بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ تکفیرکو علمائے حق کے لیے چھوڑ دیں!
محسنِ امت شیخ اسامہؒ کا مسئلہ تکفیر کے موضوع پر بیان
مسئلہ تکفیرکو علمائے حق کے لیے چھوڑ دیں!
محسنِ امت شیخ اسامہؒ کا مسئلہ تکفیر کے موضوع پر بیان
اہل السنۃ والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جب انسان دین (اسلام)میں یقین کے ساتھ داخل ہوتا ہے، توبعینہٖ یہ دین سے بغیر یقین کے خارج نہیں کیا جا سکتا!مسلمانوں سے متعلق اصل یہ ہے کہ وہ مسلمان ہی ہیں، یہ ہرگزجائز نہیں ہے کہ ان کی تکفیر کی جائے بلکہ یہ تو مذہبِ خوارج کی علامات میں سے ہے، ولا حول ولاوقوۃ الا باللّٰہ (نہیں ہے نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی طاقت مگر اللہ کے اذن سے)۔ حدیثِ صحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب کوئی شخص اپنے بھائی سے کہتا ہے کہ اے کافر!تو یہ (تکفیر)ان میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹتی ہے۔ اگر جس کو اس نے کافر کہا ہے، وہ اگر کافر ہی تھا تو پس وہ تو کافر ہی کہلائے گا، لیکن اگر وہ کافر نہ ہوا، تو یہ تکفیر اسی کی طرف واپس لوٹے گی، جس نے یہ جملہ کہا ہے ‘‘۔
پس مسئلہ (تکفیر)کی اس قدرحساسیت کی بناپریہ معاملہ بہت ہی خطرناک ہے، بہت ہی خطرناک ہے، بہت ہی خطرناک ہے اور خاص طور پر تکفیرِ عام کے معاملہ میں اور بھی خطرناک ہے۔ اس معاملہ میں آپ لوگ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں، ہم اللہ تعالیٰ کی جانب سے جس نصرت کا انتظار کر رہے ہیں، بلاشبہ اُس کا کامل اختیاراللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، اوراُس کے ہمارے لیے حصول کا ذریعہ صبر اور تقویٰ میں مضمر ہے۔
إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا
’’اگر تم صبر و پرہیزگاری اختیار کرو‘‘
اگر آپ صبر کریں اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں تو ان (کفار)کی منصوبہ بندی (مکروفریب)آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچائیں گی۔۔۔لہٰذا میں یہ بات زور دے کر اوربتکرارکہوں گا کہ آپ کی جانب سے مسلمانوں کی تکفیر کرنا بڑے گناہوں میں سے ہے اور ان کبائر میں سے ہے جن کے گناہ کاوبال بہت زیادہ ہوتا ہے۔سو! اپنی زبانوں کو روک لیجیے!ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے، کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو، اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو‘‘۔
پس یہ حکمِ اول جو بیان ہوا ہے، اس پر عمل بیان کردہ آخری نصیحت کو تھامیے بغیر ممکن نہیں!اور وہ کیا ہے؟ وہ ہے جماعت کو لازم پکڑنا۔۔۔مطلب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے متعلق بیان فرمایا : ’’اس کے اندر اسلام کے اصول کو بیان کیا گیا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، تفرقہ نہ کرو، اور پھر تم اان تمام امور سے بخوبی آگہی کے بعد اس متعلق دوسروں بھی نصیحت کرو ‘‘۔لہٰذا آپ لیے یہ نصیحت ہے، یہ نصیحت تمہیں بھی ہے اور تمہارے امراکے لیے بھی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں وارد ہوا:
’’ وہ (اللہ)تمہارے لیے تین چیزوں کو ناپسند فرماتا ہے:قیل و قال، کثرتِ سوال اور اموال کا ضیاع‘‘۔
ان تین چیزوں کی شدید نصیحت کرتا ہوں، پہلے بیان کردہ حدیث میں مذکور احکامات کا تعلق اصولِ اسلام سے ہے، جن کے اوپر دین کھڑا ہوتا ہے۔۔۔مذکورہ بالا حدیث میں واردامورعماد الدین ہیں۔۔۔قیل و قال اور کثرتِ سوال اور مالوں کو ضائع کرنے سے باز رہنا چاہیے۔۔۔
