JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم

jn-basira-jpi_small.png



[وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا]
[اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور بہت زیاده مضبوطی والا ہے]

جبھۃ النصرہ کی مجلسِ شوری اورمجلسِ شرعی عامۃ کے رکن
شیخ ابو عبداللہ الشامی
- حفظہ اللہ -

mubahila-sh-abdullah-if-they-have-done-c

الحمد لله ثم الحمدللہ، الحمدللہ حمداً کثیراً طیباًمبارکاً فیہ کما یحب ربنا ویرضی،
والصلاة والسلام على رسولنا و نبینا و قائدنا و اسوتنا و قدوتنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين،
اما بعد؛

یہ کچھ وقفات ہیں جو عدنانی کی آخری تقریر بعنوان [ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين] کے جواب میں بیان کیے جا رہے ہیں:

اول:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
للفقراء المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم يبتغون فضلا من الله ورضوانا وينصرون الله ورسوله أولئك هم الصادقون * والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم يحبون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورهم حاجة مما أوتوا ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون (الحشر : 8-9)
[(فیء کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں * اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے ]

یہ قرآن مجید میں مسلم معاشرے کے اندر مہاجرین اور انصارکی تصویر کشی کی گئی ہے، پس جو کوئی بھی اسلامی معاشرے میں اِس کے علاوہ کوئی تصویر کشی کرتا ہے، تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

أبدعوى الجاهلية وأنا بين أظهركم، دعوها فإنها منتنة
[کیا تم جاہلیت (کے ایام) کی دعوت دیتے ہو جبکہ میں تمہارے درمیان موجو ہوں؟ اسے چھوڑ دو، یہ بوسیدہ (غیر معتبر)ہے]

ساحاتِ شام میں اللہ کے فضل سے مہاجرین وانصار موجود ہیں، اور کوئی بھی منادی جو اس (قرآن کی آیت) کے برعکس ہو، وہ جاہلیت کی دعوت ہے۔ ہماری تم سے اللہ تعالیٰ کے لیے درخواست ہے کہ مہاجرین اور انصار کے مابین صف بندی کو خراب مت کرو!

جبھۃ النصرۃاسلامی معاشرے میں(مہاجرین و انصار) کی وہی تصویر کشی کرنے کی سعی کرتے ہے جو کہ قرآن ِ مجید کی سابقہ آیت میں بیان کی گئی ہے، چنانچہ وہ اپنی صفوف میں مہاجرین کو قبول کرتی ہے۔ اُس کی صفوف میں بہت سے مہاجرین ہیں، الحمدللہ، اگرچہ انصار کی تعداد مہاجرین کی نسبت زیادہ ہے ، جو کہ کسی بھی ساحات(جہاد) کے لیے ایک معیاری بات ہے، کہ جو مہاجرین مدینہ میں جمع ہوئے، اُن کی تعداد بھی انصارانِ مدینہ سے کم تھی۔ الحمدللہ، مہاجرین کا صفوں میں ہونا فقط جبھۃ النصرۃ تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہاں پر ایسی جماعتیں بھی میدان میں موجود ہیں، جن کے اندر بہت سے مہاجرین شامل ہیں، یہاں تک کہ ساحاتِ شام میں بہت سے مہاجرین کتائب بھی موجود ہیں، جو کہ جماعت الدولۃ اور نہ ہی جبھۃ النصرہ کے تابع ہیں۔ یہ (مہاجرین وانصار کی محبت) ایک ایسی حقیقت ہے، جو ہماری جہادی شخصیات کے اندر نقش ہو چکی ہیں، اور باذن اللہ، اس معاملہ میں نہ ہم متزلزل ہوں گے نہ ہی تبدیل کیے جائیں گے۔

دوم:
اس قتال کی ایسی تصویر کشی کرنا جیسا کہ اس قتال میں جماعت الدولۃ ایک طرف ہےاور دوسری طرف الجربا اورادریس(شخصیات کے نام) ہیں، یہ بہت بڑی خطا ہے۔ شمالی شام میں سب سے زیادہ بوجھ جن دو بڑی جماعتوں نے جماعت الدولۃ کے خلاف قتال کی وجہ سے اٹھایا، وہ جبھۃالاسلامیہ اور جیش المجاہدین ہیں، اور جہاں تک مشرقی شام کا تعلق ہے،تو وہاں جبھۃ النصرہ نے اس قتال کا بوجھ اٹھایا ،جیسا کہ سب یہ بات جانتے ہیں، کہ جبھۃ النصرہ کا تعلق اِن ارکان اور اتحاد کے ساتھ نہیں ہے۔

