JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کھل گیا بابِ عطا ‘اہلِ وفا کے واسطے
شیخ المجاہد ابو محمد الجولائی حفظہ اللہ
امیر جبہۃ النصرہ شام


الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وعلیٰ آلہ و صحبہ اجمعین ۔۔۔
امابعد:

شام کے مسلمانوں پر امریکہ کی قیادت میں نئے صلیبی حملے کے تناظر میں ، مسلمانوں کی نصیحت اور کفار کو خبردارکرنے کے لیے ہم اللہ کی توفیق سے یہ کہنا چاہتے ہیں:

بلاشبہ جس دن شام میں اسدی نظام کے خلاف مظاہرے اور مسلح جہاد کا آغاز ہوا اسی دن سے ہی امریکہ نے پورے شدو مد کے ساتھ جہادی عمل کو تاراج کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ابتدا ہی میں ‘جب کہ جبہۃ النصرۃ نے جماعت قاعدۃ الجہاد کے ساتھ الحاق کا اعلان بھی نہیں کیاتھا ‘اس کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیا گیا پھر اس کے بعد امریکہ نے امن کوششوں کے نام پر اہلِ شام پر مسلط کرنے کے لیے سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش جاری رکھی۔اس دوران میں جب مجاہدین کوفتوحات ملنی شروع ہوئیں تو مغربی فوجیں خاموش بیٹھی رہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ وہ ہمارے مددگار ہیں جب کہ فی الاصل وہ ہمارے لیے مرض الموت کی طرح مہلک ہیں۔یہ سارا ڈھونگ اس لیے رچایا گیا تاکہ شام کو ایرانی تسلط سے نکال کر مغرب کے تسلط میں دے دیا جائے۔لیکن متعدد اسباب سے واضح ہے کہ زمینی صورت حال اس سے مختلف ہے ۔۔۔

اسلام کا پاکیزہ جھنڈا شام میں لہرایا ، اس جھنڈے کے لہلہانے سے اہلِ اسلام کا وقار بلند ہوا اور اہلِ شام اس جھنڈے تلے متحد ہوکرمجاہدین کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔انہوں نے جان لیا کہ ظلم و ناانصافی سے نجات کا واحد راستہ اہلِ جہاد کا ساتھ دینے میں ہے ۔امریکہ کے لیے عسکری مداخلت کے راستے میں جو واحد رکاوٹ حائل تھی وہ کسی واضح جواز کا فقدان تھا لیکن وہی جواز اُن کے لیے ’تنظیم الدولۃ‘نے مہیا کر دیا۔

