JustPaste.it

م: (قال: ويكره أن يقول الرجل في دعائه: أسألك بمعقد العز من عرشك) ش: أي قال في " الجامع الصغير ". قوله: معقد العز: أي موضع عقده.
(فرمایا اور مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر) یعنی فرمایا جامع الصغیر میں۔ قوله معقد العز: یعنی نشست گاہ ۔
م: (وللمسألة عبارتان) ش: أي للمسألة المذكورة لفظان:
( اس مسئلہ میں دو عبارتیں ہیں) یعنی اس مسئلہ میں دو الفاظ مذکور ہیں:
م: (هذه) ش: أي إحدى العبارتين هذه، وهي قوله: أسألك بمعقد العز من عرشك، بتقديم العين.
( وہ یہ) یعنی دو عبارتوں میں سے ایک عبارت یہ ہے، اور وہ یہ قول ہے " سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر " (معقد)عین کی تقدیم کے ساتھ۔
م: (ومقعد العز) ش: العبارة الثانية، وهي قوله: أسألك بمقعد العز من عرشك، بتقديم القاف على العين، من القعود.
(اور نشست گاہ عزت) دوسری عبارت، وہ یہ قول : سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے نشست گاہ عزت کا واسطہ دے کر، (مقعد) قاف کی عین پر تقدیم کے ساتھ ، جو قعود یعنی نشست، بیٹھنے سے ہے۔
م: (ولا ريب في كراهية الثانية؛ لأنه من القعود) ش: أي لا شك في كراهية العبارة الثانية، وهي قول: أسألك بمقعد العز من عرشك لأنه من القعود، وهو التمكن على العرش، وذلك قول المجسمة وهو باطل.
(اور دوسری کے مکروہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ یہ قعود سے ماخوذ ہے) یعنی دوسری عبارت کے مکروہ ہونے میں کوئی شک نہیں، وہ یہ قول ہے: سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے نشست گاہ عزت کا واسطہ دے کر۔ کیونکہ یہ قعود (نشست، بیٹھنے) سے ہے۔ اور یہ عرش پر تمکن ہے، اور یہ مجسمہ کا قول ہے، جو کہ باطل ہے۔

م: (وكذا الأولى) ش: أي: وكذا تكره العبارة الأولى وهي: أسألك بمقعد العز من عرشك بتقديم العين على القاف.
(اسی طرح پہلی بھی مکروہ ہے) اور اسی طرح پہلی عبارت بھی مکروہ ہے، اور وہ یہ : سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر " (معقد)عین کی قاف پر تقدیم کے ساتھ۔

م: (لأنه يوهم تعلق عزه بالعرش وهو محدث) ش: أي العرش محدث،
(کیونکہ یہ موہم ہے کہ عزت الہٰی کا تعلق عرش سے ہے حالانکہ عرش حادث ہے)، یعنی عرش حادث ہے،
م: (والله تعالى بجميع صفاته قديم) . ش: فإذا علق عزه القديم بالعرش الحادث يتوهم أن عزه حادث لتعلقه بالحادث.
(اور اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ قدیم ہے)۔ تو اللہ کی عزت جو قدیم ہے، عرش جو کہ حادث ہے سے تعلق کرنے سے اللہ کی عزت کے حادث ہونے میں موہم ہے، کیونکہ حادث سے تعلق کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی عزت بھی حادث ٹھہرے گی۔

م: (وعن أبي يوسف - رَحِمَهُ اللَّهُ -: أنه لا بأس به) ش: أي بالقول الأول وهو أسألك بمعقد العز، بتقديم العين على القاف.
(اور ابو یوسف سے منقول ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے) یعنی پہلے قول کے متعلق جو یہ ہےکہ سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر " (معقد)عین کی قاف پر تقدیم کے ساتھ۔
م: (وبه أخذ الفقيه أبو الليث - رَحِمَهُ اللَّهُ -) ش: أي: وبما روي عن أبي يوسف - رَحِمَهُ اللَّهُ - أخذ الفقيه أبو الليث - رَحِمَهُ اللَّهُ -. نص عليه في " شرح الجامع الصغير ".
