JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم

لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ
کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں (۳:۱۸۷)


ابراہیم بن عواد کی قیادت میں تنظیم الدولۃ کی حقیقت
تنظیم کی خصوصیات اور عقائد کی اصلیت
شیخ ڈاکٹر طارق عبدالحلیم / شیخ ڈاکٹر ھانی السباعی
reality-of-isis-cover-final.jpg

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله وعلی آلہ و اصحابہ، وبعد:

جس تنظیم کو ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کہا جاتا ہے کا تنازعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت کے اندر مختلف عوامل اور وجوہات کی وجہ سے داخل ہو گیا ہے جن عوامل کا احاطہ کرنا ہمارے اس بیان کا مرکزی نکتہ نہیں ہے۔ بہت سی جانیں لاپرواہی کی بنا پر ضائع ہوئیں، بہت سے خاندان اور گھر تباہ ہوئے، بہت سے مخلص مجاہدین کو قتل کیا گیا، اسلام کے تصور کو مسخ اور تباہ کیا گیا، اور بہت سے عامی مسلمانوں کو تنظیم الدولۃ کے غلغے نے متذبذب چھوڑ دیا ۔ تنظیم الدولۃ نے جہاد کے تصور کو بدترین انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کا عالمی سطح پرمذاق اڑایا گیا جبکہ اسلام اور جہاد تنظیم الدولۃ کے اُن تمام اعمال سے بری ہیں جو یہ پیش کرتے ہیں یا جس کی یہ حمایت کرتے ہیں ،اسلام اور جہاداُس سے بری ہیں۔ اس گروہ کی اصل کامیابی یہی رہی ہے کہ اس نے حقیقی دولتِ اسلامیہ اور اسلام کے تصور کو مسخ کیا ہے! حقیقت یہ کہ اس جماعت ’’دولتِ اسلامیہ جس کی قیادت ابراہیم عوادی کے سپرد ہے اور جس کو خلیفہ کے منصب پر فائز کیا گیا‘‘نے مغرب کے اُن اہداف کو پورا کیا جن کو حاصل کرنے سے وہ خود عاجز آ چکا تھا اوراس حوالہ سے اُن کی خدمت کی ہے، جو کہ اصل میں اسلام کے تصور کو مسخ کرنا ہے اور لوگوں کے سامنے اسلام کا مسخ شدہ اور بھیانک چہرہ سامنے لانا ہے، ایسی چیز جو مغرب اپنی تمام تر طاقت، ذرائع ابلاغ اور غداری کے باوجود بھی اپنے طور پر اُس کو حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔

ہم نے متعدد مقالات،ویڈیوز اور صوتی پیغامات کے ذریعےاس تنظیم کی حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ تنظیم الدولۃ تاریخ میں سابقہ مشہور فرقہ خوارج یا حروریہ کی نئی شکل ہے، یا یہ انہی سابقہ شرپسند غالی خوارج کی نئی قسم ہے جو اپنی وحشت اور شدت پسندانہ نظریے کی بنا پر مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور اہل شرک کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم نے اس چیز کو محسوس کیا کہ بہت سے امتِ مسلمہ کے حالات پر مباحثہ کرنے والے اِن کے منہج کی نوعیت سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں، اور ہم نے بغیر ہچکچاہت کے یہ طے کیا کہ اس سے متعلق بالکل واضح موقف دیا جائے، جس میں کسی بھی قسم کا شائبہ نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یہ اس بات کی وضاحت کریں کہ اہل سنت کے عقیدے کے مقابلہ میں یہ تنظیم کہاں کھڑی ہے اور اِن کے ساتھ تعامل سے متعلق احکاماتِ شریعہ کو واضح کیا جائے اور اِن کے اعمال سے متعلق آگاہی دی جائے اور خود کو گمراہ کن تحمل کے تناظر میں خاموش نہ رکھا جائے جبکہ بہت سے نوجوانانِ شام اور نوجوانانِ عالم اِن سے متعلق حکم کے بارے میں افراتفری کا شکار ہیں۔ اس قسم کا گمراہی پر مبنی تحمل جبکہ خاص طور پر اِن کا شر پھیل چکا ہو اور بہت سے مخلص مسلمان اور مجاہدین قتل کیے جا چکے ہیں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی صورت اِن علمی حضرات کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے اور نہ ہی خود کو روکنا چاہیے، اہل علم کے لیے ضروری ہے، جن کو علم کی امانت دی گئی ہے تاکہ وہ کھول کر (عامۃ الناس کے سامنے) بیان کر دیں کہ وہ اس تنظیم ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ سے متعلق حق بات کی وضاحت کریں اور اِن سے متعلق صحیح حکم کو بیان کریں جنہوں نے اپنی تلواروں،خنجروں اور اسلحے کا رخ مجموعی اور عمومی طور پر مسلمانوں کی طرف کر رکھا ہےاور خصوصی طور مجاہدین کی طرف اِن کا رخ ہے

اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ اس بیان کو نشر کریں تاکہ اپنے موقف کو واضح کریں اور بغیر کسی شک و شبہ کے اپنے موقف کی وضاحت کردیں تاکہ ہم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہو سکیں، جب ہم سے پوچھا جائے کہ کیا ہم نے اپنے علم میں سے دنیاوی مفادات کے لیے کہیں کتمانِ حق تو نہ کیا تھا ؟ کیا ہم نے واضح طور پر لوگوں کے سامنے حق کو بیان کر دیا تھا؟ اور کیاتمام قسم کی جماعت الدولۃ اور انصارانِ الدولۃ کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود اِس علم کو بیان کرنے کے لیےتمام اسباب کے ذریعے کوشش کی تھی یانہیں؟

مزید براں، اِس بیان کو ہم تمام قسم کے فقہی اورمدلل حوالہ جات کو بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کر رہے، بلکہ اس کا واضح مقصد اصولوں کو بیان کرنا ہے اور اُن اصولوں کو دلائل کے ذریعے اور فقہ اور واقعات کو کلی طور پر استعمال کرتے ہوئے سامنے لانا ہے تاکہ ہمارے پچھلے دیے گئے بیانات کے ذریعے حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ [تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے] ( سورۃ الانفال: ۴۲)

ضروری ابتدائیہ:

اپنے دلائل کو مستحکم کرنے کے لیے ہم اس سے متعلق کچھ ضروری ابتدائیہ دینا چاہیں گے جس کے ذریعے عقلی، شرعی اور تاریخی حقائق کو قائم کیا جا سکے:

(۱)
سب سے اہم اُصول اور لازمی بنیاد تمام ایمان کے معاملات میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ یہی منہجِ سنتِ نبویﷺ ہے جو کہ صحابہؓ کے فہم پر کھڑا ہے جیسا کہ محترم علمائے امت نے اس کی وضاحت کی ہے، جن سے علم لینے پر سب متفق ہیں اور وہی اصل صاحبِ علم ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: [اہل ذکر (علم) سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود علم نہیں رکھتے] (۱۶:۴۳)؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اُن علماء سے پوچھا جائے جو حق کو جانتے ہیں تاکہ اس مسئلہ کو سمجھا جا سکے؛پس چاہیے کہ معاملہ کو اہل حق کی معرفت کے ذریعے جاننے کے لیے رجوع کیا جائے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:[کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟] (۳۹:۹)؛ مزید ارشاد ہوتا ہے: [اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، او ر (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہلِ علم نے بھی دی ہے](۳:۱۸)، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اہل علم اور اہل ذکر کی اتباع کریں، نہ کہ اہلِ باطل اور اہل ہوائے نفس کی پیروی کریں۔

