JustPaste.it

یعنی کہ سلسلہ اب بھی جاری ہے

کالم: نوک قلم

از خالد قریشی

 

کچھ روز قبل ”روشنیوں کے شہر“ میں ایک روشن چراغ کو بجھادیا گیا، ”ایک علمی قائد“ کو چند ٹکوں کے عوض ابدی نیند سلادیا گیا، ”تجارت کے شہر“ میں خون کا سودا کیا گیا، ”خوشیوں کے شہر“ میں خوشیوں کا گلا گھونٹا گیا اور ”علم کے شہر“ عالِم کو مار کر عِلم کو مارنے کی کوشش کی گئی ـ یہ ایک سلسلہ ہے جو ریاست پاکستان کی تقریباً پہچان بن چکی ہے جہاں مسالک کے قد و عن کو پرے رکھ کر علمائے اسلام کو، خصوصاً انہیں جو مسلمانان پاکستان کی وحدت چاہتے ہیں یا پاکستانیوں کو حصول وطن (لا الہ الا اللہ) کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں، ان کو مختلف مواقع میں قتل کیا گیا ـ

 

اس بات کی مثال دینا تحصیل حاصل ہے تاہم قارئین کے سامنے وضاحت کے طور پر چند علماء کے نام ذکر کرنا بہتر رہے گا جنہیں واضح طور پر فوج اور ایجنسیوں نے شہید کیا یا جن کے بارے میں اس طرح کے قرائن موجود ہیں ـ اس فہرست میں سب سے پہلے مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ کا نام آتا ہے، جن کے قتل کی وجہ یہ بنی کہ انہوں نے سرکاری مولویّت کو ٹھکرا کر حق گوئی کی اور پاکستانی فوج و حکومت کی تلخ حقیقت بیان کی اور یہ بھی واضح کیا کہ یہ ملک وجود میں کیوں آیا اور اس میں ہوا کیا؟ـ اسی سلسلے میں شیخ الحدیث مولانا نصیب خان شہید رحمہ اللہ بھی ہیں جنہیں درسِ حدیث میں ”کتاب السّیر“ کی صحیح تشریح اور اسے حالاتِ حاضرہ کے ساتھ پرکھنے پر قتل کیا گیا، جو اسٹیبلشمنٹ اور اسکے پالے گئے مسلح جہلاء کو پسند نہ آیا ـ مولانا ولی اللہ کابلگرامی صاحب رحمہ اللہ کو درسِ قرآن کے ذریعے ملک میں جاری غیر اسلامی عقائد کی روک تھام اور ملک میں نفاذ شریعت کی تمناء رکھنے پر قتل کیا گیا ـ اسکے علاوہ شیخ عارف، غازی عبدالرشید، مولانا علی شیر حیدری اور ان سمیت دیگر کئی علمائے کرام کو قتل کی شکل میں اُن جرائم (اعلائے کلمۃ اللہ اور شعائر اسلام کی حفاظت) کی سزائیں بھگتنا پڑیں جو ان کا فریضہ تھا ـ

 

صرف یہی نہیں بلکہ اس ملک میں ہر اس شخص کو ٹارگٹ کیا گیا جس نے اسٹبلیشمنٹ کے غلط فیصلوں کو غلط کہا، فوج کی غلط پالیسیوں (جس پر اب وہ  خود بھی پشیماں ہے) کو بے جا قرارا اور جنہوں نے اسلامی شعائر کی حفاظت کرنا چاہی اور کسی بھی طریقے سے اس مقصد کیلئے کوشاں رہے جس کے لئے اس کا حصول کیا گیا تھا ـ ان لوگوں کو اداروں نے ماورائے عدالت قتل کیا، جلی کٹی لاشیں پھینکیں، سمندر برد کیا اور ڈالرز کے عوض بیچ کر اپنے ہی ایمان کا سودا کر ڈالا ـ یہ باتیں اب کسی سے بھی مخفی نہیں ہیں، آپ خود انٹرنیٹ پر سرچ کرکے اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی سات سے آٹھ ہزار پاکستانی لاپتہ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ”قانون نافذ کرنے والے اداروں نے“ اپنے ہی قانون کی تذلیل کی ہے اور یہ تعداد پاکستانی میڈیا خود بھی دو سے اڑھائی ہزار بتاتی ہے ـ اس سے قبل یہ تعداد اس سے دس گنا زیادہ تھی جن میں سے بعض کو سول جیلوں میں منتقل کیا گیا اور بعض کو رہا کیا گیا جبکہ ایک بڑی تعداد کو جعلی مقابلوں میں بھی قتل کیا ـ

