JustPaste.it

عمر فاروق ؓ   کو کافر بطور کاتب بھی قبول نہیں

جب سیدنا ابو موسی اشعریؓ نے  ایک نصرانی کاتب مقرر کیا تو سیدنا عمرؓ نے انہیں سختی سے جھڑ کا حضرت ابو موسی اشعری ؓ ہی راوی ہیں کہ:

‘‘امیر المومنین سیدنا عمر ؓ انہیں  حکم دیا کہ وہ اپنا تمام لین دین ایک جلد میں لکھ کر بھیجیں ۔

ابو موسی اشعری ؓ کا ایک نصرانی کاتب تھا،جو یہ حساب کتاب لکھا کرتا تھا ۔ پس جب حضرت

ابو موسی اشعری ؓ نے اپنا حساب سیدنا عمر ؓ کے سامنے پیش کیا تو وہ حساب سیدنا عمر ؓ کو پسند آیا اور انہوں نے  کہا کہ یہ کاتب بڑی اچھی یاداشت اور مہارت رکھتاہے، ہمارےپاس مسجد میں ایک اور کتاب بھی پڑی ہے جو شام سے آئی ہے اس کاتب کو بلاؤ، تاکہ وہ کتاب بھی ہمیں پڑھ کر سنائے ۔ سیدنا ابو موسی اشعری ؓ نے فرمایا کہ وہ مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا سیدنا عمر ؓ نے دریافت کیا ، کیا وہ جنبی ہے، ابو موسی اشعریؓ نےکہا ، نہیں، بلکہ وہ نصرانی ہے آپ فرماتے ہیں کہ، یہ سن کر عمرؓ نےمیری ران پر مارا ،اور مجھے سخت ڈانٹ پلائی ، پھر فرمایا ،اسے نکال باہر کرو اور یہ آیت پڑھی

اے ایمان والو! یہود و نصاری کو دوست مت بناؤ  وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو بے شک وہ انہی میں سے ہوگا،بیشک اللّٰہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔(سورۃالمائدۃ۔۵۱)

یہ سن کر ابو موسی اشعری ؓ نے کہا کہ اللّٰہ کی قسم میں نے اسے دوست نہیں بنایا، وہ تو صرف کتابت کا کام کرتا تھا ۔سیدنا عمر ؓ نے فرمایا،کیا مسلمانوں میں تمہیں کوئی کاتب نہیں ملا تھا؟ جب اللّٰہ نے انہیں دور کیا تو تم انہیں قریب مت کرو ،اور جب اللّٰہ نے انہیں خائن قرار دیا ہے توتم انہیں  امین نہ سمجھو ، اور اللّٰہ نے انہیں ذلیل کردیا ہے تو تم انہیں عزت مت دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ابوموسی ؓ نے اس کاتب کو نکال دیا ’’۔(بہیقی نےاس واقعے کو انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے)(بحوالہ شمشیرِ بےنیام،شیخ ابو یحییٰ اللیبی شہیدؒ:صفحہ۴۳،۴۴)

لہذاٰ، اسلام ہمیں غیرمسلموں کے ساتھ اخلاق کے ساتھ رہنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے،لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم انہیں ایسے عہدے دینا شروع کر دیں کہ کل کو یہ اسلام کی سالمیت کے لئے خطرہ بن جائیں۔اس لئے اسلام نے ہر چیز کی حدود مقرر کی ہیں،اور اگر ہم ان حدود میں رہیں گے،تو ہی فائدہ ہے،لیکن اگر ہم حدود سے نکل کر اخلاقیات یا بھائی چارے کی اپنی کوئی حدود بنانےکی کوشش کریں گے،تو پھر دونوں جہانوں کی ذلت ہمارا مقدربن جائے گی۔

لہذا حضرت عمرؓ کا عمل ہی ہمارے لئے بطورِدلیل کے کافی ہے،لیکن چلیں میں بطور مثال ایک واقعےکو پیش کر دیتا ہوں تاکہ بات کچھ مزید سمجھ میں آجائے۔اگر آپ کے بڑے کوئی بزرگ زندہ ہوں ،جو کہ ہندوستان سے پاکستان بنتے وقت ہجرت کر کے آئے ہوں، ان سے پوچھ لیں ،یا تاریخ کی کتابوں میں بھی پڑھ لیں کہ تقسیمِ پاکستان سے پہلے جب اس بات کا امکان تھا،کہ کچھ دنوں میں پاکستان بن جائے گا،تو جن علاقوں میں مسلمان،ہندو اور سکھ ،اکھٹے رہتے تھے،ان علاقوں میں ہندوؤں اور سکھوں نے نہایت چالاکی سے یہ کیا کہ مقامی پولیس کے اپنے افسروں کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں سے یہ کہا کہ ،پاکستان بننے والا ہے،ہم لوگ بھی خوش ہیں،لیکن ہم یہ چاہتے ہیں،کہ یہاں کوئی خون خرابہ نہ ہو، اس لئے ہم بطورِ ضمانت کے اپنا اسلحہ مقامی تھانے میں جمع کروائیں گے،لہذاٰ،آپ لوگ بھی بطورِ ضمانت اپنا اسلحہ جمع کروائیں،تو مسلمانوں نے سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ہندو پولیس افسروں پر اعتماد کرتے ہوئے ،اپنا اسلحہ جمع کروا دیا، اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،کہ حضرت خالد بن ولیدؓ ،کفار سے جب جنگ کے دوران بات چیت کے لئےان کے دربار میں جاتے ہیں،تو وہ لوگ اسلحہ جمع کروانےکا مطالبہ کرنے لگے،تو خالد بن ولیدؓ نے تاریخی جملے ارشاد فرمائے کہ،یہ اسلحہ ہماری عزت ہے،مسلمان کی یہ شان نہیں ہے کہ کافروں کے آگے اپنا اسلحہ رکھ دے(بحوالہ کتاب، فتوح الشام)،لیکن برِصغیر کے مسلمانوں نے ان کافروں پر اندھا اعتماد کرنے کی غلطی کی، پھر کیا ہو ا،کہ ساری دنیا نے دیکھا کہ،جب تقسیمِ ہند ہوا،تو انہی ہندوؤں اور سکھوں  نے اپنا اسلحہ نکلوا کر مسلمانوں پر دھاوا بول دیا،اور مسلمان،جو پہلے ہی سادگی کی وجہ سے اپنا اسلحہ جمع کروا چکے تھے،خالی ہاتھ تھے،پھر جو مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی،وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

لہذا ،کفار کے حقوق اپنی جگہ،لیکن جو حدود شریعت نے ان کے حقوق کے لئے مقرر کی ہیں ،ہمیں بھی انہی حدود میں انہیں رکھنا چاہئے،نہ کہ ان کو ملک کا چیف جسٹس (رانا بھگوان داس)تک بنا دیا جائے،کہ مسلمانوں کے امور کے فیصلے کریں،جب حضرت عمر فاروقؓ کو ان کا کاتب تک ہونا منظور نہیں،تو چیف جسٹس،اور اسی طرح،فوج میں عہدے دینا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔باقی سمجھداروں کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔۔۔