JustPaste.it

دعا میں"أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك" کہنے کا حکم

قَالَ (وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ: أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) وَلِلْمَسْأَلَةِ عِبَارَتَانِ: هَذِهِ، وَمَقْعَدُ الْعِزِّ، وَلَا رَيْبَ فِي كَرَاهَةِ الثَّانِيَةِ؛ لِأَنَّهُ مِنْ الْقُعُودِ، وَكَذَا الْأَوْلَى؛ لِأَنَّهُ يُوهِمُ تَعَلُّقَ عِزِّهِ بِالْعَرْشِ وَهُوَ مُحْدَثٌ وَاَللَّهُ تَعَالَى بِجَمِيعِ صِفَاتِهِ قَدِيمٌ.
امام محمد رحمہ اللہ نے جامع صغیر میں فرمایا اور مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، اس کی دو عبارتیں ہیں، ایک تو یہی ہے اور دوسری "مَقْعَدُ الْعِزِّ" اور دوسری کے مکروہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ یہ قعود سے ماخوذ ہے اسی طرح پہلی بھی مکروہ ہے کیونکہ یہ موہم ہے کہ عزت الہٰی کا تعلق عرش سے ہے حالانکہ عرش حادث ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ قدیم ہے۔

تشریح۔۔۔ دعا ء میں ایسے کلمات کہنا جو موہم شرک یا شان باری میں موہم نقصان ہو مکروہ ہے، اللہ اپنی تمام صفات کے ساتھ قدیم ہے اور جملہ عالم حادث ہے یہاں تک کہ عرش وکرسی حادث ہیں تو ایسے کلمات بولنا کہ جس میں عزت الہٰی کا مقر ثابت ہوتا ہو یا مقام عزت معلوم ہوتا ہو، ابہام کی وجہ سے مکروہ ہے لہٰذا ان الفاظ میں دعا کرنا "أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك" یا "أَسْأَلُك بِمَقْعَدُ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك"دونوں مکروہ ہیں اول تو اسلئے کہ معقد عقد سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں گرہ باندھنے کا مقام، تو اس کے معنی ہوئے عرش سے عزت گرہ بندی کا مقام تو اس میں عرش کو موضع عقد عزت کہنا موہم حدوث ہے اسلئے کہ عرش قدیم نہیں بلکہ حادث ہے تو عزت متعلق بعرش بھی حادث ہو گی حالانکہ اس کا محل حوادث ہونا باطل ہے۔
اور دوسری صورت میں یہ مقعد قعود سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ ہوں گے عرش سے نشست گاہ یعنی عرش جو عزت کا مقر ہے اس صورت ميں عرش پر تمکن ثابت ہو گا جو مجسمہ کا قول ہے اور سراسر باطل ہے۔
تنبیہ۔۔۔ ہم نے جواہر الفرائد شرح شرح عقائد میں تمکن علی العرش اور حدوث عالم اور ذات باری کی ازلیت پر اور اس کی صفات کی قدامت پر بہت تفصیل سے کلام کیا ہے۔ محمد یوسف غفرلہ

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا نقطہ نظر

وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ. وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ - لِأَنَّهُ مَأْثُورٌ عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -. رُوِيَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ «اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك؛ وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك، وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ»
ترجمہ۔۔۔ اور ابو یوسف رحمہ اللہ سے منقول ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی کو فقیہ ابو للیث نے لیا ہے اسلئے کہ یہ نبی علیہ السلام سے منقول ہے۔ مروی ہے کہ آپ کی دعا میں یہ کلمات ہیں الہٰی میں آپ کے عرش کی عزت کی گرہ بندی کے مقام کا آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا آپ کے اسم اعظم و عظمت و کبریائی اور آپ کے کلمات تامہ کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں۔

تشریح۔۔۔۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے اس کو جائز کہا اور ان کلمات کو دعا ماثور سے ثابت کیا ہے۔ قلت۔۔۔ رواه البيهقي في الدعوات الكبير ورواه ابن الجوزي في الموضوعات، قال ابن الجوزي هذا حديث موضوع بلا شك واسناده مخبط كماتری، ملاحظہ ہو نصب الرأیہ ص 273 ج 4۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے استدلال کا جواب

وَلَكِنَّا نَقُولُ: هَذَا خَبَرُ وَاحِدٍ فَكَانَ الِاحْتِيَاطُ فِي الِامْتِنَاعِ (وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك) ؛ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْمَخْلُوقِ عَلَى الْخَالِقِ.
ترجمہ ۔۔۔۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے تو احتیاط رکنے میں ہے اور مکروہ ہے اپنی دعا میں کہے "بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك" اسلئے کہ مخلوق کا کوئی حق خالق پر نہیں ہے۔

تشریح ۔۔۔۔ یہ امام يوسف رحمہ اللہ کا جواب ہے اور جواب سابق اس سے عمدہ ہے اور جس کا حاصل یہ ہے کہ حدیث قابل استدلال نہیں ہے پھر یہ جو دستور ہے کہ دعاء میں کہتے ہیں کہ بحق فلاں وفلاں یہ مکروہ ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں بلکہ وہ جو کچھ دیتا ہے اس کا فضل محض ہے۔ فتدبر!
تنبیہ 1: ۔۔۔ سکب الانہر ص 485 ج 2 پر کہا ہے کہ اس کا وقع بکثرت ہے۔ فليحفظ
تنبیہ 2: ۔۔۔ لیکن اگر حق کو اس معنی میں لیا جائے جس کی جانب ذہن کا انتقال ہوتا ہے بلکہ اس سے حرمت وعظمت بالفاظ دیگر وسیلہ مراد لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ہمارے مشائخ کے شجروں میں جہاں یہ لفظ مستعمل ہے وہ صرف توسل کے معنی میں ہے اور وسیلہ جائز ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے رد المحتار ص 254 ج 5 پر اس تاویل کی جانب اشارات کرکے پھر فرمایا ہے کہ سب ایسے احتمالات ہیں جو ظاہر میں تبادر کے خلاف ہیں اسی وجہ سے ہمارے ائمہ رحمہم اللہ نے مطلقاً منع فرمایا ہے۔
قلتُ:۔۔۔۔ لیکن اس کو ہماری زبان میں توسل کے معنی میں استعمال کرنا ظاہر ہے تو اس پر کراہت کا حکم جاری نہ ہو گا جبکہ اس کی ایک حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے:۔
اللهم اني اسألك بحق السائلين عليك وبحق ممشاي اليك ۔۔۔۔ الحديث في رد المحتار ص 254 ج 5

مجلد 13 صفحہ 390 ۔ 392
الكتاب: اشرف الہدایہ شرح اردو ہدایہ
المؤلف: علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ)
مترجم وشارح: محمد یوسف احمد تاؤلی، مدرس دار العلوم دیوبند
الناشر: دار الاشاعت ۔ کراچی
عدد الأجزاء: 15