اسی طرح افغانستان و عراق سے امریکہ کی عسکری پسپائی ‘سیکھنے والوں کے لیے عبرت کے دروس سے بھری پڑی ہے ۔لیکن لگتا یہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس شکست سے کامل سبق نہیں سیکھا،وگرنہ وہ اس خطے کی طرف آنکھ نہ اٹھاتے جہاں چہار سو جہاد کاغلغلہ ہے ۔ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہاں اس درس کے کچھ پہلووں کی وضاحت کردیں جس سے غالباً وہ غافل ہیں شاید کہ اس جنگ میں کودنے سے پہلے ان کی عقل میں یہ بات آجائے کہ وہ ایک آتش فشاں کے دھانے پر کھڑے ہیں اور اگر انہوں نے اس پر ضرب لگائی تو اُس کا لاوہ انہیں بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔یہ خطہ جسے مشرقِ وسطیٰ کہا جاتا ہے اس وقت ایک ابلتے ہوئے آتش فشاں کی مانند ہے اگر کسی نے اس پر ہاتھ ڈالنے یا اس میں قدم رکھنے کی کوشش کی تو یہ سارا خطہ شدید بھونچال کی زد میں آجائے گا چاہے حملہ آور کتنی ہی بڑی بادشاہت یا طاقتور ملک کیوں نہ ہو، اس کی دو وجوہات ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ مغرب اب بھی ان مسلمان ممالک کی عوام کو ان پر مسلط حکمرانوں کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے جب کہ حقیقت میں عوام پر ان حکمرانوں کی گرفت کمزور ہو چکی ہے اور یہ حکومتیں نہ صرف اپنی رعایا کو قابو کرنے کی قدرت کھو چکی ہیں بلکہ عوام سے خوف زدہ بھی ہیں۔ ان کی غلامی اور خیانت ہر چھوٹے بڑے پر عیاں ہو چکی ہے کہ انہوں نے فقط دھوکے اور چال بازی سے اپنی کرسیوں کو بچا رکھا ہے ۔یہ سب حکومتیں اس وقت اسی خدشے کا شکار ہیں کہ کس وقت عوام کے ہاتھوں ان کے اقتدار کی آخری رمق بھی ختم ہوجائے اور خطے میں جدید مغربی یلغار کے آغازکے بعد ایسا ہی ہونے والا ہے ۔دروغ گو میڈیا کا دور چلا گیا جو جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو ان کے کٹھ پتلی ،فاسدو مرتد حکمرانوں کے بارے میں مطمئن کر دیا کرتا تھا۔نہ ہی سیکورٹی ایجنسیاں اب اس بات پر قادر ہیں کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر حکمرانوں کے خلاف آواز یا اسلحہ اٹھانے سے روک سکیں۔یہ افواج جن کی کمزوری کھل کر سامنے آچکی ہے ،مجاہدین کی ضربوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔اسی طرح ان علمائے سلطان کی طرف رجوع اور دلچسپی بھی ختم ہو چکی ہے جو اپنے بادشاہوں کی رضا کے مطابق حلال و حرام کے فتوے دیتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ آج حقیقی اسلام اس خطے کے عوام کی آواز بن چکا ہے ، جس کا مقدمہ مجاہدینِ صادقین ہیں۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اسلام !جو بہت ضعف کی حالت میں اٹھا اور پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسے اتنی قوت دی کہ اس نے مشرق و مغرب کی عظیم بادشاہتوں کو زیرِ نگوں کردیا۔آج مسلمان عوام شعوری طور پر اس تنازعے اور معرکے کی حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔یہ وہی قدیم تاریخی کشمکش ہے جو صدیوں سے حق و باطل کے مابین جاری ہے جس میں ایک طر ف یہود اور روم و فارس کی سلطنتیں ہیں اور دوسری طرف مسلمان ہیں۔موجودہ دورمیں بھی اورمستقبل میں بھی پیش آنے والے معرکے اسی کشمکش کاتسلسل ہیں،جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نصرت سے اہلِ اسلام کا پلڑا ہی بھاری ہوگا۔اس خطے پر قابض ان قوتوں کے مابین طاقت کی یہ تقسیم تین ہزار سال پرانی ہے اور تاریخ میں صرف اسلام نے ہی اس کو شکست دی ہے اور آج بھی اہلِ اسلام ہی اس جنگ کا نیا نقشہ کھینچیں گے۔عراق، شام اور لبنان میں فارس کی قدیم بادشاہت کے اعادے کی تیاری ہے اسی طرح خائن حکمرانوں کے ہاتھوں یمن ،خلیجی ریاستیں اور مصر ‘ روم(نصاریٰ) کے تسلط میں ہیں اور اردن و فلسطین پر یہود کا قبضہ ہے ۔ان میں سے ہر کوئی اپنے نفوذ کو بڑھانے اور تسلط کو وسعت دینے کی کوشش میں ہے۔ ان حالات میں صرف اہلِ جہاد ہی ہیں جنہوں نے ان کا راستہ روک رکھا ہے اور ان کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ جیسا کہ مجاہدین کی قوت روز بروز بڑھ رہی ہے اور عوام کی بڑی تعداد مجاہدین کے ساتھ شامل ہو رہی ہے ۔اس صورت حال سے یہ واضح ہے کہ اگر خطے میں مسلمانوں کے خلاف کسی جارحیت یا عسکری مداخلت کی کوشش کی گئی تو لبنان،اردن ،فلسطین،جزیرۃ العرب، یمن المدداور ارضِ کنانہ مصر ،مغربِ اسلامی اور مشرقی ایشیاکی اقوام کی طرف سے اس کے خلاف شدیدمزاحمت سامنے آئے گی۔

حالیہ تاریخ میں اس کے واضح دلائل کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ مغربی اقوام کو ان کی قیادت کی مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کی حماقت سے آگاہ کردوں۔بش بھی ایک دہائی پہلے بڑے تکبر سے طالبان کی حکومت گرانے کے لیے نکلا تھااور دس سال بعداوباما اپنی عوام کو یہ تسلی دے رہا ہے کہ ہم طالبان سے مذاکرات اور بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں۔جماعت قاعدۃ الجہاد جو امریکی حملے سے پہلے صرف افغانستان تک محدود تھی اب پاکستان ،یمن ،صومالیہ،مالی،الجزائر،عراق اور پھر شام تک پھیل گئی ہے اور ابھی حال ہی میں برصغیر کے لیے اس کی شاخ کا اعلان ہو گیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔جنگ رکی نہیں بلکہ وسیع ہو گئی ہے اور مجاہدین اللہ کے فضل سے مغرب کے حکمرانوں کی حماقتوں کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔اگر افغانستان پر حملے کے نتیجے میں جماعت قاعدۃ الجہاد کو اتنی ترقی نصیب ہو ئی ہے تو شام کی حساس جغرافیائی اور تاریخی حیثیت سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شام پر امریکی حملے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔اگرچہ ہمیں کچھ آلام ومصائب برداشت کرنے پڑیں گے لیکن ان شاء اللہ مغرب‘ شام میں جو جنگ چھیڑنے جارہا ہے وہ ان کے لیے خسارے اور ہمارے لیے نفع کا باعث ہو گی۔اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِن تَکُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّہِ مَا لاَ یَرْجُونَ وَکَانَ اللّہُ عَلِیمًا حَکِیمًا(النساء:۱۰۴)
’’اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو تو اسی طرح وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں اور تم اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا (اور)بڑی حکمت والا ہے ‘‘۔