رسول اللہ ﷺ نے بہت سے صحیح احادیث میں خوارج کی صفات سے آگاہ کیا کیونکہ یہ وہ پہلا فرقہ تھا جو عہدِ نبوی ﷺمیں ظاہر ہوا۔صحیح بخاری میں ابو سعید الخذریؓ کی طرف سے روایت میں ذی الخویصرۃ التمیمی کا تذکرہ ہے، کہ جب رسول اللہ ﷺ مالِ غنیمت کی تقسیم فرما رہے تھے، تو ذی الخویصرہ ، جس کا تعلق بنو تمیم قبیلے سے تھا، رسول ﷺ کے پاس آیا اور کہا: ’اے اللہ کے رسول ﷺ، عدل کیجیے‘۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ’تمہاری بربادی ہو، اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ تم یقیناً تباہ اور گمراہ ہو جاؤ گےاگر میں عدل سے کام نہ لوں‘۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: ’اے اللہ کے رسول ﷺ، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کا سرقلم کر دوں‘۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عمرؓ کو جواب دیا: ’’ اس کو چھوڑ دو کیونکہ اِس کے ساتھی ہیں جن کے مقابلے میں تم اپنی نماز وں کو کمتر جانو گے، جن کے روزوں کو تم اپنے روزوں کے مقابلہ میں کمتر جانو گے، یہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ اِن کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔‘‘

ان کی ایک صفت جو کہ تقریباً ہر کسی میں ہی پائی جاتی ہے، وہ امام بخاری نے حضرت علی بن طالبؓ کی طرف روایت کی ہے ، جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنی جب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: [آخری زمانے میں ایک قوم ظاہر ہو گی جو کم عمر ناپختہ ذہن ہوں گے ،جو انسانیت میں بہترین لوگوں کی بات کو بیان کریں گے، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، اِن کا ایمان اِن کے حلق کے نیچے نہیں اترےگا، پس تم انہیں جہاں بھی پا ؤ، انہیں قتل کر دو، کیونکہ قیامت کے دن اِن کو قتل کرنے والوں کو اجر سے نوازا جائے گا]

جیسا کہ سنن نسائی میں ابو سعید الخدری ؓ سے بھی ان کی ایک صفت کو روایت کیا گیا ہے کہ جو اِن (خوارج) سے متعلق مشہورہے[یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور اہل شرک کو چھوڑ دیں گے، اگر (میں اس وقت تک زندہ رہوں) اور ان کا تدارک کر لوں(کہ یہ خوارج ہیں) ، تو میں انہیں اسی طرح قتل کروں گا جس طرح قومِ عاد کو قتل کیا گیا تھا]

اِن احادیث سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ ناپختہ،بےعقل اور بے پرواہ کم سن لوگ ہیں، جن کے اندر حق بات کے سامنے جرات دکھانے کا مادہ آ چکا ہو گاکہ جیسا کہ ان کے جدِ امجد ذوالخویصرہ نے حدود سے تجاوز کیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کو انصاف کرنے کا کہا، اور اسی طرح انہوں نے تب بھی اپنی حدود سے تجاوز کیا ، جب انہوں نے کبار صحابہؓ کے سامنے جرات دکھائی اور اِن(خوارج) کے نامرادلوگوں نے امیر المومنین سیدنا علی بن طالبؓ کے ساتھ مباحثہ کیا اور اُن کی بھی تکفیر کی اور خیارِ امت اور ائمہ امت کی بھی تکفیر کی! اسی طرح اِن کی یہ صفت بھی ہے کہ ’ یہ انسانیت میں بہترین کے کلمات کو بیان کریں گے‘، جیسا کہ یہ قرآن کو پڑھیں گے اوربعض احادیث ِ نبوی پر حجت بیان کریں گے لیکن یہ تمام معاملہ اِن کی طرف سے فقط ظاہری نصوص پر ہی ہو گا! اِن کی عبادت میں بہت ریاضت ہو گی ، یہاں تک کہ ایک سنی مسلمان اِن سے خوف کھائے گا، اور اپنی نماز کو اِن کے مقابلے میں حقیر جانے گا، اس خارجی کے روزوں کو اپنے روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھے گا! اور یہی بہت سے نوجوانوں کو اِن(خوارج) سے متعلق دھوکہ دینے کا باعث ہو گا! اور ان تمام صفات پر علماء نےصراحت کے ساتھ وضاحت کی ہے، جو اُن کی طرف سے کی گئی شرح میں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔

امت پر ان حروریہ(خوارج) عقیدے کے خطرے کو دیکھتے ہوئے، علماء نے اس مذہبِ خارجی کی اتباع کرنے والوں کی سختی سے نکیر کی ہے، جن میں کچھ کو مثال کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے:

علامہ الآجری (متوفی: ۳۶۰ھ) کہتے ہیں:
[علمائے متقدمین و متاخرین نے اس بات پر بالکل اختلاف نہیں کیا ہے کہ خوارج (اصل میں )قومِ سوء ہے، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمان ہے، اگرچہ وہ نماز پڑھیں، روزے رکھیں یا اپنی عبادت میں ریاضت سے کام لیں، اِن کے یہ اعمال ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں، اور اگر وہ امر بالمعروف و النہی عن المنکر کو بھی ظاہر کریں تب بھی اِن کے لیے اس میں نفع نہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے متعلق خبردار کیا ہے، اور نبی ﷺنے بھی اِن سے ہمیں خبردار کیا ہے، اور اِن کے بعد خلفائے راشدین نے بھی اِن سے خبردار کیا ہے، اور اسی طرح صحابہؓ نے بھی تنبیہ کی ہے اور اس کے بعد آنے والوں نے بھی جنہوں نے احسان کے ساتھ اِن صحابہؓ کی پیروی کی، اِن(خوارج) سے متعلق آگاہ کیا ہے، اور خوارج قدیم وجدید شریر اور سفاک ہیں، اور وہ تمام بھی جو خوارج کے مذہب کی پیروی کریں،اور یہ ائمہ اور امراء کے خلاف خروج کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو قتل کرنے کو حلال قرار دیتے ہیں]

ابن تیمیہؒ (متوفی: ۷۲۸ ھ) کہتے ہیں:
[یہ(خوارج) مسلمانوں پر شرکے معاملہ میں سب سے بڑھ کر ہیں، مسلمانوں پر خوارج سے زیادہ ضرر پہنچانے والا کوئی گروہ نہیں ہے؛ یہود و نصاری بھی نہیں ہیں، کیونکہ یہ(خوارج) ہر اس مسلمان کو قتل کرنے کی سعی کرتے ہیں جو ان کی موافقت نہیں کرتا، وہ مسلمانوں کے خون بہانے اور(ناحق) لوٹنے اور اُن کی اولاد کے قتل کو حلال قرار دیتے ہیں اور اُن سب کی تکفیر کرتے ہیں، اور یہ اپنی کثیرجہالت اور گمراہ کن بدعت کے پیشِ نظر اِس (تکفیر کرنےاورناحق خون بہانے) کو نیک اعمال میں گردانتے ہیں]

علمائے حدیث تو خوارج کے معاملہ میں بہت سخت موقف رکھتے تھے جیسا کہ امام بخاری، ابن عربی،قرطبی( المفہیم کے مؤلف)، سبکی،امام مالک اور دیگر علماءکی طرف سے بھی ایسا ہی (سخت موقف) بیان کیا گیا ہے۔