 

اور اِن مکار اداروں اور فوج نے ہمیشہ سے یہ وطیرہ اپنایا ہے کہ جب تک کوئی عالم یا کوئی اور معروف شخصیت ان کے مطابق طوطے کی بول بولتا ہے تو وہ ان کے لئے عزیز و مقرب ہوتا ہے اور جب وہ ان پر اعتراض کرتا ہے اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے تو اس کا راستہ ایک ہی ہے جسے موت کے کنوئیں کا نام دیا جا سکتا ہے، اسکی زندہ مثال مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے موجودہ حکومت سے نیک تمناؤں کا اظہار کرکے ان سے جزوی اتحاد کیا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ انہیں آس دلائی گئی تھی کہ یہ حکومت قادیانیت سمیت مختلف غیر اسلامی و غلط افکار کو پھیلانے کی روک تھام کرے گی اور مدارس و مساجد کی حفاظت کرے گی، مولانا صاحب ”المؤمن غر کریم“ کا مصداق تھے اور انہوں نے دھوکہ کھایا تاہم حقیقت آشکارا ہونے پر انہوں نے خفیہ اداروں کے آلۂ کار نام نہاد حکمران کو ”شیطان“ کا نام دیا جس پر انہیں ”ملک کے سب سے محفوظ شہر "اسلام آباد" بلواکر شہید کردیا گیا ـ

 

حال ہی میں جامعہ فاروقیہ کے معزز استاذ و مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان رحمہ اللہ کی شہادت کا واقعہ ایک ایسے موقع پر پیش آنا جہاں انہوں نے علمائے کرام کو مسلکی اختلافات کو دبا کر اسلامی شعائر اور ختم نبوت جیسے عقائد کی حفاظت کیلئے ایک میز پر لانا چاہا اور قابل ذکر امر یہ تھا کہ یہ سب کام ریاستی مشاورتوں اور درباری پنے کے بغیر ہورہا تھا تو کیونکر ایسے عالم کو زندہ چھوڑا جائے اور اسے کام کرنے دیا جائے جو ریاست کے بتائے ہوئے راہوں پر نہ چلے اور اس کے کام کے نتائج (اگرچہ دین اسلام کے لئے نفع بخش ہو) ریاست کے فائدے میں نہ ہوں ـ

 

میں علمائے پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان حالات میں مؤثر اقدامات اٹھائیں اور وقت کے جابر حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا حق چھینیں بصورت دیگر ان میں سے ہر ایک کی نوبت آئے گی

اور ایک ایک کرکے اپنے ہی مدارس کے دروازوں کے سامنے گرائے جائیں گے ـ رہی بات مجاہدین پاکستان کی، تو ان کا ہمیشہ سے یہی دعویٰ رہا ہے کہ ان علماء کے قتل میں اسی فوج کا ہاتھ ہے جس پر آج خیبر تا کراچی مختلف اقوام و طبقات کی عوام لعنت بھیج رہی ہے، اور یہی مجاہدین ان شاءاللہ ہر عالم کا انتقام لیں گے ـ

 

تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان سے جڑے ہر اسلامی فکر رکھنے والی جماعت نے بارہا کہا ہے کہ یہ ریاست احتجاجوں، دھرنوں، صرف آوازیں اٹھانے اور رونے دھونے سے عوام کی بات ماننے والی اور اپنے شنیع افعال سے باز آنے والی نہیں ہے ـ اس قتل و غارت اور ظلم و بربریت کو روکنے کیلئے ہمیں نبی الملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان پہلؤں کو دیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہوگا جس کی فضیلت ہمارے سامنے واضح ہے اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی اور ان کے بعد خلفائے راشدین کے ہاتھوں اللہ رب العزۃ نے دنیا کو اس کے وہ نتائج دکھلائے جن کا ذکر کرنا محال ہے ـ یقینا ایک مؤثر بغاوت اور مسلح جدوجہد کے ساتھ سیاسی بصیرت کو بروئے کار لانے کے بعد علمائے کرام، عامۃ المسلمین کی زندگیاں اور عزتیں محفوظ رہ سکتی ہیں ـ