JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امت کی جانب سے حکیم الامت کے نام پیغام
منجانب :محترم ومکرم علمائے کرام

الحمد لله ربّ العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله صحبه أجمعين، وبعد:

بلاشبہ جہاد فی سبیل اللہ ان امانتوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مکلف کیا کہ وہ اس کو اٹھائیں اور اس کو قائم کریں، اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:

[ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وه بڑا ہی ظالم جاہل ہے ] (۳۳: ۷۲)

اس امانت کودورِ حاضر کے اہل ایمان کی ایک جماعت نے اٹھایا، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے چنا، پس انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اختیار کی،اپنے اہل وعیال اور ہم وطنوں کو چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کو قائم کر لیا، بہت سے جماعتیں مختلف ممالک میں سے اٹھیں اور ارضِ شام کی طرف ہجرت کی اور امت کو اس خیر پر خوشخبری دی، جس سے وہ ارضِ شام میں جمع ہوئے، ابنائے اسلام میں سے بھی کثیر تعداد نے ان کی طرف ہجرت کی، ان صادقین گروہوں کے ساتھ اکٹھے ہوئے تاکہ حملہ آور دشمن کو پچھاڑا جائے اور رب العالمین کی حاکمیت کو شریعت کے نفاذ سے قائم کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے نصرت اور فتوحات کے ذریعے اپنے بندوں کے درمیان مدد فرمائی اور اقوام عالم اس ملک میں پائی جانی والی ان فتوحات کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے، اور یہ جہاد اور مجاہدین کی قبولیت عام تھی حتی کہ جہادِ شام جہادِ امت بن گیا، اور کسی خاص گروہ یا جماعت تک محدود نہ رہا ۔

مجاہدین کی یہ حالت اسطرح باقی رہی یہاں تک کہ میدانِ جہاد میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوا، مجاہدین کے درمیان قتل و غارت شروع ہو گئی، جس کی وجہ منحرف افکار کا ظہور تھا ، جیساکہ اہل غلو کی فکر جس کا بیان وضاحت سے بہت سے اہل علم مثلاً شیخ المقدسی اورشیخ ابو قتادہ وغیرھم نے ظاہر کیا۔

یہ اختلاف اور قتل وغارت جس نے جہادِ امت کو خوفزدہ کیا اور درست سمت سے انحراف کی طرف ڈالا جس کےتنائج کے بارے میں تنبیہ کی گئی،یہ جہاد اور مجاہدین کو مزید ضرر پہنچائے گا اگر یہ معاملہ اسی طرح اختلاف اور خونریزی سے چلتا رہا۔

اس مبارک جہاد سےحرص کے پیش نظر اور اس امانت کو اس ذات باری تعالیٰ کےمبارک چہرے کی طرف ایسے لوٹانے کہ وہ ذات اس سے محبت کرے اور اس سے راضی ہو جائے، ہم اپنے شخ ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ

وہ حالیہ واقعات پر کلام کریں جس سے جہاد اور مجاہدین کی خیر ہو، اور خاص طور اپنے تعلق کی وضاحت شام میں اعلانِ دولت سے قبل اور بعد جماعت ’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق‘ سے کریں، بیعت کے مسئلہ پر وضاحت دیں، اور اس متنازع مسئلہ تحاکم جوفریقین کے درمیان ہے، اس کو واضح کردیں۔

حالیہ واقعات اس چیز کے متحمل نہیں کہ اس میں تاخیر کی جا سکے، جیسا کہ یہ ہر ارضِ شام پر نظر رکھنے والے ہر شخص پر واضح بھی ہے، ہمیں اس بات کی التماس اپنے سےرب کے اس فرمان پر عمل کی وجہ سے ہے:

[جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوه تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے ] (۴: ۸۳)

ہم اپنے شیخ (حفظہ اللہ) سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں تفصیلی بیان سے آگاہی دیں اور اس امر سے متعلق توجیہات کو جاری کریں اور باتوں کو منکشف کریں تاکہ اس نصیحت کے ذریعہ اصلاح ممکن ہو سکے اور حالیہ واقعات پر رہنمائی لی جا سکے۔

اور اللہ آپ کے اس ارادے کا ساتھ دیں!

اولین نام جن سے رابطہ کرنے کی سعی کی جا سکی اور جو اس مراسلے سے موافقت رکھتے ہیں:


  د. طارق عبد الحليم -حفظه الله-
د . هاني السباعي -حفظه الله-
د. إياد قنيبي -حفظه الله-
د. عبد الله المحيسني -حفظه الله-
الشيخ محمد الحصم -حفظه الله-
د.سامي العريدي -حفظه الله-

ہم علماء وطلباء ، مہاجرین وانصار،اور مسلمین کو دعوت دیتے ہیں کہ جو اس مراسلے سے موافقت رکھتا ہے وہ اس میں اپنا نام درج کریں اور اس کو اجتماعی طور پر فارمز اور یگرجگہوں پر نشر کریں، ہم اس کی پیروی کریں گے، اور اس میں موجود ناموں کا اندراج اس میں کر دیں گے، باذن اللہ رب العالمین


اختتام