علامہ ابن قدامہ المقدسی( متوفی: ۶۲۰ھ) کہتے ہیں:
ہمارے اصحابِ متاخرین فقہاء کا قول اِن(خوارج) سے متعلق قول یہ ہے کہ یہ جابرظالم ہیں، ان کا حکم بھی ظالم کے حکم جیسا ہی ہے، اور یہ قول ابو حنیفہ،شافعی اور جمہور فقہاء کا بھی ہے اور کثیر علمائے حدیث کا بھی ہے۔ امام مالکؒ کی رائے یہ ہے کہ اِن کو توبہ کی دعوت دی جائے، اگر وہ اسے قبول نہ کریں، تو پھر انہیں قتل کر دیا جانا چاہیے، اور اِس قتل کی وجہ اُن کا فساد ہے نہ کہ اُن کا ارتداد۔ علمائے اہل حدیث کے ایک دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ خوارج کفار مرتدین ہیں ، اور ان کا حکم مرتدین کے حکم جیسا ہے یعنی کہ ان کا خون بہانا اور اموال لوٹنا حرام نہیں ہے۔ مزید براں، اگر یہ کسی جگہ پر جمع ہو کر خود کو مضبوط کر رہے ہوں اور ان کے پاس قوت وشوکت بھی ہو، تو پھر یہ اہل حرب (حربی) گردانے جائیں گے بالکل ویسے ہی جیسے محارب کفار سے جنگ کی جاتی ہے]

ایک اور جگہ علامہ ابن قدامۃ ایک مزید سخت موقف بیان کرتے ہوئے کہتےہیں:
[ اس معاملہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ خوارج کے خلاف قتال کی ابتداء کی جا سکتی ہے اور ان کے زخمیوں کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نبیﷺ کا اِن سے متعلق قتل کرنے کا حکم موجود ہے اور اُس شخص سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے جو اِن خوارج کو قتل کرے گا، جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہوتا ہے جب انہوں نے کہا: اگر آپ لوگ کے جذبات کی لہروں میں جوش پیدا نہ ہو، تو میں آپ کو اس چیز کا بیان کروں گا جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبانِ مبارک سے اِن خوارج کو قتل کرنے والوں کے لیے بیان فرمایا ہے، کیونکہ ان کی بدعت او ر بداعمالیاں اِس چیز کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کے خون بہانے کو جائز قرار دیا جائے؛ جس کی دلیل نبی ﷺ کا اِن کے گناہِ عظیم کی خبر دینا ہے، اور یہ خوارج مخلوق میں سب سے بدترین ہیں، اوریہ دین سے نکل جائیں گے، اور یہ جہنم کے کتے ہیں، اور رسول ﷺ نے اِن کے خلاف قتال کرنے تحریض دلائی اور اس چیز کی خبر دی کہ اگر وہ اُس وقت تک زندہ رہیں اور اِن خوارج کا تدارک کر لیں، تو وہ انہیں قومِ عاد کی طرح قتل کریں گے، اس لیے یہ بات جائز نہیں کہ ان خوارج کو ان لوگوں میں سمجھا جائے جن کو(قتال کرنے کے معاملہ میں) معاف کر دیا جائے گا، اور اصحابِ رسول ﷺسے کثیر تعداد نے اِن کے خلاف قتال سے اجتناب کیا ہے، اور اس میں کوئی بدعت نہیں ہے]

ہم یہ بات واضح کر دیں کہ ہم یہ اپنی آراء بیان نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی ایک رائے کی طرف جھکاؤ رکھ رہے ہیں بلکہ آپ کے سامنے فقط وہ تمام آراء جوعلمائے اہل سنت کی طرف سے نقل ہوئی ہیں، اُس کو بیان کر رہے ہیں تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ امت پر خوارج کا فرقہ کتنا خطرناک ہے! ہم اس بات کی بھی وضاحت کرنا چاہیں گے کہ خوارج کے خلاف قتال کے وقت اُن کو قتل کرنا جب کہ وہ خود کو مضبوط ومنظم کر رہے ہوں یا کسی حملے کی تیاری کر رہے ہوں کا معاملہ اُن کے کسی قیدی پر قدرت پانے کے بعد قتل کرنے سے مختلف ہے کیونکہ اِن کے قیدیوں سے متعلق علماء میں دو رائے پائی جاتی ہے کہ اِن (خوارج)کے قیدیوں پر قدرت پا لینے کے بعد قتل کیا جانا چاہیے یا نہیں!

(۲)
تمام بدعتی فرقے شروع میں ایک محدودفکر سے شروع ہوتے ہیں، یا پھر جیسا کہ اصحاب اصول اسے بیان کرتے ہوئے’کلّی اصل‘ کا نام دیتے ہیں، پھر وہ پھلتی پھولتی ہے، اور اس سے مزید فروع اور شاخیں مختلف طریقے سے سامنے آتی ہیں، حتی کہ بعض یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ اس فرقہ کا اصل فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے یا اس کے برعکس بھی گمان کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں، یہ ذیلی فرقے آپس میں بھی بحث ومباحثہ کچھ امورپر کرتے ہیں، بلکہ خوارج کے فرقے کا معاملہ یہاں تک گیا کہ بعض خوارج کے فرقوں نے دوسرے خوارج کے فرقوں کی تکفیر کی، اور بعض فرقوں نے ایک دوسرے سےبھی قتال کیا۔ یہاں خوارج کی ایسے بھی فرقے ہیں جو اِس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ وہ خارجی ہیں! جیسا کہ فرقہ اباضیہ کا معاملہ ہے جو کہ خود فرقہ خوارج میں سے نہیں سمجھتے! جبکہ اس بات سے اُن کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ فرقہ ازارقہ میں سے نہیں ہیں، یہ وہ لفظ ہے جوخوارج کی اصطلاح کے طور پر پہلی صدی ہجری کے نصف تک مستعمل رہا، پس جب اُن کو خوارج کہا جاتا ہے تو وہ اِس سے فرقہ ازارقہ،نجدات اور محکمِ اولیٰ میں مستعمل اصطلاحات کو مراد لیتے ہیں، اس لیےفرقہ اباضیہ کا یہ قول صحیح ہے کہ وہ اپنی اساس لے لحاظ سے عملی طور پر فرقہ ازارقہ نہیں ہیں! لیکن وہ خوارج کے فرقہ میں ضرور داخل ہیں! پھر اس کے بعد یہ فرقہ بھی مزید تقسیم ہوا اور مزید ذیلی فرقے اِن سے سامنے آئے۔

(۳)
فرقہ حروریہ(خوارج) سے متعلق جامع متفق بنیادی اصول یہ ہے، جو کہ ان خوارج فرقے کی اصل ہے، اس سے قبل کہ ہم ان کے مزید فرقوں کے اعتقاد کی طرف جائیں، وہ بنیادی اصول یہ ہے[مسلمانوں کی تکفیر ایسے اصولوں کی بنیاد پر کرنا جو اہلسنت والجماعت کے نزدیک کفر نہیں ہے، پھر اُس کے بعد اُن کے خون بہانے کو حلال جاننا اور اُن کے خلاف قتال کرنے کی غرض سے خروج کرنا] یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد اُن کے اصل فرقہ خوارج نے رکھی، جب انہوں نے سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا، اور سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کی تکفیر کی، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہروان اور حروراء کے مقام پر لڑے(اسی وجہ سے حروریہ کہلائے)۔ یہ بنیادی اصول کو پھر مزید وسعت دی گئی اور اُس میں مختلف صدیوں کے درمیان ترمیم ہو تی رہیں اور یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد پر تنظیم الدولۃ نے بھی جہالت کی بنیاد پر عذر دینے والوں کی تکفیر کی ہے۔

(۴)
نافرمانی اور کبائر گناہوں کی بنیاد پر تکفیر کرنا، جیسا کہ چوری، قتل، زنا وغیرہ، یہ خوارج کے خروج کرنے سے متعلق جامع صفت نہیں ہے، بلکہ یہ فروعی اختلافات تو اولین حروریہ(خوارج) کے ظاہر ہونے کے بعد کے زمانہ کے ہیں، جن کو حروریہ کے نام سے صحابہؓ نے متصف کیا،جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ام المومنین سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے روایت ہوتا ہے: [ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ کیا خواتین کو (حیض سے)طہارت حاصل کرنے کے بعد اپنی چھوڑی گئی نمازوں کی قضاء دینی چاہیے؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا: کیا تم حروریہ ہو؟ ہم رسول اللہ ﷺ کے وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھیں،انہوں نے کبھی ہمیں ایسا حکم نہیں دیا یا انہوں نے ایسا کہا کہ ہم ایسا نہیں کیا کرتی تھیں]۔ خوارج کے بیس(۲۰) سے زائد فرقہ ہیں ، اُن خوارج کے فرقوں نے سیدنا علیؓ کی بھی تکفیر کی کیونکہ انہوں نے ایک شخص کی تحکیم کو قبول کیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ انہوں نےاللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔

اور اسی طرز پر فرقہ تنظیم الدولۃ سرزمینِ شام میں موجود اسلامی جماعتوں پر یہ تہمت لگاتی ہے کہ یہ حدود کی تطبیق نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں یا یہ صحوات ہیں، اس لیے یہ مرتدین ہیں! بجز اس کے یہ فرقہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ علمائے سنت کے درمیان دار الحرب کے اندر تطبیقِ حدود کے درمیان بھی اختلاف ہے!! نجدات (فرقہ خوارج) نے ازارقہ(فرقہ خوارج) کی تکفیر اس بنیاد پر کی کیونکہ ازارقہ نے قعدہ فرقہ(جو لوگ ازارقہ کے ساتھ جہاد نہیں کرتے) کی تکفیر کی تھی! اسی طرح نجدات فرقہ کی تکفیر عطویہ(فرقہ خوارج) نے اس بنیاد پر کی نجدات احکامات کی تطبیق میں جہالت کا عذر دیتے تھے!

جو کوئی بھی فرقہ قعدۃ کی رائے کو دیکھے گا تو یہ گمان کرے گا کہ یہ خوارج کے فرقہ میں سے نہیں ہیں کیونکہ وہ ایسا گروہ تھا جو (خوارج) کی نصرت کرنے سے دور رہا، اور انہوں نے امیر المومنین سیدنا علیؓ کے خلاف بھی قتال نہیں کیا، اور وہ تحکیم کے معاملہ کو بھی حق بجانب سمجھتے تھے سوائے یہ کہ انہوں نے لوگوں کے خلاف خروج نہیں کیا۔ نجدات(فرقہ خوارج) نے فرقہ قعدۃ کی تکفیر نہیں کی لیکن نافع بن الازرق(فرقہ ازارقہ کا بانی) نے اُن کی تکفیر کی؛ حالانکہ وہ خود بھی خوارج کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جتنے بھی ذیلی فرقے تھے وہ ایک دوسرے سے کسی نہ کسی رائے سے ممتاز ہوتے رہے، لیکن اِس کے باوجود وہ تمام کے تمام کو ایک ہی عنوان خوارج یاحروریہ یا شراۃ یا غالیہ (غالی) کے تحت رکھا گیا! ان خوارج کی کسی بھی شکل میں خوارج سے متعلق اصل بنیادی قول یہ ہے جو کہ علامہ ابو الحسن عشری (متوفی: ۳۲۴ھ) نے بیان کیا : [خوارج کے عقائد کی اصل بنیاد وہ ازارقہ،اباضیہ، صفریہ، نجدیہ کے اقوال ہیں، اور باقی قسمیں سوائے ازارقہ اور اباضیہ کے، وہ فرقہ صفریہ کی فروع میں سے ہیں]

اس کو بیان کرنے کے بعد ہم اِس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ بات لازم نہیں ہے کہ اہل علم کےفہم کو جمود کی طرف لے جایا جائے اور حروریہ کی صفت کو صرف گناہ ِ کبیرہ کی بنیاد پر تکفیر کرنے والوں یا نہ کرنے تک محدود کر دیا جائے! یہ بہت بڑی منہج میں غلطی ہو گی! بلکہ اِس فرقہ خوارج کی اصل بنیاد یہ ہے کہ یہ ایسے اعمال کو ارتداد سمجھتے ہیں جو اصل میں گناہ نہیں ہوتے، چاہے وہ معصیت میں سے ہوں یا نہ ہوں، پھر اس کے بعد یہ اپنے فاسد قواعد کی بنیاد پر اس فاعل کی تکفیر کرتے ہیں، اور ناحق خون بہانے کا حلال قرار دیتے ہیں،اپنی تلواروں کو بلند کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں۔

(۵)
خوارج کی صفات میں سے ایک اصل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف خروج قتال کی غرض سے کرتے ہیں، جیسا کہ عہدِ علیؓ میں واقع ہوا تھا، اور ایسا ہی خوارج سے متعلق حدیثِ رسول ﷺ میں بیان ہوا ہے کہ (یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے)، پس جو کوئی بھی خوارج کی طرف نسبت کرے لیکن قتال نہ کرے، اس کے باوجود بھی خوارج کی اصلی صفت سے علیحدہ نہیں ہو گا، اور وہ ہے کہ ایسی چیز کی بنیاد پر تکفیر کرنا جو اصلاً کفر نہیں ہے، پھر اس کے بعد اُس بنیاد پر قتال کرنا،جیسا کہ حدیثِ صحیحہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اِن کی صفات بیان ہوئی ہیں۔

(۶)
اختلاف اور انحراف کا ہونا بدعت کی وجہ سے ایک قدرتی عمل ہے، کیونکہ بدعت ہمیشہ ہوائے نفس کے تابع ہوتی ہے، جو شخصیت کی پیروی کرتی ہے نہ کہ اس کی بنیاد راسخ العقدۃ منہج پر ہوتی ہے۔