(اور اسی کو فقیہ ابو للیث رحمہ اللہ نے لیا ہے) یعنی جو ابو یوسف رحمہ اللہ سے مروی ہے ، اس سے فقیہ ابو اللیث رحمہ اللہ نے اخذ کیا ہے ، اور اسے شرح جامع الصغیر میں درج کیا ہے۔
م: (لأنه مأثور عن النبي - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -) ش: أي: لأن القول الأول أجابه الأثر عن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، أشار إليه بقوله:
(اسلئے کہ یہ نبی علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے) یعنی اسلئے کہ پہلے قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اثر کو قبول کرنا ہے، اس میں اشارہ کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی طرف:
م: (روي أنه «كان من دعائه: "اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك، ومنتهى الرحمة من كتابك، وباسمك الأعظم، وجدك الأعلى، وكلماتك التامة»
مروی ہے کہ آپ کی دعا میں یہ کلمات ہیں الہٰی میں آپ کے عرش کی عزت کی گرہ بندی کے مقام کا آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا آپ کے اسم اعظم و عظمت و کبریائی اور آپ کے کلمات تامہ کا وسطہ دے کر مانگتا ہوں۔
ش: وفي بعض النسخ: "من دعائه" موضع "في دعاء" كل المتقدمين اسم كان هو قوله اللهم، وقوله: "في دعائه" أو "من دعائه" هو الخبر ثم الأثر المذكور.
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔

ورواه البيهقي في كتاب " الدعوات الكبير ": وأخبرنا أبو طاهر الزيادي، أخبرنا أبو عثمان البصري، حدثنا أبو أحمد محمد بن عبد الوهاب، أخبرنا عامر بن خداش - رَحِمَهُ اللَّهُ - حدثنا عمر بن هارون البلخي، عن ابن جريج عن داود، عن ابن أبي عاصم، عن ابن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، عن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: «اثنتا عشرة ركعة تصليهن من ليل أو نهار وتتشهد" بين كل ركعتين، فإذا تشهدت في آخر صلاتك فأثن على الله عز وجل، وصل على النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - واقرأ وأنت ساجد فاتحة الكتاب سبع مرات، وآية الكرسي سبع مرات، وقل: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، عشر مرات ثم قال: اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك، واسمك الأعظم وكلماتك التامة، ثم اسل حاجتك، ثم ارفع رأسك، ثم سلم يمينا وشمالا، ولا تعلمها السفهاء فإنهم يدعون بها فيستجاب» .

اور روایت کیا ہے بیہقی نے کتاب "الدعوات الکبیر"میں: اور خبر دی ہم کو ابو طاہر الزیادی نے، خبر دی ہم کو ابو عثمان البصری نے، کہا ہم سے ابو احمد محمد بن عبد الوھاب نے، خبر دی ہم کو عامر بن خداش رحمہ اللہ نے، کہا ہم سے عمر بن ہارون البلخی نے، ابن جریج کے واسطے سے، انہوں نے داود کے واسطے سے، انہوں نے ابن ابی عاصم کے واسطے سے انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔
فرمایا:بارہ رکعتیں اس طرح پڑھی جائیں وہ خواہ دن میں ہوں یا رات میں اور ہر دو رکعت کے درمیان تشہد ہو اور آخری نماز کے تشہد میں اللہ تعالیٰ کے لئے حمد ثنا ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کر سجدہ کرکے سجدہ میں سورۂ فاتحہ سات بار اور آیت الکرسی سات بار اور : لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وهو علی كل شئي قدير: دس بار پڑھ کر ان الفاظ سے دعا کرو: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك؛ وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك، وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ: الہٰی! میں آپ کے عرش کی عزت کی گرہ بندی کے مقام کا آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا آپ کے اسم اعظم و عظمت و کبریائی اور آپ کے کلمات تامہ کا وسطہ دے کر مانگتا ہوں۔
اس کے بعد اپنی ضرورت بیان کرو پھر اپنا سر اٹھا کر دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرو، اور یہ طریقہ اپنے احمق لوگوں کو مت سکھاؤ کہ وہ بھی اسی طرح سے دعا مانگ لینگے اور وہ بھی مقبول ہو جائینگی
ورواه ابن الجوزي - رَحِمَهُ اللَّهُ - في كتاب " الموضوعات " من طريق أبي عبد الله الحاكم، حدثنا محمد بن القاسم بن عبد الرحمن العتكي - رَحِمَهُ اللَّهُ - حدثنا محمد بن أشرس، حدثنا عامر بن خداش به مسندا ومتنا.
وقال ابن الجوزي: هذا حديث موضوع بلا شك، وإسناده مخبط كما ترى. وفي إسناده عمر بن هارون قال ابن معين فيه: كذاب.
وقال ابن حبان: يروي عن الثقات المعضلات، ويدعي شيوخا لم يرهم، وقد صح «عن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - النهي عن القراءة في السجود» . انتهى.
اور روایت کیا ہے ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کتاب "الموضوعات" میں ابی عبد اللہ الحاکم کے طریق سے، کہا ہم سے محمد بن قاسم بن عبد الحمن العتکی رحمہ اللہ نے، کہا محمد بن أشرس نے، کہا عامر بن خداش سے مسنداً اور متنا ً ۔
اور کہا ابن الجوزی نے کہ یہ حدیث بغیر کسی شک کے موضوع ہے۔ اس کی اسناد مخبط ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ اور اس کی سند میں عمر بن ہارون ہے، ابن معین سے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ کذاب ہے۔
ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ ثقہ بزرگوں کے نام سے جھوٹی باتیں بنا کر روایت کرتا ہے، اور ایسے بزرگوں کا نام لیتا ہے جن کو اس نے دیکھا بھی نہیں ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح طور ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجود میں قراءۃ کرنے سے منع کیا ہے۔
وعزاه السروجي " للحلية " وليس فيها، والعجب العجائب من " شراح الهداية "، وهم أئمة أجلاء كيف يغضون أبصارهم ويمرون في مثل هذه المواضع والبعدى لشرح كلام الناس لا يكون كذلك.
أما الأترازي الذي له دعوى عريضة في الباب فلم يتعرض قط لهذا ولا ذكر اسم الصحابي الذي رواه، بل قال: لأنه عن رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، أنه كان يدعو بذلك، وهذا لم يثبت عن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أنه كان يدعو بذلك لا بسند صحيح ولا بسند ضعيف.
السروجی نے اسے حلیۃ الاولیاء سے منسوب کیا ہے، لیکن یہ حلیۃ الاولیاء میں نہیں ہے،عجیب بات یہ ہے کہ ہدایہ کے شارحین، جو اجل ائمہ ہونے کے باجود ان سے یہ کیسے اوجھل رہی، اور انہوں نے اس طرح کی روایات کیں
اور وہ جو اس باب میں مدعی ہیں، انہوں نے اس پر کوئی اعراض ہی نہیں کرتے، اور نہ ہی صحابی کا نام ذکرتے ہیں، جن سے روایت ہے، بلکہ کہتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے، کہ وہ اس طرح دعا کیا کرتے تھے۔ اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، نہ کسی صحیح سند سے اور نہ ہی کسی ضعیف سند سے یہ ثابت ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا کرتے تھے۔
وأما الكاكي وتاج الشريعة -رحمهما الله- والسغناقي - رَحِمَهُ اللَّهُ - فإنهم قالوا: روي عن ابن مسعود أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال: «اثنتي عشرة ركعة من صلاها في ليل أو نهار قصر في كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة وتشهد في كل ركعتين وسلم ثم سجد بعد التشهد من الركعتين الأخيرتين قبل السلام يقرأ فاتحة الكتاب سبع مرات وآية الكرسي سبع مرات ويقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد يحيي ويميت، وهو على كل شيء قدير، عشر مرات ثم يقول: اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك، وباسمك الأعظم وجدك الأعلى، وكلماتك التامة أن تقضي حاجتي، فإن الله يقضي حاجته". ثم قال - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "لا تعلموها السفهاء، لأنها دعوة مستجابة»
اور الکاکی اور تاج الشریعہ رحمہما اللہ اور السغناقی رحمہ اللہ نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بارہ رکعتیں پڑھیں جائیں وہ خواہ دن میں ہوں یا رات میں، اور ہر رکعت میں فاتحہ اور سورۃ پڑھی جائے، اور ہر دو رکعت میں تشہد کے بعد سلام پھیرا جائے، پھر آخری رکعتوں میں تشہد کے بعد سلام سے پہلے سجدہ کیا جائے، اور سات بار سورۃ فاتحہ ، سات بار آیت الکرسی، اور دس بار لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد يحيي ويميت، وهو على كل شيء قدير، (نہیں ہے کوئی معبود بجز خدا کے، وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کو سلطنت ہے اور اسی کو تعریف ہے زندگی بخشتا ہےاور موت دیتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)کہے، پھر کہے اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك، وباسمك الأعظم وجدك الأعلى، وكلماتك التامة أن تقضي حاجتي، فإن الله يقضي حاجته". (الہٰی! میں آپ کے عرش کی عزت کی گرہ بندی کے مقام کا آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا آپ کے اسم اعظم و عظمت و کبریائی اور آپ کے کلمات تامہ کا وسطہ دے کر مانگتا ہوں۔) اور یہ طریقہ اپنے احمق لوگوں کو مت سکھاؤ کہ وہ بھی اسی طرح سے دعا مانگ لینگے اور وہ بھی مقبول ہو جائینگی
ولكن الذي ذكره تاج الشريعة - رَحِمَهُ اللَّهُ - غير ما ذكره حيث قال: روي عن ابن مسعود أنه قال: «اثنتا عشرة ركعة من صلاها في ليل أو نهار وقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب سبع مرات وآية الكرسي سبع مرات، ويقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحي ويميت، وهو على كل شيء قدير، عشر مرات ثم يقول إني أسألك بمعقد العز من عرشك، ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم، وجدك الأعلى وكلماتك التامة أن تقضي حاجتي، فإن الله عز وجل يقضي حاجته".
