JustPaste.it

 

جمہوریت کے رد پر اکابرین علماء دیوبند کے اقوال(حصہ دوم)

 

  مولاناعاشق الٰہی بلند شہری رحمۃ اللہ علیہ ، تفسیرانوارالبیان ، ج 1) میں لکھتے ہیں

موجودہ جمہوریت اور اس کا تعارف

 

زمانہ قدیم میں بادشاہتیں جاری تھیں،ولی عہدی کے اصول پر بادشاہت ملتی تھی عرب و عجم میں بادشاہ تھے ان میں ظالم بھی تھے، رحم دل بھی تھے اور انصاف پسند بھی۔ لیکن بادشاہت کی تاریخ میں زیادہ تر مظالم ہی ملتے ہیں۔ ان مظالم سے تنگ آ کر یورپ والوں نےجمہوریت کا طرز حکومت جاری کیا۔ اور اس کا نام عوامی حکومت رکھا۔ اس کے جو طریقہ کار ہیں انہیں عام طور سے سبھی جانتے ہیں۔ اس جمہوریت کا خلاصہ عوام کو دھوکہ دینا اور کسی ایک پارٹی کے چند افراد کے ملک پر مسلط ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عنوان یہ ہے کہ اکثریت کی رائے انتخاب میں معتبر ہو گی۔ اور انتخاب بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پرہوگا، اس میں امید وار کے لیے عالم ہونا، دیندار ہونا بلکہ مسلمان ہونابھی شرط نہیں پڑھے لکھے اور بالکل جاہل، جپٹ مرد عورت امیدوار بن کر کھڑے ہو جاتےہیں۔ بعض پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں اور بعض آزاد ہوتے ہیں ان میں بعض وہ بھی ہوتےہیں جو اسلام کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اسلام کے نظام حدود و قصاص کو ظالمانہ کہتےہیں جس کی وجہ سے حدودکفر میں داخل ہو جاتے ہیں اور انتخاب میں پارٹیوں کے زور پراور سرداروں کے زور پر اور پیسوں کے زور پر ووٹ دینے والے بھی عموماً وہی لوگ ہوتےہیں جو دین اسلام کے تقاضوں کو نہیں جانتے لہٰذا بےپڑھے اور ملحد اور زندیق بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آ جاتے ہیں۔ جس شخص کو زیادہ ووٹ مل گئے وہی ممبر منتخب ہو جاتا ہے اگر کسی سیٹ پر گیارہ آدمی کھڑے ہوں تو ان میں سے اگر دس آدمیوں کو ١٥۔ ١٥ ووٹ ملیں اور ایک شخص کو سولہ ووٹ مل جائیں تو یہ شخص سب کے مقابلہ میں کامیاب مانا جائے گا اور کہا یہ جائے گا کہ اکثریت سے منتخب ہوا حالانکہ اکثریت اس شخص کے مخالف ہے ڈیڑھ سو افراد نے اسے ووٹ نہیں دیئے۔ سولہ آدمیوں نے ووٹ دیئے ہیں ڈیڑھ سو کی رائے کی حیثیت نہیں یہ جمہوریت ہے جس میں ١٥٠ آدمیوں کی رائے کا خون کیا گیا اور سولہ افراد کی رائے کو مانا گیا۔ پھر پارلیمنٹ میں جس کسی پارٹی کےافراد زیادہ ہو جائیں اسی کی حکومت بن جاتی ہے اور وہ افراد اسی طریقہ پر پارلیمنٹ میں آئے ہیں جو ابھی ذکر ہوا اس طرح سے تھوڑے سے افراد کی پورے ملک پر حکومت ہوجاتی ہے اور پارٹی کے چند افراد اختیار سنبھال لیتے ہیں اور سیاہ و سفید کے مالک ہو جاتے ہیں خود پارٹی کے جو افراد کسی بات سے متفق نہ ہوں انہیں پارلیمنٹ میں پارٹی ہی کے موافق بولنا پڑتا ہے اپنی ذاتی رائے کا خون کر دیتے ہیں۔ یہ جمہوریت اور اکثریت کی حقیقت ہے۔

 

کہاجاتا ہے کہ اسلام میں جمہوریت ہے اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام میں شوریٰ کی بھی کوئی حیثیت ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔

مگر اس کی حیثیت وہی ہے جو اوپر ذکر کر دی گئی ایسی حیثیت جس میں پورے ملک میں انتخاب ہو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر کس وناکس ووٹر ہو اور کثرت رائے پر فیصلہ رکھا جائے اسلام میں ایسی جمہوریت نہیں ہے۔

 بعض اہل علم بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اسلام کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بڑی محنتوں سے جمہوریت کو لائےہیں اب اس کے خلاف کیسے بولیں۔ اور ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انتخاب میں کوئی بھی کیسا ہی بےدین منتخب ہو جائے جمہوریت جاہلیہ کی وجہ سے اس کے عہدہ کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں اب تو منتخب ہو ہی گیا عوام کی رائے کو کیسے ٹھکرائیں۔ قانون کے تابع ہیں اس کے خلاف چلنے بولنے کی کوشش کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔

 

 

چاروں خلفاء کا انتخاب میں کبھی بھی پورے ملک میں الیکشن نہیں ہوا۔ بلکہ پورے صحابہ (رض)بھی شریک نہیں ہوئے نہ پورا مدینہ شریک ہوا چند افراد نے منتخب کرلیا سب نے مان لیا۔ ممکن ہے یورپ کی جمہوریت جاہلیہ سے مرعوب ہو کر بعض ناواقف یہ کہنے لگیں کہ صحیح طریقہ وہی ہے جو آج کل رواج پائے ہوئے ہے۔ ان حضرات نے انتخاب صحیح نہیں کیا۔(العیاذ باللہ) اس جاہلانہ اپچ کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم عرض کر دیتے ہیں کہ یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہنچتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے سورۃتوبہ کی آیت نمبر ١٠٠ میں مہاجرین اور انصار اور جو خوبی کے ساتھ ان کا اتباع کریں ان کی تعریف فرمائی اور ان کے بارے میں رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ فرمایا اگرانہیں حضرات نے اسلام کو نہیں سمجھا اور امیر کا انتخاب جس طرح ہونا چاہیے تھا اسطرح نہیں کیا تو ان کے بعد اسلام کو اور اسلام کے تقاضوں کو جاننے والا کون ہے؟

پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاءالراشدین المھدیین (رواہ ابو داؤد الترمذی)

 (کہ میرے طریقے کو اور خلفاء راشدین کےطریقے کو اختیار کرنا)

اگر ان حضرات کا اپنا انتخاب صحیح نہیں اور انہوں نے دوسروں کا انتخاب صحیح نہیں کیا تو وہ خلفاء راشدین ہو ہی نہیں سکتے اگر آج کے جاہلوں کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حضرات صحابہ (رض) میں سے کوئی بھی خلیفہ راشد نہیں ہوا (العیاذ باللہ) دشمنوں کے طریقہ کار سے مرعوب ہو کر اسلام کی تحریف اور تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاناایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔

 

 

کافروں فاسقوں جیسا لباس پہننا ان کی طرح شکل وصورت بنانا ان کی معاشرت اختیار کرنا سیاست میں ان کے طریق اپنانا  , جمہوریت جاہلیہ کا معتقد ہونا کافروں کے وضع کردہ طور طریق اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کےمطابق چلنا اور ان کے مطابق حکومت کرنا ان سب میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 مولاناعاصم عمر صاحب حفظہ اللہ اپنی معرکتہ الراء کتاب"ادیان کی جنگ ، دینِ اسلام یا دینِ جمہوریت" میں فرماتے ہیں

 

 فتنۂجمہوریت…… اللہ کے مقابلے میں اس نظام کو معبود بنانےکافتنہ…… قانون سازی کا حق اللہ سے لے کر اس نظام کو دے دینے کا فتنہ…… اللہ کےقوانین کو منظور ہونے کے لیےغیر اللہ کا محتاج بنانا…… مسلمان کو اللہ کی عبادت سے نکال کر غیر اللہ کی عبادت میں اس طرح داخل کر دینا کہ پتہ بھی نہ چلے……موجیں مارتا فتنہ…… تاریکی واندھیریوں کا فتنہ جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا،کوئی دلیل سمجھ میں نہیں آتی، جس کا کفر سے بھرا وجود سراپا بےضرر اور اسلام سےغیرمتصادم نظر آتا ہے۔ سو اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جمہوریت صرف ایک فتنہ نہیں بلکہ فتنوں کوجنم دینے والی متعدّی بیماری ہے جو امتِ مسلمہ کے وجود سے کچھ اسطرح چمٹی ہے جیسےجونک چمٹ جایا کرتی ہے . اس ابلیسی جمہوری نظام میں مسلمانوں کو پھنسانےوالے کوئی عام ذہن نہیں تھے بلکہ وہ ایسے مکار تھے، جن کے دماغ میں شیطانیت بجلی بن کر دوڑتی تھی،سو انھو ں نے اسلام کی اصطلاحات، اسلامی عقائد اور مسلمانوں کےمزاج کا گہرائی سےمطالعہ کیا۔ اس کے بعد اس جمہوریت کے لیے ایسی اصطلاحات رائج کیں جو ظاہراًاسلام سے متصادم نظر نہیں آ تی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے بہت حد تک اس میں کامیابی حاصل کی اور عوام تو عوام بہت سے علماء تک کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں جہاں اسلام اور جمہوریت میں لفظی یا ظاہری مماثلت (Similarity) موجودتھی وہاں اسلام کواپنا لیا گیا اور جہاں دونوں میں تضاد(Contradiction) تھاوہاں مکمل پینترا بدلاگیا اور ایسی اصطلاحات استعمال کی گئیں جن میں ظاہراًاسلامی اصولوں سے کوئی تصادم نظرنہ آتا ہو۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

  مولاناسید عطاء المحسن شاہ بخاری رحمۃاللہ علیہ  نے فرمایا

 

’’اگرکسی ایک قبر کو مشکل کشا ماننا شرک ہے تو کسی اور نظامِ ریاست، امپریل ازم،ڈیموکریسی، کمیونزم، کیپٹل ازم اور تمام باطل نظام ہائے ریاست کو ماننا کیسے اسلام ہو سکتا ہے؟…… قبر کو سجدہ کرنے والا مشرک،پتھر لکڑی اوردرخت کو مشکل کشا ماننےوالا، حاجت روا ماننے والا مشرک، اور غیر اللہ کےنظاموں کو مرتب کرنا اور اسکے لیے تگ و دو کرنا اور اس نظام کو قبول کرنا،یہ توحید ہے؟……

 

کہاں ہے جمہوریت اسلام میں؟ نہ ووٹ ہے، نہ مفاہمت ہے، نہ انکاوجود برداشت ہے، نہ ان کی تہذیب برداشت ہے…… اسلام آپ سے اطاعت مانگتاہے۔آپ سے ووٹ نہیں مانگتا، آپ کی رائے نہیں مانگتا۔ من یطع الرسول فقد أطاع اللہ!‘‘[i]

 

خطاب بموقع توحید و سنت کانفرنس، ۲۶ ستمبر، ۱۹۸۷ء، جامع مسجدبرمنگھم،برطانیہ، بحوالہ ماہنامہ سنابل کراچی

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

  مجاہداسلام خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ فرماتے هیں

 

 کہ ہم نے قرآن وسنت کو اہمیت نہیں دی انگریز کے قانون کو اہمیت دی ہے ۔ یہ فریب دیاگیا ہے کہ قرآن وسنت سپریم لاء ہے،اسلام میں شوریٰ کا تصور ہے موجودہ جمہوریت غیرشرعی ہے ... جمہوری نظام الله تبارک و تعالیٰ کی حاکمیت کا انکار کرتا هے اور یه حاکمیت عوام کو دیتا هے اس لیے اس جمہوری نظام کے پرستار سیاستدان سارا دن الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چهوڑ کر عوام عوام کی رٹ لگاتےهیں که عوام جو چاهے گی وه هوگا اورحقیقت میں یه بهی دهوکه اور فریب هے ... جمہوریت طاغوتی دجالی نظام هے ... کچه حضرات اور علماء کا کہنا هے که پاکستان کا نظام اسلامی هے قطعاً غلط هےبرطانوی نظام میں چند چیزوں کی پیوندکاری ضرور کی گئی هے لیکن اصل بنیاد برطانیه کاکالا قانون هے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم

 اِنہوں سے پوچھا گیا کہ ’’کیا انتخابی سیاسی نظام یا جمہوری نظم کے تحت اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہے‘‘؟

 

توآپ نے فرمایا:

 

’’نہیں،ایسا ممکن نہیں ہے۔ نہ انتخابات کے ذریعے اسلام لایاجاسکتا ہے ، نہ جمہوریت کےذریعے اسلام لایا جا سکتا ہے۔ جمہوریت میں کثرتِ رائےکااعتبار ہوتا ہے اور اکثریت جہلاء کی ہے جو دین کی اہمیت سے واقف نہیں۔ ان سےکوئی توقع نہیں ہے‘‘۔[3]

 

[1]ماہنامہ سنابل،کراچی، مئی ۲۰۱۳ء،جلدنمبر ۸،شمارہ نمبر ۱۱،سرِورق۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

  مفتی زرولی خان فرماتے ہیں

 

 ۲۰ آدمی کہیں اسلام نہیں چاہئے، ۵ کہیں اسلام چاہئے ، چونکہ۲۰ زیادہ ہیں ، اس لئےاسلام ںہیچاہئے ..... شرم مگرتم کو نہیں آئی .... آج کل مولوی بهی اپنی مجلسوں میں کہتے ہیں آپ کیا کہتےہیں ، اور آپ کیا کہتے ہیں ، اچها یہ زیادہ ہیں، فیصلہ ہو گیا

 

میں نے کہا کہ یہ تو بُش اور بلیئر کے اخلاق ہیں . آپ اس پہ دلیل پیش کریں .

