JustPaste.it

جشن آزادی یا جشن فحاشی

 

یہ باتیں بھی پرانے ہوچکیں کہ ہم ابھی تک آزاد نہیں کیونکہ یہ پاکستان میں رہنے والے تقریباً اسی فیصد لوگوں کا نعرہ ہے جو مختلف ٹی وی چینلز پر عوامی رائے کے ذریعے ہم سنتے چلے آرہے ہیں وزراء امراء اسمبلی یا سینیٹ ممبران اگرچہ لباسی فنکشنز منعقد کرتے کرواتے ہیں مگر جب کسی موضوع پر جذباتی ہوتے ہیں تو یہی حقیقت ان کے منہ سے نکلتی ہے کہ ہم آزاد نہیں ..

پھر یہ جشن آزادی کے پروگرامات و اجتماعات کس لیے؟؟

تو جناب یہ پروگرامات اور اجتماعات منعقد کروانے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ... ایک تو وہ لوگ ہیں جو غیرملکی این جی اوز سے وابستہ نظریاتی طور پر عورتوں کی آزادی چاہتے ہیں یا پھر ناچ گانے کے ذریعے تفریح کے نام پر فحاشی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوتے ہیں ... دوسرا وہ لوگ ہیں جو پیسہ کمانے کی غرض سے ناچ گانے والوں کو بلواتے ہیں اور ان کا تماشا دیکھنے کیلیے لوگوں سے ٹکٹ کے نام پر پیسہ وصول کرتے ہیں ..... رہی بات ان لوگوں کی جو ان پروگرامات و اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں یا سکول کالج یا تعلیمی و غیرتعلیمی اداروں سے پکنک کے نام پر پارک وغیرہ میں جاتے ہیں تو ان لوگوں کا بھی ملکی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ مخلوط پکنک کو انجوائے کرنے غیرمحرم لڑکیوں سے ملنے اور گھومنے کی آزادی مناتے ہیں ان کی آزادی ناچ گانے اور ڈیٹ منانے تک محدود ہوتی ہے ... ہم نے خود کئی بار ان لوگوں سے بات چیت کی ہے جن کے چہرے پر پاکستانی جھنڈا نقش ہوتا ہے جن کے ماتھے پر جشن آزادی کی پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے ان کا بھی جواب طنزیہ انداز میں ہوتا ہے کہ کونسی آزادی اور کس چیز کی آزادی؟؟ ہم تو بس چھٹی کو انجوائے کرنے آئے ہیں پاکستان کی ایسی کی تیسی وغیرہ ...

آزادی منانے والے تقریباً بیس فیصد لوگ وہ ہیں جو اپر کلاس فیمیلیز تصور کیے جاتے ہیں سرمایہ دار اور اعلیٰ درجے کے تجار ہوتے ہیں نہ تو ان پر مہنگائی اثرانداز ہوتی ہے نہ ملک کے بگڑتے ہوئے صورتحال ... وہ دنیاوی لحاظ سے شرفاء تصور کیے جاتے ہیں ان کا اپنا کاروبار فعال رہتا ہے اگر ایک دو سال کیلیے بند بھی ہوجائے تو فرق نہیں پڑتا ان کا حکومتی اتار چڑھاؤ سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اس لیے وہ خود کو آزاد تصور کرکے آزادی آزادی کا گانا گاتے ہیں ..