اگر مغرب ‘دور سے یا اپنے غلاموں کے ذریعے ہمارے خلاف لڑائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ اس جنگ کے اخراجات اس حد تک ناقابلِ برداشت ہو جائیں گے کہ انہیں پلٹ کر آنے میں مزید سو سال لگیں گے۔اے امریکہ اور یورپ کے عوام !مسلمانوں اور مجاہدین کے خلاف تمہاری یہ جنگ تمہارے ملکوں اور بیٹوں کے لیے مصائب و آلام کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرے گی ۔ کیا تم مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت ،ان کے ملکوں پر غاصبانہ تسلط،ان کے وسائل کی لوٹ مار اور خطے میں یہود کی پشتی بانی کے نتائج بھول گئے ہو؟کیا تمہیں افغانستان و عراق اور صومالیہ میں قتل و زخمی ہونے والے اپنے ہزاروں بیٹے یاد نہیں؟ کیا معرکہ گیارہ ستمبر اور ایس ایس کول کے احوال تمہاری نظروں سے ہٹ گئے ہیں اور خطے میں پھیلے ہوئے تمہارے وہ مفادات جو مجاہدین کے نشانے پر ہیں؟کیا تمہیں ان خود ساختہ جنگوں پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات کا علم نہیں جو تمہارے ملکوں میں آنے والے اقتصادی بحران کا سبب ہے ؟ خدشہ یہ کہ شاید تمہارے حکمران تمہیں اس دھوکے میں رکھیں کہ تمہاری فوجیں زمین پر نہیں اتریں گی اور وہ دور سے ہی بم باریاں کرتے رہیں گے اور تمہارے بیٹے مجاہدین کی ضربوں سے محفوظ رہیں گے۔نہیں بلکہ عنقریب یہ جنگ تمہارے ملکوں کے قلوب(مرکزی شہروں) تک پہنچے گی ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان اپنی سرزمینوں میں اپنے بچوں کو تمہاری بم باریوں میں قتل ہوتا دیکھتے رہیں اور تم چین سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو!یہ جنگ صرف تمہاری قیادت تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا بڑا حصہ تمہیں ہی لڑنا پڑے گا!اس لیے تمہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو اس جنگ کی مصیبتوں سے بچانے کے لیے اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہو جاؤ اور انہیں اپنے ملکوں اور گھروں پر جنگ کی تباہی مسلط کرنے سے روکو۔یاد رکھو! تمہارے یہ حکمران تمہارے سامنے یہی نقشہ کھینچنے کی کوشش کریں گے کہ ان کی یہ جنگ تمہاری حفاظت کے لیے ہے ۔خبردار رہو !اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ فَلِلّہِ الْمَکْرُ جَمِیعًا یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ وَسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ (الرعد:۴۲)
’’جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی (بہتیری) چالیں چلتے رہے ہیں سو چال(تدبیر) تو سب اللہ ہی کی ہے۔ ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ اور کافر جلد معلوم کریں گے کہ عاقبت کا گھر (یعنی انجام محمود) کس کے لیے ہے‘‘۔