(۷)
یہ بدعت ارتقاء کے منزال طے کرتی ہے حتی کہ عہدِ حاضر میں بھی یہ عمل جاری ہے، غفلت میں سے ایک بات یہ ہو گی کہ ہم یہ خیال کریں کہ جو فرقے کتبِ تاریخ میں ذکر کیے گئے ہیں صرف وہی اصل بدعتی فرقے ہیں اور کسی دوسرے فرقہ کو اُن کے منہج کے ساتھ منسوب نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ جو نام ان فرقوں سے متعلق موجود ہیں جیسا کہ طربانی، ابن حزم، شھرستانی، بغدادی اور دیگر کتب میں بیان ہوئے ہیں کے علاوہ کسی دوسرے فرقے کا ظہور نہیں ہو گا۔ مثلاً فرقہ معتزلہ، اس کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی کہ عقل شریعت پر فوقیت رکھتی ہے، پھر اس فکر نےدوسری صدی میں ارتقاء کرتے ہوئے اپنے نئے پانچ اصول وضع کر لیے، چونکہ منہج وفکر کی موت اُن کے بانیوں کی موت سے واقع نہیں ہوتی، پس عہدِ حاضر میں یہی فکر مختلف ’فارم‘ اور ’افراد‘ کے اندر پھر سے واقع ہوئی ہے، جو اپنے اصل بنیادی فرقہ کی بنیاد پر ہی کھڑی ہے، جس کا پہلابنیادی کلیہ یہ ہے کہ عقل شریعت پر فوقیت رکھتی ہے، اگرچہ کہ وہ اصل فرقے سے اختلاف رکھیں یا اس میں موجود بعض تفصیلات اور تقسیم سے متفق نہ بھی ہوں، مثال کے طور پر، بعض معاصرمصنفین جنہوں نے مدرسہ معتزلہ کو اپنایا کا معاملہ ایسا ہی ہے، بلکہ یہاں کچھ باقاعدہ مراکز ہیں جو اسی معتزلہ فکر کے ساتھ متفق ہیں جیسا کہ ’عالمی مرکز برائے فکرِ اسلامی‘ جو واشنگٹن میں موجود ہے۔

(۸)
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اِس فرقہ کی خصوصیات اِن کے اصلی بنیادی امور سے متعلق تھیں، اور اس سے متعلقہ دیگر شکلیں دوسرے فرقوں کی نشاندہی کے لیے ہیں۔ اس فرقہ خوارج کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ’یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور اہل شرک کو چھوڑ دیں گے‘؛ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے، اور یہ قرآن کو اس کے سطحی فہم پر ہی دیکھیں گے اور ’یہ قرآن اِن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘؛ اسے مسلم نے روایت کیا ہے(جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا مفہوم اِن کے دلوں میں داخل نہیں ہو گا)۔

جہاں تک دوسری صورتوں کا تعلق ہے، جس میں وہ سر کے بال منڈواتے ہیں اور عبادت میں ریاضت کرتے ہیں! تو یہ خصوصیات خوارج سے متعلق اہل سنت نے اضافی طور پر بیان کی ہیں، جو اِن کی اصل خصوصیت کے علاوہ ہیں، جیسا کہ سچائی اور امانت داری، لیکن جو اِن کا اصل بنیادی اصول ہے وہ کسی بھی خارجی (فرقہ) میں موجود ہونا چاہیے۔

جہاں تک دیگر خصوصیات کا تعلق ہے تو وہ وقت اور جگہ کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ مثلاً ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر کوئی جو اپنے بالوں کو نہیں منڈواتا وہ حروریہ(خوارج) نہیں ہو سکتا، یہ واضح جہالت ہو گی! رسول اللہ ﷺنے یہ خصوصیت اُن سے متعلق بیان کی جو ان کے عہد میں پہلے ظاہر ہوئے، اور یہی اِس کی غالب تفسیر سب (علماء)نے بیان کی ہے، مزید یہ کہ دولتِ خوارج اور اِن خوارج کا ظہور فقط مشرق کی طرف سے نہیں ہوا بلکہ مغرب سے بھی اِن کا ظہور ہوا، اس لیے رسول اللہﷺکا تمام خوارج کے لیے قیامت تک کے لیے سر منڈوانے کی صفت کو خاص کرنا ،ان فرقوں سے متعلق صحیح تشریح نہیں ہو گی۔

(۹)
جب ہم کسی گروہ کو کسی فرقہ سے منسوب کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے یہ فرقہ اُن تمام صفات کا حامل ہو گا جو ان کے اول فرقہ میں پائی جاتی تھیں، بلکہ اس نام کی تطبیق ہر اس فرقہ کے ساتھ کی جا سکتی ہے جو اس کی کچھ صفات رکھتے ہوں یا کلی طور پر تمام صفات رکھتےہوں، اور بعض دفعہ اس نام کا استعمال دوسرے فرقہ پر مجازی طور پر بھی کیا جاتا ہے، جس سے تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہےیا اصل نص کی طرف منسوب کرنا بھی مقصودِ نظر ہو سکتا ہے، اور اس کے لیے دلیل سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہاکی طرف سے بیان کی گئی بات ہے جو بخاری اور مسلم میں معاذۃ العدویہ کی طرف سے روایت ہوئی ہے۔[ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ کیا خواتین کو(حیض سے) طہارت حاصل کرنے کے بعد اپنی چھوڑی گئی نمازوں کی قضاء دینی چاہیے؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا: کیا تم حروریہ ہو؟ ہم رسول اللہ ﷺ کے وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھیں،انہوں نے کبھی ہمیں ایسا حکم نہیں دیا یا انہوں نے ایسا کہا کہ ہم ایسا نہیں کیا کرتی تھیں]۔ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے یہ سوالیہ خطابت کا انداز جب وہ حروریہ(خوارج) کے دور میں زندہ تھیں، اور جبکہ وہ اس بات کا علم رکھتی تھیں کہ اس نام کا کون حقدار ہے، ہمارے سابقہ نکتہ کی وضاحت کرتا ہے،جبکہ اُس عورت کا سوال تو حائضہ عورت کی نماز دہرانے سے متعلق تھا، پھر اُس شخص کا معاملہ کیا ہو گا جو کہ مسلمانوں کے خون کو حلال قرار دے اور انہیں مرتد ہونے کے شبہ پر قتل کرے؟

(۱۰)
غلبہ،پھیلاؤ، اختیار،تمکین، حکومت کسی کے منہج کے درست ہونے کے لیے لازمی دلیل نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے اعتقاد کے سالم ہونے پر دلالت کرتی ہے، بعض اہل بدعت نے مسلمانوں کے مختلف علاقوں میں مختلف تاریخی عہد میں حکومت کی ہے، جیسا کہ عہدِ خلافتِ عثمانی کے وقت میں خلیفہ مامون سے لے کر خلیفہ متوکل تک معتزلہ کی حکومت تھی! اسی طرح عبیدیہ اسماعیلیہ کی حکومت ڈھائی صدی تک محیط رہی۔ اسی طرح خوارج نے مشرق کے علاقوں پر حکومت کی اور عبداللہ بن وہب الراسبی کو اپنا امام بنا لیا اور اُس کی بیعت ازارقہ قطری بن الفجاء نے کی اور اسے امیر المومنین کا خطاب دیا!! اسی طرح خوارج کی کچھ ریاستیں مغربِ اسلامی میں اہل سنت کے کھنڈرات پر قائم کی گئیں، جب خوارج نے کچھ بربر قبائل کو قائل کر لیا، جو کہ حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے اور انہوں نے پھر اہل سنت کی قائم ولایتِ خلافت کے خلاف خروج کیا، اس طرح بربر قبائل کو مذہب خوارج صفریہ اور اباضیہ سے معرفت حاصل ہو گئی، اور پھر اِس منہج(خوارج) کو قبائل زناتہ،ہوارۃ، مکناسہ، مغراوہ وغیرہ نے قبول کیا، حتی کہ انہوں نے اپنی سلطنت کو مغربی صحراء اورکچھ پہاڑی علاقوں تک وسعت دے دی۔

الجزائر اور وسطی افریقہ میں، خوارج اباضیہ نے دولتِ رستیہ (۱۴۴ھ سے ۲۹۶ھ) کی بنیاد ڈالی جو کہ ڈھائی سال کی مدت تک حکومت کرتی رہی۔ اسی طرح دولتِ بنی مدرار (۱۴۰ھ سے ۲۹۷ ھ) جو صفریہ خوارج میں سے تھے نے حکومت کی، اور خوارج صفریہ خوارج اباضیہ کی نسبت بہت زیادہ شدت پسند تھے، اور انہوں نے مراکش کے شہر سجلماسۃ کو اپنا دارالحکومت بنایا۔

اس طرح خوارج صفریہ کی دولتِ برغواطۃ نے دو صدیوں تک حکومت کی! پھر یہ تمام ریاستیں ناپید ہوئیں، جب اُن کے مخالفین نے ان پر ضربیں لگائیں اور جب ان کے اعتقادات میں تبدیلی پیدا ہوئی اور یہ بہت سے خوارج کے عقائد سے دستبردا ر ہو گئے!

اس طرح اِن تمام دولتِ خوارج کا ظہور ہوا اور وہ پھر زوال کا شکار ہوئیں اور اُن کا اثر کچھ وقت بعد زائل ہو گیا! اور مذہبِ اہل سنت قائم و دائم رہا اور آج بھی اس فکری انحراف کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ کسی نے بھی یہ رائے پیش نہیں کی کہ خوارج اباضیہ کو جن کے پاس سلطنتِ عمان (کے احاطہ )میں دولت حاصل تھی یا جو زنجبار، الجزائر وغیرہ میں خوارج رہتے تھے! ان کو خوارج کی اصطلاح سے متصف نہ کیا جائے! حقیقت یہ ہے کہ سلطان قابوس بن سعید جو حاکمِ عمان ہے اس کا تعلق مذہبِ اباضیہ خوارج سے ہے، لیکن اپنے ہی منہج سے مخالفت کرتے ہوئے وہ خودسیکولر لادین ہے اور شریعت کے مطابق حکمرانی نہیں کرتا! پس وہ بھی باقی حکام کی طرح خود کو اہل سنت سے منسوب کرتا ہے، لیکن وہ سب سیکولر لادین ہیں جو اسلام کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے!

خوارج سے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ان کی تمام ریاستیں جن کی بنیاد ڈالی گئی وہ اہل سنت کے خون اور لاشوں کے اوپر قائم کی گئی! جس کی مثال بالکل اسماعیلیہ فرقے جیسی ہے جس نےرعب، دھمکیوں، قتل و غارت کے ذریعے عالم اسلام میں موجود بہت سے مسلمانوں کی قیادت کو نشانہ بنایا! آج وہ کہاں ہیں! وہ ایک قسم کا ناپید فرقہ بن چکا ہے جس کے امراء اب مغرب کے تابع ہیں اور اُن کے بعض امراء اقوامی متحدہ کے ادارے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں! تو پھر کیا اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم انہیں قرامطہ فرقہ کہنا چھوڑ دیں جن کامذہب اسماعیلی شیعہ مسلک کی بنیاد پر ہے ؟

اب جب کہ ہم اس مسئلہ سے متعلق ضروری ابتدائیہ بیان کر چکے ہیں، تو اب آئیں ایک نظر اِس تنظیم کی طرف ڈالتے ہیں جس کی قیادت ابراہیم بن عوادعراقی کر رہا ہے، ہم اس پر یہ بیان کرتے ہیں:

(ا)
تنظیم الدولۃ نے مسلمانوں کی تکفیر اس بنیاد پر کی ہے جو اصلاً کفر نہیں ہے،جس میں انہوں نے عمومی آیات کی تاویلات کی ہیں اور اُن سے متعلق عملی شبہات کا شکار ہوئے ہیں، پھر اُس کے بعد انہوں نے اہل اسلام کے خلاف قتال کیا اور اُن کو بدترین انداز سے قتل کیا! اِن سے متعلق تواتر کے ساتھ بیان ہوا کہ انہوں نے لاتعداد مجاہدین کو مذہب اور(مخالف) رائے کی بنیاد پر قتل کیا، مثلاً انہوں نےابو سعد الحضرمی،ابو خالد السوری، ابو محمد فاتح اور دیگر سینکڑوں مجاہدین کو قتل کیا، خصوصی طور پر شام میں اور لوگوں نے ان کے جرائم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

(ب)
تنظیم الدولۃ نے نصیریوں اور روافض کے خلاف قتال ترک کیا اور اعلان کیا کہ ’مرتدین‘ سے قتال اِن نصیریوں اور روافض سے قتال پر فوقیت رکھتا ہے۔ انہوں نے پہلے دیر الزور کے گاؤں میں دہشت پھیلائی، اور قبیلہ شعیطات کو دربدر کیا، اور اُن کی لاشوں کا مثلہ کیا، جیسا کہ انہوں نے کبھی اہل شرک کے ساتھ وہ معاملہ نہ کیا، اور اہل ِ شام پر مصائب وآلام کو دیگر (علاقوں)کے مقابلہ میں مخصوص کیا، یہاں تک کہ یہ مقولہ بھی نقل ہونے لگا کہ ان کی بعض قیادت کے اندر بعثی عراقی خفیہ طور پر داخل ہو گئے ہیں۔

(ج)
ہمیں اس چیز کا یقین ہے کہ ان کے اپنے اعمال کی بنیاد پر اِن کے اندر اولین خوارج کے اصول و ضوابط کی اصل بنیاد موجود ہے، جیسا کہ عہدِ علیؓ کے خوارج میں موجود تھیں۔

(د)
ان کی طرف سے تواتر جھوٹ، بہتان، تقیہ،اخلاقِ رزیلہ سامنے آئے ہیں، جیسا کہ ان کے بڑے عدنانی نے شیخ ڈاکٹر ایمن الظواہری پر جھوٹ اور بہتان باندھا اور خود کو شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی طور منسوب کیا، حتیٰ کہ ہم پریہ بھی واضح ہو گیا اور باقی افراد پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ انہوں (شیخ اسامہؒ) نے اِن(تنظیم الدولۃ) کی مخالفت کی تھی اور ان سے متعلق تنبیہ کی تھی اور انہوں(شیخ اسامہؒ) نے عرب انقلابات کی پزیرائی کی تھی جس کویہ تنظیم ارتداد سمجھتی ہے! اِن صفات کی وجہ سے یہ اپنے اسلاف خوارج سے بھی مخالفت پر ہیں، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہو گا کہ انہیں اس صفتِ حروریہ (خوارج) سے متصف نہ کیا جائے، بلکہ یہ تو سابقہ خوارج کی نسبت ذلالت اور سفلہ پن میں اُن سےبھی بڑھ کر ہیں۔