    آزادی منانے والوں سے پوچھا جائے تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ ہم آزادی کیوں نہ منائے ہم آزاد جو ہیں ... یہاں لڑکی اگر لڑکی سے شادی کرنا چاہے تو آزاد،  لڑکا لڑکے سے شادی کرنا چاہے تو آزاد،  ہم کیوں نہ منائے آزادی؟  کوئی ادارہ یا حکومت از خود کسی مسجد کو گرانا چاہے تو آزاد، برائے نام اسلامی حکومت کے بیت المال کے خرچے پر اگر مندر بنوانا چاہے تو آزاد، کوئی مسجد کے اندر گانوں کی شوٹنگ کرانا چاہے تو آزاد، پھر بھی ہم آزادی نہ منائے کیا؟  عورتیں ننگی ہوکر فحش نعروں کی بینرز اٹھائے نکلنا چاہے تو آزاد، سکول کالجوں میں ڈانس پارٹی ڈانس مقابلے منعقد کرنا چاہے تو آزاد، ہم کیوں نہ منائے آزادی آخر پاکستان میں کس چیز پر پابندی ہے سوائے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ... یہاں مشہور طوائف منی لانڈرنگ کیس میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ پیشی کیلیے آتی ہے جبکہ ناموس رسالت کا دفاع کرنے والے کے ہاتھ نماز پڑھتے وقت بھی بندھے ہوئے ہوتے ہیں ...... یہاں سینکڑوں لوگوں کو بمبار کا نشانہ بنانے والے ابی نندھن کو چائے پلائی جاتی ہے جبکہ گستاخِ رسول کو ٹھکانے لگانے والے ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھائے جاتے ہیں ... ہم کیوں نہ منائے آزادی کہ یہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے والوں کی لباسی گرفتاری ہوتی ہے اور چند روپوں کے عوض ضمانت ہر رہا کیے جاتے ہیں جبکہ نفاذ شریعت کا نعرہ لگانے والوں کو سالوں سال غائب اور شہید کیے جاتے ہیں ہم کیوں نہ منائے آزادی کہ ہمارے خفیہ ادارے بھی آزاد ہیں کس کو کہاں مارنا چاہے کہاں سے اٹھانا چاہے اور کب چھوڑے یا کب شہید کرے مکمل آزادی ہے ... یہاں شہری لوگ بالکل آزاد زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ فوج ان کی دفاع کیلیے قبائلی علاقوں میں قربانیاں دے رہے ہیں وہاں کے لوگ گھروں میں محصور ہوتے ہیں نکلتے ہیں تو لینڈمائن کا نشانہ بنتے ہیں کام پر جاتے ہیں یا واپس گھر آتے ہیں تو بیس منٹ کا فاصلہ ڈیڑھ دو گھنٹوں میں طے کرتے ہیں جگہ جگہ چیک ہوسٹوں پر نام والد کا نام کام اور سکنہ بتانا پڑتا ہے جبکہ شہر کے لوگوں کیلیے پانچ منٹ انتظار کرنا بھی قیامت ہے وہاں گھنٹوں انتظار کروانے والوں کی بیویاں بھی یہاں آزاد ہیں قانون سے بالاتر ہیں ایک منٹ کا انتظار بھی ان سے برداشت نہیں ہوتا یہاں ہم آزادی کیوں نہ منائے کہ وہاں قبائلی علاقوں میں بعض لوگوں کا دل کرتا ہے کہ آزادی منائے لیکن وہ اپنے مسمار شدہ گھر کو دیکھ کہ مایوس ہوجاتا ہے کہ اب جھنڈا کس کونے پر لگائے کہ گھر تو اس ملک کے رکھوالوں نے مسمار کردیا ہے .....

نتیجہ یہی ہے کہ یہاں جشن آزادی کے نام پر محض فحاشی کو فروغ دینا ہے بس .

 

.... تقسیم مسلمانان ہند کو آزادی کا نام دینا سب سے بڑی بے وقوفی ہے .... خود کو مسلمان کہنے والوں کیلیے یہ دن ایک المیہ ہے اس کو یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہیئے کیونکہ اس دن مسلمانانِ ہند کو غیرمنصفانہ طریقے سے تقسیم کرکے ان کی طاقت کو زائل کیا ہے اب انڈین مسلمان پاکستانی مسلمانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں بنگلہ دیش کے مسلمان الگ ہیں اور ادھر کے الگ ہیں .... اللہ اس مقبوضہ پاکستان کو حقیقی آزادی سے نوازے اور اس میں شرعی نظام کے نفاذ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطافرمائے .... آمین یا رب العٰلمین

 

کالم حرف حقیقت

از مکرم خراسانی