اور جہاں تک تعلق جبھۃ الاسلامیہ اور جیش المجاہدین کا ہے جو جماعت الدولۃ کے خلاف قتال میں دو بڑی جماعتیں ہیں، تو ہم پر یہ بات ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا ہے اور ہم ان کے حال سے متعلق جماعت الدولۃ سے زیادہ با خبر ہیں، کیونکہ ہم اُن کے زیادہ قریب ہیں۔ ہم نے جماعت الدولۃ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان جماعتوں سے متعلق جو بھی اپنے دلائل رکھتےہیں، اُن کو اپنے باعتماد علمائے مجاہدین کی طرف پیش کریں تاکہ وہ جماعت الدولۃ کے دلائل کو دیکھتے ہوئے اِن جماعتوں سے متعلق واضح حکم کو بیان کر سکیں ۔

میں ہر منصف شخص سے اس چیز کا مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اُن ملاحم پر نظر ڈالے، جو مبارک ارضِ شام میں جبھۃ النصرہ کے مہاجرین اور انصار نے رقم کی ہیں، جس کی توثیق ’المنارۃ البیضاء‘(جبھۃ النصرہ کا نشر و اشاعت کے لیے مختص ادارہ) پر نشر کیے گئے مواد سے ہو سکے گی، بلکہ بعض دیگر ذرائع ابلاغ سے بھی مثلا الجزیزۃ چینل سے بھی ہو سکے گی۔ ان غزوات کی طرف نظر ڈالیے جو جبھۃ النصرہ نے درعا(جنوب شام کا علاقہ) میں رقم کیں، اور اس کے بعد اسلامی شام اور اس کے دونوں نخلستان اس پر گواہ ہیں، قلمون(علاقہ) کے پہاڑوں سے پوچھیں، وہ آپ کو اِن عظیم ابطال کے کارناموں سے آگاہ کریں گے، جہاں وہ اس ملحمہ (بڑی جنگ) میں روزانہ کی بنیاد پر نصیریوں کے مظالم کو رفع کرنے کےلیے کوشاں ہیں، اور حزب اللات(لبنان کی تنظیم ’حزب اللہ‘ کی طرف اشارہ ہے) اور عراقی رافضی کتائب اور دیگر گروہوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں ۔

اس کے بعد بہادر، مزاحمتی حمص جو کہ حصار میں ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی اس کا شکوہ کرتے ہیں، اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں معاملات کو بہتر کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ شام کے حماۃ میں ہمارے سپاہی روزانہ کی بنیاد پراُن حرمات کابدلہ لےرہے ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے پامال کی جا رہی تھیں، اور وہ ایک معرکے سے دوسرے معرکے کی طرف گامزن ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس سیدھے رستے پر استقامت دیں۔ ادلب میں بڑے معرکے اور غزوات ہو رہی ہیں، اور صفِ اول کے خطوط کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ اور الاذقیہ(علاقہ) میں جبھۃ النصرہ کے عظیم ابطال کے کارناموں کی گواہی وہاں کے پہاڑ دیں گے، اور بہادر حلب(علاقہ) میں بڑے کارنامے اور قربانیاں، جنگیں اور غزوات اللہ کے دشمن نصیریوں اور رافضیوں کے خلاف جاری ہیں تاکہ ان کے شدید حملوں کے خلاف دفاع کیا جا سکے۔ دیر (دیر الزورعلاقہ) کی چھاؤنی میں، وہاں پر رباط میں اللہ کے دشمنوں کے خلاف بہت صبر اور جلالت دکھائی جا رہی ہے، اُن شیروں کی جانب سے جنہوں نے اپنے نفس کو اللہ کے ہاں بیچ دیا، ہم اُن کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کی بڑائی بیان نہیں کرتے۔ جبھۃ النصرہ ہر محاذ پریہی خصوصیت اپنائے ہوئے ہے، اور وہ نصیریوں کے خلاف محاذ پر اپنے کاندھوں پر بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اور شام کی بڑی عملیات میں اُن کی قیادت شریک رہتی ہے اور یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ہے ، بلکہ یہ سب کچھ تو شیخ ایمن الظواہری کے فیصلے سے پہلے بھی ایسے ہی تھا، اور بعد میں بھی ویسے ہی جاری ہے۔

یہ جبھۃ النصرہ کی بعض عسکری کارکردگی ہے۔ جماعت الدولۃ نے تقریباً ایک سال پہلے اپنے (شام میں) اعلان کے بعد اللہ کے دشمنوں کے خلاف کیا کارگردگی دکھائی ہے، سوائے کچھ غزوات کے جو کبھی اِدھر کر لیں، کبھی اُدھر کر لیں؟!

