JustPaste.it

دعوت کا اُسلوب اورمنہجِ جہاد کی حفاظت و فروغ

(بالخصوص انٹرنیٹ اور بالعموم سب داعیانِ جہاد کو مخاطب تحریر)

  استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ

 

 

 

بِسْـمِ اللہِ الرَّحْمٰــنِ الرَّحِـیْم

حرفِ اوّل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ألحمدللہ و کفیٰ و الصلاۃ و السلام علیٰ رسول اللہ، أمّا بعد

بفضل اللہ، داعیانِ جہاد اور بالخصوص انٹرنیٹ پر موجود دعوت ِ جہاد کی خدمت انجام دینے والے بھائیوں کو مخاطب شیخِ مکرم استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ کی تحریر ’’دعوت کا اسلوب اورمنہجِ جہاد کی حفاظت و فروغ‘‘، مجلّہ ’نوائے افغان جہاد‘ میں قسط وار شائع ہونے کے بعد یک جا، ایک کتابچے کی صورت میں پیشِ خدمتِ داعیان و مجاہدین ہے۔

حضرتِ شیخ استاد اسامہ محمود (مدّ ظلّہٗ ) اس تحریر میں خود فرماتے ہیں کہ:

’’ہم مجاہدین بھی ہیں اور داعیان ِ دین و جہاد بھی۔ بیک وقت قتال بھی ہمارا میدان ہے اور دعوت بھی۔ جو طاقتیں ہتھیار لےکر ہم پر نظامِ کفر مسلط کیے ہوئے ہیں ان کے خلاف ہتھیاراٹھاکر میدان قتال میں بھی ہم کھڑے ہیں اور امتِ مسلمہ کو ان ظالموں کے مقابل اس جہاد میں ساتھ کھڑاہونے کی دعوت بھی ہم دے رہے ہیں ۔ قتال کا میدان اپنے تقاضے رکھتا ہے اور دعوت کے اپنے لوازمات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے میدانِ قتال میں سختی کی ہے، خون بہایا ہے اور سر کاٹنے کٹوانے کی تحریض دی ہے مگر آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ شاہد ہے کہ دعوت کے میدان میں آپ کا مبارک اسوہ سختی نہیں ، نرمی ہے۔ ‘‘

ہم امتِ وسط ہیں، عدل کی راہ پر گامزن امتِ دعوت و جہاد…… اسی راہِ وسط و عدل کے متعلق استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے اس تحریر میں روشنی ڈالی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ دعوت کا مطلوب و مفید اسلوب کیا ہے ؟ اور وہ کیاطریقۂ دعوت ہے جو خود تحریک ِ جہاد کے لیے نقصان دہ ہے اور جس سے الٹا دشمنان ِ جہاد کو فائدہ ہوتا ہے؟ اس طرح محترم نے دعوت کے راستہ سے تحریک ِ جہاد میں نقب لگانے اور اس کا رخ موڑنے والوں کوپہچاننے اور ان کے سامنے بند باندھنے کے لیے بھی ایسے امور پر بات کی ہے کہ جن سے ان شاء اللہ منہج جہاد کی حفاظت بھی ہوسکتی ہے اور اس کا فروغ بھی ۔

محترم استاد صاحب نے اولاً مذکور امور کے کئی اہم اجزا پر نسبتاً تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے اور آخر میں ’داعیانِ جہاد کی خدمت میں گزارشات‘ کے عنوان تلے نکات کی صورت میں ایک آسان اور عام فہم لائحہ دے دیا ہے، ان نکات نے تحریر کی افادیت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

اللہ پاک اس تحریر کو تمام دعوت و جہاد سے منسلک افراد کے لیے عموماً اور انٹرنیٹ پر موجود داعیانِ جہاد کے لیے خصوصاً فائدے کا ذریعہ بنائیں، آمین۔

و صلی اللہ علی النبی، و آخر دعوانا أن الحمدللہ ربّ العالمین۔

مدیر ’ادارہ نوائے افغان جہاد‘

جمادی الاول ۱۴۴۱ ھ ؍ جنوری ۲۰۲۰ء

دعوت کا اُسلوب اورمنہجِ جہاد کی حفاظت و فروغ

(بالخصوص انٹرنیٹ اور بالعموم سب داعیانِ جہاد کو مخاطب تحریر)

استاد اسامہ محمود

 

ا سلوب جو دعوت کے لیے مہلک ہے!

اس موضوع کو اٹھانے کا داعیہ انٹرنیٹ پر دعوت ِ جہاد سے منسوب بعض صفحات دیکھ کر پیدا ہوا۔ ایک پہلو سے تو یہ صفحات قابلِ ستائش ہیں کہ انہیں چلانے والے بھائی اس پُر فتن دور میں دعوت ِ جہاد کا جھنڈا اٹھائے نظامِ باطل پر رد کررہے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے جہادہی کو حل بتا رہے ہیں۔ ان کے اس پہلو کی تعریف و تشکر میں جتناکچھ لکھا جائے کم ہے،کہ اس دور میں فراعنۂ عصر کی ناراضگی سے بچنے اور ان کی مراعات سمیٹنے کے لیےجہاں اچھے بھلے لوگ بھی مسابقت کر رہے ہیں ، وہاں یہ بھائی دب نہیں رہے ہیں بلکہ اپنے سرہتھیلی پر رکھ کر ان کے ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ پھر دعوت ِ جہاد کی مخالفت کرنے والوں پران کے رد سے ان کا اخلاص و بے لوثی بھی واضح ہے کہ کس تندہی سے یہ ان کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔لہٰذا ان کے اس اخلاص کی تعظیم ہی ہے کہ جس کے آگے ہماری نظریں جھک جاتی ہیں ، مگر انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان قابل احترام بھائیوں میں سے بعض کا طرزِ دعوت اور اسلوب ِ نقد بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ توکافروں تک کے ساتھ حکمت ، بہترین نصیحت اور خوبصورت ترین انداز سے بحث و مباحثہ کی تلقین کرتے ہیں، فرعون تک کے ساتھ دعوت میں نرمی برتنے کی تاکید کرتے ہیں ،مگر ان صفحات پر، کیا عوام اور کیاخواص، علماء اور اہل دین تک کے ساتھ انتہائی سخت اور تضحیک آمیز رویہ رکھا جا رہا ہے۔جن اختلاف رکھنے والوں کو اپنا بنانےکی کوشش ہونی چاہیےتھی ان کے ساتھ ایسا اندازِ تخاطب ہے کہ جس میں ہمدردی اور خیرخواہی کا دور تک بھی شائبہ نہیں ۔ لعن ، طعن اور تشنیع تو کسی بھی مسلمان پر حرام ہے ،مگر لگتا یہ ہے کہ یہ ہی یہاں اصل اسلوب ِدعوت سمجھاجاتا ہےکہ جوسو فیصد موافق ہو وہ بس اپنا ہے اور جو کسی بھی درجہ میں مخالف ہے وہ دشمن ہے اور اس کا مسلمان ہونا مشکوک ہے،تکفیر ِمعین جو راسخ العلم ،فہیم اور حکیم مانے ہوئے علمائے کرام کا کام ہے… یہاں اس کو انتہائی ہلکا لیا جا تاہے اور بہت آسانی کے ساتھ افراد اور گروہوں پر کافر ہونے کےفتاویٰ لگائے جاتے ہیں… اختلاف رکھنے والے اہلِ دین کو نصیحت (بمعنیٰ نصیحت) نہیں ، گناہ یا کسی حرام فعل کی نشاندہی پر بھی اکتفا نہیں ،بس سب و شتم ، نکاح فسخ ہونے کی دھمکیاں اور انہیں مجسم ِشر دکھانے کی سعی ہے،ان اہلِ دین کے متعلق ایسے عجیب الفاظ بولے جا رہے ہیں کہ جو یہاں نقل کرتے ہوئے بھی حیا آتی ہے…مرجئہ کا چوزا ، مذہبی ہیجڑا اور نہ جا نے کیا کیا…؟

یا اللہ یہ کیسی دعوت ہے …؟ اور کوئی کیوں امید رکھے کہ اس سے دین وجہاد کی کوئی خدمت ہوسکتی ہے؟ دعوت کی یہ صورت فتنۂ داعش کھڑا ہونے سے پہلے بھی عروج پر تھی ، لیکن داعش کا فتنہ کھڑا ہوا تونظر آیا کہ اس ’’دعوت ‘‘ کے علمبردار اور اس کے زیر ِاثر منہجِ جہاد اپنانے والوں میں سے زیادہ تر افراد بڑے جوش کے ساتھ اس فتنے میں کود پڑے اور بہت کم ہی ایسے رہ گئے جو خوارج کی صف میں علانیہ کھڑے نہیں ہوئے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب دعوت و جہاد کے اس سفر میں دل راہِ عدل سے ہٹتا ہے تو تواضع کبر،زبان کی شائستگی بدزبانی اور دل کی نرمی قساوتِ قلبی میں تبدیل ہوجاتی ہے اورپھر فرد خود بھی گم کردہ راستوں پر آگے بڑھ کر گم ہوجاتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی تباہی کا رہبر ثابت ہوتاہے۔

انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مذکورہ بھائیوں کو اس کا ادراک ہو یا نہ ہو ، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس قسم کی دعوت سے جہاد کی کم ہی کبھی نصرت ہو ئی ہے …اس لیے کہ یہ ’’ دعوت ‘‘دعوت کم اور جہاد سے لوگوں کو متفر کرنے اور جہاد سے جڑے افراد کو بگاڑنے اور انہیں غلو و تکفیر کے اندھیروں میں دھکیلنے کا مؤثر ذریعہ زیادہ ہے۔ مکرر عرض ہے کہ مذکورہ بھائیوں کے اخلاص پر کوئی سوالیہ نشان نہیں ، مگر حق بات یہ ہے کہ صرف اخلاص بالکل بھی کافی نہیں ہے ، اخلاص کے ساتھ ساتھ ہمارے فکر و عمل کا سنتِ نبویﷺ کے موافق ہونا بھی ضروری ہے۔اسی طرح خود جو اخلاص اللہ کے ہاں مقبول ہے اس کی پہچان ہی یہ ہے کہ ہم حق کو پہچان کر اس کے سامنے جھک جائیں ، محاسبۂ نفس ہماری بنیادی صفت ہو اور اپنے قول و عمل کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی جہدِ مسلسل کریں ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم ہر اُس عمل کو صحیح کہیں جس کو ہمارا دل ٹھیک کہہ رہاہو تو یہ وہ اخلاص نہیں جو اللہ کے ہاں باعثِ نجات ہے ، بلکہ یہ خواہشِ نفس کی اتباع ہے ،وہ اتباع نفس جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور جو بالآخر انسان کوضلالت اور رذالت کی اُن گہرائیوں میں جا گراتی ہے کہ جن کا انجام دنیا میں نری حیوانیت بلکہ شیطانیت ہے اور آخرت میں جس کانتیجہ جہنم کی دہکتی آگ ہے ۔اللہ ہمیں خواہش نفس کے پیچھے چلنےسے بچائے اور دعوت وکردار میں ، پورے سفرِحیات میں اپنے آپ کو حق کا تابع رکھنے کی توفیق دے۔ لہٰذاداعی جہاد کےلیے دعوت کاوہ اسلوب سمجھنا اور اسے اپناناانتہائی ضروری ہے جو اللہ کے ہاں مقبول ہو اور جس سے جہاد کی واقعی خدمت ہوسکتی ہے۔پھر اس اسلوب سے بچنا اس کی اولین ترجح ہو جو بالاصل دعوت کا اسلوب نہیں ہے اور جس کے سبب جہاد اوراہل جہاد کا الٹا نقصان ہوتا ہے۔

 

دعوت کا مطلوب اسلوب

اللہ ربّ العزت جہاں حق کی طرف بلانے کاحکم دیتے ہیں﴿اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ﴾ ،یعنی دین اور دینی امور کی طرف دعوت کا امر دیتے ہیں، وہاں اس دعوت کے اسلوب کا بھی تعین کرتے ہیں ، یہ اسلوب حکمت ہے ، اچھی وعظ و نصیحت ہے اور دل نشین انداز میں بحث و مجادلہ ہے۔اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾

’’ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ذریعے بلائیے، اور ان سے ایسے طریقے پر بحث کیجیے جو اچھا طریقہ ہو، بلاشبہ آپ کا رب ان کو خوب جاننے والا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گئے اور وہ ان کو خوب جانتا ہے جو ہدایت کی راہ پر چلنے والے ہیں ۔‘‘

مولانا شبیر احمدعثمانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ الخ سے خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ لوگوں کو راستہ پر کس طرح لانا چاہیے، اس کے تین طریقے بتلائے؛ حکمت، موعظت حسنہ، جدال بالتی ھي أحسن ۔’’حکمت‘‘سے مراد یہ ہے کہ نہایت پختہ اور اٹل مضامین مضبوط دلائل و براہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز سے پیش کیے جائیں ۔ جن کو سن کر فہم و ادراک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکا سکے۔ دنیا کے خیالی فلسفے ان کے سامنے ماند پڑ جائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیات وحی الٰہی کے بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تبدیل نہ کر سکیں ۔

’’موعظت حسنہ‘‘مؤثر اور رقت انگیز نصیحتوں سے عبارت ہے جن میں نرم خوئی اور دل سوزی کی روح بھری ہو ۔ اخلاص، ہمدردی ، شفقت و حسن اخلاق سے خوبصورت اور معتدل پیرایہ میں کی جانے والی نصیحت سے بسا اوقات پتھر کے دل بھی موم ہو جاتے ہیں، مُردوں میں جانیں پڑ جاتی ہیں، ایک مایوس و پژمردہ قوم جھر جھری لے کر کھڑی ہو جاتی ہے، لوگ ترغیب و ترہیب کے مضامین سن کر منزلِ مقصود کی طرف بےتابانہ دوڑنے لگتے ہیں ۔ بالخصوص جو طلب حق کی چنگاری تو سینے میں رکھتے ہیں مگر زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم نہیں ہوتے، ان میں مؤثر وعظ و پند سے عمل کی ایسی اسٹیم بھری جاسکتی ہے جو بڑی اونچی عالمانہ تحقیقات کے ذریعہ سے ممکن نہیں ۔

ہاں دنیا میں ہمیشہ سے ایک ایسی جماعت بھی موجود رہی ہے جس کا کام ہر چیز میں الجھنا اور بات بات میں حجتیں نکالنا اور کج بحثی کرنا ہے۔ یہ لوگ نہ حکمت کی باتیں قبول کرتے ہیں نہ وعظ و نصیحت سنتے ہیں، بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں بحث و مناظرہ کا بازار گرم ہو ۔ بعض اوقات اہل فہم و انصاف اور طالبین حق کو بھی شبہات گھیر لیتے ہیں اور بدون بحث کے تسلی نہیں ہوتی اس لیے وَجَادِلْھُمْ بالَّتِیْ ھيَ اَحْسَنُ فرما دیا کہ اگر ایسا موقع پیش آئے تو بہترین طریقہ سے تہذیب، شائستگی، حق شناسی اور انصاف کے ساتھ بحث کرو ۔ اپنے حریفِ مقابل کو الزام دو تو بہترین اسلوب سے دو، خواہی نہ خواہی دل آزار اور جگر خراش باتیں مت کرو جن سے قضیہ بڑھے اور معاملہ طول کھینچے، مقصود تفہیم اور احقاق حق ہونا چاہیے۔ خشونت، بداخلاقی، سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کچھ نتیجہ نہیں‘‘۔ [1]

حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اسلوبِ دعوت میں طریقۂ انبیاء اور اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ دعوت الی اللہ دراصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے۔ امت کے علماء اس منصب کو ان کا نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں تو لازم یہ ہے کہ اس کے آداب اور طریقے بھی انہی سے سیکھیں۔ جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ وجدال کا موجب ہو جاتی ہے۔ دعوتِ پیغمبرانہ کے اصول میں جو ہدایت قرآن کریم میں حضرت موسیٰ وہارون کے لیے نقل کی گئی ہے ﴿فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى﴾ یعنی فرعون سے نرم بات کرو شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔ یہ ہر داعیٔ حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے کہ فرعون جیسا سرکش کافر، جس کی موت بھی علم الہٰی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی، اس کی طرف بھی جب اللہ تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں تو آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں اور ہم میں سے کوئی موسیٰ وہارون علیہما السلام کے برابر ہادی وداعی نہیں تو جو حق اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں اس پر فقرے کسیں اس کی توہین کریں وہ حق ہمیں کہاں سے حاصل ہوگیا !!!

قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کی دعوت وتبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ اللہ کے کسی رسول نے حق کے خلاف ان پر طعنہ زنی کرنےوالوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو …… رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت و اصلاح کے کام میں اس کا بھی بڑا اہتمام تھا کہ مخاطب کی سبکی یا رسوائی نہ ہو اسی لیے جب کسی شخص کو دیکھتے کہ کسی غلط اور برے کام میں مبتلا ہے تو اس کو براہ راست خطاب کرنے کے بجائے مجمعِ عام کو مخاطب کر کے فرماتے تھے، ’’مابال أقوام یفعلون کذا‘‘ ’’لوگوں کو کیا ہو گیا کہ فلاں کام کرتے ہیں‘‘ ۔اس عام خطاب میں جس کو سنانا اصل مقصود ہوتا وہ بھی سن لیتا اور دل میں شرمندہ ہو کر اس کے چھوڑنے کی فکر میں لگ جاتا ۔

انبیاء علیہم السلام کی عام عادت یہی تھی کہ مخاطب کو شرمندگی سے بچاتے تھے اسی لیے بعض اوقات جو کام مخاطب سے سرزد ہوا ہے اسی کو اپنی طرف منسوب کر کے اصلاح کی کوشش فرماتے ۔ سورۃ یسین میں ہے وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ ’’یعنی مجھے کیا ہوگیا کہ میں اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت نہ کروں‘‘، ظاہر ہے کہ یہ قاصد رسول تو ہر وقت عبادت میں مشغول تھے، سنانا اس(کافر) مخاطب کو تھا جو مشغول عبادت نہیں ہے مگر اس کام کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔

 دعوت کے معنی دوسرے کو اپنے پاس بلانا ہے محض اس کے عیب بیان کرنا نہیں اور یہ بلانا اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ متکلم اور مخاطب میں کوئی اشتراک ہو، اسی لیے قرآن عزیز میں انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا عنوان اکثر یا قوم سے شروع ہوتا ہے جس میں برادرانہ رشتہ کا اشتراک پہلے جتلا کرآگے اصلاحی کلام کیا جاتا ہے کہ ہم تم تو ایک ہی برادری کے آدمی ہیں کوئی منافرت نہیں ہونی چاہیے یہ کہہ کر ان کی اصلاح کا کام شروع فرماتے ہیں … … …

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دعوت کا خط ہرقل شاہ روم کے نام بھیجا اس میں اول تو شاہ روم کو عظیم الروم کے لقب سے یاد فرمایا جس میں اس کا جائز اکرام ہے کیونکہ اس میں اس کے عظیم ہونے کا اقرار بھی ہے مگر رومیوں کے لیے، اپنے لیے نہیں اس کے بعد ایمان کی دعوت اس عنوان سے دی گئی ﴿تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ ﴾ [2]جس میں پہلے آپس کا ایک مشترک نقطۂ وحدت ذکر کیا کہ توحید کا عقیدہ ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اس کے بعد عیسائیوں کی غلطی پر متنبہ فرمایا ۔

تعلیمات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دھیان دیا جائے تو ہر تعلیمِ دعوت میں اسی طرح کہ آداب و اصول ملیں گے۔ آج کل اول تو دعوت واصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی طرف دھیان ہی نہ رہا اور جو اس میں مشغول بھی ہیں انہوں نے صرف بحث و مباحثہ ، مخالف پر الزام تراشی، فقرے کسنے اور اس کی تحقیر و توہین کرنے کو دعوت و تبلیغ سمجھ لیا ہے جو خلاف سنت ہونے کی وجہ سے کبھی مؤ ثر ومفید نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی بڑی خدمت کی اور حقیقت میں وہ لوگوں کو متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہیں … …

آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اصل مقصودِ شرع دعوت الی اللہ ہے۔ جس کے دو اصول ہیں حکمت اور موعظت حسنہ۔ مجادلہ کی صورت کبھی سر پر آن پڑے تو اس کے لیے بھی احسن کی قید لگا کر اجازت دے دی گئی ہے مگر وہ حقیقتاً دعوت کا کوئی شعبہ نہیں بلکہ اس کے منفی پہلو کی ایک تدبیر ہے جس میں قرآن کریم میں بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ کی قید لگا کر جس طرح یہ بتلا دیا ہے کہ وہ نرمی، خیر خواہی اور ہمدری کے جذبے سے ہونا چاہیے اور اس میں دلائلِ واضحہ مخاطب کے مناسبِ حال بیان کرنا چاہیے مخاطب کی توہین و تحقیر سے کلی اجتناب کرنا چاہیے اسی طرح اس کے احسن ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود متکلم کے لیے مضر نہ ہو جائے کہ اس میں اخلاقِ رذیلہ حسد، بغض، تکبر، جاہ پسندی وغیرہ پیدا نہ ہوجائے جو باطنی گناہ کبیرہ ہیں اور آج کل کے بحث ومباحثہ مناظر ہ و مجادلہ میں شاذو نادر ہی کوئی اللہ کا بندہ ان سے نجات پائے تو ممکن ہے، ورنہ عادتاً ان سے بچنا سخت دشوار ہے ۔

امام غزالی نے فرمایا کہ جس طرح شراب ام الخبائث ہے کہ خود بھی بڑا گناہ ہے اور دوسرے بڑے بڑے جسمانی گناہوں کا ذریعہ بھی ہے اسی طرح بحث ومباحثہ میں جب مقصود مخاطب پر غلبہ پانا اور اپنا علمی تفوق لوگوں پر ظاہر کرنا ہوجائے تو وہ بھی باطن کے لیے ام الخبائث ہے جس کے نتیجہ میں بہت سی روحانی جرائم پیدا ہوتے ہیں مثلاً حسد، بغض، تکبر، غیبت، دوسرے کے عیوب کا تجسس، اس کی برائی سے خوش اور بھلائی سے رنجیدہ ہونا، قبول حق سے استکبار، دوسرے کے قول پر انصاف و اعتدال کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جواب دہی کی فکر خواہ اس میں قرآن وسنت میں کیسی ہی تاویلات کرنا پڑیں…… یہ تو وہ مہلکات ہیں جن میں باوقار علماء ہی مبتلاء ہوتے ہیں اور معاملہ جب ان کے متبعین میں پہنچتا ہے تو دست وگربیان اور جنگ وجدال کے معرکے گرم ہوجاتے ہیں، انا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ [3]

امام رازی رحمہ اللہ ﴿إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾کے تحت فرماتے ہیں:

’’مطلب یہ ہے کہ تم بس ان تین طریقوں سے ہی اللہ کی طرف دعوت کے مکلف ہو ، جہاں تک بہرصورت لوگوں کو ہدایت دینے کا تعلق ہے تو وہ تمہارا کام نہیں ، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون ہدایت قبول کرتا ہے۔میرے نزدیک لوگوں کے نفوس اپنی ماہیت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں ، بعض پُرنور اور صاف ستھرے ہوتے ہیں جن کا مادیت کی طرف جھکاؤ کم اور روحانیت کی طرف زیادہ ہوتاہے جبکہ دوسرے اپنی اصلیت میں تاریک اور ایسے مکدر ہوتے ہیں جو مادیت کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور روحانیت کی طرف جن کا میلان کم ہوتا ہے ، لہذا جب ان کی اصلیت و ماہیت ہی ایسی بن گئی ہے تو یہ کم ہی تبدیلی قبول کرتے ہیں ۔اس وجہ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم بس دعوت کو خاص اس طریقے سے دو اور سب کے سب لوگوں کو ہدایت دینے کے پیچھے مت پڑو ،اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ گمراہ اور جاہل نفوس کی گمراہی جانتاہے اور صاف ستھرے نفوس کی پاکیزگی سے بھی وہ باخبر ہے‘‘۔ [4]