اگر آپ اس خاص معاملہ (تکفیر)سے متعلق جانناچاہیں تو اہل علم سے پوچھیں، جو ضوابطِ تکفیر کاپختہ علم رکھتے ہیں ہیں، پھر اس معاملہ کو ان سے پوچھنے کے بعد آپ اس کو اپنے بھائیوں میں بیان کردیں، تو کوئی حرج نہیں ہے۔جس نے قرآن و سنت کے عین مطابق کسی کی تکفیر تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ اگروہ ان احکامات کی صحیح تطبیق کرنے کی اہلیت سے متصف ہو۔ جہاں تک اس تکفیر کا مسئلہ ہے جو نص سے ثابت ہے جیسا کہ ابوجہل کو کافرسمجھنا،یہ تو دلیل سے ثابت ہے، ابوجہل کوکافرنہ سمجھنے والا کوئی فرد مومن کیونکر ہوسکتا ہے؟۔۔۔
لیکن جہاں تک دیگرمعاملات میں تکفیر کا سوال ہے، جیسا کہ نواقصِ اسلام کا تذکرہ آ جاتا ہے، یہ مسئلہ حساس بھی ہے اور تفصیل طلب بھی۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان کفریہ فعل کاارتکاب کر لے،تو محض کفریہ فعل کا مرتکب ہونے پر اُس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی! جہالت ،اکراہ سمیت دیگر عذرپیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔لہٰذا یہ مسائل تو انتہائی تفصیل طلب ہیں جن کی استطاعت عامی بھائیوں میں نہیں ہوتی ہے، کہ انہیں کما حقہ سیکھ سکیں اور پھر اس میں مہارت حاصل کر سکیں۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ ہم ان معاملات کو عام امور کے زمرے میں ہی گمان کرکے ان پر خوب گفتگو کرتے ہیں! کوئی بھی گروہ جو کہ نواقضِ اسلام کامرتکب پایا جائے،چاہیے کہ اُس کو نصیحت کی جائے، اور اس کو بار بار دہرایا بھی جاتا ہے،اس کے باوجود بھی اگر وہ اپنی ڈگر پرقائم رہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں ، پھر ہم یہ بات کہتے ہیں اس گروہ یا اس نظم نے اللہ کے دین سے ارتداد اختیار کر لیا ہے۔۔۔ اکثر بھائی بہت دفعہ یہ سوال بھی ہم سے کرتے ہیں کہ فلاں نے یہ کیا اور فلاں نے یہ، بعض لوگوں کے حالات اور کیفیات کا ہمیں مکمل ادراک نہیں ہوتااوراُن کے ظاہری افعال کو دیکھ کر فوراًتکفیر کے حکم لگا دینا قطعی غیر مناسب ہے! شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ سے معروف ہے کہ جب انہوں نے اپنے زمانہ میں موجود کچھ حکام کی تکفیر کی، جو کہ اللہ کے قانون کے علاوہ فیصلہ کر رہے تھے۔۔۔بعض لوگ ‘ جو اپنے آپ کو علم نے منسوب کرتے تھے، انہوں نے ان حکام کا دفاع کیا ، تو شیخ ؒ نے ان کی جانب سے ایسے حکام کی دفاع کا رد کیا اور ان کو مسکت جواب دیا۔۔۔ یہ لوگ جو ایسے حکام کی تحسین ،مدح اور دفاع میں مصروف ہیں جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کر رہا‘ایک درجے میں فسق کے مرتکب ہیں لیکن یاد رکھیں کہ فسق اور کفر کے درمیان ایک طویل اورلمبی مسافت ہے۔۔۔لہٰذا اللہ سے ڈریں، اور اس مسئلہ (تکفیر)کو علمائے حق کے لیے چھوڑ دیں!میں اپنے سمیت آپ سب کو کثرتِ ذکر اور دعا اور نعمتوں پر شکرگزاری کا کہوں گا، اور جو نعمت اللہ تعالیٰ نے دی اس پر باربارشکرگزاری کریں تاکہ اللہ پاک ہم سب سے راضی ہو جائیں۔جب بھی آپ زبان سے کوئی بات نکالیں تو اس سے قبل ضرورسوچیں کہ مجھے اس کلام کیا کیا فائدہ ہو گا، اگر آپ اللہ کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کرنا چاہتے ہیں، تو پھر ان مسائل میں جو آپ پر واضح نہیں ہیں، ان میں صرف تقویٰ اختیار کرنے کی ہی نصیحت ہوتی ہے، اور تقویٰ میں سے ہی ہے کہ آپ ان معاملات کی طرف ایسے کامل علم اور واقفیت احوال کے بغیرمت آئیں۔
ولا حول ولا قوۃ الا باللہ
بشکریہ: نوائے افغان جہاد