 

 جمہوریت لفظ جمہرا سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں چمکتی ہوئی ریت . جمہور کا مطلب زیادہ لوگ نہیں . کہ وہ علماء جن کے علم کے نشان مسلمہ ہیں ، انہوں نے کوئی بات کہی ہو.

 

 اوراگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کی اکثریت کی بات ماننے لگے جو زمین میں رہتےہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھٹکا دیں گے اللہ کی راہ سے، یہ لوگ پیروی نہیں کرتے مگر ظن کی اور یہ محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں اوربس، (سورة الأنعام ۱۱۶)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مولانامحمد زاہد اقبال اپنی کتاب "عصر حاضر میں غلبه دین کا نبوی طریقه کار"میں فرماتے هیں

 

موضوع   بحث  یہ ہے کہ جمہوری طریقہ نظام   خلافت قیام کا منہج ہے یا نہیں ؟

 جمہوری   طریقہ یعنی انتخابات ، نظام خلافت کے قیام کا منہج نہیں ہے کیونکہ

 

 

 

ا)جمہوری نظام کابنیادی فکر " عوام کی حکومت ،عوام کے ذریعے ،عوام کے لئے "اسلامی فکر سےمتصادم   ہے۔اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر عوام سے ووٹ مانگنے   کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے قانون سازی اور حکومت کے حق کو تسلیم کیاجارہا ہے اور انہیں یہ اختیار دیاجارہا ہے کہ وہ اسلام   کو قبول کریں یا اس کے بالمقابل ومتصادم باطل نظام کو۔ عوام کو اس بات کا حق دینا اور ان کے اس حق کو تسلیم کرنا اسلامی فکر ونظریہ کے صریح خلاف ہے۔

 

ب)پارلیمینٹ میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت کو قانون سازی کا حق ہوتا ہے ۔ جب تک دینی  سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی تب تک وہ قانون سازی نہیں کرسکتی ۔ جب تک دینی سیاسی جماعت اقلیت میں ہے،اس وقت تک مقابل اکثریت کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ وہ چاہے تو اسلام سے متصادم قانون سازی کرسکتی اور پالیسیاں بناسکتی ہے ( کیونکہ  انتخابات میں اکثریت   حاصل کرنے والی جماعت کو عوام کی طرف سے دیے جانے والے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا جمہوری سیاست کا حصہ ء لازمہ ہے )   حالانکہ ان کا یہ حق تسلیم کرنا سراسر خلاف اسلام ہے۔

 

 ج) اقتدار تک پہنچنے کے لئے جمہوری نظام کے باطل دستور پر حلف اٹھانا لازم ہے کیونکہ حلف اٹھائے بغیر کوئی جماعت حکومت نہیں بناسکتی ، جمہوری دستور پر حلف اٹھانا لازم ہے،کیونکہ حلف اٹھائے بغیر کوئی جماعت حکومت نہیں بناسکتی ، جمہوری دستورپر حلف اٹھانا خلاف شریعت ہے ۔

 

د)انتخابات میں اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں آنے والی جماعت کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا حق ہے۔ مقتدر جماعت کو یہ شرط قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ یہ جمہوری نظام کا بنیادی   اصول ہے ، بالفرض اگر جمہوری طریقے سے کسی دینی سیاسی جماعت کا اقتدار قائم ہوجاتا ہے اور وہ اسلامی نظام بھی نافذ کردیتی ہے تو اسلامی نظام پانچ سال تک کے لئے ہوگا، جس کے بعد مقتدر جماعت   کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑے گا جو کہ اجماع کے خلاف ہے کیونکہ خلیفہ( جب تک اہل ہے )   تاحیات حکمران ہوتا ہے ، نیز یہ نص کے بھی خلاف ہے کیونکہ شریعت کی بالادستی اسلامی نظام کا بنیادی اصول ہے ۔پانچ سال بعداقتدار سے دستبردار ہونے کا مطلب عوام کو پھر سے نظام اسلام یا باطل نظام کے انتخاب کا حق دینا ہے۔ نیز یہ کہ باطل نظام   اور اس کی حامل سیکولر جماعتوں کو دوبارہ سے برسر اقتدار آنے کا موقع فراہم کرنا ہے ۔

 

س)اسلامی نظام خلافت اور جمہوریت  دو متوازی نظام ہیں۔دینی سیاسی جماعتوں کی جمہوری سیاست میں شرکت سے باطل جمہوری نظام کی تائید وتوثیق ہوتی ہے ۔ عوام یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جب علماء اس جمہوری سیاست کا حصہ بن رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ نظام حق ہے اور اسلام سے متصادم نہیں ، ورنہ علماء اسلام اس میں شرکت نہ کرتے ۔دینی سیاسی جماعتوں کے رہنما لاکھ تاویلیں کریں کہ ہم اس نظام کو نہیں مانتے اور مجبور اً اس میں شریک ہیں لیکن عوام ایسی باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں اور معروضی حقائق بھی ان تاویلات کی تصدیق نہیں کرتے،کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے بعد پارلیمنٹ اور سیاسی عمل میں سیکولر اور دینی سیاسی جماعتوں کے طرز عمل میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے ۔

 

ط)ہر نظام کی ایک اساسی فکر ہے۔ اس نظام تک پہنچنے کے لئے طریقہ ء کار اسی فکر سے ماخوذ ہوتا ہے جو اس فکر کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ جمہوری نظام کا   اساسی فکر سیکولرازم   ہے اور اس فکر سے ماخوذ طریقہ انتخابات ہیں ، جو اسی فکر کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح نظام خلافت کا اساسی فکر اسلام ہے ۔اس نظام تک پہنچنے کا طریقہ   بھی اسلام نے بتادیا ہے جو اس فکر یعنی اسلام کے ساتھ خاص ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر واضح ہوجائے گا ۔ عقل کا تقاضا یہ ہےکہ انتخابات کے ذریعے نظام جمہوریت تک پہنچایا جا سکتا ہے نہ کہ نظام خلافت تک ۔ لہذا جس طرح اسلامی نظام کے ساتھ دوسرے نظام ہائے باطلہ جمہوریت ، سوشلزم وغیرہ کی پیوند کاری نہیں ہوسکتی اسی طرح نظام خلافت کے قیام کے لئے دوسرے نظاموں کے طریقہ کار بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتے ۔ یعنی اسلامی نظام، اسلام کے نام یعنی اپنی اصل اور مکمل شکل وصورت کے ساتھ اور اسلامی طریقہ سے ہی آسکتا ہے ۔ اس میں دوسرے باطل نظاموں کی پیوند کاری کرنا اور انہی باطل نظاموں  کے باطل طریقوں سے قائم کرنے کی کوشش   کرنا غیر شرعی ، غیر فطری اور خلاف عقل ہے ۔