شیخ عبداللہ عزام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے لوگوں سے محبت کرنے والا فرد چاہیے،ایسا فرد جس کا ظرف بڑااور زبان پاک ہو ،وہ فرد جو جب کسی مسلمان کو برائی کرتا دیکھے تو یہ نہ کہے کہ ’’میں تجھ سے اللہ کے لیے نفرت اور دشمنی رکھتاہوں ، کیوں کہ تم یہ اور یہ برائی کرتے ہو‘‘ خدا کے لیے میرے بھائی ایسا نہ کرو ! یہ کیوں نہیں کہتے ہو کہ ’’میرے بھائی میں تجھ سے اللہ کے لیے محبت کرتاہوں مگرآپ میں یہ ایک مسئلہ ہے، اس کی اصلاح کیجیے ‘‘ ۔ [5]

شہیدِ امت شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’اعلام (جہادی میڈیا)میں ایسے الفاظ ، فقروں اور عبارات سے اجتناب کرنا چاہیے جو ایک مومن کے شایانِ شان نہ ہو ں ، مومن کے ساتھ لعن طعن ،فحش گوئی اور غلط استعمال ِ زبان جچتا نہیں ہے،اعلام میں لکھتےبولتے وقت سیاستِ شرعیہ کا خیال رکھنا ضروری ہے ، دیکھنا چاہیے کہ ہمارے الفاظ اور انداز دعوت ِ جہاد کو فائدہ دیتے ہیں یایہ نقصان کاسبب ہوں گے ، آپ بلاشبہ زیادہ بہتر طورپر جانتے ہیں کہ مجاہدین کے لیے اس کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے ۔ میری رائے ہے کہ ہمارے لیے اس مرحلے میں اپنی جملہ اعلامی نشریات کی نگرانی انتہائی ضروری ہے اس لیے کہ یہی امت تک پہنچنے والی ہماری آواز اور امت کے ساتھ جڑنے اور اسے اپنے ساتھ جوڑنے کا ذریعہ ہے ، یہ ہمارا علام ہی ہے جو مسلمانان ِعالم کے سامنے ہماری تصویر پیش کرتا ہے ۔پس ضروری ہے کہ ہمارا اعلام عامۃ المسلمین کے لیے قابل فہم بھی ہو اوران کے ساتھ ان کے دکھ ودرد میں شریک رہنے کا احساس بھی دلائے ۔اسی طرح اعلامی بھائیوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کی نشریات کا ہدف امت کے عام عوام ہوں اور یہ انہیں تہہ در تہہ اندھیروں اور مظالم سے باہر نکالنے کا کام کرے۔‘‘ [6]

مجاہد عالمِ دین شیخ عطیۃ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 ’’ جہادی قائدین پر لازم ہے کہ وہ خودبھی ان صفات سے متصف ہوں اور اپنے افراد کی بھی ایسی تعلیم و تربیت کریں کہ وہ لوگوں پر شفقت و رحم کرنے والے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ہوں ، ان کی لغزشیں،عیوب اور مسائل دیکھ کر سزا یا قتل و انتقام کی دھمکیاں دینےوالے نہ ہوں بلکہ رفق و نرمی اور تدریج کے ساتھ اصلاح کی سعی کرنے والے ہوں، رسول اللہ ﷺ جب بھی کوئی سریّہ بھیجتے ، یا لشکر پر کسی کو امیر بناتے تو اسے وصیت کرتے کہ ’’يسّروا ولا تعسّروا وبشّروا ولا تنفّروا‘‘یعنی ’’ لوگوں کے لیے آسانی کرو ، دشواری نہ پیدا کرو اور ان کو اللہ کی رحمت کی خوشخبری سناؤ مایوس یا متنفر نہ کرو ‘‘، تو کیاہم نے اس پر کبھی غور و فکر کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے؟ ‘‘ [7]

اللہ ان تمام علمائے کرام اور قائدینِ جہاد کو پوری امت کی طرف سے ڈھیروں اجر دے اور اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم دعوت کو موافقِ سنت دینے والے بنیں ،تاکہ جہاد اور دین کی حقیقتاً کوئی خدمت کرسکیں، آمین۔

 

قتال اور دعوت : میدان مختلف ، تقاضے واہداف بھی مختلف

عزیز بھائیو!

ہم مجاہدین بھی ہیں اور داعیان ِ دین و جہاد بھی۔ بیک وقت قتال بھی ہمارا میدان ہے اور دعوت بھی۔ جو طاقتیں ہتھیار لےکر ہم پر نظامِ کفر مسلط کیے ہوئے ہیں ان کے خلاف ہتھیاراٹھاکر میدان قتال میں بھی ہم کھڑے ہیں اور امتِ مسلمہ کو ان ظالموں کے مقابل اس جہاد میں ساتھ کھڑاہونے کی دعوت بھی ہم دے رہے ہیں ۔ قتال کا میدان اپنے تقاضے رکھتا ہے اور دعوت کے اپنے لوازمات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے میدانِ قتال میں سختی کی ہے، خون بہایا ہے اور سر کاٹنے کٹوانے کی تحریض دی ہے مگر آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ شاہد ہے کہ دعوت کے میدان میں آپ کا مبارک اسوہ سختی نہیں ، نرمی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دعوت اورقتال دونوں کے وسائل ، اسلوب اوراہداف ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، قتال کے اندر چونکہ قوت کو بزور قوت توڑنا ہوتا ہے، ہتھیار اٹھانا، دشمن کا خون بہانا اور جسموں کے چیتھڑے اڑا نا ہدف ہوتا ہے، اس لیے یہاں انتہائی سختی کرنا مطلوب اورمحمود ہے ، قتال نام ہی اس سختی کا ہے، اس کے بغیر قتال قتال نہیں اور یہاں اسی سختی میں ہی اجر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شریعت نے اس کے بھی حدود و آداب مقرر کیے ہیں مگر فی الاصل یہ سختی ہی کا میدان ہے۔ یہاں رعب بٹھانے کے لیے سخت الفاظ اور درشت رویہ بھی استعمال کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ سختی اگر دعوت میں در آئے،یہاں بھی الفاظ اور انداز اگر ایسااستعمال ہو کہ جس میں مخاطب کے قلب وعقل کو اپیل نہ ہو اور مخاطب کو الٹا ضدو ہٹ دھرمی ، بغض ونفرت اورعداوت وانتقام پر ابھارا جا رہاہو تو ا س سے دعوت کا مقصدہی فوت ہوجاتاہے۔یہ جہادی تحریک کی بدنصیبی ہوگی اگر میدانِ قتال کا اسلوب میدانِ دعوت میں آزمانا شروع کیاجائے ۔

پھر قتال سینوں کا غیظ و غضب ٹھنڈا کرنے کا میدان ہے کہ اس میں جہادی ضربیں لگا کر ظالموں اور مغروروں کی گوشمالی ہوتی ہے اوران کی مادی طاقت توڑکر ان کے لڑنے کا عزم ختم کیا جاتاہے۔ جبکہ دعوت کا معاملہ بالکل برعکس ہے ،یہاں غیظ و غضب نکالا نہیں جاتا ، روکا جاتا ہے۔ مقصود سامع اور قاری کوگرانا اور اسے مغلوب کرنا نہیں ہوتا بلکہ اسے راغب کرنا ، قریب کرنااور اس کے قلب و ذہن میں اپنی دعوت کے لیے جگہ بناناہوتاہے۔ شائستہ و مبنی بر دلیل گفتگو، ضبط نفس ( صبر) و بردباری ، عفوو درگزراور نرمی و احسان ہی میدانِ دعوت کے تقاضے ہیں ۔[8] دعوت میں لازم ہوتا ہے کہ خود تو حق پر عمل میں کوئی کوتاہی نہ ہو مگر مخاطب کو حق سمجھانے اور اسے قابل فہم و قابل قبول بنانے کا (دائرۂ شریعت کے اندر رہ کر)بھرپور اہتمام ہو۔ لہٰذا دعوت میں اچھے سے اچھے الفاظ اور بہتر سے بہتر انداز کی مسلسل سعی ہوتی ہے۔ مخاطب اگر مخالفت اور عداوت کا مظاہرہ کرتا ہو تو داعی بھی اندھی عداوت پر نہیں اترتا بلکہ وہ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ پر عمل کرتا ہے۔ اس کو اس منافرت اور مخاصمت کی فضا میں بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا یہ فرمان ہی رہنمائی دیتا ہے کہ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ’’ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی ‘‘۔ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ’’ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو‘‘۔ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ’’ (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس کے ساتھ تمہاری دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے‘‘۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ’’اور یہ بات انہیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحبِ نصیب ہیں ‘‘۔

لہٰذا شدیدبحث و مباحثہ میں بھی داعی کی توجہ دلائل اور براہین سے نہیں ہٹتی ، اس حالت میں بھی حسنِ گفتار اور حسنِ تعامل ہی وہ اپنا اسلوب رکھتاہے اور تنگ دلی اور بداخلاقی سے اپنا دامن بچاتا ہے ۔ یوں مخاطب کی بد اخلاقی کا بدلہ خوش اخلاقی اور اس کی زیادتیوں کا جواب جب عفوو درگزر اور عدل و احسان سے دیاجاتا ہے تو وہ موقع بھی آجاتا ہے جب مخالف کا پتھر جیسا دل بھی موم ہوجاتا ہے ، عداوت کی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے اور داعی کی زندگی کے درپے دشمن بھی پھر دعوت و داعی کے محافظ و پاسبان بن جاتے ہیں۔

 

فکرو منہج ، کردار اور اسلوب ِ دعوت

 داعی کی کامیابی میں تین امور ٹھیک رکھنے کا بڑا کردار ہے :

‌أ.         اول، وہ عقیدہ و نظریہ یا فکر وعمل کا وہ منہج کہ جس کی وہ دعوت دیتا ہے ،

‌ب.       دوم ، کردار کہ خودداعی کا قول وعمل اپنی دعوت کے موافق ہے یا مخالف اور

‌ج.        سوم، اسلوبِ دعوت کہ وہ کس اخلاق سے اپنی دعوت پیش کرتاہے ۔

ویسے توعام طور پر ان تینوں کا آپس میں راست تناسب ہے ،کہ جو نظریہ ہوگا، فکرو عمل کا جو منہج ہوگا ، اسی طرح کردار ہوگا اور اسی کے رنگ و بو اسلوبِ دعوت میں بھی نظر آئیں گے ۔ مگر بعض جگہوں پر استثنا بھی ہوسکتا ہے کہ فکر وکردار تو اچھا ہو مگر دعوت میں سختی ہو ۔لہٰذا داعی کا فرض تب ادا ہوتا ہے جب یہ تینوں امور افراط و تفریط سے پاک سنت نبوی ﷺ کے موافق ہوں ، ایساہوگاتو داعی اللہ کے یہاں کامیاب ہوگا اور اللہ چاہے تو دنیا میں بھی اس کی دعوت بارآور ہوکر مخاطبین کے دلوں میں گھر کرے گی ۔اس کے برعکس داعی ایسا اسلوب اگر اپنائے جو اس کی دعوت کے ساتھ جچتا نہیں ہو ، تو وہ اپنے زعم میں تو حق کی دعوت دے رہا ہو مگراس کا اسلوب موافق سنت نہ ہو ، اس کا انداز اگر غیر اخلاقی اور گرا ہو اہو تو ایسے داعی سے کم ہی کسی کو فائدہ ہوتاہے ،ایسے میں پھر اپنے زعم میں حق کی ترویج کرنے والا الٹا حق سے متنفر کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ کسی دعوت کی ناکامی کے لیے بس اتنا پھر کافی ہوتا ہے کہ اس کا داعی خود اپنی دعوت کے لیے باعثِ عار بن جائے ، اللہ کا دین داعی کو جس وقت عَلمِ دعوت اٹھانے کا امر دیتا ہے ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ؀ قُمْ فَأَنْذِرْ ؀ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ؀﴾’’ اے لحاف میں لپٹنے والے کھڑا ہو، پھر ڈر سنا اور اپنے رب کی بڑائی بول ‘‘تو عین اس ابتدا ہی میں اسے اپنا کردار پاک کرنے ، اعلیٰ اخلاق اپنائے رکھنے اور مخالفین کی دل آزاریوں کے مقابل خالص اللہ کے لیے صبر کرنے کی تعلیم دیتاہے، ﴿وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ؀وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ؀وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ؀﴾ ، ’’اور اپنے کپڑے پاک رکھ اور گندگی سے دور رہ اور ایسا نہ کر کہ احسان کرے اور بدلہ بہت چاہے اور اپنے رب کے لیے صبر کر۔ ‘‘ (سورۃ المدثر)

مومن کے لیے گفتگو کا معاملہ انتہائی اہم ہے کہ گفتگو کی اصلاح ہی سے قلب وعمل کی اصلاح ہوتی ہے ۔ اس لیے اللہ اپنے بندوں کوانتہائی خوبصورت بات کرنے کی تاکید کرتے ہیں ﴿وقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ ، ’’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں‘‘۔ اللہ مومنین کو پابند کرتے ہیں کہ بات کرو تو عدل و انصاف کی کرو اور تمہاری باتوں میں کوئی ظلم نہ نظر آئے، ﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا﴾ ’’اور جب بات کہو تو انصاف سے کہو‘‘۔ اس دین کے داعی کی تو خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ کوئی اس دین کے تقاضوں کو پورا کرتاہے یا نہیں ، سب سے پہلے میں ہی انہیں پورا کرتاہوں، ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ؀ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ؀﴾’’ کہہ دو بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے،اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں ‘‘۔ ، لہٰذا داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت یہ کوشش کرے کہ اس کی فکر و منہج بھی سنت رسول ﷺ کے موافق ہو اور اس کا کردار اور اسلوب ِ دعوت بھی شریعت کے خلاف نہ ہو۔ جس حق کی وہ دعوت دے رہا ہو ، اس کے کردار میں اس کا نمونہ نظر آرہا ہو اور اس کی دعوت میں بھی وہ خوشبو مستقل محسوس کی جا سکتی ہو۔ یہ تینوں یعنی فکر وعمل کامنہج ، کردار اور اسلوب ِ دعوت جب حق اور ایک ہوں تو سچائی انشاء اللہ تیر کی طرح نشانے پر جاکر بیٹھ جاتی ہے اور کامیابی دعوت کا مقدر بن جاتی ہے ۔

 

داعیِ جہاد کب محفوظ رہتاہے؟

داعیٔ جہاد جن خطرات اور تحدیات سے گزرتا ہے ، شاید ہی کوئی اور ان سے گزرے۔ وسائل، ہتھیار اور عددی برتری ، ہر لحاظ سےاپنے سے انتہائی قوی دشمن کامقابلہ تو اس کا ایک پہلو ہے ، جن اپنوں کو دشمن کے خلاف ساتھ کھڑا کرنا مقصود ہوتا ہے ، عین اُنہی کی طرف سے جب مخالفت کا سامناہو تو یہ بہت صبر اور حکمت کا متقاضی ہے ،پھر سفر جہاد میں ہر دوسرے موڑ پر ایسے مسائل آتے ہیں کہ جہاں چھوٹی خطا بھی بڑی دور رس ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسے میں جذبات بھی اکثر ہوش و حواس پر حاوی ہونے لگتے ہیں اور اللہ کا فضل نہ ہو تو داعی و مجاہد فوز و فلاح کے راستے سے ہٹ سکتا ہے اور وہ خود دعوت ِ جہا د کے لیے بڑے نقصان کا باعث بن سکتاہے۔ اس نقصان سے داعیٔ جہاد تب ہی بچ سکتا ہے جب فکرو منہج میں بھی وہ سنت نبوی کے موافق ہو اور اپنے کردار و دعوت میں بھی رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام اور صالحین ِامت کے مشابہ ہو اور ایسا تب ہی ممکن ہے، جب اس کے دل میں ایسا ہونے کی شدید تڑپ ہو اور یہ خوف بھی ہو کہ خدانخواستہ کسی بھی وقت اس کی اپنی کسی کوتاہی سے اس سے ہدایت کی نعمت چھن سکتی ہے۔ اس نعمت کو سینے سے لگانے کا ذریعہ پھر علماء کرام کی پیروی اور صالحین کی صحبت ہے ۔اس کی فکر و منہج تب ہی محفوظ رہ سکتی ہے جب ایسے علماء کرام سے وہ اپنا دین لے جن کے تقویٰ و اخلاق ، علم و عدل ،فقہ و فہم ، تجربہ اور سلیم الفطرتی کی دیگر اہل علم اور اصحابِ کمال کے ہاں گواہی دی جاتی ہو، ایسے علماءکرام کہ جو تعصب ، انتقام ، غصہ اور خواہشِ نفس کے تحت فتاویٰ نہ دیتے ہوں بلکہ قول و عمل میں خداخوفی ان پر غالب ہو اورسیاسۃ الشرعیہ (مصالح و مفاسد کے علم) میں رسوخ رکھتے ہوں۔ یہ صفات صرف ایسے ہی عالم میں ہوسکتی ہیں جواہم جہادی معاملات میں خود سے تنہا اجتہاد کرکےفتاویٰ نہ دیتا ہوبلکہ اپنے سے افضل اور سبقت لےجانے والے علماء کرام کے نقوشِ قدم ڈھونڈتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ ہم عصر علماء حق سے بھی استفادہ اور مشورہ کرتا ہو۔

ایسے علماء کرام آج بھی اس امت میں موجود ہیں اور اگر داعی اپنی فکر ، کردار اور اسلوبِ دعوت میں ان علماء کرام اور داعیان ِ دین کی پیروی اختیار کرتا ہے تو اللہ سے امید ہے کہ وہ رحمان و رحیم رب اسے گمراہی سے بچائے گا اور اللہ کے اذن سے وہ دین وجہاد کی خدمت بھی کر سکے گا۔یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ عصرِ حاضر میں امارت اسلامی افغانستان کا تقریباً تین دہائیوں پر محیط کامیاب اور مبارک جہادی تجربہ ہو ، یا یہاں خراسان سے یمن و مالی اور شام و صومالیہ تک پھیلا عالمی تحریک جہاد کا تجربہ ، اس سب نے امت کو انتہائی قیمتی اسباق دیے ہیں ،یہاں تک کہ اہم امورِ جہاد میں سے کوئی ایک بھی شاید اب ایسا نہیں رہا ہے کہ جس پر قائدینِ جہاد نے بصیرت و بصارت کے ساتھ رہنمائی نہ کی ہو،لہٰذا دعوت وجہاد کے میدان میں اگر ہم ان علماء کرام و قائدین جہاد[9] کے مرتب کردہ دروس سے سبق لیتے رہیں تو ان شاء اللہ یہ سفر بڑی حد تک محفوظ ہوجائےگا اور ٹھوکروں پر ٹھوکر کھانے کی نوبت نہیں آئے گی ۔

اسلوبِ دعوت میں غلو کیوں آتا ہے؟

اول سبب:مخاطبین سےاستغنا اور بے نیازی!

عزیز بھائیو! اسلوبِ دعوت میں غلو اور سختی کے کئی اسباب ہیں ، ان میں بنیادی تو فکرو عمل اور اخلاق و کردار کا موافق ِ سنت نہ ہونا ہے، ذیلی وجوہات میں سےایک استغنا اور بےنیازی ہے، یہ دونوں اگردنیاوی معاملات میں خالق کی خاطر مخلوق سے ہوں تو اچھی صفات ہیں مگر ان کامقام میدانِ دعوت نہیں ہے ۔ دعوت میں مخاطبین سے استغنا اور بے نیازی نہیں بلکہ خیرخواہی اور دل سوزی مطلوب ہے۔ داعی کی دنیا وآخرت میں فوز و فلاح مشروط ہی اس سے ہے کہ وہ جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہو وہ دوسروں کے لیے بھی پسند کرے، وہ چونکہ تڑپتا ہے کہ دیگر لوگ بھی اس کی پکار پر لبیک کہیں ،اس لیے اپنی دعوت کو اچھے سے اچھا اور زیادہ سے زیادہ نافع بنانے کی اسے فکر ہوتی ہے۔اس کی مثال اُس ڈاکٹر کی نہیں ہے جو بس بیماری کی تشخیص اور علاج کااعلان کرکے نکل جاتا ہے، بلکہ وہ تو مریض کو دل و جان سے چاہنے والا معالج ہوتاہے جو علاج کے ساتھ ساتھ تیمار دار اور غمگسار بھی ہے ،جس کا دل بیمار کی ایک ایک آہ کے ساتھ کٹتا چلا جاتا ہے اور جو آخری وقت تک مریض کو بچانے کاجتن کرتا ہے ۔

غلو کے شکار فرد کوپرواہ ہی نہیں ہوتی کہ کوئی دعوت قبول کرتا ہے یا ردکرتا ہے ۔ وہ بس اپنے آپ کوبہرصورت حق پر سمجھتا ہے ، اپنی نیت اور قلبی کیفیت کا جائزہ نہیں لیتا۔دعوت کا حق ادا کیا یا نہیں؟ اپنے قول و عمل میں کوتاہی تو نہیں ہوئی ؟کہیں کوئی سنتِ نبویﷺکی مخالفت تو نہیں ہورہی؟دعوت کی بنیاد جہالت و لاعلمی تو نہیں؟ کہیں اسلوب اور انداز میں زیادتی تو نہیں ہوئی؟ ان تمام امور سے بے نیاز بس اپنی برتری کا خیال لیے اسے ’اظہار حق ‘ کرنا ہے، یہ احساس ہی ہے کہ جو عجب اور کبر میں تبدیل ہوتاہے اور وہ پھر انتہائی روکھے سوکھے انداز میں اپنی دعوت کا اعلان کرتا ہے ۔ قرآن و سنت میں داعی کا جو مزاج ہے وہ اس سے بالکل الٹ ہے ، انبیاء کرام کو قوم کے ایک ایک فرد کوبچانے کی فکر ہوتی تھی ، اس مقصد کے لیے وہ دن رات ایک کیے ہوئے تھے، لوگوں کو ہدایت پر لانے کی خاطر سب سے زیادہ دکھ انہوں نے جھیلے ہیں ،وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی قوم کے لیے ہدایت مانگتے،آپ ﷺ کو تو اس غم نے اس حد تک گھلا دیا تھا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے بھی سات آسمان اوپر سے گواہی بھیجی ، ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا﴾ یعنی ’’اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے آپ کو ہلاک کردو گے‘‘۔ رسول اللہﷺ کی یہ تڑپ دیکھیے کہ عین جنگ کا موقع ہے ، یہود جیسی بدترین مخلوق کے خلاف حضرت علی رضی اللہ کو تلوار دے کر روانہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی نصیحت فرماتے ہیں کہ’’ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ‘‘، یعنی ’’تمہارے ہاتھ پر ایک آدمی کو بھی اللہ نے ہدایت دی تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ اچھا ہے ‘‘۔