شیخ اسامہ تقبلہ اللہ کی طرف سے تمہیں یہ تنبیہ کئی دفعہ پہنچ چکی ہے کہ مجاہدین کے ساتھ جنگ سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ تم ہمارے خطوں میں اپنی مداخلت مکمل طور پر ختم کردو،یہود کی حمایت اور پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا لو،مسلمانوں کے وسائل کی لوٹ مار بند کر دو اور ہمیں ہمارے حکمرانوں سے حساب برابر کرنے کے لیے چھوڑ دو تو ہمیں تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔اگر تم اپنے ملکوں تک محدود رہو تو مجاہدین اور مسلمانوں سے امن میں رہ سکتے ہو۔لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے حکمرانوں کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں اپنی نفرت بھرتے رہے تو پھر ہماری امت کی مائیں بھی تمہاری خبر لینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ،سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ اور شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ جیسے قائدین پیدا کرتی رہیں گی۔بے شک خطے کی جنگوں نے تمہارے مقابلے کے لیے ایسے ہزاروں نوجوان تیار کر دیے ہیں جنہیں جنگ سے کوئی خوف نہیں ہے ۔جو طیاروں کی بم باری سے الفت رکھتے ہیں ، ٹینکوں کو للکارتے ہیں ، دھماکوں اورتوپوں کی گھن گرج کے درمیان لڑتے ہیں۔ایسی نسلیں جنھیں موت سے عشق ہے اور جن کی زندگی کی سب سے بڑھ خواہش یہ ہے کہ ان کی قیمتی جانیں جہاد فی سبیل اللہ میں قربان ہو جائیں ۔مسلمانوں کے لشکر سے یہ تمہارا پہلا آمنا سامنا نہیں ہے ۔۔۔تم جانتے ہو کہ اسلام کے سپاہی جب تم سے قتال کر رہے ہوتے ہیں تو اپنے رب سے دعاگو ہوتے ہیں کہ تمہارے ہاتھوں قتل ہوجائیں۔یہی وہ جذبۂ ایمانی ہے جس سے تم محروم ہو ، جس کے سبب ہم نے پہلے بھی تمہاری روم و فارس کی سلطنتوں کو شکست دی اور یہود کو جزیرۃ العرب سے بے دخل کیا۔جس کی وجہ سے ہمارے قدم یورپ کے دروازے تک پہنچے اور ماسکو ‘اسی (۸۰)سال تک مسلمانوں کو جزیہ دیتا رہا۔۔۔اے ہمارے اہلِ شام!آپ کے صبر،باطل کے سامنے مزاحمت اور بشار کے مظالم کے مقابلے میں جفا کشی نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔آپ تین سال سے زائد عرصے سے بم باریوں میں اپنے گھروں کو تباہ اور بچوں کو قتل کروارہے ہیں اور دشمن کے ساتھ اس قتال میں لہو لہان ہیں ۔۔۔اہلِ سنت پر بربریت کی انتہا کر دی گئی ہے لیکن آپ نے تاریخ کے صفحات پر استقامت و ثابت قدمی کی ایسی مثال رقم کی ہے جسے نسل در نسل یاد رکھا جائے گا۔آپ نے ایسی جنگ کا بوجھ اٹھایا ہے جو دنیا کی کسی اور قوم پر پڑتا تو وہ نہ اٹھا سکتے اور اس سے آپ کے صبر ویقین میں ہی اضافہ ہوا ہے ۔بے شک یہ صلیبی اتحاد آپ پر اس لیے حملہ آور ہوا ہے تاکہ جابر نظام کے خلاف آپ کی فتوحات کے ثمر کو ضائع کر کے آپ کو دوبارہ بشار کی غلامی میں دے دے۔آپ سے صرف اس بات کا انتقام لیا جارہا ہے کہ آپ نے غلامی سے نجات کا حقیقی راستہ پہچان لیا ہے ۔انہوں نے آپ کے ساتھ مصر میں سیسی اور یمن میں آقا کے غلام منصور جیسا ڈرامہ رچانے کی کوشش کی لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل ، باطل و اہلِ باطل کے مقابلے میں آپ کے صبر و ثبات او ر معزز جہاد کی وجہ سے مغرب کی مکروہ خواہشات پوری نہیں ہو سکیں۔مغرب نے تین سال تک آپ کے جہاد کو ناکام بنانے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کیں،کبھی علاقائی حکومتوں سے تعاون کے ذریعے،کبھی آپ کے اور مسلمانوں کے خون کا سودا کرنے والے خائنوں کی حمایت کرکے اور کبھی اندر کے لوگوں کو خرید کر، تاکہ جدید صلیبی منصوبے کی تنفیذ کی جاسکے۔کبھی خاموشی و مہلت کا ڈھونگ رچا کر،کبھی کیمیائی بم باری کے جرائم پر دوغلی پالیسی اپنا کر !لیکن جب یہ سب حربے اور چالیں کارگر نہ ہوسکے تو یہ نیا صلیبی اتحادخود اس مہم کو سر کرنے کے لیے آیا ہے اور اس نے آپ کے جبہۃ النصرۃ کے بیٹوں اور بے گناہ عورتوں اور بچوں پر بم باری شروع کی اور ان کے گھروں کو زمین کے ساتھ ہموار کر دیا۔اے اہلِ شام! اللہ گواہ ہے کہ صلیبی اتحا دجن بم باریوں میں ہمیں ہدف بنا رہا ہے وہ نصیری نظام کے دفاع کے لیے ہمارے خط اور مورچوں کو کمزور کرنے کے لیے ہیں۔حلب کے میدان ہمارے رباط و قتال کے شاہد ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اس نقصان کا زیادہ اثر جبہۃ النصرۃ کی بجائے مقامی آبادی پر ہوگا۔اس لیے اے اہلِ شام! آپ کو چاہیے کہ اس معاملے میں سخت موقف اپنائیں اور مقامی لوگوں میں سے جو کوئی صلیبیوں کا ساتھ دے اس سے شدت سے نمٹیں۔اللہ کی قسم !ہمارا سب کچھ آپ پر قربان ہے اور ہم آپ کے دفاع کے لیے اپنا خون پیش کریں گے!۔۔۔بے شک اہلِ وفا کے لیے عطا کے دروازے کھل گئے ہیں!!!۔۔۔ولاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔۔۔ہمارا آپ سے وعدہ ہے کہ جبہۃ النصرۃ اللہ کے اذن سے اپنی پوری قوت کو بروئے کارلاتے ہوئے اللہ کے دشمن نصیری نظام اور اس کے حلیفوں کے خلاف لڑے گی۔ہم اپنا سب کچھ شام اور اہلِ شام اور یہاں موجود مہاجرین کے صلیبی حملے سے دفاع میں لگا دیں گے اور سارے دستیاب وسائل اس غرض کے لیے کھپا دیں گے۔میں میدان میں موجود تما م مخلص مجاہدین کے مجموعات کو یہ نصیحت اور تنبیہ کرنا چاہوں گاکہ اگرچہ جماعت الدولۃ نے آپ کے قائدین کو قتل کرکے اور آپ کے اموال پر قبضہ کرکے بہت ظلم و زیادتی کی ہے اور ہم شام کو جس شر سے بچانا چاہ رہے تھے ‘وہ اس کو شام میں لے آئی ہے اور سارے قضیے کے شرعی محاکمے سے بھی انکار کیا ہے ۔۔۔لیکن یہ سب کچھ آپ کو امریکہ اور مغرب کے بارے میں کسی دھوکے میں نہ ڈالے،کوئی اس معاملے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ نہ دے !جن کا مقصد حملے کے ابتدائی اہداف حاصل کرنے کے بعد شام میں لادین نظام یا نصیریوں کے ساتھ کوئی سیاسی سمجھوتہ کرناہے ۔لہٰذا جو کوئی جماعت الدولۃ کے مسئلے کو یا اس جیسے کسی اور مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اپنی حیثیت میں جو کچھ کر سکتا ہے کرے لیکن صلیبی اتحا د کا حصہ ہرگز نہ بنے۔ اللہ سبحان تعالیٰ کا فرمان ہے :