 

 (ظ) جمہوریت سرمایہ درانہ نظام کی فرع ہے ۔اس لئے جمہوری سیاست میں شرکت سے نہ صرف جمہوری نظام کی تابید وتوثیق ہوتی ہے بلکہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام دو متوازی نظام ہیں ۔ لہذا اسلام میں براستہ جمہوریت، سرمایہ دارانہ نظام کی پیوند کاری نہیں کی جاسکتی ۔اگر بالفرض دینی قیادت جمہوری طریقے سے برسر اقتدار   آتی بھی ہے تو وہ آہستہ آہستہ سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بن جائے گی۔ جس سے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی تقویت ملے گی ۔

 

ع)جمہوری سیاست ایک ایسی دلدل ہے   جس میں ایک دفعہ داخل ہونے کے بعد  نکلنا انتہائی مشکل   ہوتا ہے ۔دینی   جماعتوں کی جمہوری سیاست میں شرکت سے اسلامی نظام خلافت  کے قیام کے لئے انقلابی جدوجہد  پس منظر   میں چلی جاتی ہے ۔ دینی جماعتیں  اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے جمہوری سیاست پر تکیہ کر لیتی ہیں اور جمہوری سیاست سے امیدیں وابستہ کر لی جاتی ہیں کہ اس کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ ہوجائے گا، نیز وہ یہ یقین کرلیتے ہیں کہ اس طرح اسلامی نظام کے احیاء کا فریضہ سر انجام دیا جارہا ہے لہذا علیحدہ سے اسلامی انقلاب کے لئے جدوجہد   کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ خطرناک سوچ اسلامی   انقلاب کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کو دور کیے بغیر اسلامی انقلاب ممکن نظر نہیں آتا۔

 

(ف)برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد مختلف مسلم ممالک میں مختلف  دینی جماعتوں نے نظام اسلام کے نفاذ کے لئے جمہوری راستہ اپنایا ۔ ( جن میں سے کچھ کا تذکرہ  ہم ماقبل میں کر چکے ہیں ) وہ اس پر بڑے جوش وخروش سے عمل پیرا ہیں اور آج بھی اسی نہج پر چل رہی ہیں ۔ لیکن آج تک کسی مسلم ملک میں یہ جماعتیں  مکمل اسلامی نظام خلافت کے قیام  کا منہج نہیں ہے،کیونکہ جمہوریت ایسا نظام ہے جس کے اندر رہتے ہوئے دینی جماعتوں کو اکثریت نہیں مل سکتی یعنی دین اسلام کو سیاسی غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔دراصل جمہوریت کی ساخت اور ڈھانچہ ہی ایسا ہے کہ اس کے ذریعے امراء۔ جاگیر دار ،سردار ، وڈیرے ، سرمایہ دار، صنعت  کار،سابقہ بیور کرپٹ افراد منتخب   ہوسکتے اور ہوتے ہیں جن کے پاس رشوت  ، دھوکہ ، فراڈ ، ٹکیس چوری اورلوٹ مار سے جمع شدہ دولت کے ڈھیر ہوتے ہیں۔

 

ق) اگرتمام رکاوٹیں   ختم ہوجائیں اور دینی جماعتیں انتخابات کےذریعے اکثریت حاصل کر کے برسر اقتدار آجائیں تو وہ متعلقہ ملک کے جمہوری  دستور وآئین کی پابند ہوں گی کیونکہ وہ خود جمہوری راستے سے ایوان اقتدار تک پہنچی ہیں۔ اس صورت میں دینی سیاسی مقتدرہ کس قدر اسلامی   نظام  نافذ کر سکے گی ؟ حالانکہ دستور وآئین کی بیڑی اس کے پاؤں میں ہے   جو اسے ادھر ادھر   ہلنے نہیں دیتی ۔ اگر وہ دستور وآئین سے بالاتر ہو کر اسلامی نظام نافذ کرنا چاہے گی   تو اپوزیشن اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دےگی ، دوسری بات یہ کہ جمہوری   قوتوں کے نزدیک ایسا کرنے سے دینی مقتدرہ کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہ رہ جائےگا کیونکہ یہ تو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مفتی محمد احسن فرماتے هیں که

 

جمہوریت" کفر اور نفسانی خواہشات" پر مبنی نظام کا نام ہے جس میں قرآن کی واضح نصوص بهی اکثریت کی محتاج بنا دی جاتی ہیں مثلا حرم الربوا والی آیت ۵۰ سال سے اسمبلی میں پیش کی جاتی ہے اور رد کردیجاتی ہے ، اسلامی نقطہ نظر سے بهی جمہوریت " اسلامی " نہیں ہو سکتی ہےکیونکہ اسلام میں مقنن اللہ اور رسول ہیں جبکہ جمہوریت میں مقننہ سینٹ اور اسمبلیاں ہیں .

 

اسلامی جمہوریت ؟؟؟؟؟

 

جمہوریت کے مؤجدین اور اُنکے افکار :

جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت : فرانس کے تین ملعونین نے اِسکی داغ بیل ڈالی ،

وولٹائر ، مونٹیسکو ، روسو (Vولتیرے،Mونتےسقویوے، Rووسسےاو) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وولٹائر کی بکواسےلیگیون

۱ : تمام انسانوں کا ایک مذہب ہے '' فطری مذہب ''

۲: مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے جو دل چاہےاختیار کرے ۔ ( اور اِسی نظریئے کی بنیاد پر یہ مفروضہ ایجاد ہوا جو جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی ہے کہ حکومت اور مذہب الگ الگ چیزیں ہیں یعنی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا ، اور آج سارے یورپ میں کوئی مذہبی حکومت نہیں ہے بلکہ مذہبی حکومتوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مونٹیسکو کی بکواس:

ریاست کے اختیارات ۳ ہیں ،

 ۱:قانون سازی اور قانون سازپارلیمنٹ ہے ،

 ۲: انتظامیہ یا ایگزیکٹو جسکا سربراہ صدریا وزیرِ اعظم ہوگا

3: عدلیہ ، اور اِن میں سے ہرادارہ خود مختار ہوگا(جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہیں )

 

روسو کی بکواس

 :۱: فرد کے مفادات کا تحفظ ، ۲:افرادکی نمائندہ حکومت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! یہ ہے جمہوریت کی رام کہانی .......