دوسرا سبب: کم فہمی اور نصرت کا غلط مفہوم لینا

اسلوبِ دعوت میں غلو آنے کا دوسرا سبب کم فہمی ہے ،اللہ کے شرعی اورتکوینی اصول کوئی بھی جانتا ہو تو وہ جہا د ی کامیابی کے لیے اللہ کے بعد اپنے آپ کو مسلمان عوام کی نصرت و تائید کا محتاج سمجھے گا۔ وہ جانتا ہے کہ مومنین کی تائید اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی نصرت کی ایک صورت ہے ۔ ﴿هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ﴾ یعنی ’’ وہی تو ہے جس نے تم کو اپنی مدد سے اور مسلمانوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی ‘‘ لہٰذا وہ یہ تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ دعوت کے آغاز میں رسول اللہ ﷺ جب مکہ کے میلوں میں عرب قبائل کو اسلام پیش کرتے تو ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتے کہ ’’مَن يُؤوِينِي مَن يَنْصُرُنِي؟‘‘،’’کون مجھے پناہ دےگا ، کون میری مدد کرے گا؟‘‘۔ تو مسلمان عوام کو اپنا مؤید اور انصار بنانا شرعی اور عقلی تقاضا ہے۔ دائرۂ شرعی میں رہ کر مسلمان عوام کو اپنے جہادی کاروان کا حصہ بنانے کی کوشش کرنا واجب قرار دیا گیا ہے ، مگر دعوتِ جہاد میں سختی برتنے والے افراد کی کم فہمی دیکھیے کہ وہ اکیلے ، چند درجن یاچند سو افراد خوداپنے ہاتھوں ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنا مخالف بھی بناتے ہیں اور پھر پوری دنیا پر غالب ہونے کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔ وہ نظامِ کفر کے خاتمے اور نفاذِ شریعت جیسے بڑے دعوے تو کرتے ہیں مگر اس کے لیے عوام اور اہلِ دین کو اپنے ساتھ ملانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی ، حقیقت یہ ہے کہ مسلمان عوام کو اپنا حامی اور مؤید بنائے بغیر نظام کفر ختم کرنا اور اسلامی شریعت نافذ کرنا تو بہت دور کی بات ہے اپنی تحریک تک کو بھی زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھا جا سکتا ۔

 شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے شیخ ابو مصعب زرقاوی رحمہ اللہ کو اس وقت ایک خط لکھا تھا جب آپ نے امریکیوں کا عراق میں رہنا ناممکن بنا دیا تھااور قریب تھا کہ امریکی عراق چھوڑ کر بھاگ جاتے ، اس خط میں شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

’’جب ہم اپنے دو اہدف کو دیکھیں ، یعنی امریکیوں کو عراق سے نکال باہرکرنا اور یہاں اسلامی امارت قائم کرنا ،تو ہمیں نظر آئے گا کہ اللہ کی مدد و توفیق کے بعد مجاہدین کے لیے سب سے مؤثر اور قوی ہتھیار عراق اور اس کے آس پاس علاقوں کے مسلمان عوام کی تائید ہے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اس تائید کی حفاظت بھی کریں اور شرعی دائرے کے اندر رہتے ہوئےاسے بڑھانے کی کوشش بھی کریں۔اس حوالے سے آپ کی خدمت میں یہ چند باتیں عرض کروں گا :

اول یہ کہ جب اس میں شک نہیں کہ یہاں اسلام کی فتح اور اس زمین پر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام مرتد حکمرانوں کے خلاف جہاد اور انہیں ہٹائے بغیرناممکن ہے ، تو یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ عظیم ہدف ایسی صورت میں کبھی نہیں مل سکتاکہ جہادی تحریک عوام کی تائید ونصرت سے محروم ہو۔یہاں تک کہ اگر کسی موقع پر مجاہدین بالفرض فتح یاب بھی ہوجائیں لیکن اس وقت عوام کی تائید اگر ان کے پاس نہ ہو تو یہ فتح کسی بھی وقت شکست میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔

دوسرا یہ کہ تحریکِ جہاد کے ساتھ اگر عوام کی یہ تائید نہ ہو توتحریک عوامی نظروں سے دور تنہائی میں کچلی جاتی ہے ۔ ایسے میں پھر جہادی گروہ اور متکبر مسلط طبقے کے درمیان یہ جنگ بس عقوبت خانوں کے اندھیروں میں ہی گُم ہوجاتی ہے جس سے مسلمان عوام کو بالکل غافل رکھا جاتاہےاور ہمارے اوپر مسلط یہ ظالم سیکولر طبقہ یہی تو چاہتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ تحریکِ جہاد ختم نہیں کی جاسکتی ہے مگر اسے دجل و قوت کے ذریعے عوامی تائید سے محروم ضرور کیاجا سکتاہے، لہٰذا ہمار ی بھرپور کوشش ہو کہ ہم اس معرکے میں مسلمان عوام کو اپنے ساتھ معرکے میں شریک کریں، تحریکِ جہاد کی قیادت میں بھی انہیں حصہ دار بنائیں اور ہر اس قدم سے بچیں جو ہماری اس عظیم کشمکش کو عوام سے دور کردے۔‘‘

ایک اور جگہ شیخ فرماتے ہیں:

’’چھاپہ مار جنگ کرنے والے مجاہدین کو ہرگز بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے اگر انہیں زمین چھوڑ کر پیچھے ہٹنا پڑے ، کیونکہ ان کی جنگ اصلاً عوام کو ساتھ ملانے کی جنگ ہے نہ کہ زمین پکڑنے کی ۔‘‘ [10]

تیسرا سبب:مدارات اور مداہنت میں فرق نہ کرنا

دعوت میں غلو کا ایک سبب مدارات کو مداہنت سمجھنا ہے ۔ حالانکہ دونوں میں فرق ہے۔ ایک جائز ومحمود ہے اوردوسرا مذموم و ممنوع ہے۔ اس فرق کو داعی کے ذہن میں ہوناضروری ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ مدارات اور مداہنت میں فرق کچھ یوں بیان کرتے ہیں :

والفرق بين المداراة والمداهنة أن المداراة بذل الدنيا لصلاح الدنيا أو الدين أو هما معا، وهي مباحة وربما استحبت، والمداهنة ترك الدين لصلاح الدنيا

’’ مدارات اور مداہنت میں فرق یہ ہے کہ مدارات دنیا، دین یا دونوں کے فائدے کے لیے اپنی دنیا کی قربانی ہے اور یہ جائز ہے یا بعض اوقات مستحب ہے جبکہ مداہنت سے مراد دنیاوی فائدے کی خاطر دین پر سمجھوتاکرنا ہے ۔‘ ‘

آپ ﷺ سے روایت ہے کہ لوگوں کے ساتھ مدارات صدقہ ہے؛ مداراة الناس صدقة [11] ۔ شارح حدیث ابنِ بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

المداراة من أخلاق المؤمنين، وهي خفض الجناح للناس، وترك الإغلاظ لهم في القول، وذلك من أقوى أسباب الألفة

’’ مدارات مؤمنین کے اخلاق کا حصہ ہے، اور اس سے مراد لوگوں کے سامنے اپنے کندھے جھکانا اور باتوں میں ان کے ساتھ سختی نہ کرنا ہے، اور یہ صفت بلاشبہ الفت و محبت پیدا کرنے کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے۔ ‘‘

پس مخاطب کی مخالفت پر صبرکرنا اور دعوت میں نرم و شائستہ ایسا مفید اسلوب اپنانا کہ جس میں حق ہی کی طرف بلانا ہو اور مخاطب کے باطل کو بالکل بھی صحیح نہیں کہا جا رہاہو، مدارات ہے ، یہ محمود و مطلوب ہے ، لیکن اگر اس نرمی میں حق کو باطل یا باطل کو حق بھی کہا جارہا ہو تو یہ مداہنت ہے اور یہ منع ہے ۔داعی کو اس لیے بھی مداہنت اور مدار ات کے سرحدات سمجھنا ضروری ہے کہ مدارات کے نام پر مداہنت نہ ہو اور مداہنت کی مخالفت کرتے ہوئے کہیں مدارات کو بھی ترک نہ کر بیٹھے ۔ افسوس ہے کہ آج بعض اہل دین دعوت کی مصلحت کے نام پر جمہوریت، وطنیت اور لادینیت(سیکولرازم) تک کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں ، نظام کفر کے خلاف مقاومت اور مخالفت مطلوب ہے مگریہ حضرات اس کے ساتھ مفاہمت و معاونت کا رویہ رکھے ہوئے ہیں اورکوئی اور اگر فرض کی پکار پر لبیک کہہ کر نظام باطل کے خلاف کھڑاہوتا ہے اور بدترین منکر(نظام کفر) کا رستہ روکنے کے لیے میدان جہاد میں اترتا ہے تو یہ ان پر فسادی کا الزام لگاتے ہیں۔اب یہ طرز عمل شرعی احکامات کی واضح خلاف ورزی ہے مگر عجیب یہ کہ اس غیر شرعی رویے کوبھی مصلحت دینی کا نام دیکر شرعی ثابت کیا جاتاہےجوسراسر زیادتی ہے ، یہ مداہنت ہے اور یہ ہی وہ وبائےعظیم ہے کہ جس کے نتیجہ میں آج اللہ کی شریعت مغلوب جبکہ غیراللہ کا کفریہ نظام غالب ہے ۔ لہذااس مداہنت کی پہچان کرانا اور اس کی مخالفت انتہائی ضروری ہے اور مجاہدین کو بھی اپنے اعمال میں اُس سرخ لکیر پر ہر وقت نظر رکھنا اور اس سے کوسوں دور رہنا چاہئے جہاں سے مداہنت کا تباہ کن دائرہ شروع ہوتاہے ، دوسری طرف اس مداہنت کے رد عمل میں ایسی ذہنیت بھی ہمارے بعض حلقوں میں پیدا ہوگئی ہے جو مدارات کو بھی مداہنت سمجھتی ہے، دعوت میں باطل کو عین باطل اور حق کو عین حق کہا جارہاہو ، پھر حق ہی کی طرف بلایا جاتا ہو اور پورا دعوتی عمل دائرہ شریعت کے اندر انجام دینے کا بھرپور اہتمام بھی کیا جا رہا ہومگر چونکہ اسلوب نرم و شائستہ اورمبنی بر حکمت ہے، جوکہ خود مطلوب ہے، اس لیے یہ ذہنیت اپنی دانست میں اس دعوت پر بھی مداہنت کا ٹھپہ لگادیتی ہے ، اس کو یہ دعوت قابل قبول نہیں ۔اسے تشفی تب ہوتی ہے جب دعوت کا اسلوب اپنی روح اور قالب دونوں میں انتہائی سخت و دو ٹوک ہو اور اس میں مخاطب کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی نہیں بلکہ شدید نفرت ، عداوت اور تحقیر ہو ،اس سارے رویئے کو یہ ذہنیت حق کا تقاضہ سمجھتی ہے ، حالانکہ یہ غلو ہے ،یہ وہ غلوہے کہ جس سے دعوت کا مقصد فوت ہوجاتاہے اور جہاد کا الٹا نقصان ہوتاہے، اور اس غلو کاسبب یہی مداہنت اور مدارات میں فرق نہیں کرنا ہے ۔

چوتھا سبب:عجلت اور تاریخ ِ دعوت سے غفلت!

اسلوبِ دعوت میں درشتی کا ایک بڑا سبب عجلت بھی ہے اور اس کا شکار بعض اوقات اچھے بھلے داعی بھی ہوجاتے ہیں ،جب وہ دیکھتے ہیں کہ اہلِ دین ، بالخصوص علماء کرام اور دینی سیاسی جماعتوں کا طبقہ ان کا ساتھ نہیں دیتا ،سرد مہری دکھاتا ہے یا کسی درجہ میں مخالفت کرتا ہے توان کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ جاتاہے اور ان کی دعوت میں تلخی اور سختی آجاتی ہے۔ ہمارے سامنے اگر یہ تاریخی حقیقت ہو تو ہم تلخی کا شکار نہیں ہوں گے کہ جب بھی کبھی کوئی انقلابی ایسی نئی تحریک اٹھی ہے جو پہلے سے مسلط نظام کے لیے حقیقی خطرہ ہو،تواس کا ساتھ دینا کبھی سہل نہیں ہوتا، حاضر والوقت نظام سے لڑنا تمام آفات و مصائب کو اپنے اوپر وعوت دینا ہے۔اس لیے ایسی تحریک کی دعوت کے مقابل لوگ تین حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ صرف سچائی پسند مگرعالی ہمت اوراولوالعزم افرادکا گروہ ہی دعوت پرلبیک کہتا ہے اور اپنے آپ کو مصائب وآلام کے پہاڑ اٹھانے کے لیے آگے کرتا ہے، یہ طبقہ آغاز میں ہمیشہ قلیل ہوتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ ہے کہ جو برسرِ اقتدار ہوتا ہے یاجس کے مفاد رائج نظام کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ اس تحریک کی مخالفت اور اسے کچلنے کے لیے میدان میں آتا ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جسکوان کی معمول کی زندگی نے مگن کیا ہوتا ہے ، یہ بعض اوقات حق و باطل میں تمیز کی خواہش بھی رکھتا ہے اور حق کا ساتھ دینا بھی ان کی چاہت ہوتی ہے مگر چونکہ اس پر برسرِاقتدار طاقت کا خوف غالب رہتا ہے، اس لیے یہ بہت سے فوائد قربان کرنے اور بہت سے نقصانات گوارہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ۔یہ جب تک تحریک قوت نہیں پکڑتی ، تب تک اس میں علی الاعلان دعوت قبول کرنے کا داعیہ پیدا نہیں ہوتا ، یہ حالات کی تبدیلی کا انتظار کرتا ہے ۔ اگر تو تحریک فتح یاب ہونے لگتی ہے تو یہ طبقہ گروہ در گروہ نصرت و تائید کے لیے آگے بڑھتا ہے ۔ یہ وہ تاریخ ہے جس سے خود رسول اللہ ﷺ کی مبارک دعوت اور اس دعوت کا عظیم قافلہ گزرا،مشرکین مکہ کی جب تک قوت نہیں ٹوٹی تھی تو مسلمانوں کی تعداد کم تھی ، مگر فتحِ مکہ کا موقع جب پہنچتاہے، ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ تو لوگ گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہوجاتے ہیں ، ﴿وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا﴾ …

پس اکثریت عوام کی ہو یا اہل دین کی ،ان کی سرد مہری یا کسی درجے میں مخالفت دیکھ کر داعیانِ جہاد بے صبرے نہ ہو ں ،یہ کبھی ہوا ہی نہیں ہے کہ تحریکِ جہاد کٹھن مرحلے سے گزر رہی ہو اور اکثریت نے اس کا ساتھ دیا ہو،لہذا اس اکثریت کے ساتھ تعامل میں ہمیں ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴾[12] پر عمل کرنا چاہیے۔ خُذِ الْعَفْوَ، یعنی جتنا تعاون اور خیرخواہی وہ آپ کے ساتھ کرسکتے ہیں ،بصد شکریہ اسے قبول کریں، وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ، دل سوزی کے ساتھ دعوت و اصلاح اورتحریض و رہنمائی کاکام جاری رکھیے، دلیل وکردار کے ہتھیار سے عقلوں اور دلوں کو جیتتے جائیے اور ان میں سے جو (زبان و قلم سے ) جہل کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے ساتھ مت الجھئے! وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ آپ کی توانائیاں اور ہتھیار بس نظام کفر کے سرغنوں اوران کے مسلح کارندوں کے خلاف استعمال ہوں۔

 

تحریکِ جہاد کی راہ میں اصل رکاوٹ

ہم مانتے ہیں کہ ان اہل دین کے (بعض )قائدین(بہت ) دنیا پرست ہیں ، تسلیم ہے کہ مجموعی لحاظ سے ان (دینی سیاسی جماعتوں )کا منہج درست نہیں ، انہی کے سبب کفریہ نظام کو تقویت مل رہی ہے اور طاغوتی نظام انہیں اسلام کے خلاف استعمال بھی کر رہا ہے ، اس سب پر اتفاق ہے ،بیماری کی تشخیص میں دورائے نہیں ، سوال علاج پر ہے۔ اگر آپ سیکولر ز ، دین دشمن طبقوں اور نظام ظلم کے مسلح محافظین کو چھوڑ کر ان دین داروں کو اپنی عداوت کا ہدف بناتے ہیں اور ان کے خلاف تکفیر کے فتاویٰ جمع کرتے ہیں تو یہ علاج نہیں ، بلکہ بیماری میں اضافہ کرنا ہے۔ اس وقت یہاں تحریکِ جہاد کے رستے میں عملی رکاوٹ یہ طبقہ نہیں،یہ ختم بھی ہو جائے تو آپ کا کام ختم نہیں ہوتا۔ یہاں اصل رکاوٹ وہ لادین ہیں جوأئمہ کفر کے آلہ کار اور نظام ظلم کے علمبردار بن کر اپنے کرایہ کے قاتلوں کے ذریعے زندگی کے تمام رستوں پر قابض ہیں اور بندوق کے نوک پر مسلمان عوام کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ کفر و نفاق کی علامت یہ حکمران طبقہ ،روپے پیسہ کے غلام یہ جرنیل اور مسلمانوں کا خون کرنے والے ان کے یہ اجرتی قاتل …یہ وہ ناسور ہیں کہ جن کے دم قدم سے تمام تر فساد کی جڑ یہ نظام باطل قائم ہے اور یہی وہ دغہ باز طبقہ ہے جس نے اپنی کھالیں اور عیاشیاں بچانے کی خاطر ان دین داروں کو ہمارے مقابل کیا ہے۔ یہ دین دشمن چاہتے ہی یہ ہیں کہ ہم دین داروں کے ساتھ تو الجھ جائیں جبکہ خود ان بے دینوں کی جانیں چھوٹ جائیں۔ ایسے میں دین داروں کو دست و گریبان دکھا کر یہ نفس ِدین کے خلاف پھر پراپیگنڈا تیز کرتے ہیں کہ مسئلہ( نعوذ باللہ) دین میں ہے اس لیے کہ دیندار ہی ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں ،یعنی ایک تیر سے دو شکار …! یہ ہوا تو ہماری دعوت کا گلہ گھونٹنے کے لیے بے دین نہیں ، دین دار پھر کافی ہوں گے۔ ہم جتنا بھی ان دین داروں کے خلاف فتاویٰ اور لڑائی کا محاذ گرم کریں گے ، اتنا ہی ہماری دعوت مبہم اور اپنے ہدف سے دور ہوتی جائے گی، پھر اس سے تیز رفتار کے ساتھ ہماری تحریک سکڑتی، تنہاء ہوتی اور ختم ہوتی جائے گی۔ لہٰذا ان دینداروں کے ساتھ فتاوی کی زبان نہیں، دعوت کی زبان ہم بولیں۔ دھمکی ، تحقیر اور سب و شتم نہیں ، دلیل اور دل سوزی کا انداز اپنائیں اور ایسا کرتے ہوئے ان کا حکم ِ شرعی جاننا اور اسے ہر وقت مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے ، تاکہ دامن ِ اعتدال نہ چھوٹ پائے۔

 

داعش سے بدتر فکر اور داعی جہادکی ذمہ داری

 دینی سیاسی جماعتوں سے منسلک یہ افراد اہل دین ہیں ، ان کے ساتھ کئی امور میں ہمارا اتفاق ہے اور کئی میں بہرحال اختلاف ہے ۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔ پھرسیکولر جماعتوں کی نسبت یہ اہل دین ایک لحاظ سے ہمارےحلیف ہیں، حریف نہیں۔ لادینوں کی نسبت ہمارے اور ان کے بیچ بہت کچھ مشترک ہے اور داعی کا تو کام ہی مشترکات ڈھونڈنا ہوتاہے اوروہاں سے پھر بات آگے بڑھا کر اُن امور کا بطلان ثابت کرنا ہوتا ہے جن کو وہ باطل سمجھتاہو ۔اس طرح کردار و اخلاق کے لحاظ سے بھی یہ دیندار سب ایک سطح کے نہیں ۔ مکرر عرض ہے ؛رائج نظام کی بات نہیں ہو رہی ، یہ بلاشبہ کفریہ نظام ہے ، اس نظام میں شرعی تاویل کی بناپر خدمت ِدین کا نام لےکر جو شریک ہیں ، ان کی بات ہو رہی ہے۔کیا یہ کافر ہیں؟ نعوذ باللہ! قطعاً نہیں ۔ ان کا شرعی حکم علماء جہاد نے بیان کیا ہے۔ ان اہل دین کو مطلقاًکافر قرار دینا … عام عوام کی ووٹ ڈالنے کے سبب تکفیر کرنا،یا حیلے بہانوں سے مسلمان عوام کے جان ومال کو اپنے لیے مباح کرنا انتہائی سنگین زیادتی ہےاور یہ وہ مبنی بر غلو تکفیری سوچ ہے کہ جس نے الجزائر سے شام و عراق تک دعوت جہاد کو تباہ کیا ہے۔ اس فکر و کردار کے حامل افراد میں سے ایسے بھی تھے جو زبان سے تو مسلمان عوام یادیگر اہل دین کی تکفیر نہیں کرتے تھے، ان سے اگر عوام کا شرعی حکم پوچھا جاتا ، توجواب میں انہیں مسلمان ہی بتاتے ،مگر میدانِ عمل میں ان کا طرزعمل اپنےا س دعویٰ کے بالکل خلاف ہوتاتھا، عملاً وہ جماعتی تعصب کی ایسی غلاظت میں لتھڑے ہوتے کہ اپنی جماعت یا گروہ سے باہر عامۃ المسلمین کیا، اہل دین اور مجاہدین تک کے ساتھ بھی کافروں (یاکم ازکم باغیوں )جیسا تعامل کرتے تھے۔ان کی جان ومال اور عزت و آبرو کا معاملہ انتہائی ہلکا لیتے اور خود ساختہ تاویلات سے انہیں اپنے لیے مباح کرتے تھے۔کیوں ؟ سبب کیا ہوتا تھا؟ بس یہ کہ فلاں میری جماعت میں کیوں نہیں؟ فلاں مسلمان ہے ، اہل دین ہے ،بلکہ مجاہد بھی ہے، شریعت اس کی جان ومال اور عزت کی حرمت بتاتی ہے، مگر یہ افراد اس وجہ سے اس فلاں کوبرداشت نہیں کرتے تھے کہ یہ میرے گروہ میں کیوں نہیں؟یہ میرےہی جتھے کو قوی کیوں نہیں کرتا؟ اس سوچ کے حامل افراد دعوت وجہاد کے لیے ہمیشہ زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی اپنے اوپر داعش کا لیبل نہیں لگا رہا ہواور اہل سنت والجماعت کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑتا ہے، تومحض زبانی کلامی جوڑنے سے کیا ہوتاہے ؟ یہ اخلاق اور یہ فکر اہل سنت کی نہیں ہے اور یہی وہ فکر و عمل ہے جو دعوتِ جہاد کی بدنامی کی باعث ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ داعشی ہونا کسی خاص جماعت سے منسوب ہونے کا نام صرف نہیں ، یہ فکرو عمل اور اخلاق و کردار کا نام ہے۔ اگر کوئی فرد جماعتی لحاظ سے داعشی نہ بھی ہو مگر اس کی فکر مبنی بر غلوہو، اہل سنت والجماعت اور عصر حاضر کے معروف اکابر علماءِ جہاد کے راستے سے اس کا منہج ہٹا ہوا ہو ، خواہش نفس ،گروہی تعصب اور انتقامی نفسیات کا وہ تابع ہو اور حیلے بہانوں سے مسلمانوں کی جان و مال کو مباح کرتا ہو ، تو وہ لاکھ داعش کی مخالفت کرے،وہ بدرجہ اولی داعشی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ا فراد تحریک جہاد کے لیے داعش کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں ، اس لیے کہ داعشیوں کے جرائم واضح ہوچکے، وہ اب فساد کا استعارہ بنے ہوئے ہیں اور خودکشی کے راستے پر گامزن ہیں، جبکہ ایسا فرد اپنے آپ کو داعش کا مخالف بتاکر بھی اپنی زبان وعمل سے دعوت و جہاد کو نقصان دے رہا ہے۔پس جس طرح داعش نے دعوت وجہاد کو نقصان پہنچایا، اسی طرح اس مبنی بر غلو فکر و عمل نے بھی دشمنانان جہاد کی کوئی کم خدمت نہیں کی۔لہذاتحریکِ جہاد کو حوادث سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس فکر ، اخلاق اور منہج کو پہچاننا جائے، یہ شر ہے اورخیر پرعمل کے لیے اس سے متعلقہ شر کا علم حاصل کرنا واجب ہوتاہے، لہذا اس فکر و منہج کی پہچان ،اس سے دور ہونا اور اس سے امت کے نواجوانوں کو دور کرنا آج داعیان جہاد و مجاہدین کا فرض بنتا ہے ۔ اس طرح ہر عمل سے پہلے علم فرض ہے اور اس کا اہتمام اگر نہیں کیا گیا تواللہ نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی اس زمرے میں شمار ہوجائے کہ جس کے بارے میں اللہ فرماتاہے ﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا﴾ ’’ کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں ‘‘، ﴿الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا﴾ ’’ وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں ‘‘۔

 

بِلاتکفیر و تحقیر بھی نقدو اصلاح ممکن ہے!