(ہ)
ان کی طرف سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انہوں نے ان علماء پر خروج کیا ہے جن کے بارے میں ہم یہ گمان رکھتے ہیں کہ نہ وہ تبدیل ہوئے اور نہ ہی بدلے ہیں، اور ہم اُن کو اسی طرح علمائے ربانین میں گردانتے ہیں، جس پر تنظیم الدولۃ نے دلیل یہ پیش کی [ہم بھی انسان ہیں، جس طرح یہ(علماء) انسان ہیں] اور اصل بات ’اتباعِ دلیل‘ ہے، یہ بات بھی اُن کی طرف سے بیان ہوئی جنہوں نے ایک کتاب بھی کھول کر نہیں دیکھی،بجز یہ کہ اُس کو پڑھ کر دیکھا ہو، یا اس کو سمجھا ہو، یا اس سے مستفید ہوئے ہوں! یہی باتیں اُن کی طرف سے انحراف کا باعث بنی ہیں، جس میں سب سے اوپر اِن کا سربراہ ابراہیم بن دعواد ہے،جس کو کوئی بھی دینی علم،مقالات یا کتب کے ذریعے نہیں جانتا، بلکہ یہ نام توشیخ ابو عمر بغدادی کے ایام میں بھی نہ سنا گیا تھا حتی کہ(بعد میں) یہ اس جماعت کے ساتھ منسلک ہو گیا! پھر اس کے بعد اِن کا ترجمان عدنانی ہے! جو کہ اپنے نام اور کام کی وجہ سے مجہول ہے، خصوصی طور پر اس عجیب و غریب ترجمہ کے بعد جوالدولۃ کے متبعین میں سے کسی نے(اس سے متعلق) لکھا ؛ مرجیہ خوارج!
الغرض،

اول:
ہم پر یہ بات ثبوت،دلائل، تحقیق اور انصاف پسند شہادت دینے والوں سے پچھلے سال سے اب تک یقین کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ تنظیم دولتِ اسلامیہ عراق و شام نے، جس نے حالیہ ہی خلافت کا دعوی کیا ہے، نے بہت ہی منظم انداز سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، نہ کہ یہ کسی ایک فرد کی طرف سے کیا جانے والا جرم ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے شروع میں ایسا گمان رکھا تھا! جیسا کہ انہوں نے شام میں مجاہدین کی قیادت کےناحق خون کو بہانے کو حلال کیا اور جنہوں نے بھی اِن کی مخالفت کی، اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا، مثلاً

• ہسپتال میں داخل ہوئے جہاں پر محمد فارس کا علاج ہو رہا تھا، جو کہ احرار الشام کے ایک مجاہد تھے، اور ان کا سر چھری سے کاٹ دیا۔
• شیخ ابو سلیمان الحموی کو قتل کیا جو جندالشام کے امیر تھے
• ڈاکٹر ابو ریان کو تعذیب کا نشانہ بنایا اور اُن کا قتل کیا جو کہ احرار الشام سے تعلق رکھتے تھے
• رقہ شہر کے جبھۃ النصرہ کے امیرابو سعد الحضرمی کو قتل کیا
• جبھۃ النصرہ کے قائد ابو حذیفہ المشھدانی کو گھات لگا کر قتل کیا
• اہل سنت مجاہدین کی قیادت میں سے شیخ ابو خالد السوری جوقیادتِ احرار الشام میں سے بھی تھے کو قتل کیا
• والی ادلیب ابو محمد، ان کی زوجہ اور بچوں اور دیگر افراد جو گھر میں موجود تھے، اُن کو قتل کیا
• علاقہ مرکدۃ اور دیگرعلاقوں میں قتلِ عام کیا
• مسلمانوں کو تعذیب کا نشانہ بنایا، جس میں خصوصی طور پر مجاہدین کی قیادت شامل ہے، اور بعض شرعی رہنماؤں کے ساتھ بھی یہ سلوک کیا، اور پھر انہیں ذبح کیا اور ان کے سروں کو کاٹ دیا!
• اور اس کے علاوہ بھی بہت جرائم ہیں جن کا انہوں نے ارتکاب کیا، جس میں سے کچھ کو ہم نے اِس بیان کےضمیمہ کا حصہ بنایا ہے، اور جن اعمال کی بنیاد پر مسلمانوں کی صفوف میں تفریق پیدا ہوئی،جس سے انہوں نے جہاد کو داغدار کیا اور اسلام کو مسخ کیا! ولا حول ولا قوۃ الا باللہ!

دوم:
ہم پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جماعت الدولۃ مسلمانوں کو قتل شک و شبہ اور منحرف تاویلات کی بنیاد پر کرتی ہے، اور ایسے بے بنیاد قواعد و ضوابط کی بنیاد پر تکفیر کرتی ہے جو اِن کے مخالفین نے آج تک کبھی قبول بھی نہیں کیے ہیں،ہم پریہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ جب اپنے مخالفین کے گاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو سوائے ناحق خون بہانے کے اور کوئی کام نہیں کرتے! اور جماعت الدولۃ نے ذبح کرنے اور سروں کو کاٹنے میں شہرت حاصل کر لی ہے بلکہ اِن کٹے ہوئے سروں کو عام چوراہوں پر لٹکاتے بھی ہیں جیسا کہ دیر الزور اور رقہ شہروں میں واقعہ ہوا اور جیسا کہ انہوں نے شعیطات قبیلہ کے ساتھ کیا اور ریف حلب شمال اور دیگر جگہوں پر بھی یہی کام کیا گیا۔

سوم:
ہم پر یہ بھی واضح ہے کہ تنظیم الدولۃ کے کارکنان ناپختہ کم عمر نوجوان ہیں جو کہ خونِ مسلم کی حرمت کے معاملہ میں تخفیف سے کام لیتے ہیں اور اسے بڑا معاملہ نہیں جانتے۔ یہ کسی بھی عالم کا احترام نہیں کرتے، نہ ہی اُس قائد کا احترام کرتے ہیں، چاہےوہ شخص تاریخی تجربہ ٔجہاد کی کاوش میں بہت آگے ہی کیوں نہ ہو ، چاہےاس کا علم کے معاملہ میں یا جہاد میں حصہ لینے میں کیسی ہی قدرو منزلت کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ ’دولت‘(جماعت الدولۃ) ان کے نزدیک ایک صنم (بت) کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، جس کا یہ احترام اور تعظیم کرتے ہیں! ان کی تمام ولاء (دوستی)تنظیم الدولۃ کے ساتھ ہے جو کہ اپنے آپ کو خلافت گمان کرتی ہے اور اِن کی تمام براء(دشمنی) اُن کے ساتھ ہے جو اِن کے خلیفہ کو بیعت نہیں دیتے، اِس سے قطع نظر کہ کسی شخص کی علمی حیثیت، تقوی اور جہاد کا مقام کیسا ہے!!

چہارم:
ہم پر یہ بات ثابت ہے کہ تنظیم الدولۃ کی قیادت جھوٹ اور افتراء سے کام لیتی ہے، اور جو بھی اِن کی مخالفت کرتا ہے اس کی بالواسطہ اور بلا واسطہ تکفیر کرتی ہے، جیسا کہ ان کے رسمی ترجمان نے اپنے بیان میں واضح کیا جس کا عنوان ہے [یہ ہمارا منہج نہیں تھا] (تاریخ: ۱۸ جمادی الثانی ۱۴۳۵ھ بمطابق ۱۸ اپریل ۲۰۱۴ء)؛ اس بیان کے رد میں میں ہم نے بیان نشر کیا جس کا عنوان تھا [اظہارِ برات اور دست برداری کا اقرار] (تاریخ:۱۹ جمادی الثانی، ۱۴۳۵ھ بمطابق ۱۹ اپریل، ۲۰۱۴ء)، اور پھر اس کے بعد جب تنظیم الدولۃ نے ایک اور بیان نشر کیا جس کا عنوان تھا [معذرت ، اے امیر القاعدہ]، اس سے متعلق رد بھی ہم نے اپنے ریڈیو اسٹیشن، المقریزی پر نشر کیا، اور اس سے متعلق کچھ عدد مقالات بھی لکھے۔

