محکوم قوم !!!
وطن عزیز پاکستان میں آئےروز ایک نیا سانحہ دیکھنے کو ملتا ہے.کبھی کسی سڑک پر لاوارث لاش،تو کبھی کسی ماں کی اپنے بیٹے کی بازیابی کیلئے نہ تھمنے والے آنسوں ،کبھی اسلام کی حرمت و تقدس کی پامالی تو کبھی کرپشن میں ڈوبتے ملک و قوم کے پیسوں کی جواری ،کبھی ایوان میں بیٹھے فرنگ نوازوں کی داستان ایمان فروشی تو کبھی فوج کا اہلیان پاکستان اور خصوصا قبائل پر جاری مظالم کی بولتی تصاویر اور کبھی ہوا کی بیٹی کی عصمت دری وغیرہ وغیرہ......!
ہو گئی رسوازمانے میں کلاہ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ،ہیں آج مجبور نیاز
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکرے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
ایسی حالت کہ بندہ دیکھ کر پریشان ہو جائے.....! کہ آخر اس ملک میں یہ کونسا کھیل کھیلا جارہا ہے.مدینہ ثانی کا دعوی کرنے والی حکومت اسمبلی میں ایسے بلز پاس کروا رہے ہیں.جس میں اسلامی شعائر کی تقدس پامال ہورہا ہے.ملکی مفادات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہے، ملکی خودمختاری کے سودے ہو رہے ہیں اور اپوزیشن سمیت تمام اہلیان وطن خاموش تماشائی بن کر کھڑے ہوئے ہیں......
مولانا عبید اللہ سندھی رح کا ایک قول ہے کہ
غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں شریف کو بے وقوف ،مکار کو چالاک ،قاتل کو بہادراور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حالات کیوں پیش آرہے ہیں ؟
جواب انتہائی آسان ہے وہ یہ کہ پاکستانی قوم ایک محکوم قوم ہے اور یہ اس قوم کا شامت اعمال ہے .....!
نبی علیہ السلام کے ایک حدیث مبارک کا مفھوم ہے کہ تمارے اعمال ہی تمارے حاکم ہونگے.
اور یہی وجہ ہے کہ من حیث القوم پاکستانی قوم کے گناہ اتنے حد تک جا چکے ہیں کہ پاکستان پر ایسے حکمران مسلط ہو چکے ہیں، جو کفار کے مفادات کیلئے کام کر رہے ہیں اور ملک و ملت کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں.
مفتی شامزئی رحمہ اللہ کا ایک قول یہاں یاد آیا،مفتی صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ .....
ہم من حیث القوم منافقت میں مبتلاء ہو چکے ہیں اسی وجہ سے یہ منافق حکمران ہم پر مسلط ہیں، اگر ہمیں اس حالت سے نکلنا ہے تو کوئی اٹھ کر ان حکمرانوں کا گلہ دبا دے، یہ سروں کی پکی ہوئی فصل ہے، جو گرنے کیلئے تیار ہے، اگر مسلمان نوجوانوں میں دم ہے تو اٹھ کر ان کا مقابلہ کریں اور ان کے خلاف مسلح جھاد شروع کریں.
قارئین کرام! غلام قوم کو پیش آنے صورتوں میں سب سےمشھور صورت قومی مفادات کی پامالی ہے. محکوم قوم کا سب سے بڑا جرم یہ ہوتا ہے کہ وہ محکوم ہوتے ہیں، اسی جرم کی پاداش میں ان کے قومی مفادات، غیرت دینی،دینی تقدس کی پامالی بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کا مجروح ہونا،روزانہ کا معمول ہوتا ہے، اسی صورتحال کا علاج صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ قاہر کے پنجوں سے اپنے آپ کو آزاد کروائے.لیکن یہ علاج بہت سخت ہوتا ہے کیونکہ غلام قوم کی جستجو یہ ہوتی ہے کہ وہ آسان نسخوں پر عمل کرتے ہیں، نظام پر حاکم ،حاکم الوقت اپنے مفادات کے حصول کیلئے اسی قوم کو کچھ مراعات فراہم کرتے ہیں، انہی مراعات کی بنا پر محکوم قوم، حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور یوں وہ قوم کافی عرصہ بحثیت محکوم قوم زندگی بسر کرتی ہے۔
میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے......!
