JustPaste.it

(وَ) وَيُكْرَهُ (قَوْلُهُ فِي الدُّعَاءِ أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) بِتَقْدِيمِ الْعَيْنِ أَوْ بِتَقْدِيمِ الْقَافِ عِنْدَ الطَّرَفَيْنِ لِأَنَّ الْكَرَاهَةَ فِي الْقَوْلِ الثَّانِي ظَاهِرَةٌ لِاسْتِحَالَةِ الْقُعُودِ وَكَذَا فِي الْأَوَّلِ لِأَنَّهُ يُوهِمُ تَعَلُّقَ عِزِّهِ بِالْعَرْشِ الْمُحْدَثِ وَاَللَّهُ تَعَالَى بِجَمِيعِ صِفَاتِهِ قَدِيمٌ (خِلَافًا لِأَبِي يُوسُفَ) فَإِنَّهُ يُجَوِّزُ الْأَوَّلَ عِنْدَهُ لِدُعَاءٍ مَأْثُورٍ وَهُوَ اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَبِمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ وَبِهِ أَخَذَ أَبُو اللَّيْثِ وَالْأَئِمَّةُ الثَّلَاثَةُ وَقِيلَ وَجْهُ الْجَوَازِ جَوَازُ جَعْلِ الْعِزِّ صِفَةً لِلْعَرْشِ الْعَظِيمِ كَمَا وُصِفَ بِالْمَجْدِ وَالْكَرَمِ.
(وَ) يُكْرَهُ (قَوْلُهُ أَسْأَلُك بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك) أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ أَوْ بِحَقِّ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ إذْ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِنَّمَا يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ عَلَيْهِ،

مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، یعنی تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، بمعقد :عین کی قاف پر تقدیم، یا بمقعد:قاف کی عین کے ساتھ ، دوسری کے مکروہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے قعود محال ہے۔ اور اسی طرح پہلی بھی مکروہ ہے کیونکہ یہ موہم ہے کہ عزت الہٰی کا تعلق عرش سے ہے حالانکہ عرش حادث ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ قدیم ہے، برخلاف ابو یوسف رحمہ اللہ کے، کیونکہ ان کے نزدیک پہلی صورت میں دعا میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ ان کے نزدیک یہ نبی علیہ السلام سے ماثور ہے، اور وہ دعا یہ ہے: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَبِمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ (الہٰی! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بطفیل تیرے عرش کی جگہوں کے، جن میں تیری عزت وابستہ ہے، اور بطفیل منتہائے رحمت کے تیری کتاب سے، اور تیرے اسم اعظم اور کلمات تامہ کے طفیل سے)۔اور اسی کو فقیہ ابو للیث اور تین ائمہ نے لیا ہے اسلئے اور وجہ کہی گئی ہے کہ اگر لفظ عز کو عرش کی صفت قرار دیجئے نہ صاحب عرش کی تو یہ دعا جائز ہوگی، جیسے کہ توصیف عرش کی لفظ کرم اور مجد کے ثابت ہے۔

اور یہ مکروہ ہے کہ ہے اگر کوئی شخص یوں کہے : بحق تیرے انبیاء ورسولوں کے تجھ سوال کرتا ہوں، یا بحق بیت الحرام کے سوال کرتا ہوں،اور معشر الحرام کے سوال کرتا ہوں، اس واسطے کہ کسی کا کچھ حق نہیں اللہ تعالیٰ پر۔ مگر اللہ تعالی نے حق کو اپنی رحمت سے مخصوص کیا ہے جس کے لئے اس نے چاہا، ، جو اللہ تعالی پر واجب نہیں،۔( یعنی کسی کاحق خالق تعالیٰ پر وجوباً ثابت نہیں، لیکن تفضیلاً و کرماً ثابت ہے)۔

مجلد 04 صفحه 223
الكتاب: مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر
المؤلف: عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية