JustPaste.it

قال سلمة بن ورد : إني رأيت أنس بن مالك يسلم على النبي صلى الله عليه وسلم ثم يسند ظهره إلى جدار القبر ثم يدعو ، وهذا مما لا نزاع فيه بين العلماء وإنما نزاعهم في وقت السلام عليه قال أبو حنيفة رحمه الله : يستقبل القبلة عند السلام أيضاً ولا يستقبل القبر وقال غيره : يستقبل القبر عند السلام خاصة ولم يقل أحد من الأئمة الأربعة أنه يستقبل القبر عند الدعاء ، إلا حكاية مكذوبة عن مالك ؛ ومذهبه بخلافها ، وكذلك الحكاية المنقولة عن الشافعي رحمه الله كان يقصد الدعاء عند قبر أبي حنيفة رحمه الله ـ فإنها من الكذب الظاهر بل قالوا : إنه يستقبل القبلة وقت الدعاء ولا يستقبل القبر حتى يكون الدعاء عند القبر ، فإن الدعاء عبادة كما ثبت في الترمذي مرفوعاً " الدعاء هو العبادة " فالسلف من الصحابة والتابعين جردوا العبادة لله تعالى ، ولم يفعلوا عند القبر منها شيئاً إلا ما أذن فيه النبي صلى الله عليه وسلم من السلام على أصحابها والاستغفار لهم والترحم عليهم .والحاصل : أن الميت قد انقطع عمله وهو محتاج إلى من يدعو له ويشفع لأجله ولهذا شرع في الصلاة عليه من الدعاء له وجوباً واستحباباً ما لم يشرع مثله في الدعاء للحي،

سلمان بن ورد نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پھیجتے دیکھا، پھر دیکھ اکہ انہوں نے اپنی کمر قبر کی جانب دیوار کی طرف پھیر لی اور پھر دعا کی۔ اور اس مسئلہ میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں، اختلاف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنے کے وقت میں ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: سلام کے وقت بھی اپنا رخ قبلہ کی جانب کیا جائے، اور قبر کی جانب رخ نہ کیا جائے، جبکہ دوسرے کہتے ہیں: کہ خاص خاص سلام کے وقت اپنا رخ قبر کی جانب کیا جائے، اور ان چاروں ائمہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ دعا کے وقت اپنا رخ قبر کی جانب کیا جائے، سوائے امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب ایک جھوٹی کہانی کے، اور امام مالک کا مذہب اس جھوٹی کہانی کے خلاف ہے۔ اور اسی طرح امام شافعی سے منقول ایک کہانی کا معاملہ ہے، کہ وہ دعا کے لئے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کا قصد کیا کرتے۔ یہ بالکل ظاہر و سفید جھوٹ ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دعا کہ وقت اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا جائے، اور قبر کی طرف رخ نہ کیا جائے، حتی کہ دعا قبر پر کی جائے، تب بھی، کیونکہ دعا عبادت ہے ، جیسا کہ ترمذی میں مرفوعاً ثابت ہے: " دعا عبادت ہے"۔ اسلاف میں صحابہ و تابعین عبادت کو اللہ کے لئے مجرد رکھا ہے، اور انہوں نے قبر پر کوئی ایسا کام نہیں کیا، سوائے اس کے کہ جس کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ پر سلام کرنا، ان کے لئے استغفار کرنا اور رحم کی دعا کرنا ہے۔
اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ میت کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے لئے دعا کرنے والے کا محتاج ہے، اور

 

مجلد 01 صفحه 171 ۔ 172
الكتاب: زيارة القبور للإمام البركوي (من رسائل البركوي)
المؤلف: محيي الدين محمد البركوي الحنفي (المتوفي: 980 هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية بيروت – لبنان