گیم آف پاور
پاکستان پر حکمران طبقہ دراصل بوٹ سرکار ہے، سیاسی کٹھ پتلی حکمران محض کمیوفلاج کے مانند ہے، اس گیم آف پاور کے بارے میں آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل حمید گل کے انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا.صحافی نے جنرل حمید گل سے پوچھا کہ
سر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جمھوری حکومتوں سے زیادہ حکومت کرتی رہی ہے کیا یہ سچ نہیں ہے....؟؟
حمید گل: یہ بلکل درست ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہی زیادہ حکومت کرتی ہے.
صحافی: فیصلے لینے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے کسی سے پوچھا ہے آج تک؟
حمید گل: امریکہ پاکستان جیسے ممالک میں ڈیکٹیٹروں کو پسند کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد واحد نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، پاکستان میں آرمی چیف اپنی مرضی سے نہیں بنتا، بلکہ امریکہ کی مرضی سے بنتا ہے.
صحافی:آپ کو آرمی چیف بنایا جا رہا تھا تو کیوں یہ ممکن نہ ہو سکا کہ آپ آرمی چیف بن سکے؟
حمید گل:میں امریکہ کو پسند نہیں تھا اس وجہ سے مجھے آرمی چیف نہیں بنایا گیا. جب میں نہیں بنا، تو انڈین ایمبیسیز کے اندر مٹھائیاں تقسیم ہوئی ،گل بدین حکمتیار نے اپنی کتاب میں لکھا کہ غلام اسحاق خان نے کہا کہ جنرل حمید گل کو امریکہ پسند نہیں کریگا،تو ظاھر ہےاسی طرح کے فیصلے ہماری مجبوریوں کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم کتنے مجبور ہیں ہماری آزادی بالکل برائے نام ہے،ہمیں ملک دیا گیا، لیکن ہمیں آزادی تو نہیں دی گئی، میرا نمبر ون پر نام جی ایچ کیوں سے گیا تھا،جنرل بیگ سے پوچھ لیں چھ آدمیوں کی لسٹ گئی تھی آصف نواز کا نمبر (6) تھا،چھ نمبر والے کو آرمی چیف بنایا گیا،کیونکہ امریکہ کی منظوری کے بغیر یہاں آرمی چیف نہیں بنا کرتا.
غلامی کیا ہے؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہے آزاد بندے،ہے وہی زیبا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
قارئین کرام! یہ اس ملک میں جاری پس پردہ سازشوں کی ایک مختصر جھلک ہے.اس ملک میں جس نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لی ہے، اس کو اقتدار کی دوڑ سے الگ کیا گیا ہے.
تاریخ دیکھ لیں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے لیکر بے نظیربھٹو، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی وغیرہ کو اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر کرسی سے ہٹایا گیا.اور اس کے بدلے برائے نام انتخابات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی وفادار جماعتوں کو حکمرانی کا موقع دیا گیا. اور یوں اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا گیم آف پاور جاری رہا.
جمہوریت عوام کی حکومت کا نام ہوتا ہے،یورپ اور امریکہ کا جمہوری نظام یہاں سے الگ ہیں. وہاں جمھوی اصولوں کے مطابق پاور صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے.
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کیوں آرمی چیف کو سپریم پرائم منسٹر کا عھدہ دیا جاتا ہے، اس کا جواب جنرل حمید گل کے انٹریو میں موجود ہے کہ یہاں اس گیم کا اصل کردار امریکہ ہے اور امریکہ کبھی یہ نہیں چاہتا کہ یہاں ایک ایسی حکومت قائم ہو، جس پر عالمی اسٹیبلشمنٹ کا اثر نہ ہو.
عوامی رائے کو کوڑنے دانوں میں پھینکنے والے اسٹیبلشمنٹ ادارے اس ملک کے عوام کو بے وقوف بنا کر ستر سال سے حکومت کر رہے ہیں.آخر جس تبدیلی کو لوگ ترس رہے ہیں، وہ کیسے ممکن ہے. مذھبی لوگ جمھوری سسٹم کے ذریعے اقتدار کو کیسے حاصل کر سکیں گے.روٹی کپڑا مکان والے کیسے ملک کے حاکم بنے گیں.روشن خیالی والے، غربت کے خاتمے والے اور قوم پرست پارٹیوں کی قسمت کب کھلے گی.یہ تب ہی ممکن ہے جب فوج کو سیاست سے الگ کیا جائے،لیکن یہ پاکستان میں ناممکن ہے.بہر حال ان سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کیلئے اس ملک میں فوجی مفادات کیلئے کیا کچھ نہیں کیا مگر پھر بھی ان بد بختوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا. یاد ہے نا جب ان کٹھ پتلی حکمرانوں نے اقتدار کی ہوس کی خاطر بوٹ سرکار کے نیشنل ایکشن پلان جیسے دجالی منصوبوں پر دستخط کیے تھے.پھر بھی یہ اقتدار کے ساتھ ذلیل ورسوا ہوتے رہے ،جب وقت آیا اسٹیبلشمنٹ نے ان کو ٹوئلٹ پیپر کی طرح استعمال کیا اور ان کو بے عزتی کے ساتھ ملک بدر کر دیا.
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تھذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن، ممبری،کونسل صدارت
بنائے خوب آزادی کے پھندے
پاکستان میں جاری حالیہ احتجاج اس گیم آف پاور کا ایک کمزور کردار ہے اس سے تبدیلی ممکن نہیں ہے تبدیلی کیلئے واحد راستہ جھاد ہے.کیونکہ مسلمانوں کو یہ ملک تو دیا گیا ہے، مگر اس کا اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں ہے. حقیقی تبدیلی تب آئے گی جب آزاد و خودمختار حکمران اس ملک کی کرسی پر بیٹھے گا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس ملک میں قتال کے ذریعے شریعت اسلامی کا نفاذ ہو جائے.اور ایک عادل، خدمتگار اور تابع شریعت حمکران اس ملک کا حاکم بنے.
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہے ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروّت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں،سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
کالم نگاہ بلند
از مجاھد فیصل شھزاد