میں ہر منصف شخص کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ دیکھے کہ کس طرح جبھۃ النصرہ نے کس طرح ایک وسیع پیمارنے پر حرکتِ جہاد کا دفاع کیا ہےاور پیش قدمی کی ہے، اور لوگوں کے سامنے اس جہادی فکری تحریک(دھارے) کو پیش کر دیا ہے، جبکہ کفار اسے ایک بہت بڑے درجہ پر عامۃ الناس سے دور کر رہے تھے۔ تمام لوگ توحید کے جھنڈے [لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ] کو لہرانے لگے اور اس کی حمایت کرنے لگے۔ شام میں یہ جہادی پودا ایک مضبوط تناآور درخت بن گیا، جس کی جڑیں گہری ہو گئیں اور جس کے شاخیں نمایاں طور پر ابھرنے لگیں؛ اس کامضبوط تنا اور شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، جوجہادشام کے اسلامی سائبان سے بڑھتا ہواپورے عالم میں پھیل گیا۔

جہاد کا قضیہ عالمِ اسلام میں بلند ہونے لگا، اور تمام مسلمانوں نے توحید کے جھنڈے لہرانا شروع کیے، اور اس کے علاوہ کسی چیز پر راضی نہ ہوئے، چاہے وہ لادینی جھنڈے ہوں یا جمہوری اور وہ تمام جھنڈے سر نگوں ہو گئے۔ اور لوگ شریعت کی حاکمیت کی باتیں کرنے لگے، اور اس بات کی شہادت دوست، قریب، دور، مسلم اور غیرمسلم سے قبل دشمن نے بھی خود دی!

بہت سے ذرائع ابلاغ جو مشروعِ جہاد کا راستہ روکتے تھے، وہ اُس کی حمایت کرتے نظر آنے لگے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اِس وجہ سے عنایت کیا کیونکہ ہم نے اپنے دین پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا۔ جو کوئی بھی شیخ جولانی حفظہ اللہ کی پہلی تقریر کو سنے گا وہ دیکھ لے گا کہ کسی طرح اُن کی طرف سے اس قضیہ کی وضاحت بہت صراحت کے ساتھ بیان کی گئی، کہ’ ولاء والبراء‘ کا عقیدہ ہماری دعوت و منہج کا جزو ہے اور ہم ان شاء اللہ، اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ذرائع ابلاغ کا ہم سے یہ تعلق صرف اسی وجہ سے بنا اور خبروں کی زینت بننے لگا کیونکہ ہم نے معاشرے کے اندر موجود ایک سیع حصے کو متحرک کر دیا تھا، اور ہم یہ تمام باتیں کسی تکبر، بداندیشی اور شوخی کے طور پر بیان نہیں کر رہے، لیکن ہمارے اُوپر واجب ہے کہ ہم اللہ کی اِن نعمتوں کا شکر اداکریں، اوراللہ تعالیٰ کا ہم ہر حال میں شکر بجا لاتے ہیں۔

یہ منبر جو لوگوں کو جہاد اور مجاہدین سے دور رکھنے کی صدائیں بلند کرتے تھے، وہ بدل کر جہادومجاہدین کی حمایت کی صدائیں بلند کرنے لگے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے مناجات ہونے لگیں کہ انہیں فتح نصیب فرمائیں۔ جو ہمارے منہج و فکر میں ہم سے اپنی تحریروں میں مخالفت رکھتے تھے، شام میں مشروعِ جہاد کی حمایت کرنے لگے۔ جبھۃ النصرہ علمائے امت سے دور نہ ہوئی، بلکہ ان کے ساتھ مل کر اپنے فیصلوں پر کام کرنے لگی،اور اُن کے اجتہادات اور فقہ کے تابع ہو کر اپنے فیصلے کیے۔

اُس کےعلاوہ جبھۃ النصرہ نے جہاں عسکری بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا، وہاں پر (اہل شام) کو خدمات مہیا کرنے کا بوجھ بھی اٹھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کچھ خدمات اُن کمزوروں اور بے گھروں کو مہیا کیں، اور کچھ بیکریوں اورہسپتالوں تک خدمات مہیا کیں، اور کثیر مسلمانوں کو آٹے کی ترسیل کی۔

جبھۃ النصرہ نے اپنا ایک ضابطہ بنایا جس کے ذریعے اس نے تمام دیگر کتائب اور جماعتوں کے ساتھ مل کر ہم آہنگی پیدا کی، خاص طور پر وہ ان کے ساتھ جنہوں نے نصیریوں سے لڑنے کا عہد کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام کاوشیں ایک نکتہ کی طرف مرکوز ہو گئیں، جس سے جہاد، دین اور توحید کی خدمت ہونے لگی،اور اپنی توجہ نصیری دشمن پر مرکوز رکھی گئی، اگرچہ کہ افکار اور مناہج میں اختلافات بھی تھے۔