جمہوری نظام کے تحت انتخابِ حکومت کے حامی حضرات سنیں

 یہاں ووٹنگ ہوگی انتخاب کیلئے کمپئن چلے گی ووٹ کا استحقاق ظاہر کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوروہاں خاتم المعصومینﷺ فرماتے ہیں: لا تسال الامارۃ ،فانک اِن اُوتیتہا عن مسئلۃوُکلت الیہا : بخاری کتاب الایمان ۶۶۲۲۔۔۔۔۔۔ طلبِ امارت ناجائز ہے ۔۔۔۔۔ من ابتغی القضا و سال فیہ شفعا وُکل الٰی نفسہ: ترمذی ، کتاب الاحکام ۱۳۲۳ ، ابو داود، کتاب الاقضیۃ ۳۵۷۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انا لا نُولی ہذا من سالہ ولا منحرص علیہ : بخاری، باب ما یکرہ من الحرص علٰی الامارہ ۷۱۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تین روایات ووٹنگ کے نطام کیلئے پروانہِ قضا ہیں ، ۔

 

 

جمہوری نظام میں تقسیمِ اختیارات اور قانون سازی کا ڈرامہ یہ کہتا ہے کہ افراد کی نمائندہ حکومت افراد کے مفادات کا تحفظ کریگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہاں کی سیکولر اور لبرل آبادی کو جب یہ اطلاع دی جائے گی کہ آپکی منتخب حکومت نے ، شراب پر پابندی عائدکردی ہے اور پردے کے احکام نافذ کر دیئے ہیں تو جمہوری نظام کے تحت اِ ن عوام کوحق دیا جائے گا کہ وہ اِس حکومت کو بدل کر اپنی پسند کی حکومت لے آئیں۔۔۔۔۔۔۔ اگرایسا نہ کیا گیا یعنی حکومت کی تبدیلی کا حق چھین لیا گیا تو عالمی دنیا میں یہ جمہوریت نہیں کہلائے گی اور اِسکا محاسبہ انسانی حقوق کے ادارے اور اقوامِ متحدہ کے سپرد کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ جو چند گھنٹوں میں اِس جمہوریت کو زبر دستی پہنایا گیااسلامی لباس نوچ کر پھر سے وہی ہلاکت آفرین و مکروہ جمہوریت عریاں کر کے بطورِنظام پیش کردینگے جمہوریت کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ مذہب اسلام کا ذاتی معاملہ ہےاور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن جب اِس جمہوری نظام کواستعمال کر کے حکومت بنائی جائے گی جسکو آپ رحمانی جمہوریت کا نام دے رہے ہیں ۔۔۔۔اور یہ جمہوریت والی زبردستی کی اسلامی حکومت اعلان کرے گی کہ: ٹیکس ختم ، عریانی و فحاشی ختم ، کفر کا ساتھ دینا ختم ، میڈیا با پردہ ، خواتین کا بدونِ ضرورت گھروں سے نکلنا بند ، نمازوں میں اور عیدین میں محلے کے بالغ مردوں کی بدونِ عذرعدم شرکت قابلِ مواخذہ ،،موسیقی کا خاتمہ،،مخلوط مجالس کی چھٹی،،، تب یہ لبرل اورسیکولر جماعتی و غیرِ جماعتی ، آبادی بھڑکے گی اور فورا اقوامِ متحدہ کے حضورپہنچیں گے کہ یہ تھیو کریسی آ گئی ہے ۔۔۔۔ اور تھیو کریسی کا قلع قمع کرنے کیلئےاقوامِ عالم کی افواج تشریف لے آئیں گی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

 آ جاؤ خلافت کے جھنڈے تلے اورچھوڑ دو جمہوریت کو مشرف باسلام کرنے کی گھناؤنی کوششیں ۔۔۔ تا قیامت جمہوریت اسلامی نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔اِن الحکم الا للہ کی تقسیم اور چیز ہے اور انتظامی طور پر احکام کی تنفیذ اور چیزہے

 

مزید فرماتے ہیں کہ جمہوریت کفر ہے اور اس جمہوریت کو عقیدہ سمجه کر اپنانے والا کافر ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مولانا خالد سیف الله رحمانی  "کتاب الفتاوی"  میں فرماتے هیں

 

اس میں کوئی شبه نہیں که ہمارے ملک اور اکثرملکوں میں جمہوریت کا جو تصور هے ، وه بنیادی طور پر اسلام کے خلاف هی هے ...موجوده جمہوریت اور اسلام کے تصور میں دو اساسی فرق هیں . جمہوریت میں عوام کومصدر قانون مانا جاتا هے ، ہر طرح کی قانون سازی کا حق هوتا هے ، گویا تحلیل وتحریم کی کلید خیر و شر کے فیصلے ان لوگوں کے ہاته میں ہوتے هیں جن کو عوام نےمنتخب کیا هے ، یه سراسر اسلامی نقطہ نظر کے خلاف هے ، اسلام کی نظر میں اصل سرچشمه قانون کتاب الله اور سنت رسول صلی الله علیه وآله وسلم هے ... اسلامی نقطه نظر سے انسان شارح قانون هے نه که وضع قانون ... اس کی تشریح کا حق ان لوگوں کوحاصل هے جو براه راست قرآن و حدیث پر نظر رکهتے هوں ، البته مجلس شوری کو انتظامی مسائل میں قانون سازی اور مشوره کا حق حاصل هوتا هے ، یه نہایت دور رس نظریاتی اختلاف هے۔ .

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مولانانجیب اکبر آبادی اپنی کتاب تاریخ اسلام میں فرماتے هیں

 

جمہوریت کا نظامِ سلطنت انسان کو ایسی آزاد روش پر ڈالنا اور اس قدرخلیع الرسن بنانا چاہتاہے کہ انسان زیادہ دیر تک ربّ شناسی اور اللہ پرستی کے خیالات دیر تک قائم نہیں رکه سکتا . خالص جمہوری نظام سب سے زیادہ قوّی تحریک دہریت اور لامذہب کی ہے . جس طرح ریگستان میں کهیتی نہیں ہو سکتی ، پانی سےباہر مچهلی زندہ نہیں رہ سکتی ، تاریک اور کثیف ہوا میں انسان تندرست نہیں رہ سکتا، اسی طرح خالص جمہوری نظام حکومت کے ماتخت مذہبی خیالات ، مذہبی پابندیاں ، مذہبی عبادات نشوونما نہیں پا سکتے اور کوئی الہامی مذہب تادیر زندہ نہیں رہ سکتا .جمہوریت اسلام کی تعلیم کےسراسر خلاف اور بنی نوع انسان کے لئے بڑی ہی خطرناک چیز ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  مولاناحافظ محمد احمد فرماتے ہیں

 

سرمایہ داری ، جمہوریت اور انسانی حقوق کا کفرِ مطلق ، شرک ، ظلالت وگمراہی ، بغاوت الہی اوربد ترین ظلم و تعدی کا مجموعہ ہے. ہم نے اس نظام کو اسی طرح کفرِ مطلق کہا ہے جس طرح یہودیت ، عیسائیت ، ہندومت ، بده مت اور سکھ مت کفرِمطلق ہیں.