پنجم:
ہم پر یہ بات واضح ہے کہ ان کی خلافت جس کا اعلان انہوں نے پہلی رمضان، ۱۴۳۵ھ میں کیا ، ایک باطل خلافت ہے، اس سے متعلق بھی ہم نے رد میں بیان نشر کیا، جو مقریزی ریڈیو نے ۳ رمضان، ۱۴۳۵ھ کو نشر کیا اور اس سے متعلق متعدد مقالات اور مضا مین بھی دیگر فاضل مشائخ نے تحریر کیے، جس میں انہوں نے اِس خلافت کے دعوی کا جواب دیا، ہم نہیں سمجھتے کہ یہ خلافت مسلمانوں کے لیے رحمت اور سلامتی ہے! بلکہ ہم اس کو مسلمانوں کے اوپر دہشت گرد خلافت کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اِن کے بیعت یافتہ افراد کی جانب سےمسلمانوں کے دلوں میں اِن کا رعب بھی موجود ہے، اور جو کوئی اِن کی صف سے خروج کرے گا، اس کے سر میں صرف گولی ماری جائے گی! جیسا کہ اِن کے رسمی ترجمان نے پہلی رمضان کی تاریخ میں بیان کیا! اس بیان میں دھمکیاں اور وعید بھی سنائیں جو اس (نام نہاد خلافت) کی بیعت نہ کرے، جو پورے عالم میں موجود جماعتوں اور تنظیموں کو کی گئیں ، اگرچہ وہ جماعتیں حملہ آور دشمن کو ہی اپنے علاقہ میں کیوں نہ پچھاڑ رہی ہوں!منہج ِ خلافتِ بغدادی کے لحاظ سے ان کے پاس انتخاب کے لیے کوئی گنجائش نہیں، سوائے اِن کے خلیفہ کی بیعت میں داخل ہونے کے!

ششم:
ہم اس بیان کے ساتھ ضمیمہ بھی نشر کر رہے ہیں جو تنظیم الدولۃ کےاُن جرائم کو واضح کرتا ہے جو انہوں نے مسلمانوں اور مجاہدین کے خلاف سرانجام دیے، جس سے اِن کے مسلمانوں کوذبح کرنے کے منہج کے ثبوت ملتے ہیں، جو کہ رسول اللہﷺکے اِس فرمان کی خوارج سے متعلق تصدیق کرتا ہے [یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے] الغرض، غالب اکثریت جن کو یہ قتل کرتے ہیں وہ اہل اسلام ہیں، اگرچہ یہ کبھی کبھار کفار کے ساتھ بھی محاذوں پر قتال کرتے ہیں۔

ہفتم:
اس جماعت کی سیاست وہ سیاستِ حروریہ جیسی ہے،اور یہ قرامطہ کے نہج کی پیروی بھی کرتے ہیں، اور جماعت قلعہ ’موت‘ کے ساتھ بھی مطابقت رکھتے ہیں، جن کو تاریخی طور پرحشاشین کے لقب سے پکارا جاتا تھا، جو فدائیوں کے دستے رکھتے تھے! یا ’انغماسیین‘(فدائی) کی اصطلاح بھی اب تنظیم الدولۃ کے دستے استعمال کر رہے جو انتقامی کارائیوں کے ذریعے مومنین کے دلوں میں رعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں! ان انغماسی(فدائی) دستوں کو یہ مسلمانوں کی صفوف اور قیادتِ مجاہدین کو گھات لگا کر قتل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس میں یہ خود کش بمبار کا کام کرتے ہیں، اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں جن کا خون بہانا اللہ تعالیٰ نےحرام قرار دیا ہے، اور نہ ہی کوئی بچے ، عورت ، بوڑھے اِن کے دھماکوں اورخاموش اسلحے کی زد سے محفوظ ہیں، یہ تمام کام یہ اس دعوی پر کرتے ہیں کہ یہ(مجاہدین) صحوات مرتدین ہیں۔

ہشتم:
ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، ایسی گواہی جس سے متعلق ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں، کہ جو بھی اس تنظیم جو دولتِ اسلامیہ کے نام سے معروف ہے ، کے ساتھ الحاق اور منسوب ہوتا ہے، اُن کا منہج مذہب خوارج جیسا ہے، خصوصی طور پر مسئلہ تکفیر اور ناحق خون بہانے کے معاملہ میں۔

نہم:
ہم اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ چیزوں کو ان کی اصل صفت کے ساتھ ہی متصف کیا جائے، اور اس کی نسبت سے ہی ان کو نام دیےجائیں اور اسی سے پکارا جائے،جبکہ معاملہ حق کو ظاہر اور واضح کرنے کا بھی درپیش ہو، اور باطل کی نفی کی جائے اور اُسے ترک کیا جائے، جو کوئی ایسا نہیں کرے گا، اس نے لوگوں کے سامنے حق کو نظرانداز کیا اور لوگوں کی گمراہی کا سبب بنا!

دہم:
ہم امت کو بھی تنبیہ کرتے ہیں، خاص طور پر علماء اور داعی حضرات کو کہ وہ اس منحرف فکر کو نشر کرنے سے گریز کریں، نہ صرف تنظیم الدولۃ کے انصاران کے درمیان، بلکہ دیگر جماعتوں کے درمیان بھی،جو کہ اہل سنت کے صافی عقیدےکوڈھانے کا سبب بنے گا اور حرکتِ جہاد کی کمزوری کا باعث ہو گا اور اُن کے اہداف کو منحرف کر دے گا۔ اس لیے سب پر واجب ہے کہ وہ ا س تنظیم کو ہر دعوتی منبر اور ذرائع ابلاغ کو بقدراستطاعت استعمال کرتے ہوئے اِن کے باطل کو رد کریں۔

یاز دہم:
ہم تنظیم الدولۃ کی قیادت کو کہتےہیں کہ فکرِغلو اور منہجِ خوارج سے توبہ کریں جن کو انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اور اُن کو اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ وہ خوارج ہونے سے انکار کریں کیونکہ اباضیہ خوارج اور دیگر بعض خوارج کے فرقوں نے بھی اس بات سے انکار کیا کہ وہ خوارج ہیں! ہم انہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی طرف بلاتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ناحق خو ن بہانے سے توبہ کریں، اور لوگوں پر کیے گئے ظلم سے متعلق صاحبِ حق کے حقوق کو واپس لوٹا دیں ، ہمیں انہیں اِس بات کی طرف بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ ناحق خونِ مسلم سے متعلق شریعت کے تحاکم کی طرف آئیں، جس کو انہوں نے اور اُن کے انصاران نے بغیر حق کے بہایا ہے۔ اور ہم جو بات بیان کر رہے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ گواہ ہیں۔

ہم اللہ تعالیٰ سے توفیق، رشد وہدایت کا سوا ل کرتے ہیں۔
کیا ہم نے پہنچا نہیں دیا! اے اللہ، آپ گواہ رہیے گا!

۲۹ شوال ۱۴۳۵ ھ بمطابق ۲۵ اگست ۲۰۱۴ء

ضمیمہ:
یہ ایک جامع لنک ہے جوخلافتِ بغدادی کےخوفناک جرائم کی نشاندہی کرتا ہے:
http://justpaste.it/gtdq

مقریزی ویب سائٹ پر بیان کا لنک:
http://www.almaqreze.net/ar/news.php?readmore=2505