بقول اقبال
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جن کو خیال اپنی حالت خود بدلنے کا
حال ہی میں رونما ہونے والے کچھ ایسے واقعات جو پاکستانی حکمرانوں کی ایمان فروشی اور غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے .ملاحظہ کیجئے.......!
(۱)پاکستانی اسمبلی میں بیٹھے ایمان فروشوں نے ایک بل پاس کیا ہے جس کا نام ہے FATF2020
یہ بل مجموعی طور پر تین اجزاء پر مشتمل ہے.
۱)اینٹی منی لانڈرنگ
۲)اینٹی ٹیرارزم
۳)اوقاف کنٹرول پالیسی
اس بل کے اوپر دو اجزاء تو زیر بحث آتے رہے ہیں مگر اس بل کا جو تیسرا جزء ہے وہ ہے اوقاف کنٹرول پالیسی .....!
مساجد کی خطیبوں کی سینسرشپ ایک نیا دجالی منصوبہ معلوم ہوتا ہے، اس بل کی رو سے آپ مسجد میں سیاسی باتیں نہیں کر سکتے، اس کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین یا حکومت کے کسی بھی بد عمل کی گفتگو پر قدغن لگائی گئی ہے......!
اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بھی بہت غیرت مند مولوی صاحبان اس نظام باطل اور حکومت وقت پر رد کرتے ہیں اسی پالیسی کی بناء پر مساجد کے خطیبوں کو اتنا محدود کیا جائیگا کہ وہ بات کرنے کیلئے ترسیں گیں۔
اس بل کی رو سے مساجد کی ڈونیشنز پر کٹ لگائی گئی ہے، مطلب مسجد یا مدرسہ اس وقت تک نہیں بن پائے گا جب تک وہ اوقاف میں رجسٹر نہ ہوگا، جو بھی شخص مسجد یا مدرسے کو فنڈ دیگا، اسکا منی ٹرائل ہوگا،کہ پیسا کہاں سے کمایا، ٹیکس بھرا ہے یا نہیں اور کیا ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہے یا نہیں .اگر کوئی شخص یہ تمام ڈیٹیلز نہیں دیگا،تو مسجد کی عمارت حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی. ذرا سی شکایت پر مسجد و مدرسہ تعمیر کرنے والوں کو چھ ماہ کیلئے اٹھایاجائیگا، جو ناقابل ضمانت ہوگا اسی طرح خطیب کی تقریر پر بھی اگر کوئی اعتراض آئیگا تو اس کو بھی چھ ماہ کیلئے جیل میں رکھا جا سکتا ہے،اگر مجرم نا نکلا تو رہا ہو جائیگا، البتہ چھ ماہ قید پر نہیں پوچھا جائیگا.وغیرہ وغیرہ
اے طائر لا ہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اس بل کے جواب میں فقط یہ کہنا تھا کہ یہ اس محکوم قوم کی ایمانی شناخت کا سودا ہے اور یہ پاکستان میں نظام جمھوریت کے بوئے گئے وہ زہر ہیں، جو آج ہماری ایمانی و قومی غیرت کا جنازہ نکال رہےہیں.ایک طرف اسلام آباد میں یہ پنڈت کے غلام حکمران حکومتی خرچ مندر بنوا رہے ہیں اور دوسری طرف کفار سے ڈالر کی بھیک مانگنے کی خاطر اسلامی احکامات و روایات اور مساجد و مدارس کی بے حرمتی کر رہے ہیں.
طالبان پر خوارج کے فتوے لگانے والے درباری مولیوں.......!