مسئلہ یہ ہے کہ اس نظامِ کفر میں شرعی تاویل کے ساتھ دین کی خدمت کے نام پر اگر کوئی شرکت کرتے ہوں تو علماء جہاد کے مطابق یہ زیادتی ہے،گناہ ہے، حرام ہے،اس کی بھرپور مخالفت ہواور دعوت واصلاح کی زبان سے ایسے افراد کی اس غلطی پر علانیہ نقد ہو مگر ان افراد کی تکفیر نہیں ہوگی۔یہ افراد جیسا کہ پہلے عرض ہوا سب ایک سطح کے نہیں ہیں ، کوئی خاص قائد ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو دعوت ِدین وجہاد کو نقصان دینے میں بہت آگے ہو اور بعض اوقات خود اس کی کوئی ذاتی حرکت اس کے دعوی ایمان کی بھی نفی کر رہی ہو، مگر اس کے باوجود ہمیں خاص اس ایک کے فرد کے خلاف بھی تکفیر کی زبان استعمال کرنے سے گریز کرنی چاہیے۔ اس کے خلاف اس طرح فتوی کی زبان سے خود دعوت و جہاد کا نقصان ہوتا ہے ۔ علماء اہل سنت کا طریقہ رہاہے کہ کسی معیّن فرد یا گروہ کے متعلق تکفیر کا اعلان کرنے سے پہلے دعوت وتحریک کے مصالح ومفاسد کابھی جائزہ لیتے۔ اگر کسی شخص نے اسلام کالبادہ اپنے اوپر ڈالا ہو جبکہ حقیقت میں اس نے کفر اختیار کیاہو، تو اسلاف کی اتباع کرنے والے علماءکرام کے ہاں دیکھا جا تا تھا کہ ایسے فرد کو علانیہ کافر قرار دینے یا اسے قتل کرنے سے دعوت و تحریک کو فائدہ ہوگا یا نقصان ؟ اگر نقصان کا خدشہ زیادہ ہوتا تو اُس فرد کے اعمال پر اس کا نام لیے بغیر مطلقاً نقد ہوتی ، اصلاح کی کوشش ہوتی، اس کے شر کے آگے بند بھی باندھا جاتا تھا مگر تعین کے ساتھ نہ اس کی تکفیر ہوتی تھی اورنہ ہی اسے قتل کیا جاتاتھا۔ رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی کے ساتھ آپ ﷺ کا تعامل ہماری نظر میں ہو ، جب صحابہ نے اسے قتل کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ‘‘ [13]۔’’چھوڑو اسے (تاکہ) لوگ یہ نہ کہے کہ محمد(ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے‘‘۔

ایک اور نکتہ بھی ملاحظہ ہو،رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی انصار کے قبیلے خزرج کا تھا ، قبیلہ ایک ہونے کے سبب اس قبیلے کے سردار، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے، جلیل القدرصحابی ہونے کے باوجودبھی یہ گوارا نہیں کیا کہ کسی دوسرے قبیلے کا فرد اسے قتل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عبداللہ بن ابی کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو سعد بن عبادہ رضی اللہ کو اس پر غصہ آیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اس عمل سے باز رہنے کی تاکید کی ۔صحیح مسلم نے یہ واقعہ روایت کرتے ہوئے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل کیا ہے کہ ” وكان رجلاً صالحاً ولكن احتملته الحمية”[14] ’’ وہ نیک انسان تھے مگر اس وقت ان پر حمیت کا غلبہ ہوا‘‘۔ گویا آپ رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ اگر رسول اللہ ﷺ عبداللہ ابن ابی کو قتل کرنا چاہتے ہیں توانہیں امردیں ، وہ خود اس کا سر تن سے جدا کردیں گے مگر کسی اور قبیلے کے کسی فرد کا، چاہے وہ صحابی ہی ہو، اسے قتل کرنا، آپ رضی اللہ عنہ کی غیرت کو گوارا نہ تھا۔ بعینہ یہی موقف عبداللہ ابن ابی کے مومن فرزند حضرت عبداللہ کا تھا ، جب ا بن ابی کی شرارتیں زیادہ ہوئیں اور آپ ﷺ کی تکلیف کا بھی حضرت عبداللہ کو احساس ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور مطالبہ کیا کہ اگر آپﷺ میرے والد کا قتل چاہتے ہیں تو مجھے حکم دیجئے ، میں خود اپنے اباکا سر کاٹ کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردوں گا ، لیکن کوئی اور میرے اباکو قتل کرے اور میں اس زمین پر اپنے باپ کے قاتل کو زندہ دیکھوں ، یہ میری برداشت سے باہر ہے! [15]

تو محترم بھائیو!قبائلی اور گروہی نسبتیں بہت نازک ہوتی ہیں، اپنی جماعت کے قائد سے کسی فرد کو خود اختلاف ہوگا اور وہ ایک سطح پر اسے برا بھی سمجھتا ہوگا لیکن اگرجماعت سے باہر کوئی اور اس قائد کا نام لیکر اس کو برا بھلا کہے تو جماعتی نسبتیں کھڑی ہوجاتی ہیں اور جذبات بھڑک جاتے ہیں ، بالخصوص جب جماعت دینی ہو ،اس لیے ان نزاکتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ان دینی سیاسی جماعتوں میں اچھے لوگ بھی ہیں جو دین کے نام سے ان جماعتوں میں ہیں ، اپنے قائدین سے ان کی محبت ان قائدین کی دنیاپرستی کے سبب نہیں ، بلکہ اس محبت و تعلق کا سبب کسی بھی سطح کی دین کی وہ خدمت ہے جو یہ قائدین کرتے ہیں /یاکرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، لہٰذا ان قائدین پر کفر کا فتوی لگاکر ہم کیسے امید کرتے ہیں کہ ان کے افرادہماری دعوت سنیں گے؟ پھر ان پر کفر کے فتاویٰ لگانے سے دیگر اہل دین اور عام عوام کو بھی کوئی ایسا مثبت پیغام نہیں جاتاجو انہیں متأثر کرے۔لہٰذ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس بیماری کا علاج ہو ،آپ کی خواہش ہو کہ ان سیاسی دینی جماعتوں کے افراد کو جمہوریت کاکفر سمجھائیں ، انہیں دعوت وجہاد کے نبوی منہج پر لے آئیں اور لوگوں کو بھی ان کے غلط راستے سے روکیں تو ایسے امور میں سیرت نبویﷺ سے رہنمائی لیجیے ! عمل پر نقد کیجیے مگر کسی کا نام لیے بغیر ، کسی خاص فرد پر کفر کا فتوی دیے بغیر بس جمہوریت کا باطل ہونا بیان کیجیے ۔

 

لوگ اِن کی بات مانیں گے یا ہماری ؟

سانحہ لال مسجد کے فوراًبعد جب سب مجاہدین غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے ، ہمارے اعلام سے وابستہ کچھ ساتھیوں نے بھی پاکستان کے ایک بڑے مفتی صاحب کی تصویر منفی انداز میں اپنی ویڈیو میں ڈالی،مفتی صاحب پر (نعوذ باللہ ) کوئی کفر یا فسق کا فتویٰ نہیں لگا یا تھا، بس مناسب الفاظ میں نقد کی گئی تھی۔ شیخ ابویحییٰ رحمہ اللہ کو میں نے یہ ویڈیو دکھائی، شیخ نے فوراً روکا ، پوچھا یہ تصویر کیوں ڈالی ہے؟ عرض کیا: ’ ان مفتی صاحب کا لال مسجد سانحے پر یہ موقف ہے اور انہوں نے یہ اور یہ کام کیے ہیں!‘۔ شیخ ناراض ہوئے اور اس عمل کو بالکل غلط کہا ،آپ نے فرمایا: ’ان مفتی صاحب کے کتنے معتقدین ہیں؟ ان کے خطبۂ جمعہ میں کتنے لوگ آتے ہیں ؟ ‘‘ ظاہر ہے، لاکھوں لوگ انہیں اپنا مرشد سمجھتے ہیں۔ پھر شیخ نے پوچھا’’ آپ کی اور ہماری بات سننے والے کتنے لوگ ہیں؟ کتنے ہیں جو ہمارے کہنے پر ان مفتی صاحب کو برا کہیں گے اور وہ تعداد کتنی ہے جو مفتی صاحب کے ایک اشارہ پر ہمیں برا کہیں گے ؟!‘‘ شیخ نے فرمایا: ’’ عام اہل دین عوام آپ کا تقویٰ ، آپ کا جہاد ، اخلاق اور علم کچھ نہیں جانتے ہیں ، آپ کون ہیں؟ کیا ہیں؟ انہیں یہ تو نہیں معلوم، مگر آپ جب ایک ایسی معروف دینی شخصیت کے متعلق برا کہتے ہیں جن سے ان دینداروں کی محبت و عقیدت ہوتی ہے ،تو ایسے میں کوئی کیوں آپ کی زبانی انہیں برا کہے گا ؟ اور اس کے بعدیہ مفتی صاحب اگر مجاہدین کوخوارج کہیں تو لوگ کیوں ہمیں خوارج نہیں کہیں گے ؟لوگ آپ کی زبان سے ان شخصیات کو نہیں پہچانتے ہیں ،بلکہ ان شخصیات کے ذریعے آپ کو پہچانتے ہیں،لہٰذایہ آپ کے بارے میں جو کہیں گے لوگ اس پر یقین کریں گے !‘‘۔ پھر شیخ نے سیاسی دینی قائدین کے متعلق بھی دعوتی و اعلامی ہدایات دیں کہ ان قائدین کا نام لےکر اور تصاویر ڈال کر طنز و تحقیر نہ ہو۔ اگر کہیں نام لینا مجبوری کی حد تک بہت ضروری ہو تو طنز اور فتاویٰ لگائے بغیر کم سے کم تلخی کا اظہارہو ۔ پھر اسلوب پر غصہ و ہتک نہیں ، بلکہ ہمدردی و خیرخواہی غالب ہو۔ میں نے عرض کیا کہ ’’ شیخ! پھر جمہوریت کا کفر اور جمہوری منہج کی ضلالت کیسے بیان ہوگی ؟ کیسے لوگوں کو ان کا مبنی بر فساد منہج واضح ہوگا ؟‘‘ شیخ نے فرمایا: ’نفس ِجمہوریت کا کفر بیا ن کریں ، ’اسلامی جمہوریت‘ نامی اصطلاح کابطلان کریں ، اس فکر کو دلائل و براہین سےرد کریں ، بتائیں کہ اس جمہوری نظام میں شامل ہونانظامِ کفر کو تقویت دیتا ہے ، یہ زیادتی ہے ،گناہ ہے ، مگر اس نقد میں قائدین پر کفر کے فتاویٰ مت لگائیں ، قائدین کی تصاویر لگا لگا کران پر طنز کے نشتر مت چلائیں ،اپنی برتری جبکہ ان کی تحقیر کا مظاہرہ نہ کریں… لیکن اس کے برعکس اگر آپ ان کے ساتھ درشتی وتحقیر کا رویہ اپنائیں گے تو ان قائدین کے پیچھے چلنے والے لوگ تعصب کا شکار ہوں گے، وہ آپ کی دعوت پر کان نہیں دھریں گے اور یوں ان کی موجودہ مخالفت بعد ازاں واضح دشمنی میں تبدیل ہو جائے گی‘‘۔

 دعوتِ جہاد میں مصروف بھائیو!

عرض یہ ہے کہ ان جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ دلیل اور دل سوزی کے ساتھ اختلاف ہو، ان کے دلائل اور طرزِ عمل کا رد بھی ہو مگر یہ نقد تکفیر کے لہجے میں نہ ہو ،بلکہ تفہیم اور درد مندی کے انداز میں ہو ۔ نیزایک اور اہم بات یہ ہے کہ اہل دین میں سے جو بھی ہماری دعوت کی مخالفت کرتے ہیں ،انکی نیتوں پرکبھی بھی وار نہ ہو، بس عمل اور کردار سے اختلاف ہو۔اس طرح دوسرا نکتہ یہ کہ کسی شخصیت کو آپ برا سمجھتے ہوں مگردعوت کے مخاطبین اسے نیک اور خادم ِدین سمجھتے ہوں ، تو آپ کا اسے برا کہنے اور اس پر کفر کا فتوی لگانے سے مخاطبین آپ کی بات کبھی نہیں سمجھیں گے ، اس شخصیت کو برا اعلان کیے بغیر اس عمل کی برائی واضح کیجیے جس کی وجہ سے وہ برا ہے ، دلائل ، دل سوزی اور تواضع کے ساتھ آپ اُس برائی کو برائی ثابت کریں گے تو مخاطبین خودہی اس فرد کو بھی برا سمجھیں گےاور خود سے اس کی اُس برائی کی مخالفت شروع کریں گے ۔

 

انٹرنیٹ دعوت: تخریب جہاد کا ذریعہ بھی ؟!

انٹرنیٹ دور جدید کے فتنوں میں سے ایک ایسا فتنہ ہے کہ جس کی خطرناکی ظاہر کرنے کے لیےلفظ ’فتنہ‘ کا دامن بھی تنگ محسوس ہوتا ہے۔ موبائل سکرین پرانگلیوں کے محض چند لمس، پُرکشش مگرایسی بدترین بھیانک کھائی کا منہ کھول سکتے ہیں کہ جس کی چوڑائی کی کوئی حد اور گہرائی کا کوئی پیمانہ نہیں۔ شبہات و شہوات کا ایک سیلاب ہے جو کمپیوٹر سکرینوں سے امنڈ کر قلوب واذہان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔ اس نے کتنی جانوں کو ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی اور شہوت و ہوس کی نہ بجھنے والی پیاس میں مبتلا کیا ہے اوربدنصیبوں کی کتنی بڑی تعداد ہے کہ جن کی دنیا و آخرت کی بربادی کے لیے اس اژدہے کی یہ دوستی کافی ہو گئی ہے۔ شیاطین کو شاید پوری انسانی تاریخ میں ایسی سہولت پہلے کبھی نہیں ملی ہوگی جیسی کہ آج اسے نیٹ کی صورت میں میسر ہےاوروہ بڑی آسانی اور مکاری سے انسانوں کو اپنےاس شیطانی جال(Internet) میں پھنسا کر تباہی وبربادی کی اندھی کھائیوں میں گرا رہے ہیں۔

 پھر دورِ حاضر کی ستم ظریفی کہیے یا آخری دور کے اندھے بہرے فتنوں کی برسات، کہ آج یہ انتہائی خطرناک ’’فتنہ‘‘ بھی بوجوہ، دعوتِ دین وجہاد کا ایک ذریعہ بن چکا ہے اور چونکہ قلوب واذہان کو متاثر کرنے کا یہ ایک مؤثر و آسان ذریعہ بھی ہے، اس لیے فوز و فلاح کی طرف بلانے والےداعیان کرام بھی اسے لامحالہ استعمال کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں سے ایک طبقہ آج انٹرنیٹ پرہی دعوت ِ جہاد پاکر تحریکِ جہاد میں شامل ہو رہا ہےاور میدانِ جہاد میں بھی مجاہدین کی ایک تعداد (جو اگر چہ کم ہے) نیٹ سے کسی نہ کسی سطح پر مربوط رہتی ہے۔ لہٰذا آج منہج جہاد کے ابلاغ کاکام بھی کسی حد تک انٹرنیٹ پر ہو رہا ہے۔ مگر درحقیقت یہ ضروری نہیں ہے کہ نیٹ پر دعوت ِجہاد کایہ کام ہر لحاظ سے تحریک ِ جہاد کو فائدہ دے رہا ہو۔ سچ یہ ہے کہ یہ صرف اُس صورت میں تحریک ِ جہاد کے لیے مفید ہو سکتا ہے جب اس میں مصروف افراد افراط و تفریط کا شکار ہوئے بغیر دعوت کے شرعی آداب واخلاق کا لحاظ رکھنے والے ہوں۔ لیکن اگر اس کے برعکس یہاں مبنی برغلو فضا ہو ، علم و فہم کی جگہ نری جذباتیت وسطحیت ہو اور دعوتِ جہاد کے نام پر ایسا غیر شرعی اسلوب ہو کہ جس میں الٹا جہاد سے متنفر کرنے کا سامان پایا جاتاہو، تو نہ صرف یہ کہ اس سے دعوتِ جہاد کو نقصان ہوتا ہے، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کرزیادتی یہ ہے کہ خود تحریک ِجہاد کی تخریب میں بھی اس ’دعوت‘ کا بڑا کردار بن جاتا ہے۔ ماضی قریب میں ہر اُس انسان نے دیکھ لیا جس کی دو آنکھیں تھیں اور وہ بینا بھی تھیں کہ داعش کے خوارج کو پیداکرنے ، اس فتنے کو ہوا دینے اورنوجوانوں کو غلو کے اندھے راستوں پر ڈالنے میں انٹرنیٹ کی اس غیر شرعی دعوت نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ انٹرنیٹ دعوت مجموعی طور پر ایک مزاج دیتی ہے اور اگر یہ مزاج بے ادب ، بداخلاق اور غیر شرعی ہو تو یہ دعوت ِ دین اورمجاہدین کوجتنا نقصا ن پہنچاتی ہے، دینِ اسلام کے علانیہ دشمن بھی تحریک جہاد کو اتنا نقصان شاید نہیں پہنچا سکتے۔

 

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے !!

کوئی دس بارہ سال پہلے امریکی تھنک ٹینک( رینڈ کارپوریشن) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحریکِ جہادکی تباہی قوت و جبر کے ذریعے مشکل ہے۔ یہ تحریک باوجود ہماری پابندیوں اور رکاوٹوں کے فروغ پا رہی ہے۔ اس کا یہ پھیلاؤ صرف اُس وقت روکا جاسکتا ہے جب تحریکِ جہاد کے اندر ایسے افکار پنپنے لگیں اورجہاد سے منسوب افراد ایسے افعال کا ارتکاب کرنا شروع کردیں کہ جن سے یہ دعوت خودبخود باعث نفرت بنے اور مسلمانوں کے لیے اس میں موجود کشش ختم ہوجائے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم جہادی صفوں کے اندر ایسے افراد تلاش کریں جو ہر حال میں صرف اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہوں ، مسلمان عوام اور دیگر دینداروں کے متعلق انتہائی سخت گیر ہوں اورمسلمانوں میں سے جو بھی ان کے ساتھ مکمل موافقت نہ رکھتا ہواس کی تکفیر کرتے ہوں۔ رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اس مزاج کی دعوت کو اگر فروغ دیا جائے تو تحریکِ جہاد کو تباہ کرنا، اس کی جڑیں خود اس کے ’جہاد یوں‘ کے ہاتھوں کاٹنا اور اس کی دعوت کو تباہی و بربادی کااستعارہ بنانا آسان ہوجائےگا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایسے افراد انٹرنیٹ پر آسانی سے مل سکتے ہیں اور انہیں انٹرنیٹ ہی کے ذریعے بالواسطہ ’جہادیوں‘ کے اندر تیار بھی کیا جا سکتا ہے۔

انٹرنیٹ کا المیہ …جذبات وافکار کا استحصال

 انٹر نیٹ کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جہادی صفحہ اپ ڈیٹ کرنے ، ٹرینڈ چلانے ،دعوت دینے اور کمنٹس لکھنے والے کا اپنا اصلی کردار عموماًدکھائی نہیں دیتا ۔وہ تقویٰ و اخلاق کا حامل داعیٔ دین یا مجاہد ہے یا… ایمان واخلاق سے عاری دین دشمن؟ اس کی اصلیت کا پتا انٹرنیٹ پر نہیں چلتا، بلکہ اسکرین پر جو لکھا نظر آتا ہے ،جو دکھایا جاتا ہے وہی شخصیت کا تعارف بنتا ہے۔اب چونکہ اسکرین پر اپنی اصلیت چھپا نا کوئی مشکل کام نہیں ہے ،لہٰذا بڑی آسانی کے ساتھ قارئین کے جذبات و افکار کا استحصال بھی کیا جاسکتا ہے اور راہ حق کے راہزن، راہبرو راہنما بن کر مسافرانِ حق کو لوٹنے کے لیے بڑی خطرناک گھات بھی لگاسکتے ہیں۔ اگر شرعی علم ، فہمِ جہاد ، صالح صحبت اور دینی و اخلاقی تربیت کی کمی ہو تو ایسا فرد کسی بھی وقت ان کے جال میں پھنس کر دشمنانِ جہاد کے برآمد کردہ افکار کو اصل جہادی سمجھ کر اپنا سکتا ہے ،بالخصوص جب ایسا ’ناصح‘ و ’داعی ‘ بیس میں سے پندرہ باتیں تومتفق جہادی امورکی کر رہا ہواور پانچ تحریکِ جہاد کا رُخ موڑنےاور نوجوانوں کو غلو کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے کر رہاہو۔ یہاں ایسے جہاد دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کا سبب وہ چند باتیں بن جاتی ہیں جو واقعی حقیقت میں جہادی ہوتی ہیں، مگر دین کے یہ دشمن ان باتوں کو مخاطب کے گھیرنے اور اسے گرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں اُن نکات کا علم ہو کہ جوصحیح اہل جہاد اور اہل غلو و جہاد دشمنوں کے بیچ فرق واضح کرتے ہیں ۔

اہلِ غلو کے ساتھ وجہِ اختلاف

ایک اہم نکتہ کہ جس کی طرف اگر ہم متوجہ ہوں توتحریک ِ جہاد کواوپر ذکر کردہ نقصان سے بچا سکتے ہیں ، وہ یہ کہ اہلِ غلو کے ساتھ ہمارا اختلاف منزل کے اعلان میں نہیں ہے ۔ وہ بھی نظامِ کفر ختم کرنے اور شریعت کے نفاذکو اپنی منزل بتاتے ہیں اور ہم بھی انہی اہداف کو اپنا مدعا ومقصد کہتے ہیں۔ اختلاف اس منزل میں نہیں ہے ، بلکہ ا س منزل تک جانے والے راستے میں ہے۔ اصحابِ غلو بھی انہی مقاصدِ جہاد کا اعلان کرتے ہیں، جو واقعی مقاصدِ جہاد ہونے چاہیے ہیں، مگر اس جہاد میں سعی و عمل کا ڈھنگ کیا ہو؟ اصل وجہِ نزاع یہ ہے۔ اصحاب غلو نفاذِ شریعت کی اس منزل و نصب العین کے لیے جو راستہ اور طریقِ کار اپناتے ہیں وہ غیر شرعی ، تحریک جہاد کے لیے تباہ کن اور دعوت جہاد کے لیے انتہائی مضر ہے [یہ الگ بات ہے کہ جو طریق ِکار میں اختلاف کرتا ہے، وہ منزل ( نفاذ شریعت )کے فہم میں بھی موافق نہیں ہوتا اور ایسے اصحاب غلو اپنے سوءفہم اور جہالت کے سبب نفاذِ شریعت کی کیفیت اور تعبیر میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں، مگر بیان کی حد تک وہ اور ہم، سب اپنی منزل نفاذِ شریعت اور غلبہ دین ہی اعلان کرتے ہیں]۔ لہٰذا انٹرنیٹ قارئین اور محبین ِ جہاد محض نظامِ کفر کو برا بھلا کہنے، مجاہدین کی تائید کرنے اور ’شریعت یا شہادت‘کے نعروں کو کبھی اور کبھی بھی کافی نہ سمجھیں۔ نظام کفر کا خاتمہ اور نفاذشریعت نصب العین ہیں، یہ نصب العین بذات خود انتہائی اہم ہیں مگر طریقِ کار بھی اس کے برابر اہم ہے۔ اس دعوت و قتال میں کیا جائز ہے اور کیا ناجائز… اس میں کیا مفید ہے اور کیا غیر مفید … وہ کیا اعما ل ہیں کہ جن کے کرنے سے اس منزل تک سفر سمٹ جاتا ہے اور وہ کیا افعال ہیں کہ جن کے ارتکاب سے منزل دور ہوجاتی ہے؟ دعوت کا وہ کون سا اسلوب ہے کہ جس سے جہاد کو فائدہ ہوگا اور وہ کیا انداز ہے کہ جو دعوت ِ جہاد کو نقصان دیتا ہے؟ یہ تمام وہ امور ہیں جو اختلاف کا سبب بھی ہیں اور انہی پر تحریکِ جہاد کی کامیابی وناکامی کا انحصار بھی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس طریقِ کار میں یہ فرق ہی ہے کہ جس سے دعوت وجہاد میں اصل و نقل کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن اگر ان امور کی طرف دھیان نہ دیا جائے اوربس جو جہاد کی بات کرتاہے ، اسے ہم راہ جہاد کا داعی وسپاہی سمجھیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ ِ جہاد میں ایک دفعہ نہیں ، کئی مرتبہ یہ ہوا ہے کہ جہاد کی ’دعوت‘ بھی تحریک جہاد ہی کو نقصان دینے کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ اس لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم ایسی ’دعوت‘ اور نصرتِ جہاد کے نام پر جہاد کو ختم کرنے والے دشمنان دین کے مقابل تحریک جہاد کی حفاظت کریں اور ان کے مقابل اپنا داخلی حصار مضبوط کریں۔

 

حفاظت کاہمارا داخلی حصار

 ہمارے ہاں جواسیس اور دشمن کے آلۂ کاروں کو روکنے کاانتظام تو موجود ہے مگر تحریک جہاد کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے جو فکری نقب لگائی جاتی ہے اس کا کماحقہ نظام موجود نہیں ہے۔ جہادی صفوں میں دشمن کا کوئی آلۂ کار اگر داخل ہوکر مجاہدین کو جانی نقصان پہنچانا چاہے تو امکان ہے کہ وہ پکڑاجائے گا اور کیفرِ کردار کوپہنچ جائے گا، اس لیے کہ اس مقصد کے لیے داخلی استخبارات (انٹیلی جنس)اور امنیت (سکیورٹی ) کا نظام موجود ہے۔ مگر جہاں تک افکار کی نگرانی اور اس راستے سے نقب لگانے والوں پر نظر رکھنے کا تعلق ہے، توہمیں افسوس ہے کہ تحریکِ جہاد کے اندر حفاظت کا یہ داخلی حصار اُس طرح مضبوط نہیں ہے جس طرح کہ ہونا چاہیے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ فکری نقب یا افکار کا بگڑنا زیادہ خطرناک ہے، اس لیے کہ انسان فکر وعمل کا نام ہے اور عمل فکر کے تابع ہوتا ہے۔ اگر فکر صحیح ہو توعمل بھی نافع ہوگا اور اگر فکر خراب ہوجائے اور اپنے نفع و نقصان کا معیار ٹھیک نہ رہے تو جو تحریک جہاد کے لیے اچھا ہوگا، اُسے ایسا فرد برا سمجھے گا اور جو تحریک جہاد کے لیے برا اور نقصان دہ ہوگا، اسے وہ مفید اور اچھا گردانے گا۔ ایسا جب ہوجاتا ہے تو پھر بڑے اخلاص کے ساتھ اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ کیا جا رہا ہوتا ہے، اورایسے میں پھر تحریک کی تباہی کے لیے کسی بڑے سمجھدار اور قوی دشمن کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ دشمن تو دور سے تحریک جہادکی اس خود سوزی اور خودکشی کا تماشہ بس دیکھتا ہے۔ وہ محظوظ ہو رہا ہوتا ہے کہ تحریک کے اپنے افراد خود اپنے ہاتھوں اپنی تحریک کو تباہ کر رہے ہیں۔لہٰذا یہاں ایسا حصار اورا یسا انتظام انتہائی ضروری ہے کہ اگر کوئی داعی اور عالم کے روپ میں اہل ِ جہاد میں تحریک ِ جہاد کےلیے مہلک افکار پروان چڑھا ناچاہے تو اس کا راستہ روکا جاسکے۔

 اس نکتۂ نظر سے جانچنے کے لیے صرف یہ دیکھنا قطعاً کافی نہیں ہوگا کہ کوئی فرد نظامِ کفر کے خلاف کتنا بول رہا ہے اور کفار کے خلاف مارنے مرنے پر کتنی تحریض دے رہا ہے۔ اگر ایک فرد یہ سب کچھ تو کر رہاہو، مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اہداف کی ایسی فہرست بھی متعارف کرا رہا ہو جو بالکل غیر شرعی ہوں یا تحریک ِ جہاد کے لیے کلیتاً مضر ہوں، تو کیا ایسے فرد کوبھی اپنے افکار پھیلانے کی آزادی ہونی چاہیے؟ ایسے فرد کو اپنے افکار پر عمل کروانے کی کیا محض اس لیے آزادی ہو نی چاہیے کہ وہ کفار کے خلاف قتال کی دعوت بھی تو دے رہا ہے؟ تاریخِ جہاد شاہد ہے کہ ایسے افکار مجاہدین کے لیے دشمن کے ہتھیار سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں اور اگر ایسے افراد پر قدغن نہ لگائی گئی تو یہ تحریک ِ جہاد کووہ نقصان پہنچائیں گے جو علانیہ اور بدترین دشمن بھی کبھی نہیں پہنچا سکتا۔

 حقیقت یہ ہے کہ جہاد میں اہل حق کی صرف یہ ایک نشانی قطعاً نہیں ہے کہ وہ اُن افراد کے مارنے کی تحریض دے رہے ہوں جن کا قتل شرعاً جائز ہے، یہ ایک نشانی ضرورہے مگر صرف یہ ایک نشانی بالکل بھی کافی نہیں ہے۔ اہلِ حق کی دوسری اوراہم نشانی یہ ہے کہ آیا وہ اُن افراد کو مارنے سے مجاہدین کو روک بھی رہے ہیں یا نہیں کہ جن کا قتل شریعت اور مصالحِ جہاد کی نظر میں غلط اور نقصان دہ ہے؟ اگر کوئی فرد نظام باطل کی محافظ افواج اور کفار کو مارنے پر تحریض تو دے رہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں یا معصوم الدم افراد (جن کا خون بہانا جائز نہیں) کو بھی قتل کرنے کی راہ دکھاتا ہے تو یہ وہ فکری نقب ہے کہ جس کا فائدہ ہمیشہ اہل کفر کو ہوا ہے اور اس سوراخ سے ہم ڈسے جاتے رہے ہیں۔

 یہی حال اسلوبِ دعوت کا بھی ہے۔ اگر کوئی دعوت کے میدان میں ایسا طرزمتعارف کرا رہاہو، جو غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہواور جو جہاد سے لوگوں کو متنفر کرنے کا سبب بن رہا ہو تو ایسے اسلوب کو روکنا ضروری ہے اور اس کے لیے بھی ہمارے ہاں حفاظت کا بھرپور انتظام موجود ہونا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ ایسی تمام سازشوں کا سدِباب کیے بغیر دعوت ِ جہاد کبھی فروغ نہیں پاسکتی اور تحریکِ جہاد کبھی تقویت نہیں پکڑ سکتی۔

 

انٹرنیٹ سازشیں اور منہج جہاد وو مجاہدین کی حفاظت

دو اہم محاذ…اہمیت اور باہمی تعلق

اہل جہاد اور منہج جہاد کی حفاظت و تقویت، دواہم اور ظاہراً الگ محاذ ہیں … ان میں سے کسی ایک پر بھی غفلت و کمزوری سے ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ منہج ِ جہاد کی حفاظت اہل جہاد کی حفاظت پر بھی مقدم ہے، کہ مجاہدین کی تگ و دَو اور قربانیوں کا مطمحِ نظر ہی یہ ہے کہ حق کی دعوت اور اس کا پیغام فتح یاب ہو۔ لیکن منہج اگر خراب ہو، سفر کا راستہ اگر غلط ہوجائے تو مسافر چاہے بڑی تندہی اور اخلاص کے ساتھ محوِ سفر ہوں ، انہیں منزل کبھی نہیں ملے گی۔ اوپر کی سطور میں بھی عرض کیاگیا کہ ایسی صورت میں دعوت خوداپنے ہاتھوں خود کشی کرلیتی ہے اور تحریک خود اپنے افراد کے سبب تباہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر منہج و دعوت ٹھیک ہوتو ظاہر ہے یہ تب ہی کامیاب ہوسکتی ہے جب اس کو لےکر چلنے والے مجاہدین بھی قوی ہوں اور وہ دشمنانِ دین پر عسکری میدان میں بھی غالب ہوں۔ لہٰذا اہلِ جہاد اور منہجِ جہاد دونوں ہی کی حفاظت اور تقویت اہم ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں۔

دشمنان ِ دین کی جنگ ان دونوں محاذوں پر جاری ہے۔ وہ اہل جہاد کے خلاف میدن ِ قتال میں بھی لڑ رہے ہیں اور مختلف حربوں سے انہیں قتل کرنے ، قید کرنے اور انہیں مادی نقصان دینے کے درپے بھی ہیں اور دوسری طرف منہج ِ جہاد خراب کرنے اور قافلۂ جہاد کا رخ پھیرنے کی چالیں بھی چلا رہے ہیں۔ چونکہ ان دونوں مقاصد کے لیے وہ انٹرنیٹ کا میدان بھی استعمال کر رہےہیں، لہٰذا انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بھائیوں کویہاں دشمن کے ان دونوں حملوں کا طریقہ سمجھنا اور اس کو مدنظر رکھ کر، محتاط رہنا ضروری ہے ۔

اصل و نقل کی کشمکش

 ہر میدان میں ہی اصل و نقل کی کشمکش ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں اصل کو ختم کرنے کے لیے نقلی اشیاء متعارف کروائی جاتی ہیں اور مصنوعی طریقوں سے نقل کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ حق وباطل کی اس کشمکش میں بھی باطل، حق کے خلاف یہی طریقۂ جنگ اپناتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حق کی دعوت دبائے نہیں دبتی مگر باطل رستوں پر ڈالنے والے اگر حق کے عنوان اور سائن بورڈوں کے ساتھ موجودہوں، تو دعوتِ حق کو ایک سطح تک نقصان بہر حال پہنچتا ہے۔ امریکی ادارے، ’ ’یو ایس نیوز اور عالمی ادارے ‘ ‘ نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اگر اہل اسلام کی طرف سے ملاعمر کھڑا ہوجاتا ہے، تواس کے مقابل ہم امریکیوں کو ملابریڈلی؍ Mullah Bradley (یعنی جعلی ملا) کھڑا کر دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکیوں کے مطابق ایسے افراد پھر ان کے منظورِ نظر رہتے ہیں جو ظاہر میں تو حق کا دعویٰ کرتے ہوں مگر فی الحقیقت وہ راہِ حق سےدوسروں کو دور کرنے والے ہوں۔

چونکہ اللہ سبحانہ و تعالی ٰ نے انسان کی فطرت میں حق کے لیے کشش اور قبولیت رکھی ہے -اگر فطرت مسخ نہ ہو تو-لہٰذا باطل بھی بس باطل کے روپ اور باطل عنوان سے ہی راہِ حق میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ وہ یا تو لوگوں کی فطرت خراب کرتا ہے تاکہ وہ پھرہیروئن اور زہر کو بھی اکسیر سمجھ کر قبول کریں ، یا دوسری صورت میں دھوکہ اور فریب کا سہارا لیتا ہے اوراپنے باطل پر حق کی ملمع کاری کرکے لوگوں کو حق کے نام پر گمراہ کرتاہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں دونوں کام ہوتے ہیں۔ یہاں فطرت خراب کرنے کی بھی خوب سعی کی جاتی ہے اور تحریک جہاد کے خلاف دھوکہ وفریب کے جال بھی خوب بچھائے جاتے ہیں۔ غلط فکر و عمل کوصحیح روپ میں بڑی مکاری کے ساتھ مشہور کیا جاتا ہے اور منزل سے محبت رکھنے والوں کے سامنے گم کردہ راستوں کو بڑے دلکش اور جذباتی انداز میں رُخ بہ منزل دکھایا جاتاہے۔ ایسے میں جو سفر کا عزم اور منزل تک جانے کا شوق تو رکھتے ہوں مگر اس جوش کے ساتھ مطلوب ہوش اور حصولِ علم کی اہمیت سے انکاری ہوں، وہ دشمن ہی کی کھینچی گئی لکیروں پر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ بدنصیب، جہاد و قتال کے عنوان سے ہی خود بھی (نعوذ باللہ )تاریکیوں میں بھٹک جاتے ہیں اورقافلۂ جہاد کے لیے بھی بربادی کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ ایسےمیں صرف وہ افراد اپنا سفر رُخ بہ منزل جاری رکھ پاتے ہیں جو جذبۂ جہاد کے ساتھ ساتھ فہمِ جہاد کے ہتھیار سے بھی لیس ہوں۔ ایسے خوش نصیب علم ِ شرعی کا چراغ اٹھاتے ہیں اور اس راستے پر اپنے سے پہلے، سبقت لے جانے والے مسافرانِ حق کے نشانِ راہ کو دیکھ دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔

تذکیر وتنبیہ…جو ناگزیر ہے!

راہِ جہاد کے مسافروں کو یہاں راستے میں موجود ایک مشکل اور دشمنانِ دین کی ایک خسیس چال سے متنبہ کرنا ضروری ہے، مگر اس تنبیہ سے پہلے ایک تذکیر کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور وہ یہ، کہجہاد صبر و عزم کا راستہ ہے، یہ راستہ کانٹوں سے بھر پور ہے اور اس پر چلتے رہناآخری حد تک لازم اس لیے ہے کہ یہ جہنم سے بچنے اور حصولِ جنت کا راستہ ہے … یہ سفر اختیاری نہیں ہے، بلکہ اس راستے پر چلتے رہنا آج وقت کا اہم ترین فرض ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ سفر کبھی بھی نفس کے لیے آسان نہیں رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ روز اول سے ایمان و نفاق کے بیچ فرق کرتا ہے۔ ایسے میں جو آخرت کے گھر کا واقعی طالب ہو ، جس کی اللہ کے ساتھ محبت سچی ہو اور امت کے حال پر جس کا دل حقیقت میں دردمند ہو، وہ اس راستے کی پہاڑ جیسی مشکلات بھی خندہ پیشانی سے سہتا ہے اور راہ جہاد سے دور راحت و عافیت کی زندگی کو اپنے لیے کسی عذاب سے کم نہیں سمجھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہاں کشمکش، جدوجہد، مصیبت ، تکلیف، پریشانی، قید، مار پیٹ، فاقہ، جلاوطنی اور موت کا سامنا سب سنگِ میل ہیں !… اس لیے وہ حوصلہ نہیں ہارتا، ہتھیار نہیں ڈالتا، خطرات کو دیکھ کر خوف زدہ نہیں ہوتا بلکہ مصائب وخطرات کے سامنےچٹان بن کر کھڑارہتاہے اوراللہ سے توفیق مانگتے ہوئے مشکلات کے یہ پہاڑ کاٹتا ہوا، اپنے لیے جنت کا راستہ بناتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آخرت کا راہی نہ دشمنان دین کی قوت سے گھبراتا ہے اور نہ ہی ان فریب کاروں کی چالیں اور سازشیں دیکھ کر دل برداشتہ ہوتا ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ تقویٰ و صبر راہِ حق کے ہتھیار ہیں اور یہ دونوں پاس ہوں تو اہلِ باطل کی تمام تر چالیں اور ان کی تمام تر خسیس سازشیں بیکار ہوجاتی ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کے لیے اس عظیم راستے کو آسان کردیتا ہے اور بالآخر اسے اپنی دائمی جنتوں میں لےجاتا ہے۔

تنبیہ یہ ہے کہ راہِ حق پر باطل کی رکاوٹوں میں سے ایک سدِراہ ان کے دام فریب بھی ہیں۔ یہ وہ چال ہے کہ جو باطل اُس وقت استعمال کرتا ہے جب اس کی طاقت نا کام ہوجاتی ہے اور اسے تمام تر قوت و وَسائل کے استعمال کے باوجود بھی جب کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایسے میں پھر وہ عیاری و مکاری اور سازش و فریب کا جال بچھاتا ہے۔ ان جالوں میں سے ایک دام ِفریب ایجنسیوں کے وہ خسیس اہلکارہیں جو ’’مجاہد ‘‘ اور ’’داعی‘‘ بن کر انٹرنیٹ کے راستے مخلص افراد تک زمینی رسائی حاصل کرتے ہیں اور انہیں پھنسا کر داخلِ زندان کرلیتے ہیں۔ یہ چال ہے تو مکڑی کے جالے جتنی کمزور مگر محبینِ جہاد کی غفلت کے سبب یہ ضعیف جالا بھی ان کے لیے بعض اوقات خطرناک بن سکتاہے ۔ دشمن کی اس ممکنہ چال کا اگر پہلے سے ادراک ہو تو مقابلہ انتہائی آسان ہے اور اللہ کے فضل سے دشمنانِ دین کو یہاں بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے، لیکن اگر اس قسم کی چالوں کا سرے سے تصور بھی نہ ہو تومحض نظامِ کفر کو برا بھلاکہنے والا ہر فرد مجاہدتصور ہو گا اور یوں خود اپنے ہی قدموں سے ہم جال میں جاجاکر پھنستے جائیں گے۔ عالمِ عرب ہو،افریقہ، یورپ و امریکہ ہو یا برِّصغیر… ہر جگہ دشمنانِ جہاد، انٹرنیٹ پر یہ حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کی پہچان اور ادارک ضروری ہے۔

یہاں انٹرنیٹ پر ہمیں دو اہم چیلنجوں کا سامنا ہوتاہے اور اپنے قارئین اور متعلقین کو ہمیں ان دونوں ہی سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔ ایک چیلنج صحیح منہجِ جہاد کا سمجھنا،صرف اس کو ہی قبول کرنا اور اسے ہی آگے بڑھانا… اور دوسرا چیلنج ایجنسیوں کے آلۂ کاروں سے بچنا اور صرف حقیقی مجاہدین سےمربوط ہونا ہے۔ انٹرنیٹ یا اس سے باہر ان دو چیلنجوں سے اگر ہم نبرد آزما نہ ہوں اور جہاد مخالف سازشوں کا مقابلہ اپنی بنیادی دعوت کا حصہ نہ بنائیں تو اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ تلاطم خیز دریا میں تو ہم چھلانگ لگائیں اور لگوائیں مگر تیراکی کی ہمیں بالکل بھی شد بدھ نہ ہو۔ اللہ کرے کہ اس میدان کو درکار ہتھیاروں سے ہم اپنے آپ اور اپنے متعلقین کو مسلح کرسکیں ۔

 سکیورٹی کا ہوّا اور داعیان جہاد کی ذمہ داری

دشمنان دین کی خواہش ہے کہ نوجوانانِ امت نیٹ پر ہر گندی چیز تو دیکھیں، تباہی وبربادی کے ہر سوراخ سے تووہ ڈسے جائیں، مگر اللہ کی رضا اور حقیقی حیات کی طرف رہنمائی کرنےوالی دعوتِ دین وجہاد سے وہ دوررہیں۔ ان کی یہ کوشش بھی ہے کہ نیٹ پر خوف کی ایک ایسی غیر واقعی فضا قائم رکھی جائے کہ وہ دعوت ِجہاد سے متعلق کسی چیز پر نظر پڑتے ہی دل کی دھڑکن تیزکردے اور یہ خوف لاحق کردے کہ اس چیز کو ہاتھ لگاتے ہی جہاد د شمن عناصر اسے اٹھا کرغائب کردیں گے۔ اپنی اس خواہش وکوشش کو انہوں نے چھپایا نہیں ہے ، بلکہ ان کے تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹوں میں لکھا بھی ہے کہ ’انٹرنیٹ سکیورٹی کا ایک ہوّا کھڑا کرنا ضروری ہے‘۔ ان کے مطابق زیادہ تر لوگ محض اسی ہّوے کی بدولت جہادی سائٹیں اور صفحات دیکھنا چھوڑ دیں گے اور یوں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دعوت ِ جہاد سے دور ہو جائے گی۔نیٹ استعمال کرنے والے داعی بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے ا س خوف کا علاج کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ محض مواد دیکھنے اور پڑھنے سے نقصان نہیں ہوتا اور ساتھ ساتھ انہیں ایسی ٹیکنکل تدابیر بھی سکھائیں کہ جن کے استعمال سے وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہوئے آسانی واطمینان کے ساتھ دعوتی موادحاصل کر سکتے ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ محض جہادی مواد پڑھنے، دیکھنے سے نقصان نہیں ہوتا ، نقصان تب ہوتا ہے جب داعیٔ جہاد کے روپ میں دشمنِ خدا بہروپیے کو مجاہد سمجھا جائے، اسے اپنی اصل معلومات دی جائیں، اس کے ساتھ براہِ راست زمینی تعلق قائم کیا جائے …یا دوسری صورت میں مہلک ِ جہاد منہج کو صحیح سمجھ کر قبول کیا جائے۔ لہٰذا بس ان دو لحاظ سے انٹرنیٹ سازشوں کو سمجھنا اور ان سے بچنا ضروری ہے ۔

 سازشوں کا سہ سطحی مقابلہ

انٹرنیٹ پر سازشوں کا مقابلہ تین سطحوں پر کیا جا سکتا ہے:

اول یہ کہ منہج ِ جہاد میں رسوخ حاصل ہو۔ یہ منہج کیا ہے؟ اسے کہاں سے لینا ہے؟ دعوت وجہاد کا ہرموڑ اور اس میں آنے والے ہلاکت کے ہر گڑھے اورہر دوراہے کی پہچان ضروری ہے تاکہ نہ تو پاؤں پھسلے اور نہ ہی کہیں قدم غلط سمت اٹھے۔ اس حوالے سے اس مضمون میں پہلے بھی بات ہوئی ہے کہ جہادی فکر ومنہج،جائز وناجائز اور مفیدو مضر کا علم… تحریک ِ جہاد کے معتمد و معروف علماء کرام اور قائدین سے لیا جائے۔ اس طرح ہر داعیٔ جہاد اور مجاہد کی کوشش ہو کہ صحیح و غلط اور مفید و مُضر فکر وعمل کے درمیان علی وجہ البصیرہ فرق کرسکے اور جب بھی کوئی جہاد دشمن ’داعی ٔجہاد‘یا’مجاہد‘ کا روپ دھار کر منہج ِ جہاد میں نقب لگاتا نظر آئے تو فوراً اس کو پکڑا جاسکے ۔ ایسے فرد سے خود جداہونا ، اس کی برائی سے دوسروں کو متنبہ کرنا اور اسےبالکل تنہا وناکام کرنامطلوب ہے۔ یہ نہی عن المنکر ہے اور جہادی صفوں میں اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی ہی ہے کہ جس کے سبب تحریکِ جہاد، شام و عراق سے خراسان تک انتہائی بھاری قیمت ادا کر چکی ہے۔