 

پهراس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ

 " کیا اسلامی جمہوریت بهی کوئی چیز ہے ؟ "فرماتے ہیں :

 

اس سوال کا سیدها سا جواب تو یہ ہے کہ کیا "اسلامی کفر"بهی کوئی چیز ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بهی ذی ہوش انسان اس کا قائل نہیں ہو گا.دراصل غور کرنےکی بات یہ ھے کہ ھمیں کسی اصطلاح کے ساتھ "اسلامی"لگانےکی ضرورت کیوںپڑتی ھے؟ اس لیے کہ وہ اپنی اصل میں اسلامی نہی ھوتی۔اکثروبیشتراصطلاحات جن کےساتھ اسلامی کا لفظ ھو، وہ مشتبہ ھوتی ھیں جیسے"اسلامی بینکاری""اسلامی ٹی وی چینل، اسلامی جمہوریت وغیرہ ۔ ۔ ۔۔ پھر آپ یہ بھی سوچیں کہ کیاکسی نے آپ سے یہ بھی کہا ھے کہ "اسلامی نماز""اسلامی حج" یا"اسلامی جہاد"؟ یہاں اسلامی کا لفظ لگانے کی ضرورت اس لیے نہی کہ یہ تمام اصطلاحات اسلام کے اندر فطری طور پر موجودھیں۔ کبھی کسی کو یہ اشتباہ نہی ھوتا کہ "حج" بولا جائے اور اس سے کوئی شخص گنگاکا اشنان سمجھے یابیساکھی کے میلے کی طرف ذھن جائے! ... یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں اس طرح کی اصطلاح نظر آئے ، لازمی ہے کہ وہاں توقف کیا جائے اور خوب غوروفکر کے بعداسکے اسلامی ہونے کا فیصلہ کیا جائے.

 

اسلامی جمہوریت بهی ایسی ہی اصطلاح ہے جس کے بارے میں غوروفکرکی ضرورت ہے ، بہت سےدانشوروں کا کہنا ہے کہ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت دو مختلف چیزیں ہیں

.بعض کا کہنا ہے اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دورخ ہیں(نعوذبالله من ذلك) .

یہ مغالطہ آمیز بات ہے . اسلام نے ہمیں خلافت کا عقیدہ دیاہے ،خلافت و جمہوریت کےاصول و فروع میں زمین آسمان کا فرق ہے ، پهر کیا وجہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ اسلام کےنظامِ خلافت کو جمہوریت ہی باور کروانے کی کوشش کریں یاجمہوریت کو عین اسلام قراردینے کا ناٹک رچائیں.

 

جمہوریت کا مولدومنشا مغرب ہے ، تاریخی طور پر ثابت هے که یه پانچ چه سو سال قبل از مسیح بهی موجود تهی . یونان میں جمہوریت رائج هوئی پهر مغرب میں جمہوریت کا احیاء هوا .

ایک بات تاریخی تناظر میں طے ہے که جمہوریت کبهی بهی کسی مذہبی معاشرے میں رائج نہیں رهی ، بلکه الله کے باغی معاشروں میں رائج رهی . اس نظام کو انہی معاشروں نےقبول کیا جو الله اور انبیاء علیه السلام کے منکر معاشرے تهے .

لہذا جب جمہوریت کے بارے میں معلوم هوا که اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نه هی یه کوئی اسلامی اصطلاح هے بلکه کافرانه اصطلاح تو اسکا استعمال کیونکر جائز هوا ؟ علماء نے لکها هےکه وه لفظ جو اپنے اندر کسی پہلو سے کفر کا معنی رکهتا هو اگرچه فی الاصل مباح هی هو تب بهی اسکا استعمال کرنا ناجائز هے۔

 ( سرمایه دارنه جمہوری نظام کی شرعی حیثیت)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا محمد حذیفہ وستانوی فرماتےہیں

 

اللہ اللہ ! یہ کیا ہے دشمنانِ انسا نیت اتنا سب کچھ کرنے پر بھی نہیں تھمے اور سیاست کو بھی اپنے دامِ فریب میں لے لیا اور یہ ہوا کھڑا کیا کہ سیاست اور دین علیحدہ علیحدہ ہے، لہٰذا انسان کی سیاسی کا میابی محض ”ڈیموکریسی “ اورجمہوریت میں مخفی ہے۔

 اور حکمرانی کے لیے العیاذ باللہ خدائی قوانین کی کوئی حاجت اورضرورت نہیں۔ اور اس طرح پارلمینٹ کو شریعت کی جگہ حلت اور حرمت کا ٹھیکہ دیدیا۔

بس پھر کیا تھا پارلیمنٹ میں موجود ملحد فکر انسانوں کے ٹولہ نے شراب نوشی،جوا،ہم جنس پرستی وغیرہ کو حلال قرار دیدیا اورانسان کی بچی کھچی شرافت کوبھی ملیا میٹ کردیا ۔…

عقائد کے بعد جمہوریت کے ذریعہ سیاست کو اپنی لپیٹ میں لیااور آخیرمیں معاشرت اور معیشت کو ”کمرشلائزیشن ‘ ‘کے ذریعہ اپنے قا بو میں کرلیا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مولاناعبد الحق رحمہ اللہ فتاویٰ حقانیہ ج 2 ، ص 354 میں

فرماتے ہیں

 

   اسلام ایک ایسانظام حیات ہے جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے مستقل تشخص کا مالک ہے ، اس کاتعلق جمہوریت یا سوشلزم سے جوڑنا اسلامی نظام حیات سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔ یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت میں طاقت کا سر چشمہ عوام ہوتے ہیں ، عوام جس طرح چاہیں ملک کے قانون پر اثرانداز ہوسکتے ہیں'اور اگر چاہیں تو بےدینی ، فحاشی اور ضاف انسانیت قانون کو راتوں رات پاس کر کے ملک پر نافذ کرسکتے ہیں ۔ ایسے نظام میں طاقت کا سر چشمہ عوام ہی ہوتے ہیں جبکہ عوام کے نمائندے وزیر اعظم کو ملک کی قسمت سے کھیلنے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں ،ایسے فرسودہ نظام میں صرف افراد گنے جاتے ہیں' باطنی معانی اور علم ودانش کی کوئی قدر نہیں ہوتی، معاشرہ  کی قابل فخر شخصیت اور ادنیٰ فرد کی رائے ایک شمار ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ایسی جمہوریت کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت بظاہر اپنے آپ کوعوام کا ترجمان شمار کرتی ہے لیکن عوام کے حقوق سب سے زیادہ اسی کے ذریعہ پامال   ہوتے ہیں ، چنانچہ پاکستانی معاشرہ کے حوالہ سے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں  کہ جمہوری نظام ہی میں قوم نے تباہی وبربادی اور ہلاکت کے کون سے مواقع نہیں دیکھے ۔

 

جبکہ اس کے برعکس اسلام میں طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور خلیفہ صرف تنفیذ احکام الٰہی کے لیے نیابت کی ذمہ داری نبھاتا ہے ۔

 

قولہ تعالیٰ :

(1) إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ(سورۃالانعام آیت 75 ،سورۃ یوسف آیت 40/67)

(2) إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ( سورۃ البقرۃ  آیت 30)