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ (المائدۃ:۵۱)
’’اے ایمان والو!یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گاوہ بھی انہی میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ ‘ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔

کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ مغرب اور امریکہ ،شام میں مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے آئے ہیں۔ یہاں پر ہی بشار گذشتہ تین سال سے بم باریوں اور کیمیائی ہتھیاروں سے اہلِ سنت کو قتل و ذبح کرنے اور اذیتیں پہنچانے میں مصروف ہے اور لاکھوں مسلما ن اس کے مظالم کی وجہ سے شہید اور زخمی ہو چکے ہیں لیکن یہ امن کے نام نہاد دعوے دار تماشا دیکھ رہے ہیں۔کیا یہ وہی نہیں ہیں جنہوں نے عراق و افغانستان میں ہمارے بھائیوں کا قتلِ عام کیا؟ جو یہود یوں کی مالی اور عسکری امداد کے ذریعے فلسطین میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں شریک ہیں۔وہی جنہوں نے یمن و صومالیہ اور وزیر ستان میں بم باریوں میں زمین کے پاکیزہ ترین نفوس کو شہید کیا۔اے ارضِ شام میں لڑنے والے مجموعات !یاد رکھیں کہ شرعی ،فطری اور تاریخی ہر حوالے سے یہ ایک قبیح ترین وصف ہے کہ کوئی اپنے ملک و حرمت پر حملہ آور دشمن کے ساتھ مل جائے ۔یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ کسی کے دل میں آئے کہ اگر وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مغرب سے مل جائے گا ،ان کے شر سے محفوظ رہے گا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیہِمْ یَقُولُونَ نَخْشَی أَن تُصِیبَنَا دَآءِرَۃٌ فَعَسَی اللّہُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِہِ فَیُصْبِحُواْ عَلَی مَا أَسَرُّواْ فِی أَنْفُسِہِمْ نَادِمِینَ (المائدۃ:۵۲)
’’ تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا)مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دَوڑ دَوڑ کے ملے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے۔ سوقریب ہے کہ اللہ فرح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے)پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایاکرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے‘‘۔