دوم یہ کہ قائدین جہاد اور میدان جہاد کے اصل نمائندوں کے ساتھ رابطہ قائم ہو اورا س کے لیے نیٹ کے روایتی ذرائع سے ہٹ کر رابطے کا وہ نظام بھی استعمال ہو جس میں کسی مشکوک فرد کا داخلہ ناممکن ہو۔ الحمد للہ یہ نظام بطریقِ احسن موجود ہے،اس کو مجاہدین ہاں تزکیے کا نظام کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے الحمد للہ خراسان تا یمن ومالی تحریکِ جہاد آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ لہٰذا کوئی داعی اور مجاہد انٹرنیٹ پر اگر آپ سے براہ راست ملنےاور جہادی امور میں تعاون لینے ؍دینے کی پیشکش کر رہا ہو یا جہادی راز معلوم کرنے کی سعی کررہاہو تو اس فرد کے ساتھ تعامل میں انتہا درجہ کی احتیاط کریں۔ ضروری ہے کہ آپ متعدد اور مؤثر ذرائع سے ایسے فرد کی بابت اطمینان حاصل کریں۔ مکرر عرض ہے کہ ان میں سے بہترین ذریعہ تحریک جہاد کے حقیقی اور معتمد نمائندوں سے اس فرد کے متعلق تزکیہ دریافت کرنا ہے اور یہ تزکیہ حاصل ہوجانے کے بعد براہِ راست ملاقات اور دیگر امور میں مضائقہ نہیں۔ یہ تزکیہ حاصل کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں، انٹرنیٹ پر بحمداللہ مجاہدین کے رسمی نمائندہ صفحات، ویب سائٹس و چینلز موجود ہیں، جن کی ادارت (Adminship) معتمد مجاہد ساتھیوں کے ہاتھ میں ہے اور ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

تیسری سطح جس پر دعوت و جہاد کو محفوظ کرنا ضروری ہے، وہ مجاہدین کی صفوں میں استخباراتی نظام(Intelligence System) کی توسیع و تقویت ہے۔ یہ نظام بھی الحمد للہ موجود ہے مگر اس کو اہل علم اور تجربہ رکھنے والے ایسے افراد کے تحت کرنا ضروری ہے جن کی نگاہ دور رَس ہو اور جن کی نگرانی میں کوئی بے گناہ نقصان و تکلیف نہ اٹھائےاور کوئی مجرم آسانی کے ساتھ بچ بھی نہ پائے ۔

 اگر مذکورہ تینوں سطحوں پر حفاظت کا اچھا اہتمام ہو تو اللہ سے امید ہے کہ منہجِ جہاد بھی محفوظ ہوگا اور ساتھ ہی جواسیس اور مخبروں کے لیے بھی زمین تنگ رہےگی۔ یوں اللہ کے اذن سے کوئی بڑے سے بڑ اشاطر بھی اہل جہاد کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا پائے گا۔ سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول مبارک ہے ’’لست بالخب والخب لا يخدعني‘‘، یعنی ’’میں خود دھوکہ باز نہیں ہوں اور کوئی دھوکہ باز بھی مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا‘‘۔ یہ اصول تو عام زندگی میں ہو ناچاہیے، جبکہ جہاد کے اندر تو اور زیادہ بیدار مغزی درکار ہے اور اس درجہ کی بیداری کا ہی ایمان و جہاد تقاضا کرتا ہے۔

 

داعیانِ جہاد کی خدمت میں گزارشات

امورِ دعوت کی طرف لوٹتے ہیں اور دعوت و اعلام کے میدان میں مشغول بھائیوں کی خدمت میں یہاں چند گزارشات رکھتے ہیں۔ اللہ سےامید ہے کہ یہ نکات منہج ِ جہادکے فروغ و تحفظ میں معاون ہوں گے اور اہل جہاد کی حفاظت کے بھی ان شاء اللہ کام آئیں گے:

۱ .دعوت کے میدان میں تحریک ِجہاد محض سیاسی تحریک کی شکل کبھی اختیار نہ کرے کہ یہ ایک طبقۂ حکومت کو ہٹا نے اور ایک دوسرے کو قوت و اختیار دلوانے کی محض ایک سیاسی جدوجہد ہو۔ یہ جہادفی سبیل اللہ ہے اور یہ تب ہی جہاد و عبادت رہ سکتا ہے جب ا س کے ہر پہلو میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی کوشش ہو۔ پس اللہ کے ساتھ یہ تعلق اور سنت رسولﷺکے ساتھ یہ لگاؤ ہماری دعوت، اعلام اور دیگر اعمال ِجہاد کے ہر گوشہ میں واضح نظر آنا چاہیے۔

۲ . داعیٔ جہاد صرف فکری موضوعات کو زیر بحث نہ لائے۔ قلب و روح کو پاکیزہ رکھنا اور اخلاق و کردار کو سنت نبوی ﷺ میں ڈھالنا بھی انتہائی اہم ہے، یہ بھی دعوت کے بنیادی اہداف ہیں۔ لہٰذا داعیٔ جہاد کو تزکیہ و احسان اور سیرت و اخلاق بہتربنانے کے موضوعات کو بھی دعوت کا مستقل حصہ رکھنا چاہیے۔اس سے خود د اعی کو بھی فائدہ ہوگا اور اس کے مخاطبین کو بھی۔ اگر یہ اہتمام نہ ہو تو دل سخت ہو جاتے ہیں اور قلب کی یہ قساوت پھر زبان کی سختی اور کردار کی ایسی بدصورتی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ جس سے داعی خود بھی تباہ ہوجاتاہے اور دعوت وجہاد کو بھی وہ نقصان پہنچاتا ہے۔

۳ . گو کہ قول اورفعل دونوں ہی کی درستی کے لیے علمِ شرعی کا ہونا ضروری ہے، مگر دعوت کا معاملہ ایک پہلو سے زیادہ حساس ہے اور وہ اس طرح کہ اس میں دوسروں کو بھی ایک خاص فکرو سعی کی طرف بلایاجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دعوت کے لیےدرست علم کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے (انٹرنیٹ پر) دعوتِ جہاد کا محاذ جن بھائیوں نے سنبھالا ہوا ہے، انہیں علمِ دین اور فہم ِ جہاد بڑھانے اور اسلوب ِ دعوت بہتر کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ان امور کے لیے دیگر اہل علم کے علاوہ تحریکِ جہاد کے معتمد علماء کرام اور ان کی کتب کی طرف رجوع ضروری ہے۔ بہتر ہوگا کہ دعوت واعلام کا پورا کام اہل علم ہی کی نگرانی میں ہو، اس لیے کہ سطحیت کے سبب بےکاراور غلط بحث و مباحثہ تو ہوسکتا ہے مگر مطلوب و مفید دعوت نہیں دی جاسکتی۔ داعیٔ جہاد کے لیے کم از کم یہ تو بہرصورت لازم ہے کہ جس موضوع پر اس نے بات کرنی ہو، اس کے فرائض و مستحبات اور اصول و آداب کا اُسے علم ہو۔

۴. دعوت میں درشتی،لعن طعن، غلط القابات اور ہر طرح کی بدزبانی سےمکمل طور پر پرہیز ہو۔ ضروری ہے کہ داعی کی گفتگو شائستگی، نرمی اور دل وذہن کو کھینچنے والے دلائل اور اسلوب کی آئینہ دار ہو۔ مدنظررہےکہ دعوت میں جن کے ساتھ بحث ومجادلہ چل رہا ہو، صرف وہ افراد ہی دعوت کے مخاطبین نہیں رہتے، مخاطبین وہ سامعین و قارئین بھی ہوتے ہیں جو ہوتے تو غیرجانبدار ہیں مگر وہ فریقین کے دلائل اور اسلوب کا جائزہ لیتےہیں۔اگر تو صبر اور اخلاق کا دامن نہ چھوٹے اور داعی بس مبنی بر دلیل گفتگو ہی کرے تو اِن غیرجانبدارافراد پر بھی اثر ہوتا ہے اور اللہ کے اذن سے ان میں سےبھی کئی دعوت کے حامی بن جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا اسلوب مشروط قطعاً نہ ہو کہ مخالف نرم ہو توہم بھی نرم… اور وہ اگر دائرۂ اخلاق سے نکلتا ہے تو ہم بھی اس کےاندر نہیں رہیں گے۔ مخالف کی مخالفت برائے مخالفت اور ضد و ہٹ دھرمی کے مقابل بھی ہمارے لیے بہرحال بداخلاقی سے بچنا لازم ہے۔

۵ . داعیٔ جہاد پر خواہشِ نفس،نری جذباتیت، غصہ اور انتقامی نفسیات کبھی حاوی نہ ہوں۔ اس کا پورا دعوتی عمل عقل وحکمت، علم و عدل اور اہل خیر کی باہمی مشاورت کے تحت ہو۔وہ پہلوان نہیں کہ مخاطب کو پچھاڑتا ہو۔ داعی تو وہ حکیم ہوتا ہے جس کو ہر وقت فکر لاحق رہتی ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی کے سبب مریض کے مرض میں اضافہ نہ ہوجائے۔ وہ علم وحکمت سے کام لیتا ہے اور مسلسل اس کوشش میں رہتاہے کہ کسی طرح مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر اس میں اپنی بات اتار دے۔

۶ . داعی کو مخاطب کے قلب اور ذہن دونوں کو مائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس کی گفتگو مدلل بھی ہوجو عقل کو مخاطب کر ے اور ساتھ ہی وہ دل کی تاروں کو بھی چھیڑنے والی ہو جو جذبات و احساسات کو ابھارے۔ ہر وقت اور سب کے سامنے صرف عقلی باتیں مؤثر نہیں ہوتیں اور ہمیشہ سب مخاطبین کے لیے جذباتی اسلوب بھی مفید نہیں رہتا۔داعی کو حکمۃاور موعظۃحسنہ دونوں سے کام لینے کا امر ہے۔حکمت سے مراد وہ اسلوب و انداز ہے جو عقل کو اپیل کرے جبکہ موعظہ حسنۃ اس بیان کو کہتے ہیں جو دل پر اثر ڈالے۔

۷ . عوام کے سامنے ہمارا خطاب قوی ہو، کمزور نہ ہو، یعنی ایسا بیان ہو کہ جو نجات و فلاح کی طرف رہنمائی کرتا ہو اور ضعف و ذلت سے چھٹکارے کا باعزت راستہ دکھاتا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ کوشش بھی ہو کہ مخاطب کو ہمارے اس بیان و انداز میں عُجب وکبر کاشائبہ تک نہ ملے بلکہ اُسے اس میں اپنے لیے شفقت ا ور تواضع ہی محسوس ہو۔

۸ . ہمارے ساتھ اختلاف رکھنے والے اہل دین کے نام دعوت میں درد، سوز، ہمدردی اور خیر خواہی کا غلبہ ہو۔ تحقیر و تکفیر، طنز وتشنیع اور سبّ و شتم سے مکمل طور پر اجتناب ہو۔دعوت کا یہی اسلوب عوام کے سامنے بھی ضروری ہے۔

۹ . داعی مدارات اور مداہنت کے درمیان فرق جانتاہواور ان دونوں کو جدا کرنے والی سرحد پر اس کی نظر بھی ہو،یعنی ضروری ہے کہ اس کی دعوت پر نرمی توغالب ہو، مگر اس نرمی میں کسی ناحق کو وہ کبھی حق نہ کہے،بلکہ تمام تر نرمی اور لحاظ کے باوجود بھی وہ حق کو حق اور باطل کو باطل ہی کہتاہو۔

۱۰ .نظامِ کفر، اس کی قیادت اور اس کی حفاظت کرنے والی افواج کا شرعی حکم اور دیگر کفریہ اعمال کی تفصیل سمجھنا او ر دوسروں کو یہ سمجھانا یا اس دائرے میں تنبیہ کرنا ایک موضوع ہے، اور اس کو معتمد علماء کرام کی کتابوں کی روشنی میں(ایک خاص سطح پر) دعوت کے اندر رکھنا چاہیے تاکہ ان اعمال کی سنگینی وخطرناکی کا بھی احساس ہو اور نظامِ کفر سے کماحقہ دشمنی ونفرت بھی دلوں میں راسخ ہو… لیکن تعین کے ساتھ افراد کی تکفیر کرنا دوسرا موضوع ہے اور یہ ایک طرح سے قضا کا معاملہ ہے جو رسوخ فی العلم رکھنے والے متقی،فہیم اور معتمد علماءِ کرام پر چھوڑنا ضروری ہے۔ تکفیرِ معیّن کے متعلق زبان کھولنے میں واجب ہے کہ بس مذکورہ علماء کرام ہی کی پیروی ہواور خود سے کسی خاص فرد یا گروہ کو کافر نہ کہا جائے۔ اگر اس معاملے میں احتیاط نہ برتی جائے تو خود اپنے ایمان کے لیے یہ رویہ خطرناک ثابت ہوتا ہے اور دعوت و جہاد میں بھی اس کے سبب بہت بڑے فساد کا دروازہ کھلتا ہے۔

۱۱ . اہلِ دین میں، سیاسی مذہبی جماعتوں اور دیگرا ختلاف رکھنے والوں کے ساتھ تعامل میں یہ اہم اصول ہمارے سامنے ہو کہ ان کے اچھے کاموں کی تعریف و حوصلہ افزائی ہو جبکہ غلطیوں پر نقدو نصیحت ہو، خفیہ غلطیوں پر خفیہ نصیحت اور علانیہ پر علانیہ نصیحت۔ان جماعتوں اور طبقات کی کوتاہیوں اور غلطیوں کے سبب ان کے اچھے اور نیک کاموں کا انکار بالکل نہ ہو۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا عدل ہے اور مجاہد داعی کے لیے اس عدل کا دامن تھامنا دوسروں سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ طرزِ عمل ہوگا تو ایک تو ہم خود ظلم سے بچیں گے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی اور دوسرا یہ کہ ان کی اچھائیوں کا جب اعتراف اور حوصلہ افزائی ہوگی تو یہ تعصب کا شکار نہیں ہوں گے اور ان کے دل ان شاء اللہ حق کے لیے کھلیں گے۔ [16]

۱۲ . دعوت میں یہ تذکیر کراتے رہنا چاہیے کہ ہم ہدایت کی طرف بلانے والی تحریک ہیں، لوگوں کی صَلاح و فلاح کے لیے ہم اٹھے ہیں اورہمارا ہدف بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی اطاعت ورحمت میں لانا ہے۔ اپنے تعارف کا ذریعہ چند سزاؤں کے نفاذ کو ہم نہ بنائیں اور نہ ہی دوسروں کی زبانی ہم اپنا یہ تعارف قبول کریں۔ یہ سزائیں بھی ہم نافذ کریں گے کہ یہ شریعت کا اہم حصہ ہیں اور اس کی بیش بہا برکات ہیں مگر سزاؤں کا نفاذ ہی پوری شریعت قطعاً نہیں ہے۔ شریعت میں خداخوفی کاتصور زندہ رکھنا، عدل و احسان،عفت و حیاکا فروغ،مساوات وخدمتِ خلق، اسلامی معاشرت و معیشت کا احیاء،دعوت الیٰ الخیر، امربالمعروف ونہی عن المنکر، ناداروں اور مسکینوں کے لیے زکوٰۃ و صدقات کا نظام اور حدود اللہ کے نفاذ سمیت کئی دیگر اہم امور بھی ہیں۔ سزائیں تو صرف مجرمین کو دی جاتی ہیں اورایک معاشرہ جس کی معیشت و معاشرت اسلام پر قائم ہو،اس میں کتنے جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں؟ دوسری طرف اس معاشرت و شریعت کا فائدہ کتنے لوگوں کو ہوتا ہے؟ ظاہر ہےاس کا کوئی تناسب ہی نہیں ہے۔ ایک استثنا ئی عمل سے، جس سے کروڑوں کی قوم میں سے چند افراد اپنی ہی غلطی کے سبب گزرتے ہیں،کیا کسی نظام کا تعارف کرایا جاسکتاہے؟ نہیں، بلکہ جوامور اکثراور غالب ہو ں، وہی پہچان کا ذریعہ بنتے ہیں۔ نفاذِ شریعت ؍ اقامتِ دین کے جو بے شمار فوائد، اعلیٰ ترین محاسن اوران گنت برکات ہیں،چونکہ وہ ایسی عام، ہمہ گیر اور دور رَس ہیں کہ ان سے پوری انسانیت مستفید ہوتی ہے، اس لیےان کے ذریعے ہی ہم اپنا تعارف کرائیں۔ نظامِ باطل میں مجرمین کے لیے کیاکیاسزائیں نہیں ہیں؟ مگر کیا اس کے داعی اس کی پہچان ان سزاؤں کی بنیاد پر کراتے ہیں؟ نہیں! اس کے لیے وہ سزاؤں کا نہیں، نام نہاد فوائد کا اشتہار لگاتے ہیں۔

۱۳ . دعوت میں تدریج اور ’’الأهم فالأهم‘‘، یعنی پہلے سب سے زیادہ اہم بات اور اس کے بعد دوسرے درجہ کی اہم بات کرنے کا اصول مدِنظر ہو۔ کم اہم بات پر اگر ہم پہلے زور دیں جبکہ زیادہ اہم بات ابھی نہیں کی ہو تو اس سے دعوت کا اثر کم ہوجاتا ہے یا مخاطب غلط فہمی کا شکار ہوجاتاہے۔مثلاً فوج کے ساتھ وجِہ عداوت جب بتانی ہو تو سب سے بڑا جرم اس کا نظام کفر و ائمۂ کفر کی حفاظت ودفاع ہے، اللہ کی جگہ روپے پیسے کی بندگی ہے اور اس غلامی میں ہر طرح کا ظلم وجبر روا رکھنا ہے۔اب اگر ڈھول کی تھاپ پر سپاہیوں کے ناچنے کو ہی پہلا جرم بتایا جائے اور اس پر تفصیلی گفتگو ہو تو مخاطب جہاد کا سبب سپاہیوں کا بھنگڑا ہی سمجھے گا۔ ناچنے گانے یا سپاہیوں کو داڑھیاں منڈوانے جیسے گناہوں پر مجبور کرنے جیسے جرائم پر بھی بات ہونی چاہیے، مگر اس کا اپنا محل ہو … اسی طرح ایک شخص نماز نہیں پڑھتا اور وہ جہاد بھی نہیں کر تا۔ ایسے فرد کو جہاد کی دعوت دینا اہم ہے یا نماز کی؟ ظاہر ہے نماز زیادہ ا ہم ہے اور اس کے لیے بھی پہلے زندگی بعد الموت اور آخرت کی فکر پیدا کرنا اہم ہے، لیکن اگر یہ سب کیے بغیر بس جہاد کی فرضیت اور اس میں نہ نکلنے کی وعید سے ہی بات ہو، تواُس پر کیونکراثرہوگا؟

۱۴ . گفتگو کا آغاز اختلافی امور سے نہ ہو، بلکہ ضروری ہے کہ اتفاقی امور سے بات شروع ہو۔ مخاطب جن امور کو حق اور باعث ِ خیر سمجھتاہو، بالخصوص جن کا وہ خود مدعی ہو، ان کا اعتراف ہو اور حوصلہ افزائی بھی۔ ان اتفاقی امور کو بنیاد بنا کر پھر اُن نکات پر بات ہو جن کی طرف بلانا مقصود ہےاور جن پر اختلاف کا امکان ہو۔ اگر آغاز میں ہی اختلافی بات ہو، بالخصوص اپنوں کے سامنے، تو مخاطب کے لیے دعوت سمجھنا اور سننا دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح تمام حساس نکات پر بات ایک مجلس اور ایک نشست میں نہ ہو، دعوت میں تدریج ہو اور مخاطب کے ہاضمے، ٹمپریچر اور طبیعت کو دیکھتے ہوئے خوراک دینی چاہیے۔

۱۵ . مخاطب کی مخالفت پر صبر اور اس کے شرعی حقوق نظرانداز نہ کرنا… پھر زیادتی سے بچنا اور آگے بڑھ کر اچھائی کرنا احسان ہے۔ جس قدر تقویٰ اور احسان کا معاملہ ہوگا اُسی قدر مخالف کا دل دعوت کے لیے کھلے گا، یا دوسری صورت میں اُتنا آپ کی دعوت دلیل اور حجت کے میدان میں غالب ہوگی۔

۱۶ . جہادی میڈیا میں دعوت کا اسلوب عوامی ہو۔ چونکہ ہمارے مخاطبین میں اکثریت عوام کی ہے، اس لیے ہمارا کلام بھی ان کے فہم کے مطابق ہو، ان کی سطح سے ا وپربالکل نہ ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ مجاہدین خواص کو خطاب نہ کریں، انہیں بھی خطاب ہو اور وہ ان کے ذوق کے مطابق ہو مگر عمومی دعوت پر عوام کی فکری سطح کی رعایت ہی غالب ہونی چاہیے۔

۱۷ . جہادی میڈیا اور دعوت میں کوئی بھی غیر شرعی ذریعہ استعمال نہ ہو۔ مقاصد و ذرائع دونوں میں شریعت کی جتنی اتباع ہوگی اسی قدر اللہ کی مدد شاملِ حال ہوگی اور دعوت بابرکت رہے گی۔ یہ یقین ہو کہ جو امور شریعت میں منع ہیں،ان سے دعوت کو کبھی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس ضمن میں جھوٹ وفریب سے مکمل طورپر اجتناب ہو۔ شریعت نے اس کی جس دائرے میں اجازت دی ہے وہ میدانِ دعوت نہیں،میدان جنگ ہے، لہٰذا اس کو بطور استثناء رکھتے ہوئے عمومی دعوت میں اس سے بالکل گریز کیا جائے۔اس سے متصل گزارش یہ بھی ہے کہ ہمارے اعلام میں ایسے مبالغوں سے بھی اجتناب ہو جن کے حقائق تصدیق نہیں کرتے ہوں۔ اس قسم کے مبالغوں کے سبب نقصان خود اپنی دعوت کو پہنچتا ہے اور ہماری دعوت میں موجود صدق اور حقائق بھی الٹا مشکوک ٹھہرتے ہیں۔

۱۸. جس طبقہ سے کلام کرنا ہو اپنےآپ کو ان کے بیچ انہی کا ایک فرد تصور کرنا چاہیے،اس کے برعکس مخاطبین کی ذہنیت، جذباتی کیفیت اور احوال جانے بغیر ہی اگر انہیں دعوت دی جائے تو نہ تو وہ بات سمجھیں گے اور نہ ہی ان کے دل اس دعوت کے لیے کبھی کھل سکیں گے۔ مریخ پہ بیٹھا فرد مریخ ہی کے احوال میں ڈوب کر اگر زمین والوں کے مسائل کا حل بتا رہا ہو تو زمین والے کیونکر اس کی بات کو قابلِ اعتناع سمجھیں گے ؟ ضروری ہے کہ عین اُس زاویہ سے حالات کو آپ بھی سمجھیں جس سے مخاطبین اپنے مسائل کو دیکھتے ہوں۔ اُن رکاوٹوں اور مجبوریوں کا آپ کو بھی احساس ہو جو مخاطبین اپنے سامنے کھڑی محسوس کرتے ہوں۔ اس احساس ونظر کے بعد ہی پھر اُس امر کی دعوت ہو جو مطلوب ِ شریعت بھی ہو اور قابل عمل بھی۔مرض کی تشخیص اور اس کے اسباب جانے بغیر ہی اگر کوئی دوا پر دوا دیتا جائے تو یہ علاج کیوں کر کامیاب ہوگا اور مریض ایسے فرد کو اپنا معالج کیسے قبول کرےگا؟ داعی لوگوں کے بیچ ہو اور ساتھ میں وہ بیدار بھی ہو تووہ جان لیتا ہے کہ کس وقت کیا بات اثر ڈالتی ہے ؟ مخاطبین کے چہروں کا بدلتا رنگ ہی اُسے بہت کچھ سمجھادیتا ہے۔ لیکن میلوں دور انٹرنیٹ پربیٹھے مخاطبین جب نظر بھی نہیں آتے ہوں اورداعی ان کے احوال و ردعمل سے لاپرواہ بس اپنے جذبات میں اتر کر بات کرتاہو توایسی دعوت کا اثر کم ہی مثبت ہوتا ہے۔

۱۹ .اہتمام ہو کہ دعوت میں ہمارا دشمن بس نظامِ کفر، اس کی قیادت اور ان کے مسلح محافظین ہوں، بس انہی کے خلاف جہاد و قتال کی تحریض ہو۔ اسی طرح لادینیت (سیکولرازم) کا پرچار کرنے والےبھی ہمارے اصل حریف ہوں۔ جہاں تک اُن علماءا ور اہل دین کا تعلق ہے جو ہمارے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں، تو انہیں ہم اپنی عداوت کا نہیں،بلکہ دعوت کا ہدف رکھیں۔