اللہ کے فضل سے اس کامل صورت کو دیکھتے ہوئے، جبھۃ النصرہ نے لوگوں کا اعتماد اور احترام باقی لوگوں سے حاصل کیا اور وہ مشروعِ امت کی امید بن گیا، جس کے لیے کافی دہائیوں سے لوگ منتظر تھے۔ ہم اپنے اس مشروع(جہاد) پر اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم اس میں متذبذب نہیں ہوں گے اور نہ ہی پیچھے ہٹیں گے، ان شاء اللہ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے استقامت اور قبولیت کا سوال کرتے ہیں، جس میں ہم اپنے جہادی اور فدائی سفر پر رواں ہوں، اپنے مشروع پر جس میں اللہ کی شریعت کی حاکمیت ہو، اور ایک خلافتِ راشدہ کی طرز پراسلامی حکومت کا قیام ہو، جو منہجِ نبوت پر قائم ہو۔ ہم اپنی جانوں کو اللہ کے لیے قربان کر رہے ہیں تاکہ اللہ کی شریعت کی حکمرانی ہو، اور ہم توحید کے جھنڈے کے علاوہ کسی اور جھنڈے تلے اپنی جانوں کو قربان نہیں کر رہے۔

اگرچہ جماعت الدولۃ نے شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے اس فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ واپس عراق پلٹ جائیں، ہم امید کرتے ہیں کہ جماعت الدولۃ اس مبارک مشروع کو جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس میں شریک ہو گی اور اِس مشروع کے کسی بھی عنصر کی حمایت میں اپنا حصہ ڈالے گی۔

اس سب کے باوجود، ہمیں صحوات(مرتدین) گردانا جاتا ہے، اور ہم پر احکاماتِ مرتدین کی تطبیق کی جاتی ہے، اور مرتدین کی معاونت کا الزام ڈالا جاتا ہے، اور ہمیں دشمن الجربا اور اُس کے اتحاد کے ساتھ متصف کیا جاتااور دوسری طرف ادریس اور اس کے ارکان میں سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم اس پر بہت صبر کرتے ہیں، اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اس چیز سے جو یہ ہماری طرف منسوب کرتے ہیں۔

سوم:
ہمارا جماعت الدولۃ پر حکم وہ اُن کی ظاہری خصوصیات اور صفات کی وجہ سے ہے،جو اُن کی طرف سے کیے گئے شدت پسند اعمال کی طرف بہت وضاحت سےاشارہ کرتی ہیں،اور جو اِس جماعت کےظاہری اعمال پر قوت سے دلالت کرتی ہیں۔ ہم کسی بھی فکری نظریے،عقائد، منہج یا آراء کی بنیاد پر یہ بیان نہیں کررہے ہیں، بلکہ اِس کا تعلق اِن کے عملی اقدامات سے ہے۔

اہل سنت کا یہ قول ہے کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے، اس لیے کسی پر حکم فقط اقوال کی بنیاد پر نہیں لگتا ہے، بلکہ اُن کے افعال بھی دیکھے جاتے ہیں، اور ہم لوگوں کی نیتوں اور قلوب کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے، بلکہ اُن کے ظاہری اعمال کی طرف دیکھتے ہیں، ہمارے اوپر ظاہر پر فیصلہ کرنا ہے، اور باطن کے (خفیہ) معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد ہیں۔

سیدنا عمرؓ بیان فرماتے ہیں:
فمن أظهر لنا خيرًا أمناه وقربناه وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءًا لم نأمنه ولم نصدقه وإن قال إن سريرته حسنة
[جو ہم پر نیک اعمال کو ظاہر کرے گا، ہم اس کوامان دیں گے اور اپنے قریب کریں گے، اور ہم اس کا محاسبہ اس کے پوشیدہ اعمال پر نہیں کریں گے، کیونکہ اللہ اُن کا محاسبہ کرنے والےہیں، لیکن جو کوئی ہمارے سامنے برے اعمال پیش کرے گا ، ہم نہ ہی اسے سلامتی دیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے، اگرچہ وہ یہ دعوی ہی کیوں نہ کرے کہ اُس کی نیت اچھی ہے]