(3) أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ( سورۃ الاعراف آیت   54)

 

 علاوہ ازیں جمہوری نظام میں یہ طریقہ انتخاب بھی اسلام کے طریقہ انتخاب سے مختلف ہوتا ہے جس میں شوریٰ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے خلاف کوئی فیصلہ کرے ، شوریٰ کی تمام سرگرمیاں دین کے ماتحت رہتی ہیں 'یہی وجہ ہے کہ جب تک خلیفہ اللہ تعالیٰ کے قانون کاتابع ہو تو اس کی خلاف ورزی ناجائز بلکہ بغاوت تصور ہوگی

 ۔ (الاحکام السلطانیہ 54)

 

بہرحال اسلام ایک مستقل نظام حیات ہے جو مروجہ مغربی جمہوریت سے جدا ہے 'یہ الگ بات ہے کہ جمہوریت بعض امور میں اسلام کی خوشہ چین ہے ،ووٹنگ کے مروجہ نظام کے مقابلہ میں اسلام میں شورائی اور استخلاف کا نظام موجود ہے ۔

 

قولہ تعالیٰ : وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَاعَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّہ ( سورۃآل عمران آیت 159)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکیم محمود ظفر فرماتے ہیں

 

آجکل پوری دنیا میں جمہوریت کا نعرہ بلند ہو ربا ہے' اس وجہ‌سے ہمارے عوام و خواص بلکہ بعض علمائےکرام نے بھی اسلام پر جمہوریت کا ٹھپہ ‌لگا کر اسلامی نظام حکومت کو جمہوری نظام ثابت کرنے کی کوشش کی اور' اسلامی‌جمہوریت'' کی اصطلاح وضع کی‌۔ ۔۔ اسلام کا نظام حکومت نہ تو آمرانہ ہے اور نہ ہی جمہور ی' نہ اشرافی اور نہ ہی پاپائی

بلکہ‌شورائی ہے اور شورائی کا مطلب یہ ہےکہ سر براہ حکومت اہم کام میں ارباب حل و عقد سے مشورہ ضرور طلب کرے' لیکن اس مشورہ کے بعد وہ اس بات کا پابند نہیں کہ اکثریت کی رائے پر عمل بھی کرے' بلکہ اسےپورا پورا اختیار ہے کہ وہ اکثریت‌ کے فیصلہ کے خلاف بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔ خلفائےراشدین اور سیدنا  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس بات پر عمل ہو تا رہا۔

 خودسرکار دو عالم ﷺ   کا   اسوہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے مشورہ کے بعد موجودہ طرز پر نہ تو ووٹ لیے اور نہ ہی آراء کو شمار کر کے ان کی کثرت پر فیصلہ کیا۔

 

لیکن اس کے مقابلہ میں جمہوریت اکثریت کی حکومت کا نام ہے ۔ اس وجہ سے یہ نظریہ اسلامی نظام کے سراسر منافی ہے بلکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ جمہوریت نہ صرف خلاف اسلام نظریہ ‌حکومت ہے بلکہ خلاف عقل اور خلاف فطرت بھی ہے۔

 جمہوریت کیوں خلاف اسلام ہے اس کی درج ذیل وجوہات ہیں‌۔

 

1۔ جموریت کے خلاف اسلام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں حاکمیت اعلیٰ عوام کی ہوتی ہے جبکہ اسلامی نظام حکومت میں حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty)  صرف اور صرف اللہ رب‌العزت کی ہوتی ہے گو‌یا جمہوریت میں عوام اللہ عزوجل کے مقابل ٹہرتے ہیں‌۔علم یا سیاست میں حاکمیت کا لفظ اقتدارا علیٰ اور اقتدار مطلق کے معنوں میں بولاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے جمہور کے صاحب حاکمیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا حکم قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور انہیں افراد سیاست پر حکم چلانے کے غیر محدوداختیارات حاصل ہو تے ہیں‌۔

 افراد ان کی غیر مشروط اطاعت پر مجبور ہوتے ہیں‌۔ افراد کو ان کے مقابلہ میں کوئی حق حاصل نہیں‌۔ جس کو جو بھی حقوق ہیں' انہی کے عطا کردہ ہیں‌۔ وہ ہر حق کو سلب کرنے کا بھی کلی اختیار رکھتا ہے۔اسی بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہےکہ قانون صاحب حاکمیت کے ارادےسے وجود میں آتا ہے اور افراد کو اطاعت کا پابند بناتا ہے۔

 

2۔ جمھو ریت سرمایہ دارانہ نظام کی ایک فرع ہے۔ اس میں امیر لوگ' جاگیر دار اور وڈیرے ہمیشہ برسر اقتدار آتے ہیں‌۔

 

3۔ جمہوریت شرک کی ایک فرع ہے' اس لیے کہ کسی ملک کے عوام اورجمہور اس ملک کی آبادی میں سے کچھ لوگوں کو اس یقین اور اعتقاد کے ساتھ اپنےنمائندے منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کی مرضی‌او‌رخواہش کے مطابق ان کے لیے قوانین بنائیں گے۔پھر وہ منتخب نمائندے اپنی رایوں اورذہنوں سے کام لے کر ان عوام اور جمہور کے لیے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کی تہہ میں ان کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ منتخب نمائندوں نے چونکہ عوام سے ووٹ لیے ہوتے ہیں اور آئندہ الیکشن کے لیے بھی و وٹوں کے خواہش مند ہوتے ہیں' لہٰذا وہ جمہور کی خواہشات کے مطابق بظاہر ایسےقوانین بناتے ہیں کہ وہ خوش رہیں اور اگلے الیکشن میں انہیں پھر سے ووٹ دیں‌۔

چنانچہ اسی کھوٹ اور سستی شہرت کی وجہ ہی سے عوامی نمائندوں نے یورپی جمہور سی ملکوں اور امریکہ میں عوام اور جمہور کی خواہشات اور ان کی مرضی کے پیش نظر شراب نوشی ، عریانی ، غیر مردوں اور عورتوں میں باہمی رضا مندی سے جنسی اختلاط اور ہم جنسی تک کو قانوناً جائز قرار دے دیاہے' حالانکہ ایسے بد اخلاقی کے قوانین اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں' لیکن چونکہ اس سے عوام خوش ہیں' اس لیے پارلیمنٹ‌میں انہی کے عوامی اور جمہوری‌نمائندگان نے اسے پاس کر کے قانوناً اسے سند جواز عطا کر دی‌۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں جمہورکی خوشنودی کا اس قدر لحاظ رکھنا بلکہ اعتقاد رکھنا ہی شرک ہے۔ شرک اوراسلام دو متضادچیزیں ہیں‌۔

 

4۔ جمہوریت میں پار سینٹ کےاندر دو گروہوں کا ہونا ضروری ہے۔

 ایک حزب اقتدار اور دوسرا حزب اختلاف‌۔

حزب اقتدار کا مقصد اپنی مرضی کے مطابق قوانین بنانا اور عوام پر ٹھونسنا‌ ہوتا ہےجبکہ حزب اختلاف کی غرض و غایت حزب اقتدار کی ہربات کی مخالفت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے نظام حکومت میں نہ کوئی حزب‌اختلاف ہے اور نہ کوئی حزب‌اقتدار

 

5۔ اسلامی نظام حکومت اور جمہوریت میں ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ اسلامی نظام حکومت میں بندوں کو تولا کر تے ہیں جبکہ جمہوری نظام حکومت میں لوگوں کوگنتے ہیں‌۔ یہ نظام فطرت کے خلاف ہے کہ ہر شخص کی رائے کا وزن اور اہمیت ایک جیسی ہو۔

چنانچہ قرآن حکیم میں بھی ہے کہ

یعنی علم والے اور جاہل برابر نہیں ہیں‌۔

 

ایک ماہر فن اور غیر ماہر فن کی رائے میں بہت اختلاف ہوتا ہے ان میں برابری نہیں ہوتی‌۔

 اسی شے کو اقبال نےیوں بیان کیا ہے

جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولانہیں کرتے

 

جمہوریت خلاف اسلام هے ... "جمہوریت وه طرزحکومت هے جس میں لوگوں پر لوگوں کے نفع کےلیے لوگوں کے ذریعے حکومت کی جاتی هے" ،

تو یه بهی بہت بڑا جهوٹ هے . کیونکه جہاں تک لوگوں کی حکومت کا تعلق هے تواس کی حقیقت یه هے که سب کے سب عوام تو حکومت نہیں کرتے ،

کیونکه دستورسازی اورقوانین اور تشریعات کو محدود اقمیت وضع کیا کرتی هے اور یه اقلیت بہت هی محدود سی نسبت کی نمائندگی کیا کرتی هے اور جہاں تک حاکم خود عوام هونے کا تعلق هے یعنی عوام خود اپنے حکام کو منتخب کیا کرتے هیں تو یه دعوی بهی بہت بڑے مغالطے پر مبنی هے کیونکه اصلاً جو حکمرانی کیا کرتا هے تو وه ایک شخص یا ایک ہئیت تنفیذیه هواکرتی هے ، جو بعض حالات میں تو بلکل هی ایک چهوٹا سا گروه هوتا هے ، جو ان احکام کی تنفیذ کرتا هے جو اس کے لیے طے کر دیے گئے هوں . پهر جن لوگوں نے ان کا اور ان قوانین کے بنانے والوں کا انتخاب کیا هوتاهے وه کُل معاشرے کی ایک چهوٹی سی تعدادهوا کرتی هے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا صوفی محمد فک اللہ اسرہ ،امیرِتحریکِ نفاذِ شریعت

 

کفر کی اس سے زیادہ قبیح صورت اورکیا ہوسکتی ہے؟

پاکستان کاموجودہ نظامِ قانون غیراسلامی ہے۔پاکستان کےحکمران،عوام اورتمام طبقات ومسالک کے علماء بلاتفریق اس امر پرمتفق ہیں کہ یہ نظام انگریزکے بنائے ہوئےکفریہ قوانین پرقائم ہے،پھران قوانین کےمطابق فیصلے کرنااگرکفرنہیں کہلائےگا تو آخرکیا کہلائے گا؟

اسلام کا کوئی عمل اگراس قانون کے خلاف ہوتواس اسلامی عمل کو یہ نظام"قانون کی خلاف ورزی"قرار دیتا ہے،کفر کی اس سےزیادہ قبیح صورت اورکیا ہوسکتی ہے؟کہ جب کوئی شخص اس کفریہ قانون کےبرخلاف قرآن وحدیث کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے،تو نہ صرف اس کا یہ مطالبہ پورانہیں کیا جاتابلکہ اس کا مذاق اڑایاجاتا ہے، اسےپاگل کہاجاتا ہے،شریعتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مانگنےوالوں کوشرپسندکا لقب دیا جاتا ہے۔جبکہ یہی اربابِ حکومت کافر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بدنی،لسانی ومالی تعاون کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا ولی اللہ کا بلگرامی شہید رحمہ اللہ کاایک قیمتی اقتباس

 

اربابِ حکومت جوکچھ بھی کہیں حقیقت یہی ہے کہ نہ تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور نہ ہی یہ کسی طرح بھی دارالسلام کہلا سکتا ہےکیونکہ اس کا دستور ایک کفری دستور ہے۔محض نماز،روزے،جمعہ وعیدین کی ادائیگی سے کوئی خطہ دارالسلام نہیں بن جاتا،وگرنہ تو عین اسی دلیل کی بناء پریورپ اور امریکہ کے بھی بہت سے علاقےدارالسلام قرار پائیں گے۔

"یہ اس دن ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جوان کے دل میں نہیں ہیں اور جو یہ چھپاتے ہیں اللہ اس سے خوب واقف ہے(آل عمران)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹراسرار احمد فرماتے ہی

سورةالْاَنْعَام آیت ۱۱٦

(وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَمَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط)

 کی تفسیر میں فرماتے هیں که

 

جدیدجمہوری نظام کے فلسفے کی نفی کے لیے یہ بڑی اہم آیت ہے۔ جمہوریت میں اصابتِ رائےکے بجائے تعداد کو دیکھا جاتا ہے ۔

 بقولِ اقبالؔ : ؂

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتےٓ

اس حوالے سے قرآن کا یہ حکم بہت واضح ہے کہ اگر زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کی بات مانو گے تو وہ تمہیں گمراہ کر دیں گے۔ دنیا میں اکثریت تو ہمیشہ باطل پرستوں کی رہی ہے ۔ دورِ صحابہؓ میں صحابہ کرام ؓ کی تعداد دنیا کی پوری آبادی کے تناظر میں دیکھیں تو لاکھ کے مقابلے میں ایک کی نسبت بھی نہیں بنتی۔

اس لیے اکثریت کو کلی اختیار دے کر کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہاں ایک صورت میں اکثریت کی رائےکو اہمیت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اگراللہ اور اس کے رسول ﷺ کےاحکام کو قطعی اصولوں اور land makrsکے طور پر مان لیا جائے توپھر ان کی واضح کردہ حدود کے اندررہتے ہوئے مباحات کے بارے میں اکثریت کی بنا پرفیصلے ہوسکتے ہیں۔ .... لیکن اختیار مطلق (absolute authority) اوراقتدارِ اعلیٰ(sovereignty) اکثریت کے پاس ہو تو اس صورت حال پراِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔چنانچہ کلی اختیار اوراقتدارِاعلیٰ تو بہر حال اللہ کے پاس رہے گا‘ جو اس کائنات اور اس میں موجود ہرچیز کا خالق اور مالک ہے ۔ اکثریت کی رائے پر فیصلے صرف اس کے احکام کی حدود کےاندر رہتے ہوئے ہی کیے جا سکتے ہیں۔