JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق
کاتب /محمد فيزو
ٹویٹر/ @fezoo111


طرفین کو حسبِ معرفت جاننے کے بعد ہم بعض انٹرنیٹ تویٹس کو اس عنوان کے تحت نشر کرتے ہیں
[تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق]

القاعدہ اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ وہ امت کا ایک جزو ہے جو کہ امت کے داخلی اور خارجی دشمنوں سے جہاد کرنے پرکھڑی ہے؛
جبکہ دولۃ اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ وہ خود امت ہے، اور اسی کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی رکھتی ہے۔
....................
القاعدہ اس چیز کی کوشش کرتی ہے کہ خلافتِ راشدہ کی اقامت شوری کے منہج پر کی جائے،
جبکہ دولۃ اقامتِ خلافت کو تغلب کےاصول پر قائم کرنا چاہتی ہے،
دونوں فریقین نے اپنے مقالات کو اس پسِ منظرمیں عمل کے ذریعے وضاحت کی ہے۔
....................
القاعدہ کوشش کرتی ہے کہ تمام اسلامی قوتوں کے ساتھ مل کر مشترک ہدف کے حصول کی کوشش کی جائے،
جبکہ دولۃ یہ سمجھتی ہے کہ باقی تمام اسلامی قوتیں ان سے الگ ہیں،
جس کا سبب ان کا کسی تنازع سے متعلق خوف ہے یا کسی بہتر حکومتی منصوبے کا سامنے آنا ہے۔
....................
القاعدہ منہج میں اپنے مخالفین کے ساتھ کتاب اللہ کے ذریعے ہدایت پر قائم ہے،
اور دین کے دشمنوں کے خلاف وہ تلوار کے ذریعے نصرت کرنے کی قائل ہے،
جبکہ دولۃ کتاب اللہ کے ذریعے ہدایت فقط اپنے ماتحت لوگوں تک محدود رکھتی ہے،
اور اپنے مخالفین کے خلاف تلوار کے ذریعے نصرت کرنے کی قائل ہے۔
....................
القاعدہ امت کو جہاد کے ذریعے تحریض دلانے کی کوشش کرتی ہے، اور اس کے وجوب کو اجتماعی اور منفرد سطح پر واضح کرتی ہے،
دولۃ کسی بھی جہاد کو اپنی بیعت(جھنڈا اور امام) کی بیعت کے علاوہ درست نہیں جانتی جیسا کہ فرقہ جامیۃ وغیرہ اہل سنت سے مخالفت کرتے ہوئے یہی اسلوب رکھتےہیں۔
....................
القاعدہ کوشش کرتی ہے کہ امریکہ کے خلاف امت کا دفاع کیا جائے تاکہ وہ اسرائیل اور آلہ کار حکومتوں کی حمایت سے باز آ جائے،
جبکہ دولۃ اس کو جیسا کہ عدنانی نے کہا ویسے دیکھتی ہے کہ اگر تم ہمارے پاس نہیں آؤ گے، تو ہم تمہارے پاس آ جائیں گے، یہ فقط فتوحات کو خود سے منسوب کرتی ہے۔
....................
القاعدہ تب تک کسی کو قائد کے طور پر منتخب نہیں کرتی جب تک وہ طویل جہادی تجربہ سے نہ گزر جائے اور شریعت کا التزام نہ کرتا ہو،
جبکہ دولۃ اپنے قائدین کے انتخاب کو فقط اپنی بیعت کے ساتھ مخصوص کرتی ہے اور شریعت کی پابندی کو اپنی ولایت(بیعت) سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہے۔
....................
القاعدہ اپنے مخالفین کو پیغامات کے ذریعے نصیحت کرکے مخاطب کرتی ہے جیسا کہ شیخ اسامہؒ نے اپنے پیغامات میں حماس کو نصیحت کی۔
جبکہ دولۃ اپنے مخالفین پر تکفیر کے ذریعے مخاطب ہوتی ہے، جس طرح کہ عدنانی نے مرسی سے متعلق خطاب میں بیان کیا۔
....................
القاعدہ ہر نیک اورفاجر کے ساتھ جہاد کرتی ہے جیسا کہ افغانستان اور شام میں جہاد ہو رہا ہے،
جبکہ دولۃ کسی بھی جہاد کو اپنے بیعت کے علاوہ نہیں دیکھتی ہے، جس طرح کہ عدنانی نے(دولۃ کے مخالفین) سے متعلق کہا کہ گولیوں سے ان کے سروں کو خالی کر دو۔
....................
القاعدہ الولاء اورالبراء کے قاعدے کو تمام مسلمانوں کے ساتھ ان کےمختلف مراتب کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے ملحوظ رکھتی ہے ،
جبکہ دولۃ اسی کے ساتھ ولاء (دوستی)کرتی ہے جو اس کے ساتھ ولاء(بیعت) کرے اور ہر اس کے ساتھ دشمنی رکھتی ہے جو اس سے دشمنی رکھے اگرچہ وہ علمائے امت میں سے کیوں نہ ہوں۔
....................
القاعدہ کے ساتھ بہت سے علماء ہیں جو ان کی تائید کرتے ہیں، وہ کسی عالم پر بھی اس بات کو لازم نہیں ٹھہراتی کہ وہ ان کی تنظیم میں ضم ہوں، اور اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ سب علماء کے ساتھ رابطہ رکھا جائے،
جبکہ دولۃ کسی کو بھی عالم نہیں ٹھہراتی جب تک وہ ان کی تائید نہ کرے، اور اگر کوئی ان کے خلاف بات کر دے، تو اسے ترک کر دیتی ہے!
....................
القاعدہ اس بات کو کفر کے طور پر دیکھتی ہے کہ مسلمین کے خلاف کفار کی معاونت کی جائے، لیکن وہ بھی تب جب کہ وہ قطعی طور پر برہان اور ثبوت سے ظاہر ہو جائے، جیساکہ اسامہ بن لادنؒ نے بیان فرمایا،
جبکہ دولۃ ظن اور شبہات پر بھی تکفیر کرتی ہے۔
....................
القاعدہ مال کی وصولی کے لیے شریعت کی مطابقت کو ملحوظ رکھتی ہے اگرچہ مالی حاجت ہی کیوں نہ ہو ،
جبکہ دولۃ اپنی تنظیم کی مصلحت کے لیے اس کو جائز سمجھتی ہے، جیسا کہ موصل(عراق کا شہر) کے بینکوں پر غلبہ پا کر مال کی وصولی اور ٹیکسوں کے اجراءوغیرہ کے ذریعے مالی ضروریات کو پوراکیا گیا۔
....................

کاتب /محمد فيزو
مصدر:
http://justpaste.it/hh5f