۲۰ . دعوت میں جہاد فی سبیل اللہ کا بنیادی مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہو۔یعنی مطمحِ نظر یہ ہو کہ فرد سے معاشرہ اور معاشرے سے حکومت تک اطاعت کا پورا نظام اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیےخاص ہوجائے۔ جہاں تک مظلوموں کی نصرت اور زمین کی آزادی کا تعلق ہے، تو یہ بھی مقاصدِ جہاد ہیں اور ان کا ذکر بھی ہوتا رہنا چاہیے،مگر یہ سب اس اساسی مقصد غلبۂ دین (نفاذِ شریعت) ہی کے تابع ہیں۔

۲۱ .اسلامی مقبوضات اور بالخصوص بیت المقدس اور حرمین کی آزادی کو دعوت کے بنیادی نکات کے طورپر رکھنا ضروری ہے۔اسی طرح فلسطین پریہود کے قبضہ میں امریکہ و طواغیتِ عرب کا کردار واضح کرتے رہنا اور اس ضمن میں پھر امریکہ دشمنی اور اس کےخلاف دنیا بھر میں کارروائیوں کی تحریض کو بھی حصہ دینا چاہیے۔ کشمیر امت مسلمہ کا رِستا زخم ہے۔ اس لیے جہادِ کشمیر کی بھی دعوت ہو اور اس میں ا سے ایجنسیوں کی ماتحتی سے نکالنے [17]اور نفاذ شریعت کے مقصد کے تابع کرنے کی کوشش ہو[18] ۔ امارت اسلامی افغانستان کی مدد و نصرت تو بہر حال دعوت کا بنیادی اور اہم حصہ ہو۔

۲۲ .دعوت میں تحریکِ جہاد کے دشمنوں کی تعداد کم کرنے اور بڑے دشمن (نظامِ کفر کے سرداروں اور محافظین )کے خلاف امت کو اکٹھا کرنے کی سعی ہو۔

۲۳ . پاکستان میں جہاں تک قتال کی دعوت ہے تو یہ صرف ملکی طواغیت(فوج و حکمرانوں ) کے خلاف قطعاًنہ ہو۔ان کے خلاف بھی ہو اور آج کے حالات میں یہ لازمی ہے مگر صرف ان کے خلاف نہ ہو[19] ۔ضروری ہے کہ اولاً یہ اُن ائمۂ کفر کے خلاف ہو جن کے ظلم و کفر اور مسلم دشمن ہونے پر مسلمان عوام پہلے سے متفق ہیں۔شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے مطابق، جس دشمن کا کفر واضح ہو، عام مسلمان اس کے خلاف دعوت ِ جہاد آسانی سے قبول کرتے ہیں،جبکہ اس کے برعکس اگر ایک دشمن اسلام کا لبادہ اوڑھے، دجل وفریب سے کام لیتاہو، تو باوجود اس کے کہ اس کا کفر کا فرِا صلی کے مقابل’’ أغلظ‘‘ (بدتر) ہوتا ہے، اس کے خلاف عام عوام دعوت ِ جہاد کو اُس طرح آسانی کے ساتھ قبول نہیں کرتے ہیں۔امریکہ اور بھارت عالمِ کفر کے ایسے سرغنہ ہیں کہ جن کے کفر، ظلم، جارحیت اور مسلم دشمن ہونے پرعام عوام میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ ان دونوں کے خلاف جہاد خود مطلوب ہے اور بدرجۂ اولیٰ لازم ہے، لیکن یہ جہاد تحریک ِ جہاد کو تقویت دینے،مقامی سطح پر نظامِ باطل کو سمجھانے اور اس کے خلاف مسلمانوں کو کھڑا کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ امریکہ اور بھارت کے خلاف جہاد مقامی طواغیت (فوج و حکمرانوں )کے چہرے پرسے نفاق کا نقاب بھی اتارتا ہے اور اس کے سبب ان کی دین دشمنی واضح ہو جاتی ہے۔ ایسے میں پھر یہ امت کے ان متفق علیہ دشمنوں کا بھی دفاع شروع کرتے ہیں۔

۲۴ . ہمارا ہر قول وہر عمل تحریک ِ جہاد کے مبنی بر عدل اعلیٰ مقاصد اور دعوؤں کی تصدیق و تشریح کرنے والا ہو۔ دعوت میں کوئی ایسی بات یا قتال میں کوئی ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہیے جس سے ہمارے جہادی مقاصد عوام کے ذہنوں میں مبہم ہوجائیں اوران کے لیے وہ اقوال و افعال ناقابل فہم رہ کر فتنے کا باعث بنیں۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ما أنت بمحدث قوما حديثا لا تبلغه عقولھم إلا كان لبعضھم فتنة[20] ۔ ’’لوگوں کے سامنے اگر ایسی بات کروگے جو ان کی سمجھ سے باہر ہو تووہ بات ان کے لیے فتنے(حق سے دور کرنے ) کا سبب بن سکتی ہے ‘‘۔لہٰذا یک بات چاہے صحیح ہو لیکن اگر وہ مخاطبین کو غلط فہمی میں مبتلا کرتی ہو تو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔ یہی عمل کا معاملہ بھی ہے کہ کوئی ایسی کارروائی یا کام جو چاہے صحیح ہو مگر وہ عوام کو ایسا پیغام دینے کا باعث ہو جو مقاصد جہاد کے خلاف ہو، تو اس سے دور رہنا چاہیے۔

۲۵ . کارروائی کی ذمہ داری فی الحقیقت دعوت ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ جہاد ومجاہدین کے حق میں نافع ثابت ہوسکتی ہے وہیں دوسری صورت میں یہ ناقابل تلافی نقصان بھی دے سکتی ہے۔ اگر تو یہ مجاہدین کا مبنی بر عدل ہونا واضح کرتی ہو کہ ان کا جہاد بامقصد ہے، وہ بے گناہوں کاخون نہیں بہاتے ہیں اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو قتل کرتے ہیں تو یہ ان کےحامیوں میں اضافے کا سبب ہوتی ہے اور مخالفین میں کمی لاتی ہے، لیکن اگر یہ مجاہدین کو ان کے اعلان کردہ مقاصد کے برعکس دکھاتی ہو، تو یہی ذمہ داری دشمنان ِ جہاد کے کام آتی ہے۔کارروائیوں کی ذمہ داری لینا چونکہ انتہائی حساس اور بہت ہی ذمہ داری کا کام ہے، اس لیے اگر یہ ذمہ دار افراد کے ہاتھوں میں نہ ہو تو یہ ایک کام ہی دعوتِ جہاد کی تباہی کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔

۲۶ . دعوت واعلام میں صرف وہ الفاظ، مناظر اور انداز استعمال ہوں جن کے موافقِ شرع ہونےاور دعوتِ جہاد کے لیےمفید ہونے کا مکمل یقین ہو۔ جہاں بھی اس لحاظ سے شک ہوسکتا ہو، اس سے گریز کرنا چاہیے۔آپ ﷺ کا فرمان ہے ؛ ’’دَع ما یُریبُک إلی ما لا یُریبک‘‘، یعنی، چھوڑ دو اس چیز کو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اختیار کرو اس چیز کو جس کےموافقِ شرع ہونے اور مفید ہونے کا تمہیں یقین ہو ۔ نیزدعوت میں ایسے کسی لفظ یا منظر کا استعمال نہ ہو جس کے دو معانی اور دو مطالب ہوں۔آپ اچھا مطلب لیں گے، مگر دوسرے غلط معنی لیں گے اور مخالفین کو پراپیگنڈا کرنے کاموقع ملے گا۔ دعوت واعلام (جہادی میڈیا)میں عموماً صرف اُس مفہوم کا اعتبار ہوتا ہے جو لوگ لے رہے ہوں، چاہے وہ آپ کے اپنے مفہوم سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا آپ کی بات سے لوگوں کو کیا پیغام ملتا ہے، یہ اصل ہے اور اسی کو ہی صحیح اور مفید رکھنے کا اہتمام ہو۔ اسی ضمن میں جواسیس اور فوجیوں کے ذبح ہونے کی تصاویر بھی آتی ہیں۔ ایسی تصاویر نشر کرنے سے دعوتِ جہاد کا نقصان ہوتاہے اور مجاہدین کو بے رحم و وحشی ثابت کرنے والوں کو موقع مل جاتا ہے ۔ [21]

۲۷ .عوام کے ساتھ ان کے دکھ، غم اور پریشانی میں ہم شریک ہوں اور ان سے ہماری بات اور خطاب موقع ومحل کے مطابق ہو، مثلا ً سیلاب و زلزلوں جیسی قدرتی آفات کے موقع پر ہوناتو یہ چاہیے کہ ہم ان کے زخموں پر مرہم رکھیں اور عملاً اگر کچھ نہ کر سکیں تو چند اچھے بول ہی بولیں۔ لیکن اس کی بجائے ایسے موقع پر جبکہ ان کے گھر بار تباہ ہوگئے ہوں اور وہ بچوں کو اٹھائے محفوظ مکان کی تلاش میں ہوں، ہمارا انہیں یہ کہنا کہ’’ یہ سب تمہاری ہی بداعمالیوں کی وجہ سےہے اور اللہ کا عذاب ہی ہے کہ جس کو تم بھگت رہے ہو‘‘، بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے اور ایسے میں کون پھر ہماری بات سنے گا؟ گناہوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے دوسرا موقع اور اسلوب بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے دکھوں کا مداوا کریں اور ہمدردی دکھائیں۔

۲۸ .مظلومین کی نصرت بلاشبہ ہماری دعوت کا بنیادی نکتہ ہے مگر نصرت ِ مظلوم کی اس پکار میں قومی یا لسانی (پشتون، بلوچ وغیرہ ) تعصبات کا سہارا بالکل نہ لیاجائے۔کوئی ایسی بات یا اسلوب اختیار نہیں کرناچاہیے جس سے ان تعصبات کا فروغ یا اقرار ہو ۔ اس کے بجائے دعوت میں وطنی، قومی، لسانی اور ہر قسم کے تعصب کی نفی ہو اور ایک امت کا تصور اجاگر ہو۔یاد رہے کہ ایسے تعصبات کا سہارا کبھی بھی جہاد و امت کے حق میں نہیں رہا ہے،انہیں ہمیشہ جہاد اور امت کے دشمنوں نے استعمال کیا ہے۔ ہمارے ہاں حمایت ومخالفت کا معیاربس اسلام ہو۔ وہ اسلام، جودیارِ غیر سے آئے صہیب و سلمان کو بھائی بناتا ہے اور اپنے وطن و برادری کے ابوجہل اور ابولہب کو دشمن بتاتاہے۔

۲۹ .جہادی میڈیا کی ذمہ داری صرف دعوت ِجہاد او رتحریض جہاد نہیں ہے، اس کا ایک اہم کام فہم ِجہاد عام کرنا،اصلاح ِ جہاد اور تربیت ِمجاہدین بھی ہے۔لہٰذا نظامِ کفر کے ہر پہلو، ہر فساد پر نقد اور اس کے خلاف تحریضِ جہاد جہاں ہو،وہاں ساتھ ہی مجاہدین کی فکری و اخلاقی تربیت اور امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام بھی ہو۔

۳۰ . معاصر تحریکِ جہاد کے مبنی بر عدل منہج اور افراط و تفریط پر مبنی افکار و اعمال کے درمیان فرق خود سمجھنا اور پھر دوسروں کو سمجھانا داعیان ِ جہادکی ذمہ داری ہےاور انٹرنیٹ پر دعوت میں مصروف بھائیوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ اسی طرح کیا جائز ہے اور کیا ناجائز، کس کی جان و مال مباح ہے اور کس کی غیر مباح،کون سے کام دعوت وجہاد کے لیے مفید ہیں اور کون سے جائز ہونے کے باوجود بھی غیر مفید؟ داعیانِ جہاد کے لیے انٹرنیٹ پر اس علم کی ترویج و تذکیرکراتے رہنا بھی ضروری ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اس مقصد کے لیے تحریک ِ جہاد کے صرف معتمد علماء کرام اور قائدین جہاد کی کتب و ارشادات کی طرف رجوع ہو ۔[22]

۳۱.داعی ِ جہاد کے لیے علم ِ شرعی کے بعداہم علم،علمِ تاریخ ہے۔ اگر داعی تاریخ جہاد سے آگاہ ہو اور اس کے اسباق کھلے دل سے قبول بھی کرتاہو … تو اللہ سے امید ہے کہ وہ غلطیوں سے بڑی حد تک محفوظ ہوگا۔ ایک بزرگ جہادی عالم کا قول ہے کہ ’’ وہ شخص تحریک جہاد کی قیادت کا اہل نہیں ہے جو تاریخ کا علم نہیں رکھتاہو ‘‘قیادت اور دعوت یقیناً علیحدہ امور ہیں مگر تحریک ِجہاد کو جہت دینے میں یہ مکمل طور پر جدابھی نہیں ہیں۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’ اللہ جب کسی کو سعادت و خوش بختی سے نوازتا ہے تو اسے دوسروں سے عبرت لینے کی توفیق عطا کرتا ہے،وہ پھر خاص اُس راستے پر چلتا ہے جس پر اُس سے پہلے چلنے والوں کی اللہ نے مدد و نصرت کی ہو اور اُس راستے سے پھر بچتا ہے جس پر ماضی میں چلنے والوں کو اللہ نےناکام ونامراد کیاہو ‘‘[23] ۔ماضی میں جہاد کا یہ قافلہ جہاں اور جن راستوں سے گزرا، ان راہوں کے نشیب و فراز کا داعی ٔ جہاد کو علم ہونا چاہیے۔ وہ جانتاہو کہ دعوت وقتال میں وہ کیا اقوال وافعال تھے کہ جو کامیابی وسرخروئی کا باعث بنے اور وہ کیا کوتاہیاں تھیں جن کے سبب دشمن کے مقابل اہل جہاد کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور مجاہدین مسلمان عوام کی نصرت و تائید سے محروم ہوگئے۔ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ کل کی ناکامی کے اسباب آج کی کامیابی کے زینے کبھی نہیں بن سکتے، جس اسلوبِ دعوت اور جس طرزِقتال سے ماضی میں نقصان اٹھانا پڑا، آج بھی اگر اسی ڈگر پر سفر ہوگا تونتیجے میں کامیابیاں نہیں ملیں گی۔ آج جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے، سب نہیں تو ان میں سے اکثر کاہم سے پہلے والوں نے بھی سامنا کیا ہے، پھر افغانستان سے یمن ومالی اور الجزائر سے شام وعراق تک کی پھیلی اس تحریک جہاد کے تجارب بھی کچھ کم نہیں ہیں، داعیٔ جہاد میں اگر قبول ِحق کی تڑپ موجود ہو اور اس نے دل پر تعصب کا زنگ نہیں چڑھا یاہو تو اللہ سے امید ہے کہ تحریک ِجہاد کی تاریخ و تجارب میں اس کے لیےاسباق وعبر ہوں گے اور اس علم کی ترویج انشاء اللہ تحریک جہاد کو نفع دے گی۔

۳۲ .اپنے انٹرنیٹ صفحات پر صرف ایسی کارروائیوں کی تعریف و ترویج ہو جو علماء جہاد وقائدین کے ہاں متفقہ طورپر جائز اور مفید ہوں۔ ایسی کسی کارروائی کی تشہیر و تعریف نہ ہو جو متفقہ اہداف کی فہرست میں پہلے سے شامل نہ ہو یا جو علماءِ جہاد کے ہاں اختلافی سمجھی جائے۔

۳۳ .غیر شرعی کارروائی پرخاموشی قطعاً نہ ہو بلکہ ضروری ہے کہ ایسی کارروائی کی علانیہ مذمت ہو۔ اگر کسی جہادی گروہ سےیہ سرزد ہو ئی ہو تو گروہ کا نام لیے بغیر صرف فعل کی مذمت اور اس سے برأت ہو ۔ ہمارے لیے اسوہ (نمونہ عمل ) رسول کریم ﷺ ہیں کہ جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے شمشیرِ خدا سے بھی غلطی ہوئی تو آپ ﷺ خاموش نہیں رہے بلکہ خالق و مخلوق دونوں کے سامنے اعلان کیاکہ: اللّٰهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ ’’اے اللہ! جو خالد (رضی اللہ عنہ) نے کیا، اس سے میں تیرے سامنے برأت کرتاہوں‘‘۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ غیر شرعی کارروائی کو شرعی دکھانا اور اس کی ذمہ داری لےکر اسے جہاد و اہل جہاد سے منسوب کرنا شریعت کے خلاف انتہائی بڑی جرأت ہے اور اس پر خاموشی جہاں اللہ کی پکڑکا موجب ہے وہاں یہ تحریکِ جہاد کی تباہی کا بھی یقینی باعث ہے۔ اگر غیر شرعی کارروائی مجاہدین نے نہ کی ہو تو ظاہر ہے یہ ایجنسیوں نے کی ہوگی، ایسے میں اس کی مخالفت و مذمت اس وجہ سے بھی پھر ضروری ہے کہ ایجنسیوں کی جہاد مخالف سازش ناکام ہو۔یوں اس مذمت سے تحریکِ جہاد بدنامی سے بھی بچےگی اور اس کا رخ بھی ٹھیک رہے گا۔

۳۴ . انٹر نیٹ پر مائل بہ غلو افکار پھیلانے والے افراد کی اصلاح ہو۔ اگر اصلاح ممکن نہ ہو تو انہیں اپنے صفحات پر جگہ دینے سے اجتناب ہو اور دیگر لوگوں کو بھی ان سے دور رکھنے کی سنجیدہ سعی ہو۔ اس مقصد کے لیے نیٹ پردعوتِ جہاد میں مصروف ا ہل خیر کا مکمل طور پر معاون اور مربوط ہونا ضروری ہے۔ شر چاہے اہل غلو کی صورت میں ہو یا ایجنسیوں کے آلہ کاروں کی شکل میں ان کے فساد کاراستہ تب ہی روکاجاسکتا ہے جب انٹرنیٹ پر موجود اہلِ خیر عملی طورپر آپس میں متحد اور منظم ہوں۔

۳۵ .دعوت میں جماعتی تعصبات ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش ہو اور یہ شعور اجاگر کرنے کی سعی ہو کہ جماعتیں منزل و مقصود نہیں ہیں ،بلکہ یہ منزل تک پہنچنے کے وسائل و ذرائع ہیں۔ ہمارا مقصود اتباع شریعت اور نفاذ شریعت ہے۔ اگر تو جماعت اس مقصد کے حصول میں معاون ہو تو وہ محبوب ہوگی، لیکن اگر اپنی ہی جماعت اس مقصد سے ہمیں دور لےجاتی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس سے محبت کریں، اس کا دفاع کریں اور اس کے ساتھ جڑے رہیں۔ گویا دعوت میں جماعتوں کی اصل حیثیت اورمقام بھی خود سمجھنا اوردوسروں کو سمجھانا چاہیے کہ ان کی جائز اہمیت بھی ختم نہ ہو اور انہیں اصل مقصود سمجھنے کا بھی رد ہو، کہ مبادا شرعی اصول و مقاصد قربان کرکے اپنی اپنی جماعتوں کو برتر دکھانا ہی ہدف ٹھہرے۔

۳۶ . چونکہ فتنہ و فساد کی جڑ اور ظلم وطغیان کا منبع نظامِ کفر ہے، یہ نظام ہی خیر کی ہر قوت و تحریک کو دباتا و ختم کرتا ہے جبکہ شر کی یہ حفاظت کرتا، اسے پھیلاتا اور عام کرتاہے، اس لیے ضروری ہے کہ اپنی نفرت و عداوت کا محور ومرکز اس نظام ہی کو رکھاجائے اور سب عوام و اہل دین کے قلم، تیروں اور زبانوں کا رخ اس کی قیادت و رکھوالوں کے خلاف ہی پھیرا جائے، یہی ہماری دعوت کا مقصد وہدف ہو۔ یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ہماری دعوت ہر قسم کی مسلکی و گروہی تفریق سے پاک ہو اور اپنی دعوت میں ہم فروعی اختلافات کو بالکل بھی ہوا نہیں دیتے ہوں ۔ ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے کہ مسلکی اور گروہی منافرت پھیلانا جہاں نظام کفر کو تقویت دیتاہےوہاں ساتھ ہی یہ دعوت و جہاد کے لیے زہرِ قاتل ہے۔

۳۷ . انٹرنیٹ پرجوصفحات مسلکی و گروہی تعصبات کو اجاگر کرتے ہوں، ان سے مکمل طور پر لاتعلق رہنا اور ان سے عوام کو دور کرنا ضروری ہے۔

۳۸ .اعلام میں خصوصی توجہ دعوت ِجہاد کے موضوعات پر ہو مگر فی الاصل اس میں پورے دین کی دعوت ہو۔ پھر جن دینی امور پر نظامِ کفر کی طرف سے براہِ راست یلغار ہے، جیسے پردہ، عفت وحیا ،اسلامی معاشرت …انہیں اعلام میں زیادہ اہمیت دی جائے۔ اسی طرح نظامِ کفر کے ہر ہر پہلو، جمہوریت، سیکولرازم، فحاشی و عریانی،خاندانی نظام کو تباہ کرنا، فوج کا ظلم، معاشی استحصال وغیرہ پر نقد ہوا ور اس کے منبعِ شر ہونے کو واضح کرنے کی کوشش ہو۔ اس ضمن میں اس کے مقابل شریعت کے محاسن، فوائد و احکام اور اس کا قابل عمل ہونا بیان ہو ۔ [24]

۳۹ . علمِ دین سےاپنی نسبت کرنے والے وہ بدنصیب جو حقیقت میں دنیا کی قیمت پر اپنا دین وایمان بیچ چکے ہیں،ان پر اگر نقد ضروری ہو تویہ نقد بس اجمالی اور مہذب ہو۔ یہاں مراد اختلاف رکھنے والے (قابلِ احترام ) علماء کرام اور اہل دین نہیں ہیں، ان کے متعلق ذکر اوپر آچکا ہے… یہاں مراد وہ علماءِ سوء ہیں جو اپنی دنیا پرستی، درباری ہونے اور برے کردارکے سبب مشہور ہوں[25]۔

۴۰.کوئی شخصیت دین اور تحریکِ جہاد کے لیے مُضر ہو مگر عوام میں اس کی شہرت اچھی ہو اور وہ دین و ملت کی خدمت کی نسبت سےمعروف ہو تو اپنے اعلام ( جہادی میڈیا) میں اس فرد کا نام لیے بغیر بس اس کے کام کی برائی بیان ہو۔ اس طرح کرنے سے لوگ بالآخر اس فرد کامضر ہونا بھی سمجھیں گے اور اس سے متنفرہوں گے۔ اس کے برعکس اگر لوگ اس کے فعل اور ظاہری کردار کو تو اچھا سمجھ رہے ہوں اور ہم اس کا نام لےکر (یا تصویر دکھا کر) اس کوبرا بھلا کہیں تو وہ اُس کی عقیدت میں الٹا ہم سے بدظن ہوں گے اور ہماری دعوت نہیں سنیں گے۔

۴۱ .دعوت میں ہر قسم کی جانبی لڑائی (نظامِ کفر اور اس کے محافظین کو چھوڑ کر کسی دوسرے دشمن، مثلاً روافض کے خلاف مسلح جنگ پر ابھارنے) سے گریز ہو۔سچ یہ ہے کہ ہمارے جانبی دشمنوں سمیت تمام ترفتنوں کی حفاظت و سرپرستی کرنے اور نفاذ شریعت کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والا یہی اُم الخبائث باطل نظام ہے۔اس نظام کی قیادت (فوج و حکمرانوں )کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اہل دین کی توپوں کا رُخ ان کی جانب کبھی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہو یا یہ مقامی طواغیت، یہ اہل جہاد کو جانبی لڑائیوں میں دھکیل کر اپنے آپ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک ِ جہاد یکسو ہوکر تمام تر طاقت و وسائل خاص اس نظام اور اس کی قیادت(أئمۃ الکفر) کو گرانے پر اگر مرکوز کرےتو صرف اسی صورت میں دین و امت کا فائدہ ہے۔ جس دن نظام باطل کی یہ قیادت وافواج زیر ہوں گی، تب کوئی بڑا سے بڑا جانبی دشمن بھی سر نہیں اٹھاسکے گا، بلکہ وہ تسلیم ہو کراپنی اصلاح کرنے یا خباثت چھپانے میں عافیت ڈھونڈےگا۔لہٰذا دعوت میں توجہ مکمل طور پر نظام باطل کے خلاف ہو اور اگرکہیں جانبی دشمن حملہ آور ہوجائے تو صرف وہاں ہی جنگ ہو اور یہ جنگ بھی بس دفاع تک محدود ہو [26]، پھر جلد سے جلد دوبارہ اصل کی طرف، یعنی نظامِ کفر کے خلاف محاذ کی طرف لوٹنے کی سعی ہو۔ امارت اسلامی بھی افغانستان میں روزِ اول سے اسی حکمت عملی پرکاربند ہے اور اس کا بارآور ہونا الحمدللہ ثابت ہے۔