چہارم:
ہم اس بات کا اعتقاد نہیں رکھتے کہ ہمارے اقدامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی شریعتِ الہیہ ہے، جس کی مخالفت کرنے والا کافر ہو جاتا ہے، لیکن ہمارا (جہادی) مشروع اللہ تعالیٰ کی شریعت کی طرف سنجیدگی اور مخلصی سے دعوت دینا ہے، اور سب سے پہلے اس کا اطلاق خود ہمارے اوپر ہوتا ہے، شام میں جماعت الدولۃ کا وجود اس فیصلے کی بنیاد نہیں ہے، بلکہ یہ جنگ بندی کی طرف دعوت ہے تاکہ حقوق کو غصب کرنے والوں کا تعین کیا جا سکے، جس میں اُن تنازعات میں ناحق خون اور دیگر دوسرے معاملات کا فیصلہ ہو سکے تاکہ حقوق کو لوٹایا جا سکے اور فریقین کے درمیان تنازعات کے فیصلے کیے جا سکیں۔

ہم قرآن و سنت کو اپنا نورِہدایت بنائیں، اور یہی بات کی پیروی ہمارے اور اُن کے اوپر واجب ہو، ہم اللہ کو گواہ بناتے ہیں کہ اگر تم ہم سے لڑنے سے باز آ جاتے، تو ہم بھی تم سے قتال سے باز رہتے اور اس پر ضرور عمل کرتے، خصوصی طور پر جبکہ تمہارا ظلم ابھی حالیہ ہی دیر الزور(علاقہ ) اور حسکہ(علاقہ) پر ہوا ہے، اور وہ بھی اُس کے بعد ہوا جبکہ تمہارے امیر شیخ بغدادی کی طرف سے یہ پکار لگائی گئی کہ اُن سے قتال سے باز رہا جائے، جو تم سے قتال کرنے کے لیے نہیں آتے۔تم نے اپنے امیر کے حکم پر عمل کرنے کا التزام نہ کیا، حالانکہ ہم تمہارے ساتھ مشرقی جانب کسی بھی تنازعہ میں اُس وقت شریک نہیں تھے۔ جب یہ جارحیت کی گئی تو تم اُن حملہ آوروں کے ساتھ کھڑے ہو گئے، اور ہم دونوں کو اس غیر مطلوب لڑائی میں کھینچ لائے،اگرچہ اُس وقت چاہیے تھا کہ تمہارے امیر کی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاتا اور انہیں سزا دی جاتی۔

پنجم:
جیسا کہ رسمی ترجمان ابو محمد عدنانی کی جانب سے یہ بیان ہوا جب اس نے کہا کہ دولۃ نے یہ افعال قصداً نہیں کیے، اس پر جواباً میں یہ کہتا ہوں:

ایک طرف تو جو ہم نے بہت سے اعمال کا تذکرہ کیا ہے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی ان کا مقصود تھا۔ دوسری طرف اہل سنت اس بات میں تفریق کرتے ہیں کہ کون سا عمل ارادے سے کیا گیا ہے جس پر فاعل کے لیے وعید ہے اورکون سا بغیرارادے کےعمل کیا گیا ہے، اور جو بھی ہم نے تمہارے سے متعلق ذکر کیا ہے اس کا تعلق دوسری قسم سے ہے۔

اگر تم اس مباہلہ کا ارادہ فقط اس قید کے ساتھ کرنا چاہتے ہو جس کو تم نے بیان کیا،تو یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی باتوں کاعلم رکھتے ہیں،اور مباہلہ ایک دعا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو پکارا جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ خائن لوگوں کا علم رکھتے ہیں اور اس بات کا بھی علم رکھتے ہیں جو لوگ دلوں میں چھپاتے ہیں۔

ششم:
تم نے مجھے مباہلہ کے لیے کچھ چیزوں پر بلایا ہے، اور کچھ چیزوں پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ کیا تمہاری خاموشی میرے نکات کے معتبر ہونے کا اقرار ہیں یا پھر تم کس طرح اپنی خاموشی کی توضیح بیان کرو گے؟ میں تم سے اس سے متعلق کچھ سوالات پوچھتا ہوں:

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ جس شخص نے شیخ ابو خالد السوریؒ کو قتل کیا ، اُس کا تعلق تمہاری جماعت سے نہیں تھا؟ اگر تم یہ کہتے ہو کہ یہ معاملہ شرعی عدالت میں فیصلے کا محتاج ہے، نہ کہ مباہلہ کا محتاج ہے، حتی کہ اس قضیے کا فیصلہ ہو جائے، تو پھر میں تم سے کہوں گا: تم نے سچ کہا، آؤ پھر اس (شرعی محاکمہ ) پر عمل کرتے ہیں؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ بغدادی نے تمہاری موجودگی میں یہ بات کہی: (جبھۃ النصرہ) کا براہ ِراست خراسان(القاعدۃ الجہاد، قیادتِ عامہ) سےرابطہ ہو جانا، ہمارے نزدیک ہمارے خلاف خروج نہیں ہے، اور ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جبھۃ النصرہ کا براہ راست خراسان سے رابطہ ہو جائے؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ بغدادی نے تمہاری موجودگی میں یہ بات کہی: میری گردن پر شیخ اسامہؒ کی بیعت تھی، اور جب ان کی شہادت ہو گئی، اللہ ان کی شہادت قبول فرمائیں، تو میں نے کو خط لکھ کر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی بیعت کی تجدید کی، اور ہم اپنے امرائے خراسان کی سمع و اطاعت کرتے ہیں؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے تم نے اس بات پر عمل کرنے سے احتراز برتا جس میں تنازعہ سے قبل پیغام میں ہمیں اِس معاملہ کو پچھلی حالت پر منجمدکرنے کا کہا گیا تھا؟