جیسا کہ نام نہاد خائن شریفِ مکہ نے خلافتِ عثمانیہ کے ظلم کو حجت بنا کر اس سے خلاصی کے بہانے برطانیہ اور فرانس کے تعاون سے بغاوت کی۔۔۔اس کا گمان تھا کہ وہ بڑااچھا کام کررہا ہے لیکن تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ کے لیے قبیح افراد میں لکھا گیا۔ اس کے آخری دور میں خلافتِ عثمانیہ کے ظلم کی جگہ یہود یوں کے مظالم اور معاہدہ بالفور نے لے لی جس کے بارے میں ہم ہر وقت اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ کب اس سے ہماری جان چھوٹے گی۔پھر جب برطانویوں نے اسے اس خسیس کام کے لیے استعمال کر لیااس کے بعد بمشکل ایک دن اس کی طاقت باقی رہ سکی۔۔۔لیکن ہم پہلے عراق پر برطانویوں اور شام پر فرانسیسیوں کے تسلط کی شکل میں اور پھر آج تک خطے میں امریکی تسلط کی صورت میں ب تک اس کی خیانت کو بھگت رہے ہیں۔۔۔گزشتہ سو سال سے ہماری نسلیں ذلت و رسوائی کی شکل میں اس کی قیمت چکا رہی ہیں۔

اب جب کہ سنجیدہ بنیادوں پر ان غلامی کے بادلوں کے چھٹنے کے اقدامات شروع ہو چکے ہیں تو کیا ہم پھر اسی قیدِقفس کی طرف لوٹ جائیں؟ ہرگز نہیں !ہمارے سمیت تمام مخلص اہلِ ایمان قطعاًفلسطین جیسے کسی سانحے کو دہرانے یا اسلام کے منصوبے کو ناکام بنانے کی اجازت نہیں دیں گے جس کے لیے ہم نے اور امتِ مسلمہ کے اور اہلِ سنت کے نمائندہ مجاہدینِ صادقین کی نسلوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا ہے ۔بلاشبہ آج اہلِ سنت کی مسلم اقوام اس فیصلہ کن تاریخی لمحے کے انتظار میں ہیں جب مجاہدینِ صادقین ان کو ذلت و رسوائی کی اس دلدل سے نکال لیں گے اور غلامی کی ان زنجیروں سے نجات دلائیں گے جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں ،جو مغرب کی مدد کا خواب دیکھنے والوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔ہم وہ لوگ ہیں جو کیسی ہی گردشِ ایام کا شکارہ ہوجائیں یا کیسے ہی مشکل حالات میں گرفتار ہوجائیں لیکن اپنی تاریخ ،شاندار ماضی اور اپنی بنیاد کو کبھی فراموش نہیں کرتے اسی کے لیے جیتے ہیں اور اسی پر جان دیتے ہیں اور اسی پر ان شاء اللہ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔

قُلْ ہَذِہِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اللَّہِ عَلَی بَصِیرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَ سُبْحَانَ اللَّہِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِین(یوسف:۱۰۸)
’’کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و برہان)سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی (لوگوں کواللہ کی طرف بلاتا ہوں)اور میرے پیرو بھی۔ اور اللہ‘ پاک ہے۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔

ہم علما ،طلبا،داعیان،ادیبوں ،شعراء اور ہر باصلاحیت صاحبِ قلم کو دعوت دیتے ہیں کہ اس جدید صلیبی حملے کے خلاف اہلِ شام کی نصرت کریں۔۔۔اپنے مجاہد بیٹوں کی حرمت کا دفاع کریں اور نوجوانوں کو تحریض دلانے اور ان کی رہنمائی کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

اے لبنان کے اہلِ سنت!وقت آپہنچا ہے کہ آپ اپنے شامی بھائیوں کا بھرپور ساتھ دیں۔اپنے دشمن حزب الشیطان سے برأت کا اظہار کریں جو دن رات آپ کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں ،جنہوں نے شام میں اہلِ سنت کو یرغمال بنا رکھا ہے اور بے دریغ ان کے بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں کو قتل کر رہے ہیں۔۔۔انہیں موقع ملنے کی دیر ہے جب وہ یہ ہی بربریت لبنان کے اہلِ سنت پر ڈھائیں گے ۔۔۔انہوں نے پچھلے عرب انقلاب کے بعد ہی دانت تیز کرنے شروع کر دیے تھے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو چودہ سو سال سے اہلِ سنت کے ساتھ انتقامی رویہ رکھے ہوئے ہیں اور انہیں اپنا اولین دشمن سمجھتے ہیں۔۔۔وہ حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی ایک نقطے پر ان کا سارا دین قائم ہے اوراسی جھوٹ کو وہ اہلِ سنت کے قتال کا جواز بناتے ہیں۔۔۔ دراصل یہ ایران کا وہ حیلہ ہے جو اس نے اپنی اس سلطنت کوواپس لینے کے لیے اپنایا تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے چھینی تھی۔۔۔۔

