JustPaste.it

اور اپنی دعا میں یوں کہنا مکروہ ہے کہ بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك اگرچہ عین کی تقدیم ہو قاف پر﴿حاشیہ01﴾، اور ابو یوسف سے روایت ہے کہ دعا میں بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك کہنا مکروہ نہیں، اور اسی قول کو فقیہ ابو اللیث نے پسند کیا ہے بدلیل اثر کے﴿حاشیہ02﴾، اور زیادہ احتیاط اس دعا کی امتناع میں ہے، اس واسطے کہ خبر واحد ہے اس امر میں جو دلیل قطعی کے مخالف ہے، اس واسطے کہ متشابہ تو قطعی سے ثابت ہوتا ہے کذ افي الهداية ﴿حاشیہ03﴾، اور تاتارخانیہ میں منسوب بمنتقی ابو یوسف سے عن ابی حنیفہ منقول ہے کہ کسی کو دعا مانگنا لائق نہیں، مگر بذریعہ ذات اور صفات اور اسماء الہٰی کے، اور دعا ء ماذون فیہ اور مامور بہ وہ ہے جو حق تعالیٰ کے اس قول سے مستفاد ہے کہ حق تعالیٰ کے اسماء حسنی ہیں سو اُنہیں اسماء سے دعا کیا کرو، کہا اور اس طرح صلوة اور درود کوئی کسی کو نہ کہے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یعنی بالاستقلال لفظ صلوة درست نہیں لیکن بالتبع درست ہے ۔﴿حاشیہ04﴾
اور مکروہ ہے ، یوں کہنا دعا میں اس بِحَقِّ رُسُلِك وَأَنْبِيَائِك وَأَوْلِيَائِك یا بِحَقِّ الْبَيْتِ الله ( بحق اپنے رسولوں کے اور بحق اپنے انبياء کے اور بحق اپنے اولیاء کے دعا قبول کر)، اس واسطے کہ خلق کا کچھ حق ثابت نہیں خالق تبارک و تعالیٰ پر﴿حاشیہ05﴾ اور اگر ایک نے دوسرے سے کہا کہ بحق خدا یا بخدا ایسا کرو تو اُس پر یہ کرنا لازم نہیں اگرچہ ویسا کرنا بہتر ہے کذا في الدرر، یعنی واجب نہیں مستحب ہے۔

﴿حاشیہ01﴾: یہاں دو صورتیں ہیں مقعد یعنی تقدیم قاف کی عین پر اور معقد یعنی تقدیم عین کی قاف پر سو دونوں طرح مکروہ ہے، اس واسطے کہ مقعد مشتق ہے قعود سے تو تمکن عرش پر ثابت ہوا اور حالانکہ یہ قول مجسمہ کا باطل ہے ، اور معقد بتقدیم عین بھی جائز نہیں اسلئے کہ عرش کو موضوع عقد عزت کہنا موہم حدوث ہے، اس واسطے کہ عرش قدیم نہیں محدث ہے، تو عزت متعلق بعرش بھی حادث ٹھہرے گی، حالانکہ عزت ربّ العالمین قدیم ہے کذا فی العینی ملخصاً۔

﴿حاشیہ02﴾: اثر مذکور بیہقی کی کتاب الدعوات میں عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بارہ رکعت نماز ادا کر، رات یا دن میں اور دو رکعت میں تشہد پڑھ اور آخر نماز میں ثناء خداے عز وجل کر اور درود پڑھ اور سجدہ میں سات بار سورۂ فاتحہ پڑھ اور آیت الکرسی سات بار پڑھ اور لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وهو علی كل شئي قدير (نہیں ہے کوئی معبود بجز خدا کے، وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کو سلطنت ہے اور اسی کو تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)، دس بار کہہ کر پھر یہ دعا کر: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك؛ وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك، وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ (الہٰی! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بطفیل تیرے عرش کی جگہوں کے، جن میں تیری عزت وابستہ ہے، اور بطفیل منتہائے رحمت کے تیری کتاب سے، اور تیرے اسم اعظم اور کلمات تامہ کے طفیل سے)، پھر اپنی حاجت مانگ پھر اپنا سر اٹھا پھر داہنے بائیں سلام کر، اور احمقوں کو یہ دعا نہ سکھا، اس واسطے کہ وہ دعا کرینگے تو قبول ہو گی، انتھی۔ ابن جوزی نے کہا کہ یہ حدیث موضوع ہے اور ابن معین اور ابن حبان نے اس کی تکذیب کی کذا فی العینی شرح الہدایہ، طحطاوی نے شرح حموی سے نقل کیا کہ اگر لفظ عز کو عرش کی صفت قرار دیجئے نہ صاحب عرش کی تو یہ دعا جائز ہوگی، اس واسطے کہ توصیف عرش کی لفظ کرم اور مجد کے ثابت ہے اور فقیہ ابو اللیث نے جو اس کو اختیار کیا ہے تو اسکی یہی وجہ ہے، واللہ اعلم بالصواب۔

﴿حاشیہ03﴾: یعنی تنزیہ رب العالمین شوائب حدوث اور جسمانیت سے بدلیل قطعی ثابت ہے، اور یہ خبر موہم حدوث ہے، تو اس کے ترک میں احتیاط ہے بلکہ جب اس کا موضوع ہونا ثابت ہوا تو ترک واجب ہے۔

﴿حاشیہ04﴾: خانیہ میں ہے کہ غیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تنہا صلوۃ کہنا اسطرح کہ (اللهم صلی علی فلان) مکروہ ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملا کر یوں کہنا (اللهم صلی علی محمد وعلی آله واصحابه) تو جائز ہے، انتھی۔ لیکن ملائکہ علیہم السلام پر بالاستقلال صلوة درست ہے اور سلام بجا ہے صلوۃ کافی ہے، کذا فی الطحطاوی۔

﴿حاشیہ05﴾: انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کا حق خالق تعالیٰ پر وجوباً ثابت نہیں، لیکن تفضیلاً و کرماً ثابت ہے، یہاں تک کہ ازراہ کرم حق سائلین بھی ثابت ہے، چنانچہ حسن حصین میں حدیث ثابت ہے (اللهم اني أسالك بحق السائلين عليك) اور حق سے اگر حرمت اور عظمت اور وجاہت مراد لیجیے تو بطریق وسیلہ درست ہے، قال تعالیٰ (وابتغوا اليه الوسيلة) کذا فی الطحطاوی۔


مجلد 04 صفحہ 224 ۔ 225
الكتاب: غایۃ الاوطار ترجمہ در المختار
المؤلف: مولوی خرم علی صاحب مرحوم بہ تکمیل مولانا محمد احسن نانوتوی
الناشر: مطبع نامی منشی نول کشور واقع لکھنؤ
اشاعت: 1871 ء

مجلد 04 صفحه 229 ۔ 230
الكتاب: غایۃ الاوطار ترجمہ در المختار
المؤلف: مولوی خرم علی صاحب مرحوم بہ تکمیل مولانا محمد احسن نانوتوی
الناشر: مطبع نامی منشی نول کشور واقع لکھنؤ
اشاعت: 1886 ء