کیا تم مجھ سے اس بات پرمباہلہ کرو گے کہ تم نے مصلحت کو قتل کیا اور فتح کےفتوے لگا دیے؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ بغدادی نے کہا:
اگر جواب جبھۃ النصرہ کے حق میں آ گیا، تو میں تمام شامی لوگوں کے ماتھے کو بوسہ دوں گا، اور سجدے کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کروں گا، اور عراق واپس چلا جاؤ گا؟

اور اُس(بغدادی) کے نائب امیر نے کہا:
اے جولانی! ہم آپ کی بیعت کریں گے اگر (شیخ ایمن الظواہری کا) فیصلہ جبھۃ النصرہ کے حق میں آ گیا، کیونکہ ہم سبھی جبھۃ النصرہ ہیں۔؟

کیاتم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ جولانی حفظہ اللہ نے ابتدائی قدم اٹھاتے ہوئے شیخ ابو یحییٰ عراقی کو لکھا کہ شیخ جولانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاتے ہیں، اور جبھۃ النصرہ کی شوری اور الدولۃ کی شوریٰ آپس میں یکجا ہو جاتی ہیں، اور وہ ایک امیرِ عامۃ کا انتخاب کر لیں جو جبھۃ النصرہ کی بھی نمائندگی کرے گا، اور یہ ’تنظیم قاعدۃ الجہاد‘ کے نام سے کام کرے گی؟ اور یہ ان ایام کی بات ہے جب شیخ ایمن الظواہری کافیصلہ اس قضیے پر آ چکا تھا۔ اگرچہ فیصلہ شیخ جولانی کے حق میں تھا ، پھر بھی انہوں نے اس کو چھوڑ دینے کی پیش کش کی؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ جولانی نے اس مسئلہ پر تمہاری طرف دو ابتدائی اقدامات اٹھائے؟ انہوں نے یہ ابتدائی اقدامات دو اشخاص کے ذریعے بھیجے۔ ان میں سے ایک شیخ عبدالعزیز قطری (رحمہ اللہ) ہیں، اللہ اُن کی شہادت قبول فرمائیں اور انہوں جنتوں کی وسعتوں میں جگہ دیں، اور دوسرےشخص وہ درمیانی وسیط ہیں، جو شیخ محسینی کے علاوہ انباری سے ملاقات کے لیے آ رہے تھے۔

[پہلا ابتدائی قدم یہ تھا کہ ایک ملاقات دونوں شیوخ جولانی اور بغدادی کے درمیان ہو، اور اس ملاقات میں طے ہو جانے والے امور پر دونوں شیوخ اپنی جماعتوں کو اس کا پابند بنا دیں گے۔

دوسرا ابتدائی قدم یہ تھا کہ دونوں شیوخ، شیخ جولانی اور شیخ بغدادی اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں، اور ہر کوئی جماعت اپنی طرف سے نامزد کیے گئے امیر کے نام کو شیخ ایمن الظواہری کو بھیج دے، اور جس کسی شخص پر بھی شیخ ایمن الظواہری بطور امیر راضی ہوجائیں، وہ دونوں جماعتوں کے امیر منتخب کر لیے جائیں گے، اور جبھۃ النصرہ اور دولۃ کے ناموں کو منسوخ کر دیا جائے گا اور ’تنظیم القاعدۃ الجہاد برائے شام‘کے نام سے تمام عمل کیے جائیں گے ]؟

ہفتم:
جہاں تک عدنانی کا مجھ سے مباہلہ کرنے والے امور کاتعلق ہے، تو وہ تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:

اول قسم:
تاریخی حقائق؛ یہ بات معلوم ہے کہ تاریخ میں موجود اخبار کا ہم پر اطلاق تقریباً اسی طرح ہوتا ہے جس طرح حدیث سے متعلق قواعد ہیں، اور ان اخبار میں متواتر(بہت راوی) ، مشہور(تین یا اُس سے زائد راوی)،عزیز(جس کے دو راوی ہوں)، الاحاد(ایک راوی) شامل ہیں۔ متواتر کو دلائل میں قطعی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، جبکہ الاحاد میں ظن(شبہ) پایا جاتا ہے۔ تو جو بات آخر میں متواتر کے طور پرثابت ہو جائے، تو اس کے متعلق آخر میں مباہلہ کیا جا سکتا ہے، نہ کہ ابتداء میں ہی اس کا آغاز کر دیا جائے۔ اور جو بات الاحاد کے طریقے پر ثابت ہو،تو اس پر مباہلہ نہیں کیا جا سکتا، واللہ اعلم؛ کیونکہ وہ متواتر کے درجے پر قطعی دلیل نہیں ہوتی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ درست نہیں ہو گی، وہ درست ہو سکتی ہے، تاہم اس پر مباہلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پس کسی بھی تاریخی واقعہ کے ثبوت، حقائق، شہادتوں، دلائل اور مباحث کا مطالعہ کیا جاتا ہے،اور اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایسے پیش آیا یا نہیں آیا۔ پس اس قسم کے واقعات سے متعلق درست یہ ہے کہ اس سے متعلق مباہلہ آخر میں کیا جاتا ہے، نہ کہ ابتداء میں اور اس میں بھی اس بات پر جو متواتر سے ثابت ہو ۔

دوم قسم:
بہت سے خون بہا اور اموال سے متعلق حقوق؛ اس طرح کی مماثلت رکھنے والی چیزوں سے متعلق شرعی وسیلہ شرعی محاکمے(فیصلے) کے ذریعے اِن معاملات کا حل کرنا ہے، نہ کہ اِن پر مباہلے کرنا۔ ہم شرعی عدالتوں میں بیٹھتے ہیں اور قواعد کی تطبیق اس انداز سےکرتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

البينة على من ادعى واليمين على من أنكر
[ دلائل دینا مدعی کے ذمے ہے، اور قسم اٹھانا انکار کرنے والے پر ہے]

ہم قسم اٹھانے کے وسیلے کو اختیار کریں گے، اس قسم کی چیزوں کا مباہلہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور اگرچہ ہم مباہلہ کر بھی لیں، مباہلے سے حقوق (العباد) ساقط نہیں ہوتے۔میں تم سے کہوں گا کہ خود پر تشدد مت کرو ، کیونکہ اس سے تمہارے اوپر خود یہ تشدد پہنچ جائے گا۔ اگر تم شرعی محکمے میں بیٹھتے ہو، تو تمہارے پاس اس معاملہ میں باقاعدہ آزادی ہو گی، جیسا کہ ہمارے ائمہ عظام کی فقہ میں وارد ہوتا ہے۔

امام الزھریؒ کہتے ہیں:
وقعت الفتنة وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم متوافرون فأجمعوا أن كل مال أو دم أصيب بتأويل القرآن فإنه هدر
[فتنہ پیدا ہوا اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھے ہوئے، اور اس بات متفق ہو گئے کہ جو بھی خون اورموال کی حرمت کی پامالی کسی قرآن کی تاویل کی بنیاد پر ہوئی ہے، وہ تلف ہے]

سوم قسم:
ان اجتہادی امور پر جن پر ہم پہنچے اور تمہارے گروہ کو خبرداری کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد متصف کیا، ہم نے شروع میں ہی یہ بات بیان کر دی تھی، کہ ان کا تعلق ’احکام النوازل‘ سے ہے۔ اگر ہم درست ہوتے ہیں، تو یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ہے، اگر ہم نے غلطی کی ہے، تو ہم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ اجتہادی امور پر مباہلہ نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ مجتہد کو دو اجر (درست ہونے کی صورت میں) اور ایک اجر(غلط ہونے کی صورت میں) ضرور ملتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اخلاص اور قبولیت کا سوال کرتے ہیں۔

ششم:
مباہلہ کا امر بہت عظیم اور خطرناک معاملہ ہے، اے عدنانی ، میں تمہیں اللہ کے لیے کہتا ہوں کہ تم اُن لوگوں میں سے نہ ہو جانا، جو اس طریقے(مباہلہ) کو مجاہدین کے مابین شروع کرنے والے ہیں!

حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
إذا أصر بعد ظهور الحجة ثم قال: وقد دعي بن عباس إلى ذلك ثم الأوزاعي ووقع ذلك لجماعة من العلماء ومما عرف بالتجربة أن من باهل وكان مبطلًا لا تمضي عليه سنة من يوم المباهلة، ووقع لي ذلك مع شخص كان يتعصب لبعض الملاحدة فلم يقم بعدها إلا شهرين
[اگر وہ حجت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی اصرار کرے، اور پھر کہا کہ ابن عباسؓ اور الاوزاعیؒ نے بھی اس طرف گئے ہیں، اور یہ علماء کی جماعت کے ساتھ بھی ہوا جنہوں نے تجربہ سے یہ بات سیکھی کہ جو بھی مباہلہ کرے، اور وہ باطل پر ہو، اُس پر ایک سال سے زائد کا عرصہ مباہلہ کے دن کے بعد سے نہیں گزرتا۔ میرے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا جس میں ایک شخص بعض ملحدین کی طرف راغب تھا، تو وہ(مباہلہ کے بعد) دو مہینے سے زائد نہ ٹھہر سکا]

شارح نونية ابن القيم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أنها -أي المباهلة- لا تجوز إلا في أمر مهم شرعًا ووقع فيه اشتباه وعناد لا يتيسر دفعه إلا بالمباهلة فيشترط كونها بعد إقامة الحجة والسعي في إزالة الشبه وتقديم النصح والإنذاروعدم نفع ذلك ومساس الضرورة إليها
[یہ (مباہلہ) سوائے کسی اہم شرعی معاملہ کے علاوہ جائز نہیں اور وہاں پر جائز ہے جہاں پر شک وشبہ اور تکبر پایا جائے، جس کو رفع بغیر مباہلہ کے لیے نہ کیا جا سکے۔ پس ضروری ہے کہ اس پر اتمامِ حجت کیا جائے، اور اس کے شبہات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے، اور نصیحت اور تنبیہ کی جائے، اور اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا جائے اور بغیر ضرورت کے اس کا ہاتھ نہ لگایا جائے]

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا عذر رکھتے ہیں، لیکن اس عذر کو مزید تقویت دینے کی غرض سے اور اس بات کی یقینی بنانے کے لیے کہ اتمامِ حجت کی جائے، اور تمام شبہات کے ازالہ کی کوشش کی جائے، ہم بعض صوتی یا ویڈیو کی صورت میں گواہیوں کو پیش کریں گے، جس سے متعلق عدنانی نے ہم سے مباہلہ کیا ہے، اس سے قبل کہ ہم اس پر مباہلہ کریں۔ اور یہ مدت عدنانی کو ایک مہلت کی صورت میں دی جا رہی ہے، جس میں وہ اپنے اوپر غوروفکر کرتے ہوئے محاسبہ کرے اور اللہ کے سامنے اکیلے پیش ہونے کو یاد کرے، کیونکہ اس نے بہت ہی خطرناک معاملے کو پیش کیا ہے۔ شاید یہ ممکن ہے کہ اس نے جس بات پر ہم سے مباہلہ کیا، وہ اس کونہ جانتا ہو اور نہ ہی اس کے علم میں وہ باتیں لائی گئی ہوں یا اس نے یہ (مباہلے کا قدم) غصہ میں اٹھایا ہو۔

اختتاماً:
میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے یہ بات نہ ہی کسی کمزوری کی وجہ سے اور نہ ہی فرار اختیار کرنے کے لیے بیان کی ہے، بلکہ میری یہ نصیحت عدنانی کے لیے خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ اگر عدنانی رجوع کر لے، پس الحمدللہ، وگرنہ میں اس سے مباہلہ کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔ ان شاء اللہ، اپنے کلام پر جیسا کہ اس میں تفریق کر دی گئی ہے۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر یہ بات کہتا ہوں کہ میں اس(مباہلہ کے) معاملہ کو اُس(عدنانی) پر (اللہ کے) خوف کی وجہ سےنا پسند کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف یہ شکایت کرتا ہوں: اے اللہ، میں آپ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ میں عدنانی کے ساتھ مباہلہ ہرگز نہ کرتا، اگر اُس نے مجھ سے مباہلہ نہ کیا ہوتا، اور اگر میرا اِس مباہلے سے خاموشی اختیار کرنا ان کے لیے منہجِ جماعت الدولۃ کے درست ہونے کی ایک نئی دلیل نہ سمجھ لی جاتی، تومیں مباہلہ نہ کرتا۔

اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب، زمینوں اور آسمانوں کے بنانے والے، عالم الغیب کی خبر رکھنے والے، آپ اپنے بندوں کے درمیان اختلافات پر فیصلہ فرما دیجیے، ہمیں اس بات کی طرف اپنے اذن سے ہدایت دیجیے جس میں ہم اختلاف کر رہے ہیں، بلاشبہ آپ جسے چاہتے ہیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی عطا فرما دیتے ہیں۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی الہ و صحبہ وسلم
والحمدللہ رب العالمین

**************

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿النساء: ٦٥﴾
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں (۴: ۶۵)

ویڈیو لنک:
https://www.youtube.com/watch?v=sKDUnmZFdiQ

انگریزی ترجمہ:
http://justpaste.it/g1ph