بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا پہلے سےآزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور) کو دوبارہ آزاد کروانے
کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے؟
شیخ ابو بصیر الطرطوسی
کیا پہلے سےآزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور) کو دوبارہ آزاد کروانے
کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے؟
شیخ ابو بصیر الطرطوسی
سوال:
کیا پہلے سے آزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور[شام کے شہروں کے نام]) کو دوبارہ آزاد کروانے کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے، اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ جن مجموعات نے انہیں آزاد کروایا،وہ بعد میں دیگر صف ِ اول اور ساحلی معرکوں میں نصیریوں ،حزب اللات اور جماعت ابو الفضل وغیرہ کے خلاف قتال میں مصروف ہیں، جہاں تک جماعت الدولۃ کا تعلق ہے ،تو انہوں نے خود کو ان آزاد شدہ علاقوں پر چڑھائی کے لیے مشغول رکھا ہوا ہے، کیا یہ جہاد ہے؟
جواب:
الحمدللہ رب العالمین
پہلے سے آزاد شدہ کرہ زمین کو آزاد کروانا،جبکہ مجاہد، محبوب شامی عوام اور بیش قیمت لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ طاغوت نصیری سلطے اور اس کے نظام سے آزادی کے لیے پیش کیے ہوں،تو یہ معاملات نقصان ،ضرر اور غداری سے تعلق رکھتےہیں، وہ بھی بغدادی اور اس کی دولتِ مذمومہ کے لیے!
مجاہدین صفِ اول میں طاغوت کے خلاف مشغول ہیں، جبکہ بغدادی اور حزبِ بغدادی اپنے مذموم ارادوں کے ساتھ مجاہدین کے علاقوں اور مراکز پر شر اور نقصان لے کر پہنچ رہےہیں، یہ وہ قابلِ حقارت عمل ہے جو سب سے پہلا فتنہ ہے، جس کا تجربہ اہل شام ان غالیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔
جہاد اس وقت تک مقبول جہاد قرار نہیں پاتا جب تک اس میں یہ دو شروط نہ پائی جائیں:
۱)نیت کا درست ہونا
۲)عمل کا درست ہونا
جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے تو وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد ہے، اگر ہمیں اِس(نیت) کا علم نہیں ہوتا،
جہاں تک دوسری شرط کا تعلق ہے جو کہ عمل کے درست ہونے سے متعلق ہے، تو اُن (جماعت الدولۃ) کے درمیان اور اِن (مجاہدین ِ شام) کے درمیان(اعمال کے اعتبار سے) زمین اور آسمان جیسا فاصلہ ہے۔
حدیث میں بیان ہوتا ہے:
[جس نے کسی مومن کو اذیت دی، اس کا کوئی جہاد( قبول) نہیں]
پھران لوگوں کا معاملہ کیسا ہو گا جو اہل شام کے مسلمانوں اور مجاہدین کو اذیت دیتےہیں، اور طاغوت نصیری اور اس کی سپاہ کی تلواروں کے ساتھ ساتھ اپنی تلواروں کو بھی(ان پر حملے کے لیے) جمع کر لیتے ہیں ؟!
عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
21.09.2014
مصدر:
http://altartosi.net/ar/?p=4767