JustPaste.it

(وَ) كُرِهَ (قَوْلُهُ فِي دُعَائِهِ بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) وَلَوْ بِتَقْدِيمِ الْعَيْنِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ لَا بَأْسَ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ أَبُو اللَّيْثِ لِلْأَثَرِ وَالْأَحْوَطُ الِامْتِنَاعُ لِكَوْنِهِ خَبَرَ وَاحِدٍ فِيمَا يُخَالِفُ الْقَطْعِيَّ إذْ الْمُتَشَابِهُ إنَّمَا يَثْبُتُ بِالْقَطْعِيِّ هِدَايَةٌ وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة مَعْزِيًّا لِلْمُنْتَقَى عَنْ أَبِي يُوسُفَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَدْعُوَ اللَّهَ إلَّا بِهِ وَالدُّعَاءُ الْمَأْذُونُ فِيهِ الْمَأْمُورُ بِهِ مَا اُسْتُفِيدَ مِنْ قَوْله تَعَالَى - {وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا} [الأعراف: 180]- قَالَ وَكَذَا لَا يُصَلِّي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ إلَّا عَلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -.
(وَ) كُرِهَ قَوْلُهُ (بِحَقِّ رُسُلِك وَأَنْبِيَائِك وَأَوْلِيَائِك) أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْخَلْقِ عَلَى الْخَالِقِ تَعَالَى وَلَوْ قَالَ لِآخَرَ بِحَقِّ اللَّهِ أَوْ بِاَللَّهِ أَنْ تَفْعَلَ كَذَا لَا يَلْزَمُهُ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ الْأَوْلَى فِعْلَهُ دُرَرٌ.

ترجمہ: اور اپنی دعا میں یوں کہنا مکروہ ہے کہ بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك اگرچہ عین کی تقدیم ہو قاف پر، اور ابو یوسف سے روایت ہے کہ دعا میں بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك کہنا مکروہ نہیں، اور اسی قول کو فقیہ ابو اللیث نے پسند کیا ہے بدلیل اثر کے، اور زیادہ احتیاط اس دعا کی امتناع میں ہے، اس واسطے کہ خبر واحد ہے اس امر میں جو دلیل قطعی کے مخالف ہے، اس واسطے کہ متشابہ تو قطعی سے ثابت ہوتا ہے کذ افي الهداية، اور تاتارخانیہ میں منسوب بمنتقی ابو یوسف سے عن ابی حنیفہ منقول ہے کہ کسی کو دعا مانگنا لائق نہیں، مگر بذریعہ ذات اور صفات اور اسماء الہٰی کے، اور دعا ء ماذون فیہ اور مامور بہ وہ ہے جو حق تعالیٰ کے اس قول سے مستفاد ہے کہ حق تعالیٰ کے اسماء حسنی ہیں سو اُنہیں اسماء سے دعا کیا کرو، کہا اور اس طرح صلوة اور درود کوئی کسی کو نہ کہے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یعنی بالاستقلال لفظ صلوة درست نہیں لیکن بالتبع درست ہے۔
اور مکروہ ہے ، یوں کہنا دعا میں اس بِحَقِّ رُسُلِك وَأَنْبِيَائِك وَأَوْلِيَائِك یا بِحَقِّ الْبَيْتِ الله ( بحق اپنے رسولوں کے اور بحق اپنے انبياء کے اور بحق اپنے اولیاء کے دعا قبول کر)، اس واسطے کہ خلق کا کچھ حق ثابت نہیں خالق تبارک و تعالیٰ پر اور اگر ایک نے دوسرے سے کہا کہ بحق خدا یا بخدا ایسا کرو تو اُس پر یہ کرنا لازم نہیں اگرچہ ویسا کرنا بہتر ہے کذا في الدرر، یعنی واجب نہیں مستحب ہے۔ «« ترجمہ: غایۃ الاوطار ترجمہ در المختار »»

مجلد 01 صفحه 662
الكتاب: الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار
المؤلف: محمد بن علي بن محمد الحِصْني المعروف بعلاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية- بيروت

مجلد 01 صفحه 747
الكتاب: الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار
المؤلف: محمد بن علي بن محمد الحِصْني المعروف بعلاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ)
الناشر: طبع متحلی كرد بل 1272هـ 1856 م

مجلد 01 صفحه 928
الكتاب: الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار
المؤلف: محمد بن علي بن محمد الحِصْني المعروف بعلاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ)
الناشر: لتهيو گرافك کمپني بهادر 1243هـ 1827 م

مجلد 07 صفحه 566 ۔ 569
الكتاب: الدر المختار مع رد المحتار على الدر المختار
المؤلف: محمد بن علي بن محمد الحِصْني المعروف بعلاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ)
المؤلف الشرح: ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ)
الناشر: دار عالم الكتب – الرياض