۴۲.تحریک ِ جہاد میں شمولیت کو ہم لوگوں کے لیے آسان بنائیں۔ اگر کوئی فرد جہاد کے بنیادی مقاصد و اصول کے ساتھ موافق ہوجاتاہے اور وہ اپنے آپ کوایک خاص دائرہ میں سپرد کردیتا ہے تو اس پر بس اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جتنا وہ خوشی سے اٹھاسکتا ہے۔مزید بوجھ اٹھانے کی استطاعت ہو، تواچھے انداز میں ترغیب دینی چاہیےمگر یہ بالکل بھی مناسب نہیں ہوگااگر ہماری طرف سے لوگوں کو پیغام ملے کہ تحریکِ جہاد بس اُسی کو قبول کرتی ہےجو اپنا سب کچھ قربان کرسکتاہو اور جس میں یہ عزم نہ ہو اس کے لیے کوئی کام نہیں۔ جو جتنا ساتھ دے سکتا ہے، اسے بصد شکر یہ قبول کرنا چاہیے۔ لہٰذا سب کچھ اللہ کے راستے میں وارنے کی ترغیب دینا ایک بات ہے اور یہ ترغیب ہونی بھی چاہیے،مگر جو تھوڑا ساتھ دیتا ہے اسے بہت ساتھ دینے پر مجبور کرنا دوسری بات ہے جو بالکل بھی اچھی نہیں ہے۔

۴۳ .میدان ِ دعوت کے شہسوار محض دعوت ہی کو اصل جہاد نہ سمجھیں اور نہ ہی بس اس دعوت پر مطمئن ہوں۔ان کے لیے قتال و شہادت کی اہمیت وفضائل مستحضر رکھنا اور محاذ جنگ پر حاضری کی صدق ِ دل سے خواہش و کوشش کرنابھی ضرور ی ہے۔

۴۴ .دعوت ہو، قتال ہو، یا داعی کی اپنی تربیت کا معاملہ … ان سار ے اعمال میں سمع و طاعت اور کسی اچھے جماعتی نظم کے ساتھ مربوط ہونا لازم ہے۔ انٹرنیٹ کے داعیان جہاد خود بھی تحریک جہاد اور ذمہ داران جہاد کے ساتھ عملی طور پر جڑیں اور دوسروں کو بھی جوڑنے کی کوشش کریں۔ جماعتی نظم سے آزاد کام میں بے شمار مفاسد ہیں اور یہ کسی بھی طور پر اچھا نہیں۔

۴۵ . انٹرنیٹ کا میدانِ دعوت، جہاد و مجاہدین کو نقصان پہنچانے کا بہترین، آسان اور مؤثر میدان ہے۔ یہاں داعیان جہاد کے روپ میں ایجنسیاں دعوت ِجہاد خراب کرنے، جہادی جماعتوں میں اپنے مخبر بھرتی کرنے اور مجاہدین کوگرفتار کرنےکی کوشش کرتی ہیں۔ لہٰذا اولاً خود محتاط رہنا اور دوسرے متعلقین کو بھی محتاط کرنا ضروری ہےاور جہاد کی طرف ہر بلانے والے پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ دشمن کے ایسے آلۂ کاروں کو ناکام بنانے کے لیے میدان ِ جہاد کے رسمی نمائندوں کے ساتھ زمینی رابطہ بنانا، تزکیے کے معتمد نظام کو استعمال میں لانا اور خود منہج جہاد میں رسوخ حاصل کرنا ضروری ہے۔ نیٹ کی دنیا میں کسی پر بھی اندھا یقین نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں آپ کے اپنے مجاہد ساتھی کا اسلوب بھی نقل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ امکان بہر حال موجود رہتا ہے کہ آپ کے ساتھی کے اسلوب میں ایجنسیوں کاکوئی اہلکار خط لکھ رہا ہو۔ لہٰذا اپنوں کے ساتھ رابطے میں بھی ہوشیار رہنا چاہیے اور زمینی ذرائع سمیت دیگر تمام طریقوں سے اطمینان حاصل کرناچاہیے۔

۴۶ .مومن کا وقت اللہ کی طرف سے امانت ہے۔ پس داعی انٹر نیٹ پر بیٹھنے سے پہلے نیٹ پر اپنی مصروفیت کا دورانیہ اور کام کا تعین کیا کریں اور پہلے سے طے شدہ دورانیہ اور کام سے ہٹ کر آگے پیچھے بالکل نہ ہوں۔ اگر یہ خیال نہ رکھا جائے تو وقت ضائع کرنے یا کسی نامناسب شغل میں بھٹکنے کا امکان بڑھ سکتا ہے۔

۴۷ . صرف انٹر نیٹ کی دعوت کو اصل خیال نہ کریں،داعی حضرات زمین پر سینہ بہ سینہ دعوت پھیلانے کا بھی اہتمام کریں اور یہ طریقہ زیادہ مؤثر اور محفوظ ہے۔

۴۸ . دعوتی مواد کی تیاری میں تنوع پیدا کیا جائے تاکہ مکتبۂ دعوت و جہاد میں حجم اور معیار کے ساتھ ساتھ موضوعات کے لحاظ سے بھی اضافہ ہو۔اس طرح متصل گزارش یہ بھی ہے کہ تیار شدہ موادکی ترتیب و حفاظت کا بھی اہتمام ہو۔ ہونا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر ہمارا سارا مواد مرتب حالت میں موجود ہو اور اس میں مبتدی سے لےکر اعلیٰ سطح تک کے قاری کے لیے درکار مواد آسانی کے ساتھ دستیاب ہوں۔

۴۹ . انٹرنیٹ پر موجود دعوتی صفحات پر دائرۂ احباب بن جاتا ہے اور عموماً وہی دائرہ ہمارا مواد پڑھتا رہتاہے۔ اس دائرے پر اکتفا نہ ہو بلکہ اس میں اضافے کی کوشش ہو اور اپنے مبادیات سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہ کرنے والے راستوں کی تلاش ہو۔

۵۰ . نیٹ پر دعوت دینے والے بھائیوں کے لیے زمین پر نیک افراد کی صحبت میں رہنا ضروری ہے، تاکہ فتنوں سے حفاظت آسان ہو۔نیز افکار کے ساتھ نگاہ کی حفاظت کا بھی اہتمام ہو کہ یہ خود مطلوب ہے۔ اس سے قلب میں نیکی اور عمل میں یکسوئی اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہیں۔

۵۱ .آخری گزارش یہ کہ اپنی دعوت اور اسلوب کا مسلسل محاسبہ کرتے رہنا اور اللہ سے زیادہ سے زیادہ مغفرت مانگنی چاہیے۔

یہ چند باتیں تھیں جو دعوت کے اسلوب اور منہج جہاد کی حفاظت کے ضمن میں عرض کرنی تھیں۔ یہاں پراس تحریر کو ختم کرتے ہیں، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اخلاص عطا کریں، ہمارے قول و عمل سے اپنے دین و امت کی نصرت فرمائیں، دعوت و قتال کے ہرہر عمل اور ہرہر لمحہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں توفیق دیں کہ ہم دین و جہاد کی صحیح معنوں میں نصرت کرسکیں۔ اللہ ہماری تمام مساعی قبول فرمائیں اور اپنے دیدار اور رسول اللہ ﷺ کی معیت سے ہمیں محروم نہ کریں، آمین۔

سبحانك اللّٰھمّ وبحمدك، أشھد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك

تَـمَّـــتْ بِالْخَـــیْر

و آخر دعوانا أن الحمدللہ ربّ العالمین

[1] تفسیرِ عثمانی

[2] آلِ عمران

[3] معارف القرآن

[4] مفاتیح الغیب

[5] فی ظلال سورۃ التوبہ

[6] وثائق ایبٹ آباد _شیخ اسامہ کا ایک مکتوب

[7] رسالة إلى أمراء المجاهدين…للشيخ عطية الله رحمه الله

[8] اگر دعوت میں مخاطب حملہ آور دشمن ہو تو اس میں بھی رعب بٹھانے کے لیے شائستگی کی قید کے ساتھ موقع محل کے لحاظ سے سختی ہوسکتی ہے لیکن اگر دھمکیوں اور رعب بٹھانے کا اسلوب پوری دعوت پر غالب آجائے تو اس سے دعوت کااثر ختم ہوجاتا ہے۔

[9] عصر حاضر میں جہاد کے نام پر جو بڑا فتنہ پیدا ہوا،جس نے امت کے بے گناہوں اور اللہ کے اولیاء تک کا خون کیا اور دشمنان امت کو فائدہ دیا، اس کے خدو خال وہ لوگ ہی بروقت سمجھ گئے جنہوں نے مذکورہ علماء اور قائدین جہاد کے منہج کے ساتھ اپنا آپ جڑے رکھا ، اس کے برعکس جنہوں نے ان اہل فضل و سبقت سے بے نیازی کی اور ان کے ارشادات و ہدایات کو قابل اعتناء نہیں جانا ، وہ خواہش نفس کے ہاتھوں مغلوب ہوئے اوران کی اکثریت نے کھلم کھلا داعشی خوارج میں شامل ہو نے کا راستہ چن کر اپنی دنیا وآخرت بھی خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردی اور دعوت وجہاد کو بھی بدنام کیا۔

[10] فرسان تحت رایۃ النبیﷺ

[11] الطبراني وابن السني

[12] ’’( جتنا وہ تمہیں خوشی سے دینا چاہے ،بس وہ لیا کرو، یعنی ) درگزر کرو، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں کی جہالت سے اعراض کیا کرو۔‘‘

[13] صحیح البخاری

[14] صحیح مسلم و مغازی الواقدی

[15] جوامع الکلم

[16] شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ دینی جماعتوں کے ساتھ تعامل کے اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’الف:جن امور میں ہمارے مابین اتفاق ہو ان میں ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں اور جن میں اختلاف ہو ان میں ایک دوسرے کو نصیحت کریں۔ب:ہمارا اولین معرکہ اسلام کے دشمنوں اور اسلام سے مخاصمت رکھنے والے عناصر کے خلاف ہے، لہٰذا یسا نہ ہو کہ ہمارا دینی جماعتوں کے ساتھ اختلاف، عسکری،دعوتی،فکری اور سیاسی سطح پر دشمنانِ اسلام سے رخ پھیرنے کا سبب بن جائے۔ج:دینی جماعتوں کی طرف سے صادر ہونے والے ہر صحیح قول و فعل پر ہم ان کی تائید کریں اور ان کا شکریہ ادا کریں اور ان سے صادر ہونے والی ہر خطا پر انہیں نصیحت کریں،پوشیدہ خطا پر پوشیدہ طریقے سے نصیحت اور اعلانیہ خطا پر اعلانیہ طریقے سے نصیحت۔ نیز اس بات کا اہتمام ہو کہ اخلاق سے گرا ہوا انداز اختیار کرنے اور شخصی حملے کرنے سے اجتناب کیا جائے اورباوقار علمی انداز میں دلائل بیان کیے جائیں کیونکہ قوت دلیل میں ہوتی ہے کردار کشی یاہجو میں نہیں! ‘‘(توجيهات عامة للعمل الجهادي)

[17] جہاد کو طاغوتی ایجنسیوں سے آزاد جبکہ مقاصدِ شرعیہ ہی کے تابع رکھنابہرحال مطلوب ہے، اسی طرح شرعی حدود میں رہ کر طواغیت ِعالم کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے …یہ دونوں امور ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ جو امرتحریک جہاد کے لیے زہر قاتل ہے اور جس کا تدارک بہرحال ضروری ہے، وہ یہ کہ طواغیت کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے اٹھاتے کسی ایک طاغوت کی ماتحتی قبول کرلی جائے اور پھر جہاد کے مقاصد و طریقۂ کار یعنی اس کے راستہ ومنزل میں طاغوت ہی کی ہدایات واوامر کی پابندی ہو۔ ایسا جب ہوتا ہے تو تحریک جہادخود بھول بھلیوں میں بھٹک جاتی ہے جبکہ طاغوت اہل ایمان کی قربانیوں کے ثمرات لوٹ کر لے جاتا ہےاور امتِ مظلومہ کے حصے میں یوں محرومی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء جہاد نے دائرۂ شریعت کے اندر رہنے کی شرط کے ساتھ طواغیت کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھانے کو جائز، جبکہ طاغوت کی ماتحتی کو بالکل ناجائز قرار دیا ہے۔

[18] اس دعوت میں بھی اس نزاکت کا بھرپور خیال رکھا جائےکہ اپنے امورکوایجنسیوں کے ماتحت رکھنے پر تو بھرپور نقد ہومگر جو کشمیری تنظیمیں ان کے زیر أثر مصروف ِ جہادہیں ، ان کا نام لیکرمخالفت سے اجتناب ہو ۔ ان تنظیموں میں مخلصین بہت ہیں اورضروری ہےکہ وہ ہماری عداوت کےنہیں بلکہ دعوت کے مخاطب ہوں ۔جو اسلوب عام اہل ِ دین کے ساتھ دعوت میں رکھنا ضروری ہے یہ جہادی تنظیمیں اس کے بدرجہ اولیٰ حقدار ہیں ، اور وہ یہ کہ ان کی خوبیوں کا اعتراف ہو جبکہ خامیوں پر دردمندانہ نصیحت ہو۔ایسی نصیحت جس میں خیرخواہی و ہمدردی اور اخلاق و دلیل کا غلبہ ہو، جبکہ بدکلامی ، طنز و تشنیع اور اختلاف برائے اختلاف سے مکمل طور پر گریز ہو ۔

[19] پاکستانی نظامِ باطل کے خلاف دعوت اور اعداد(یعنی قتال کی تیاری) کی بات نہیں ہو رہی، کہ دعوت و اعداد تو جب تک نظام باطل قائم ہو اوریہاں شریعت نافذ نہ ہو، بہر صورت جاری رکھناہے۔ بات یہاں قتال کی ہو رہی ہے اور ظاہر ہے مسلم معاشروں پر مسلط نظام ِباطل کے خلاف قتال کاآغاز کرنے میں تحریکِ جہاداور اس کی دعوت کی مصلحت بھی دیکھی جاتی ہے۔ تو آج پاکستانی فوج اور حکمرانوں کے خلاف قتال بھی ضروری ہے۔ اس قتال کو امریکہ کی غلامی میں خوداس فوج نے شروع کیا اور آج بھی یہ پہلے سے کہیں (باقی حاشیہ اگلے صفحے پر)

زیادہ ظلم کے ساتھ مجاہدین و اہل دین کے خلاف لڑ رہی ہے۔ آج نظامِ باطل کے خلاف دعوت اور ائمۂ کفر تک کے خلاف اعدادیہاں سنگین ترین جرم ہے،بے شمار مجاہدین اور داعیان ِ دین سلاخوں کے پیچھے بدترین تعذیب سے گزرہےہیں اوروہ قبائلی علاقے، جنہوں نے ہمیشہ مجاہدینِ اسلام کے لیے پناہ گاہ کا کردار ادا کیا، آج فوج کے قبضے میں ہیں اور جہاد ، مجاہدین اور اسلام کے خلاف استعمال ہور ہےہیں۔ ایسے میں دعوت و تحریک ِ جہاد کا دفاع ہو یا مظلوموں کی نصرت ہر لحاظ سے فوج کا فساد روکنے کے لیے میدان قتال میں اترنا ضروری ہے۔

[20] رواه مسلم في مقدمة صحيحه

[21] فوجی یا جاسوس کو ذبح کرنے کی فلم بندی کرنا دعوت وجہاد کے لیے بالکل بھی مفید نہیں ہے، شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ، شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ اور دیگر قائدین جہاد سمیت، امارت اسلامی افغانستان کے ہمارے علماء کرام و مسئولین بھی اس قسم کے افعال سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہیں۔ یمن میں القاعدہ کے شہید قائد شیخ نصر آنسی رحمہ اللہ اپنے ویڈیو انٹرویو میں فرماتے ہیں:’’اس میں شک نہیں کہ نیٹ پر پھیلی ویڈیوز سے متاثر ہو کر ہمارے بھی بعض ساتھیوں نے فوجیوں کے سر کاٹے اوران کی ویڈیوز بنائیں، لیکن ہم اس عمل کو بالکل بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں اور اس سے سختی کے ساتھ ساتھیوں کو منع کرتے ہیں۔اس قسم کے مناظر کی ویڈیو بنانا اور انہیں عام لوگوں میں دین اور جہاد کے نام سے تقسیم کرنا، ہم بڑی خطا سمجھتے ہیں اور اسے کسی بھی طورپر قبول نہیں کرتے ہیں چاہے اس کے لیے کتنی بھی حجتیں پیش کی جائیں۔بیشک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہر معاملے میں احسان کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ قتل کرنے میں بھی، اور قتل کرنے یا ذبح کرنے کی تصویر بنانا اور اسے نشر کرنا قطعاً احسان نہیں ہے، ظاہر ہے یہ تصاویر مقتول کے بیٹے، بیٹیاں اور دیگر رشتہ دار بھی دیکھیں گے جو انتہائی بری بات ہے۔ بنو قریظہ کے دن بلال رضی اللہ عنہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہااور ان کے چچا کی بیٹی کو یہود کی لاشوں کو دکھانے کے لیے گئے۔اس پر رسول اللہ ﷺ نے برا مانا اور فرمایا’’ذهبت بجارية حديثة السن إلى القتلى لقد ذهبت منك الرحمة‘‘’’ تیرے دل سے رحمت ختم ہوگئی کیا کہ تم کم عمر لڑکی کو لاشوں کے پاس لے گئے ؟‘‘بلال رضی اللہ عنہ نے معذرت کی اور کہا’’مامررتُ بها إلا إرادة أن ترى مسارع قومها و لم أدري أنك تكره يا رسول الله‘‘، ’’میں اس کو بس اس لیے لے گیا تھا کہ یہ اپنی قوم کا انجام دیکھے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپﷺ اس کو برامانیں گے ‘‘اور ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’أنزعت منك الرحمة يا بلال حيث تمر بامرأتين على قتل رجالهما؟‘‘، ’’بلال کیا تیرے سینے سے رحمت چھن چکی ہے کہ تم عورتوں کو ان کے مردوں کی لاشیں دکھانے لے گئے؟‘‘ تو اس قسم کے مناظر کی ویڈیو بنانا اور انہیں پھیلانے کا معاملہ بلاشک زیادہ سنگین ہے، اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنے لوگ ان ویڈیوز کوبعد میں دیکھیں گے اور بچوں، عورتوں اور کمزوروں میں سے بھی کتنے ہوں گے جو یہ دیکھنا برداشت نہیں کریں گے مگر وہ بھی دیکھیں گے،حالانکہ انہیں نہیں دکھانا چاہیے … میں نہیں سمجھتا کہ یہ عمل (قتل یاذبح کی ویڈیو )سلیم فطرت قبول کرتی ہے۔اس موقع پر میں چاہوں گا کہ ایک واقعے کا ذکر کروں اور یہ میں اللہ کے لیے گواہی کے طورپر کہتاہوں کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے بندہ ٔ فقیر،مجھے (یعنی شیخ نصر آنسی کو ) فلپائن کے مجاہدین کے پاس چند اہم امور کے لیے بھیجاتھا۔ شیخ کی نظر میں ان میں جو سب سے زیادہ اہم کام تھا اور جس کی شیخ نے بہت تاکید بھی کی، وہ قتل کرنے کی تصاویر کا معاملہ تھا۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ اس سے انتہائی سختی سے منع کرتے تھے اور تاکید کرتے تھے کہ فطرتِ سلیم رکھنے والا کبھی اس قسم کے مناظر پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا میں یہ تاکید کرتاہوں کہ ہماری جماعت میں سے اگر کسی نے یہ فعل کیا تو وہ شیخ اسامہ بن لادن، شیخ ایمن اور شیخ ابوبصیر کے احکامات کی نافرمانی کرتا ہے اور یہ ایسا منکر ہے کہ جس کو مجاہدین میں سے کوئی بھی ٹھیک نہیں کہتا بلکہ مجاہدین اس سے روکتے ہیں۔لہٰذا ہم اپنے ساتھیوں کو شرعی اور واقعاتی دلائل کے سبب منع کرتے ہیں۔(باقی حاشیہ اگلے صفحے پر)

 اس فعل کے شرعی حکم اور اس میں اختلاف کو ایک طرف رکھ کر بھی دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ افعال دشمن مجاہدین کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں خصوصاً جب ان کی ویڈیو بنائی جائے اور اسے میڈیا میں نشر کیا جائے۔‘‘ (الملاحم۔ المؤتمر الصحفي الدولي الأول للشيخ نصرآنسي رحمه الله)۔

[22] شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات (توجیھات للعمل الجھادی) اور اس کی رہنمائی میں تیار کردہ القاعدہ برِّصغیر کا لائحۂ عمل اس حوالے سے پڑھنے کی درخواست ہے۔ اسی طرح ِدعوت و جہاد کا منہج سمجھنے کے لیے شیخ عطیۃ اللہ رحمہ اللہ کا الحسبة فورم کے ساتھ انٹرویواہم ہے ،اس طرح شیخ کے مقالات و صوتیات کا ذخیرہ ’ مجموع الأعمال الكاملة ‘کا مطالعہ بھی ان شاء اللہ مفید ہوگا۔

[23] ومن أراد الله سعادته جعله يعتبر بما أصاب غيره؛ فيسلك مسلك من أيده الله ونصره، ويجتنب مسلك من خذله الله وأهانه(مجموع الفتاوى)

[24] اس باب میں ہمارے بھائی اور شیخ،استاد احمد فاروق رحمہ اللہ کا تحریر کردہ کتابچہ ’اہلِ پاکستان ایک فیصلہ کن دوراہے پر‘ پڑھنے کی گزارش ہے۔

[25] ہمارے محترم و محبوب بھائی مولانا مثنیٰ حسّان حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ایک کتابچہ ہے ’’علماء کرام سے تعامل کے اصول ‘‘، یہ کتابچہ قارئین و داعیان ِ جہاد کے لیے ان شاء اللہ نافع ہوگا۔

[26] مدعا یہ ہے کہ روافض، قادیانیوں اور اسماعیلیوں جیسے دشمنوں کے ساتھ،جہاں یہ خود نہیں لڑ رہے ہوں اپنی طرف سے مسلح جنگ چھیڑنےسے گریز ہواو ر ایسی کسی جنگ کی دعوت و حوصلہ افزائی نہ ہو۔ جہاں تک دعوت میں ان کے عقائد و نظریات پر رد ہے، تو یہ رد بہرصورت ضروری ہے، اسی سے عامۃ المسلمین پر ان کا فساد واضح ہوگا۔ دعوت کے اس دائرے میں بھی اگر الٹا خاموشی اختیار کی گئی تو اس سے بہت بڑا نقصان ہوگا ۔

 

pdf link-1

https://www.pdf-archive.com/2020/04/17/dawat-ka-uslub/dawat-ka-uslub.pdf

pdf link-2

https://archive.org/download/dawat-ka-uslub/dawat%20ka%20uslub.pdf