُس سے کہا :
’ہمارے پاس تین نکات ہیں، جوکہ ایک حل کی شکل پیش کرتے ہیں۔
اول: فریقین آپس میں جنگ بندی کر لیں۔
دوم: قیدیوں کا تبادلہ کریں۔
سوم: غیر جانبدار شرعی عدالتوں کا قیام کیا جائے، جو کہ تمام تنازعات میں اپنا فیصلہ کرے۔‘

لیکن اس معاملہ کو (انباری نے) مسترد کر دیا۔

اور یہ معاملہ اُس لجنہ(کمیٹی) کے سامنے ہوا جس میں جبھۃ النصرہ کی جانب سے چار (4) بھائی شامل تھے، جس میں ابو حسن تفتنازی، بندۂ فقیر(شیخ ابو فراس السوری)،ابو ھمام الشامی اور ابو عبیدہ تونسی(جو مکتبِ عسکری میں مسوؤلِ شرعی ہیں) تھےاور اس میں بھائی ابو عبداللہ تھے جن کا تعلق ’الفاروق‘ سے تھا، بھائی منصور جن کا تعلق ’اجناد الاقصٰی‘ سے تھا اور شیخ عبداللہ محیسنی، یہ تمام افراد اس میں موجود تھے۔

پھر اِس(ابو علی انباری) نے ہم پر ملامت کی
کہ ہم کس طرح اُن(دولۃ) اور ’مرتدین‘ کے درمیان مصالحت کروا سکتے ہیں؟

ہم نے جواب دیا:
’ہم اُن کو مرتدین نہیں سمجھتے‘

اُس نے جواب دیا:
’اسی نکتہ پر ہمارا اور تمہار اختلاف ہے‘ (مطلب کہ اُن پر یہ حکم لگانا کہ آیا یہ مسلمان ہیں یا مرتدین) اور ہم سے اصرار کیا کہ ہمیں اِن (الدولۃ) اور’’مرتدین‘‘ کے درمیان مصالحت کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اس موضوع پر طویل بحث و مباحثہ کے بعد اُس نے کہا:
’مجھے چھوڑ دو تاکہ میں (اپنے بڑوں سے) مشاورت کر لوں‘

پھر وہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آیا اور کہا:
’ہم آپ کو اپنے فیصلے سے صبح آگاہ کریں گے‘

اگلے دن ہم صبح اُس کے پاس گئے، اور اُن کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ انہوں نے ابو سعد حضرمی کو قتل کر دیا ہے، جو کہ جبھۃ النصرہ کے رقہ (شام کا شہر) کے امیر تھے۔

ہم نے اس (ظلم کے) معاملہ کو جانے دیا اوراس کو بات چیت کا موضوع نہ بنایا، تاکہ ہم مصالحت کی طرف اپنی توجہ کو مرکوزکر سکیں، لیکن اس کے بعد اُس(ابو علی انباری) نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ جبھۃ النصرہ کے ارکان کے ساتھ اکیلے ملاقات کرنا چاہتا ہے، پس ہم ایک دوسرے کمرے میں گئے،

اور اُس نے کہا:
’تم نے کیا کیا؟ ‘

ہم نے کہا:
’ہم نے کیا کیاہے؟‘

اس نے کہا:
’تم نے کیا کیا؟ کیا تمہیں نہیں پتہ تم کیا کر رہے ہو؟‘

ہم نے کہا:
’ہم نے کیا کیا؟ آپ ہی ہمیں بتا دو!‘

اُس نے کہا:
’تم کس طرح اپنا جھنڈا ہمارے دار عزہ(علاقہ کا نام) کے مرکز پر لہرا سکتے ہو؟‘

ہم نے جواب دیا:
’ہم نے دار عزہ(علاقہ کا نام) میں اپنا جھنڈا اس لیے بلند کیا تاکہ تمہارے عناصر(سپاہیوں) کی حفاظت ہو سکے،کیونکہ جیش الحر نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اس مرکز پر حملہ کرے گی اور تمہارے سارے عناصر کوقتل کر دے گی یا قیدی بنا لے گی، لیکن جبھۃ النصرہ کے وہاں کے مسوؤلِ عسکری نے مداخلت کی اور جیش الحر کوایسا کرنے سے روکا، اور وہاں سے بھائیوں(جماعت الدولۃ کے سپاہیوں) کو لے گئے اور انہیں تمہاری طرف حفاظت کے ساتھ احترام و عزت سے بھیج دیا۔‘

اس نے کہا:
’ہمیں اِس کی کوئی حاجت نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر وہ تمام دولۃ کے سپاہی بھی ماردیں، ہمیں تمہاری مصالحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور تمہارا ہمارے مراکز پر جھنڈے لہرانا قابلِ قبول نہیں‘

ہم نےکہا:
’ایک جھنڈے کی خاطر تم لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دو گے؟ وہ تمہارے بھائی ہیں، ہم اُس جھنڈے کو نیچے اتار لیتے ہیں، تم اپنے لوگوں کو وہاں بھیج دو۔‘

پھر میں نے اُس سے کہا:
’یہ صورتحال حکمت کا تقاضا کرتی ہے‘

اس نے کہا:
’ہم اِس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے، ہم انہیں فنا کر دیں گے یا خود فنا ہو جائیں گے‘