یہ اللہ تعالی کا قانون ہے کہ اللہ تعالی ظالم کو ظالم پر مسلط کرتا ہے.ابھی پتہ چلے گا تم جس محراب و ممبر پر بیٹھتے ہو ناں، یہ ایک مقدس امانت ہے اس پر قدغن لگانے کا مطلب دین دشمنی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے.
تحریک طالبان پاکستان نے بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ اس ملک میں اسلام کی بات کرنا سب سے بڑا جرم تصور ہوتا ہے اور اب تو اسلامی مقدسات کی تعمیر قانونی لحاظ سے جرم بن گیا ہے.جو ہمارے دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے.
یہاں پر مولانا عبد الکلام آزاد رحمہ اللہ کا ایک تاریخی قول ذکر کرتے ہیں،
مولانا آزاد فرماتے تھے کہ ہندوستان میں اسلام کی خیر نہیں ہوگی اور پاکستان میں مسلمانوں کی خیر نہیں ہوگی. اور آج پاکستان میں یہی تماشہ دیکھنے کو مل رہا ہے ......!
تری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس !
دوسرا بل:
دس ستمبر ۲۰۲۰ کو ایک عورت موٹر وے پر سفر کر رہی تھی، اس کی گاڑی میں تیل ختم ہوتا ہے،گاڑی رک جاتی ہے اور کچھ غنڈے آکر اس عورت کو گاڑی سے نکال کر اس کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں، اس کے زیورات اور پیسے لوٹ کر لے جاتے ہیں. قومی اسمبلی میں بیٹھے ایمان فروش ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ایک خود ساختہ بل پاس کر لیتے ہیں کہ جو بھی اس کا جرم کا مرتکب ہوگا، اس کو نامرد بنا دیا جائے گا.ماضی قریب میں زینب اور فرشتہ کے واقعات سمیت کئی ایسے واقعات رونما ہوئے کہ بحیثیت پاکستانی مجھے اس کو لکھ کر شرم آتی ہے، بہر حال جو بھی ہو رہا ہے اس کے اسباب کیا ہیں ....؟
یاد ہے نا عورت مارچ........
میرا جسم میری مرضی ......
حقوق نسواں........
روشن خیالی ........ ؟؟؟؟
یہ تو ہونا ہی ہے اس ملک میں آپ ایسے واقعات کیلئے خود راہ ہموار کر رہے ہو تو پھر شکوہ کیوں کرتے ہو ......؟
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
اس واقعے کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ شریعت نے عورت کو جتنا وقار بخشا، شاید کسی مذھب نے نہیں بخشا، عورت اگر حدود اللہ کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتی ہے، تو اس کی عزت پر آنچ بھی نہیں آتی.مگر یہ سب کچھ تب جا کہ ممکن ہوا ہے، جب عورت نے حدود اللہ کو پامال کیا اور مغربی تہذیب کے پل پر قدم رکھا.
دوسری یہ کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے.
اس کے بارے میں ہمارے بہت معزز شیخ، شیخ القرآن والحدیث استاد العلماء نور الھدی نور اللہ مرقدہ کا ایک واقعہ سناؤ، حضرت شیخ رحمہ اللہ نے مجاہدین کی ایک مجلس میں فرمایا کہ کراچی رینجرز کے چند افسران میری ملاقات کیلئے آگئے، ملاقات میں ایک افسر نے کہا کہ شیخ صاحب؛ پاکستان سے دہشت گردی کیسے ختم ہو سکتی ہے....؟
میں نے مسکرا کر جواب دیا کہ دہشت گردی شروع کر دو، دہشت گردی ختم ہو جائے گی.......!
شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا........ افسر حیران ہو گیا کہنے لگا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں،شیخ صاحب ...؟؟
میں نے عرض کیا کہ آپ لوگ قاتل سے قصاص لینے کو دہشت گردی کہتے ہو،چور سے ہاتھ کاٹنے کو دہشت گردی کہتے ہو،زانی کو کوڑے مارنے اور رجم کرنے کو دہشت گردی کہتے ہو، اسلئے اگر آپ کسی قاتل سے قصاص لو، چور سے ہاتھ کاٹ دو، زانی کو رجم کرو یا کوڑے مارو،پھر دیکھنا کوئی مائی کا لال ایسے جرائم نہیں کر سکتا .......!
شیخ کہنے لگے رینجرز والے حیران ہو کر رہ گئے اور لا جواب رخصت ہوگئے........!
آ بتاؤ تجھ کو رمز آیہ ان الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
اصل میں ان جرائم کی روک تھام اسلامی نظام کے قیام سے ہی ممکن ہے. بقول امیر محترم مولانا فضل اللہ خراسانی تقبلہ اللہ کہ امن اسلام اور شریعت میں ہے اور ملک میں امن تب ہوگا جب ملک میں شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نافذ ہو جائے.
وہ دانائے سبل ختم الرسل ،مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں،وہی فرقاں،وہی یسین وہی طہ
حکومت نے ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف جو بل پاس کیا ہے،یہ ان حکمرانوں کی اللہ تعالی سے دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے، زانی کے بارے میں اسلام اور شریعت نے جو حد قائم کی وہی اس جرم کا اصل علاج ہے،
لیکن ان ایمان فروشوں نے اسمبلی میں اسلامی حدود کو پامال کر کے ایک خود ساختہ بل پاس کیا.جو دین دشمنی کے سوا اور کچھ نہیں ہے......!
جو لوگ پاکستانی آئین کے آرٹیکل ون پر ناز کرتے ہے اور کہتے کہ اس ملک میں حاکم اعلی اللہ ہے، تو پھر اللہ تعالی کے حدود کے مقابلے میں خود ساختہ بلز پاس کرنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے.
بقول مولانا عبد العزیز حفظہ اللہ کہ یہ دھوکا دیا گیا کہ قرآن و سنہ سپریم لاء ہوگا. مگر اس ملک میں ایسا نہیں ہوا.
قارئین کرام! یہ اس شہر نافرسان کے حالات کی ایک مختصر جھلک تھی اس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر ایسے گھناونے جرائم ہو رہے ہیں، جس کا بیان کرنا محال ہے.
اردو کا ایک محاورہ ہے کہ بے وقوف آدمی مصیبت میں بیٹھ کر روتا ہے اور عقل مند اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔
فقط ایک عرض ہے کہ یہ جو قومی مفادات کی پامالی ہو رہی ہے نا اس کی اصل وجہ آئی ایم ایف،امریکہ، اقوام متحدہ اور برطانیہ سمیت طواغیت عالم کی غلامی ہے.
اگر ہم نے ان حالات سے نکلنا ہے تو ایک تو یہ کہ اگر اجتماعی طور پر ہم شریعت نافذ نہیں کر سکتے تو انفرادی طور پر اپنے گھروں میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی کوشش کریں، دوسرا یہ کہ بحیثیت قوم ہمیں انقلاب کی طرف آنا ہے، مگر وہ انقلاب جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا.
وہ قرآنی انقلاب جس نے روم و فارس کو فتح کیا، وہ انقلاب جس نے ترکوں کو دنیا میں عزت بخشی، وہ انقلاب جس نے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاھد رحمہ اللہ کو مسلم دنیا کا عظیم شخص بنایا اور وہ انقلاب جس نے مسلمانوں کو تاریخ کی بلندیوں تک پہنچایا.
اسلئے خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور اسلامی نظام کے قیام کیلئے کوشش کریں، کیونکہ اسلامی نظام کا قیام ہی ان مسائل کا واحد حل ہے . اللہ ہمارے ملک اور قوم کا حامی و ناصر ہو........
تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے!
کالم نگاہ بلند
از مجاھد فیصل شھزاد