JustPaste.it

قَالَ (وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ: أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) وَلِلْمَسْأَلَةِ عِبَارَتَانِ: هَذِهِ، وَمَقْعَدُ الْعِزِّ، وَلَا رَيْبَ فِي كَرَاهَةِ الثَّانِيَةِ؛ لِأَنَّهُ مِنْ الْقُعُودِ، وَكَذَا الْأَوْلَى؛ لِأَنَّهُ يُوهِمُ تَعَلُّقَ عِزِّهِ بِالْعَرْشِ وَهُوَ مُحْدَثٌ وَاَللَّهُ تَعَالَى بِجَمِيعِ صِفَاتِهِ قَدِيمٌ. وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ. وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ - لِأَنَّهُ مَأْثُورٌ عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -. رُوِيَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ «اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك؛ وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك، وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ» وَلَكِنَّا نَقُولُ: هَذَا خَبَرُ وَاحِدٍ فَكَانَ الِاحْتِيَاطُ فِي الِامْتِنَاعِ (وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك) ؛ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْمَخْلُوقِ عَلَى الْخَالِقِ.
قَالَ (وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ: أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) وَلِلْمَسْأَلَةِ عِبَارَتَانِ: هَذِهِ، وَمَقْعَدُ الْعِزِّ، وَلَا رَيْبَ فِي كَرَاهَةِ الثَّانِيَةِ؛ لِأَنَّهُ مِنْ الْقُعُودِ،: امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ یہ بات مکروہ ہے، کہ کوئی شخص اپنی دعا ان الفاظ سے کرے اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك: اس دعا کی عبارت ان دو طریقوں سے ہے، ایک طریقہ تو یہی ہے، (ف: یعنی بمعقد ع، ق، د، کے مادہ سے) اور دوسرا طریقہ کی عبارت بمقعد (ف: ق، ع، د، ک مادہ سے) بِمَقْعَدُ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك، مگر اس دوسرے طریقہ کی عبارت سے مکروہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ لِأَنَّهُ مِنْ الْقُعُودِ: کیونکہ لفظ مقعد مادہ قعود سے مشتق ہے (ف: اور قعود کے معنی بیٹھنا ہیں ا س لئے مقعد العز من العرش کے معنی یہ ہوں گے عرش سے نشست گاہ عزت یعنی عرش جو عزت کا مقر اور مقام ہے)۔
وَكَذَا الْأَوْلَى: اسی طرح پہلی عبارت بھی مکررہ ہے، (ف: یعنی معقد العز من عرشك، جبکہ معقد لفظ عقد سے مشتق ہے یعنی گرہ باندھنے کی جگہ اس لئے معنی یہ ہوں گے، کہ عرش سے عزت کی گرہ بندی کا مقام، لہٰذا یہ مکروہ ہے) ۔ لِأَنَّهُ يُوهِمُ تَعَلُّقَ عِزِّهِ بِالْعَرْشِ وَهُوَ مُحْدَثٌ: کیونکہ یہ لفظ یہ وہم پیدا کرتا ہے کہ عزت الہٰی عز وجل کا تعلق عرش سے ہے، حالانکہ عرش تو حادث اور فانی چیزوں میں سے ہے، (ف: جبکہ عزت الہٰی اس کی پاک صفات میں سے ہے)۔ وَاَللَّهُ تَعَالَى بِجَمِيعِ صِفَاتِهِ قَدِيمٌ: اور اللہ تعالیٰ تو اپنی تمام صفتوں کے ساتھ قدیم ہے، (ف: اسی لئے اس کی پاک صفات کے ساتھ ایسا لفظ نہیں لگانا چاہئے جس سے اس کے حادث ہونے کا وہم پیدا ہو کہ یہ بھی مکروہ ہے)۔
وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ. وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ: اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے نوارد میں روایت ہے کہ دونوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت یعنی مقعد ہو یا معقد ہو کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی قول کو فقیہ ابو اللیث رحمہ اللہ نے شرح جامع صغیر میں پسند کیا ہے۔ لِأَنَّهُ مَأْثُورٌ عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -. رُوِيَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان ہی الفاظ سے مروی ہے، چنانچہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اسی طرح فرماتے تھے،(ف: بیہقی رحمہ اللہ نے دعوات الکبیر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوع اور مطلول حدیث روایت کی ہے جس میں ایک نماز حاجت کا طریقہ اس طرح بتایا گیا ہے کہ بارہ رکعتیں اس طرح پڑھی جائیں وہ خواہ دن میں ہوں یا رات میں اور ہر دو رکعت کے درمیان تشہد ہو اور آخری نماز کے تشہد میں اللہ تعالیٰ کے لئے حمد ثنا ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کر سجدہ کرکے سجدہ میں سورۂ فاتحہ سات بار اور آیت الکرسی سات بار اور : لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وهو علی كل شئي قدير: دس بار پڑھ کر ان الفاظ سے دعا کرو: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك؛ وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك، وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ: (الہٰی! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بطفیل تیرے عرش کی جگہوں کے، جن میں تیری عزت وابستہ ہے، اور بطفیل منتہائے رحمت کے تیری کتاب سے، اور تیرے اسم اعظم اور کلمات تامہ کے طفیل سے) اس کے بعد اپنی ضرورت بیان کرو پھر اپنا سر اٹھا کر دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرو، اور یہ طریقہ اپنے احمق لوگوں کو مت سکھاؤ کہ وہ بھی اسی طرح سے دعا مانگ لینگے اور وہ بھی مقبول ہو جائینگی، اور اس کی روایت ابن الجوزی رحمہ اللہ نے حاکم اور طبرانی کے حوالہ سے نقل کی ہے اور اس کا جواب مصنف رحمہ اللہ نے اس طرح دیا ہے کہ۔
وَلَكِنَّا نَقُولُ: هَذَا خَبَرُ وَاحِدٍ فَكَانَ الِاحْتِيَاطُ فِي الِامْتِنَاعِ: لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ خبر الواحد ہے اور اس سے منع کرنے ہی میں احتیاط ہے، (ف: بلکہ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ یہ روایت موضوع ہونے کی وجہ سے باطل ہے، چنانچہ شیخ ابن الجوزی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے، اس کی اسناد میں ایک راوی عمر بن ہارون ہیں جن کے بارے میں امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ کذاب اور خبیث ہے، ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ ثقہ بزرگوں کے نام سے جھوٹی باتیں بنا کر روایت کرتا ہے، اور ایسے بزرگوں کا نام لیتا ہے جن کو اس نے دیکھا بھی نہیں ہے، پھر امام احمد و نسائی و عبد الرحمن بن مہدی نے فرمایا ہے کہ اس راوی کی حدیث متروک ہے، اسی طرح ابو داؤد وعلی بن المدینی اور دارقطنی وصالح وزکریا وابوعلی رحمہم اللہ وغیرہم نے بھی اس راوی کو غیر ثقہ و ضعیف وغیرہ فرمایا ہے، پس جب یہ روایت ایسی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، تو اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اس کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے، شیخ الاسلام عینی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تعجب ہے ہدایہ کے شارحین فقہ واصول میں کامل ہونے کے باجود اس حدیث کے متعلق کچھ پتہ نہیں چلا سکے۔
میں مترجم یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر فن کے لئے اپنے بندوں میں کچھ مخصوص کیا ہے، اس لئے قضائے عمری کی حدیث کو شیخ علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے موضوع بتا کر یہ لکھا ہے کہ صاحب نہایہ وغیرہ کے بیان سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ یہ علماء محدث نہیں ہوتے ہیں، اور نہ ہی انہوں نے حوالہ دیا کہ کس نے اس کی روایت کی ہے،م۔
(وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك): اور یہ بات مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعا میں اس طرح کہے کہ بحق فلاں یعنی الہٰی فلاں بزرگ حق سے میری دعا قبول فرما، یا یوں کہے کہ الہٰی بحق انبیاء وبحق رسول میری یہ دعا قبول فرما، (یا یوں کہے الہٰی بحق بیت اللہ بحق شعر الحرام میری دعا قبول کر تو بھی مکروہ ہو گا، زیعلی)۔
لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْمَخْلُوقِ عَلَى الْخَالِقِ: کیونکہ کسی مخلوق کا خالق پر حق نہیں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کچھ نادان لوگ جو اپنی مناجات میں یہ شعر پڑھا کرتے ہیں "الہٰی بحق محمد رسول اللہ دعاء مجھ گنہگار کی کر قبول" مکروہ ہے، اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، البتہ انبیاء علیہم السلام و الیاء رحمہم اللہ کے وسیلہ سے دعا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، یعنی الہٰی لك الثناء والمجد اني اتوصل انبيائك تجيب دعوتي هذه یا اسی جیسی اردو میں اس طرح دعا کرے کہ اے میرے رب تیری ذات پاک کے واسطے سب تعریف و ثنا پاکیزہ ہے، میں عاجز بندہ تیری بارگاہ کبریائی میں بوسیلہ تیرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم وان کے آل واصحاب رضی اللہ عنہم کے اپنی یہ التجا کرتا ہوں، میرے رب کریم اپنی رحمت عالی کی طفیل میں اس کو قبول فرما لے کہ دنیا میں ہمیں عاقبت وسلامتی عطا فرما، اور آخرت میں مغفرت واسعہ رحمت سے سرفرازی عطا فرما، اور میرے مولیٰ تو ارحم الرحمین ہے : اللهم صلی علی سيدنا ومولٰنامحمد رسولك نبي الرحمة واله وصحبه وسلم، الحمد لله رب العٰلمين: اس کے علاوہ کچھ متعلق مسائل کتاب سے متعلق ان شاء اللہ آئینگے، م۔

مجلد 07 صفحہ 818 ۔ 820
الكتاب: عین الہدایہ (جدید)
المؤلف: علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ)
مترجم وشارح: سید امیر علی
الناشر: دار الاشاعت ۔ کراچی
عدد الأجزاء: 08