میں نے کہا:
’یا شیخ، یہ صورتِ حال حکمت کا تقاضا کرتی ہے، میں تم سے سوال کرتا ہوں، کیا یہ چیز حکمت میں سے کہ آپ ابو سعد حضرمی جو الرقہ(شہر) کے جبھۃ النصرہ کے امیر ہیں کو قتل کرنے کا اعلان کریں؟‘

اس نے جواب دیا:
’ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں، یہ معاملہ ہمارے لیے اہمیت نہیں رکھتا‘

میں نے پھر کہا:
’اس معاملہ کو چھوڑو کہ یہ تمہارے لیے اہم ہے یا نہیں ہے۔ میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ کیا یہ چیز حکمت یا سیاستِ شریعہ میں سے ہے کہ آپ اس قتل کا اعلان کریں؟‘

اس نے جواب دیا:
’ہمارے لیے یہ معاملہ اہم نہیں ہے‘

پھر بھائی ابو عبیدہ تونسی نے اُس سے سوال کیا:
’تم نے اسے کیوں قتل کیا؟‘

اس(ابو علی انباری) نے جواب دیا:
’کیونکہ وہ مرتد ہے اور اُس نے اعتراف کیا کہ وہ مرتد ہے۔‘

ابو عبیدہ نے پھر سوال کیا:
’تم نے اسے کس چیز کی بنیاد پر مرتد قرار دیا؟‘

اس(ابو علی انباری) نے جواب دیا:
’وہ جیش الحر (FSA)سے بیعت لے رہا ہے۔‘

میں نے کہا:
’اے ابو علی! کیا جیش الحر (FSA) سے بیعت لینا ارتداد ہے؟ وہ لوگوں کو(دعوت کے ذریعے) بلا رہا، تاکہ وہ جہاد پر بیعت کریں، یہ تو نیک(قابلِ محمود) عمل ہے۔

اُس(انباری) نے جواب دیا:
’ہاں، وہ مرتد ہے کیونکہ اس نے جیش الحر (FSA)سے بیعت وصول کی ہیں۔‘

اِس تکفیر کی بنیاد نہ ہی گناہوں پر ہے اور نہ ہی کبائر گناہوں پر ہے، بلکہ اِس تکفیر کی بنیاد نیک اعمال پر ہےاور یہ بیان اس نے ابو عبیدہ تونسی، ابو الحسن تفتنازی اور میری موجودگی میں دیا۔

اور میں اپنی اِس شہادت پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں، اور میں اِس گواہی کو اللہ تبارک و تعالیٰ اور تمام مخلوقات کے سامنے دینے کے لیے تیار ہوں۔

جو بھی میں نے بھائی ابو خالد(رحمہ اللہ) اور بھائی ابو سعد الحضرمی(رحمہ اللہ) سے متعلق بیان کیا اور اس کی وضاحت کی کہ کیسے اُن(سعد الحضرمی) کو جیش الحر(FSA) سے بیعت لینے کی وجہ سے (دولۃ) نے قتل کیا، میں اس پر قسم اٹھاتا ہوں، اور اس بات پر زور دیتا ہوں، اور اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ انہوں نے یہ بات بیان کی، اور میں نے ابو خالدالسوریؒ اور ابو علی انباری کی طرف سے کہی گئی باتوں کو اپنے کانوں سے سنا اور یہ کسی کی جانب سے نقل نہیں کی جا رہیں، اور میں اس تمام (گواہی) پر اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں۔

وصلی اللہ وسلم علی سیدنا محمد و علی الہ و صحبہ اجمعین

[گواہی ختم ہوئی]


شیخ ابو عبداللہ شامی حفظہ اللہ کے بیان سے صوتی اقتباس جس میں وہ جماعت الدولۃ کی تکفیر کا تذکرہ کرتے ہیں:

[اولین خوارج کبائر گناہوں کی بنیاد پر تکفیر کرتے تھے، لیکن آج جماعت الدولۃ تکفیر کبائر گناہوں کے بغیر ہی کر رہی ہے، بلکہ ایسے اعمال پر جن کے ساتھ کوئی گناہ بھی منصوب نہیں ہے، بلکہ یہ تکفیر توجائز اعمال حتیٰ کہ نیک اعمال کی بنیاد پرکی جا رہی ہے۔]

اور ابو عبداللہ شامی حفظہ اللہ نے یہ بھی کہا:

[ان کی تکفیر کی ایک مثال جو یہ نیک اعمال کی بنیاد پر کرتے ہیں، وہ ان کی شیخ سعد الحضرمی (رحمہ اللہ)کی تکفیر ہے، کہ جب بغدادی کے نائب(ابو علی انباری) سے شیخ سعد الحضرمی(رحمہ اللہ) کے ارتداد کی وجہ سے متعلق سوال کیا گیا، تو جواب دیا گیا: ’’ کہ وہ جیش الحر(FSA) سے (جہاد پر) بیعت لے رہے تھے، تو کیا جیش الحر(FSA) سے بیعت لینا ارتداد ہے؟‘‘، تو کون سا ایسا غلو ہے جو اِس سے بڑھ کر ہو؟]


[ویڈیو اختتام پذیر ہوئی]

جہاد بصیرت پر!

ویڈیو لنک:
http://vimow.com/watch?v=6ExHdjGPF1c

انگریزی ترجمہ:
http://justpaste.it/firas3