آج لبنان میں حزب اللہ کو شدید داخلی توڑ پھوڑ کا سامنا ہے اور جیسے جیسے یہ صورت حال آگے بڑھ رہی ہے اہلِ عقل اس سے خوف زدہ ہیں۔۔۔لیکن مسکین حسن نصراللہ نے شام میں نصیری نظام کی درگت اور مجاہدین کے ہاتھوں اپنے سیکڑوں لوگوں کے قتل سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی،نہ ہی اپنے ملک کے جنوبی علاقوں میں ہونے والے ریموٹ کنٹرول دھماکوں سے کوئی سبق سیکھا ہے ، نہ ہی عراق میں روافض کا حشر اس کو نظر آ رہا ہے! اسے ہر اس گروہ کے عبرت ناک انجام سے سبق سیکھ لینا چاہیے تھا جس نے اہلِ سنت کو ایذا دینے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے شام میں اہلِ سنت کے خلاف کارروائی کرنے پر مُصر ہے ،عرسال اور اس سے پہلے کے بہت سے واقعات ہر کسی پر واضح کرتے ہیں کہ لبنانی فوج حزب الشیطان کے امر کے تحت اور اسی کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے اور لبنان میں رافضی منصوبے کی تکمیل کے لیے بنائی گئی ہے۔

تو اے اہلِ لبنان !اپنے بیٹوں کو اس فوج سے دور رکھو جو تمہارے دشمن کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہے بلکہ انہیں مجاہدین کی صفوں میں شامل کرو جو عقیدے اور دین کے محافظ اور مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔

اے جبہۃ النصرۃ کے مجاہدین!تم نے جو کچھ کیا اللہ عزو جل اس پر تم سے راضی ہوگا اور تمہارا ذکرِ جمیل باقی رہے گااور جنت کے در تمہارے لیے کھلے ہوئے ہیں۔اے گروہِ مجاہدین اللہ کی مدد کرو وہ تمہاری نصرت کرے گا اور اللہ کے راستے میں قتال کرو اور اپنی جانوں کا احتساب کرو۔

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّہَ(آل عمران:۲۰۰)
’’اے اہل ایمان (کفار کے مقابلوں میں)ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور (مورچوں پر)جمے رہو اور خدا سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو‘‘۔

جان رکھو! اس کے بعد تمہیں ایسے کسی دشمن سے واسطہ نہیں پڑے گا ۔بے شک ہمارے اور ان کے درمیان اسی معرکے کا فاصلہ ہے۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ کے اذن سے ان کو مفلوج کرکے رکھ دیں گے،ان شاء اللہ۔۔۔خبردار !پیٹھ نہ پھیرنا کہ تمہیں اللہ عزوجل کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔

یہ صلیبی اتحاد آپ کو قتل کرنے اور آپ کے دین سے ہٹانے کے لیے آپ پر حملہ آور ہوا ہے ۔دنیا نصیریوں کے خلاف جنگ میں آپ کی اور اہلِ شام کی بے مثال قربانیوں کو دیکھ چکے ہیں۔۔۔بلا شبہ ہم نے اپنے بہترین نوجوان اور مرد میدانِ جنگ میں اتارے ہیں۔۔۔آپ سے انتقام صرف اس وجہ سے لیاجارہا ہے کہ آپ اہلِ سنت کا دفاع کررہے ہیں اورمجمع خلائق بن چکے ہیں!اب آپ کو ایک نیامعرکہ درپیش ہے جس میں صلیب کے غلام اور ان کے آلہ کار عرب کا کوڑا کرکٹ آپ کے مدِ مقابل ہے ۔۔۔اللہ کی قسم! بلاشبہ یہ تمہارے لیے[ترنوالہ] ہیں اور کبھی تمہارے اوپر غالب نہیں آسکتے۔

اے اہلِ اسلام! ان کے طیارے تمہیں خوف زدہ نہ کریں ،وہ تمہارے سامنے آنے سے ڈرتے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات ان سے بڑھ کر کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے ۔۔۔اے اہلِ ایمان!اے حاملینِ قرآن !تم میں سے جو کوئی مارا جائے گا ،ان شاء اللہ جنت میں جائے گا اور تمہارے دشمنوں میں سے جو کوئی مارا جائے گا اس کاٹھکانہ جہنم ہے کیوں کہ باغی ہرحال میں رسوا ہوتا ہے ۔میں آپ کو بشارت دینا چاہتا ہوں کہ یہ ان شاء اللہ فتح کی ابتدا ہوچکی ہے۔۔۔

وَمَکَرُواْ وَمَکَرَ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ (آل عمران:۵۴)
’’اور وہ [کافر]چال چلے اور اللہ تعالیٰ بھی چال چلا اور خدا خوب چال چلنے والا ہے‘‘۔