قال - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "لا تعلموها السفهاء فإنها دعوة مستجابة».
وأما صاحب " العناية " فلم يذكر المسألة رأسا فضلا عن بيان حال الحديث.
لیکن جو تاج الشریعہ نے اس سے علاوہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ کہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: بارہ رکعتیں پڑھیں جائیں وہ خواہ دن میں ہوں یا رات میں، اور ہر رکعت میں ساتھ بار فاتحہ پڑھی جائے اور سات بار آیت الکرسی پڑھی جائے اور دس بار کہے: ، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحي ويميت، وهو على كل شيء قدير (نہیں ہے کوئی معبود بجز خدا کے، وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کو سلطنت ہے اور اسی کو تعریف ہے زندگی بخشتا ہےاور موت دیتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، پھر کہے : اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك، وباسمك الأعظم وجدك الأعلى، وكلماتك التامة أن تقضي حاجتي، فإن الله يقضي حاجته (الہٰی! میں آپ کے عرش کی عزت کی گرہ بندی کے مقام کا آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا آپ کے اسم اعظم و عظمت و کبریائی اور آپ کے کلمات تامہ کا وسطہ دے کر مانگتا ہوں۔). نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور یہ طریقہ اپنے احمق لوگوں کو مت سکھاؤ کہ وہ بھی اسی طرح سے دعا مانگ لینگے اور وہ بھی مقبول ہو جائینگی۔
اور صاحب العنایہ نے اس مسئلہ میں حدیث کا حال بیان نہیں کیا۔
م: (ولكنا نقول: هذا خبر الواحد فكان الاحتياط في الامتناع) ش: أراد أن الاحتياط واجب في هذا لما فيه من الإبهام، فتعلق عزه بالعرش بما ذكرنا، ولا يلزم الحكم في مثل هذا بالخبر الواحد، وكذا نص عليه في " جامع قاضي خان " والمحبوبي والتمرتاشي.
(لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے ،لہٰذا احتیاط رکنے میں ہے) مراد یہ ہے کہ اس مسئلہ میں احتیاط واجب ہے، کیونکہ اس میں ابہام ہے، کہ اس اللہ تعالیٰ کی عزت کا تعلق عرش سے قرار پاتا ہے، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، اور اس طرح کے معاملات میں خبر واحد سے حکم لازم نہیں آتا۔ اور جیسا کہ اس پر "جامع قاضی خانً اور المحبوبی اور التمرتاشی میں مذکور ہے۔
م: (ويكره أن يقول في دعائه: بحق فلان، أو بحق أنبيائك ورسلك؛ لأنه لا حق للمخلوق على الخالق) ش: وكذا الحق والمشعر الحرام هذا مما توهم أن على الله حقا للمخلوقين، وإن كانت عادة الناس جرت بذلك.
وفي " الكافي ": ولو قال رجل لغيره بحق الله أو بالله أن تفعل كذا لا يجب على ذلك الغير أن يفعل ذلك شرعا، وإن كان الأولى أن يأتي به.
(اور یہ بات مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعا میں اس طرح کہے کہ بحق فلاں یعنی الہٰی فلاں بزرگ حق سے میری دعا قبول فرما، یا یوں کہے کہ الہٰی بحق انبیاء وبحق رسول میری یہ دعا قبول فرما؛ کیونکہ کسی مخلوق کا خالق پر حق نہیں ہے) اور اسی طرح بحق معشر الحرام ، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ پر مخلوق کے حق پر موہم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجلد 11 صفحه 277 ۔ 281
الكتاب: البناية في شرح الهداية
المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)
الناشر: دار الفكر - بيروت، لبنان
عدد الأجزاء: 12