اے جبہۃ النصرۃ کے سپاہیو!عامۃالناس سے جڑ جاؤاور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔۔۔ان کی خدمت میں جُت جاؤ،ان سے انکساری سے پیش آؤ۔۔۔زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا،بچوں سے شفقت اور بڑوں کا احترام کرو،ان کی رائے کااحترام کرو اور مشورے کو قبول کرو۔۔۔جاہلوں کی جہالت سے بچو ،بے شک عوام میں حق کی غیبت ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے ۔۔۔جو لوگ آپ کے ساتھ جڑے ہیں ان پر بے جا سختی نہ کرو اور ان کی جان و مال کے تحفظ میں اور بھی محنت کرو۔۔۔ مہاجرین اور ان کے خاندانوں کے بارے میں مَیں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں! ہر انصاری کا فرض ہے مہاجر کے ساتھ مواخات قائم کرے ،اسے اپنے گھر میں پناہ دے اور اپنی جان سے زیادہ اس کی حفاظت کرے۔۔۔اہلِ علم اور علماکے وقار کا خیال رکھو اور حکماکی بزرگی کی حفاظت کرو۔۔۔معروف میں اپنے امرا کی سمع و اطاعت کرو۔۔۔میں تمہیں ظلم سے خبردار کرتا ہوں کہ ظلم تو قیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے۔۔۔لوگوں کی امانتیں ان کو ادا کرواور جو تم سے خیانت کرے اس سے خیانت نہ کرو۔۔۔حق داروں کو ان کا حق ادا کرو اور انصاف سے کام لو،کسی قوم کی دشمنی تمہیں عدل سے روکنے نہ پائے۔۔۔ حق سے جڑے رہو اور اللہ کے راستے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرو۔۔۔اپنے گناہوں پر اللہ سبحانہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔۔۔باطل کا جواب باطل سے نہ دو بے شک باطل حق سے ٹکرا کر ختم ہو جائے گا۔۔۔دیگر مخلص مجموعات کے ساتھ ہر خیر میں تعاون کرو اور اسلام اور توحید کی بنیاد پر اپنے مابین رابطے کو مضبوط بناؤ،اسی بنیاد پر دوستی و دشمنی کرو اور اسلام کے حکم پر مجتمع رہو۔۔۔صلیبیوں کے آلہ کار گروہوں سے خبردار رہو ،ان سے کسی قسم کا اتحاد نہ کرو۔۔۔اپنے دشمن کے مقابلے میں شدید ہو جاو،کسی جاسوس ،مخبر یا صلیبیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے سے کوئی نرمی نہ کرو۔۔۔اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے باہمی معاملات کی اصلاح کرو۔۔۔یاد رکھو! ہزیمت ہمیشہ دلوں کے آپس میں پھٹنے سے آتی ہے !غیبت کرنے والے اور چغل خور سے خبردار رہو۔۔۔کوئی جادوگر ایک سال میں اتنا فساد نہیں مچاتا جتنا چغل خور ایک لمحے میں مچا دیتا ہے ۔۔۔غلو سے بچو اور خوارج و مرجۂ کی فکر سے کوسوں دور رہو۔۔۔لوگوں کے درمیان ہمیشہ عدل سے فیصلہ کرو اور حالاتِ حاضرہ ،زمینی حقائق اور عوام کی صورتحال کی رعایت کرو۔۔۔متشابہات کی حدود سے دور رہو،جس معاملے کا علم نہ ہو اس میں کوئی رائے قائم نہ کرو۔۔۔مشکل حالات میں بھی خود اپنے لیے فتوے صادر نہ کرو بلکہ جس معاملے میں اشکال ہو اہلِ علم اور علما سے رہ نمائی حاصل کرو۔ فتح ہمیشہ صبر کے بعد ہی ملتی ہے اور تنگی کے بعد آسانی ہے ۔تمہارے رب نے اپنی کتاب میں تم سے یہ وعدہ کیا ہے

إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ(محمد:۷)
’’اے اہل ایمان ! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا ‘‘۔

اللہ کی قسم !مجھے اس آزمائش میں تمہارے لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم خیر اور بڑے درجات نظر آرہے ہیں۔

اے اللہ! ہمارے مقتولین کو شہدا کے درجات عطا فرما اور آخرت میں اپنے انعام یافتہ انبیاء ،صدیقین،شہدااور صالحین کے ساتھ اکٹھا فرما ،بے شک وہ بہترین ساتھ ہے ۔ان سے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کو ان کے نیک اعمال کی بہترین جزا عطا فرما، ان کے دلوں کو جوڑ دے ،قدموں کو ثبات اور کفار پر فتح عطا فرما۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ آمین

وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

منقول:
مجلہ نوائے افغان جہاد