JustPaste.it

دولت خلافت اسلامیہ کے مرکزی ترجمان
شیخ المجاہدابو محمد العدنانی شامی حفظہ اللہ کے بیان کا اردو ترجمہ


بعنوان ||﴿قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ*وا سَتُغْلَبُونَ﴾ ||
بعنوان ||﴿ کافروں سے کہہ دو کہ تم عنقریب مغلوب ہو جاؤ گے﴾ ||




بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمام تعریفیں اللہ طاقتور مضبوط کے لیے ہیں۔ درود وسلام ہو اس ہستی پر جسے تلوار کے ساتھ سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث کیا گیا۔ اما بعد :

اللہ تعالی نے فرمایا:

’’کافروں سے کہہ دیجئے! کہ تم (دنیا میں بھی) عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور (آخرت میں) جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ یقیناً تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو فوجوں میں جن میں مقابلہ ہوا، ایک فوج تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسری فوج کافروں کی تھی وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دوگنا دیکھتے تھے۔ اور اللہ تعالٰی جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے۔ یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔‏‏‘‘ (آل عمران)

اے صلیبیو!
اے شیعو!
اے سیکولرو!
اے مرتدو!
اے یہودیو!
اے تمام کفارو!

مسلمانوں کیخلاف جو اتحاد تم قائم کرسکتے ہو، کرلو۔
اور تم مسلمانوں پر جس قدر ٹوٹ کر جھپٹ سکتے ہو، جھپٹ لو۔
سازشیں کرو، چالیں چلو، اکٹھا کرو اور سب کو یکجا کرلو۔
لیکن آگاہ رہو! پھر بھی تم ہی عنقریب مغلوب کیے جاؤگے اور جہنم میں ہانکتے ہوئے اکٹھا کیے جاؤگے۔

اے صلیبیو! عنقریب تم مغلوب ہوگے۔
اے شیعو! عنقریب تم مغلوب ہوگے۔
اے مرتدو!
عنقریب تم مغلوب ہوگے۔
اور اے یہودیو!
عنقریب تم مغلوب ہوگے۔

(یہی) اللہ کی سنت (ودستور) ان لوگوں میں بھی رہا جو پہلے گزرے۔‘‘ (الاحزاب)


جیسا حال آل فرعون، قوم نوح اور قوم ہود کا ہوا تھا ، تم بھی اس طرح مغلوب کیے جاؤ گے۔
جس طرح کا معاملہ بدر، احزاب اور خیبر میں ہوا تھا تم بھی اسی طرح مغلوب کیے جاؤگے۔
جیسا حال یمامہ اور یرموک میں ہوا۔
جیسا حال قادسیہ، نہاوند، میں ہوا تم ابھی اسی طرح مغلوب کیے جاؤگے۔
جیسا حال حطین اور عین جالوت میں ہوا، اسی طرح تم شکست خوردہ ہوجاؤگے۔
اے تمام کفار! عنقریب تم شکست خوردہ ہوجاؤگے۔
الرقہ، فلوجہ ، موصل ، تدمر اور رمادی میں جوکچھ ہوا وہ تم سے زیادہ دور نہیں ہے۔
اے روس! اللہ کے حکم سے تو مغلوب ہوگا۔
اے امریکہ! عنقریب تو ، تیری فوج اور تیرے اتحادی مغلوب ہونگے اور تجھے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
امریکہ !تو یہ گمان کرتی ہے کہ تو مجاہدین پر کامیاب ہوجائے گی۔
خبردار! امریکہ! تو نامر
اد ہوا اور تیرے اتحادی نامراد ہوئے۔


خبردار ! امریکہ یہ جان لے!
دولت اسلامیہ کے بارے میں تو جو گمان کررہی ہے اور جس طرح کا تو چاہتی ہے، دولت اسلامیہ کا معاملہ ویسا نہیں ہے۔
دولت اسلامیہ کے سچے قائدین اور سپاہیوں نے اللہ کی ناراضگی کے ساتھ کسی کو خوش کرنے سے انکار کردیا۔ ان کو تو بس اللہ کی رضا اور اس کی مغفرت چاہیے۔ اس لیے ہمیشہ وہ اپنے دین کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔ وہ اپنے رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔ وہ صرف اسی تنہا سے مدد مانگتے ہیں، فریاد کرتے ہیں، اس کی پناہ میں آتے ہیں اور وہ اس یکتا پر توکل کرتے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں ۔ ان کو اللہ کی مدد پر پورا یقین اور اپنے لیے اللہ کی تائید پر پورا بھروسہ ہے۔
اسی لیے انہوں نے شخصیات ، مشائخ اور مناظرین کے بتوں کے ساتھ کفر کیا اور مخالفین کی باتوں کو ان کی پرواہ کیے بغیر دیوار پر دے مارا۔
وہ آغوشوں میں بٹھانے والوں کے لیے اپنے دین کی بنیاد پر دستبردار نہیں ہوئے کیونکہ وہ ان کو جھاگ سمجھتے ہیں۔
اسی لیے دولت اسلامیہ ایک واضح راستے اور سفید سیدھی شاہراہ پر چل رہی ہے۔ ایک ایسے راستے پر جسے دولت اسلامیہ کے قائدین نے اپنے جسموں کے ٹکڑوں اور چیتھڑوں سے تعمیر کیا ہے اور اسے اپنے خونوں سے روشن کیا ہے۔ سو اللہ کے حکم سے ان کے بعد آنے والے کبھی گمراہ نہیں ہونگے۔
جو کوئی بھی دولت کی صفوں میں شمولیت اختیار کرے گا تو اسے یہ نور اپنی طرف کھینچے گا اور اسے وہ پختہ منہج ثابت قدمی عطا کرے گا جو دولت کے قائدین کا منہج تھا اور جسے دولت کے سپاہیوں نے اپنے سینوں میں اٹھایا۔ یہاں تک کہ اب یہ منہج حفاظتی بیلٹ بن چکا ہے۔ پس جو کوئی اس منہج کے بغیر قیادت میں آیا تو دولت کے سپاہی اسے تسلیم کرنے سے انکار کردینگے ، اس کے اردگرد سے ہٹ کر اسے چھوڑدینگے اور اسے بدل ڈالینگے، خواہ وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔

خبردار! امریکہ جان لے!
آج دولت اسلامیہ کا پرچم کو ایک مکمل پوری نئی نسل اٹھائے ہوئے ہیں اور عنقریب اللہ کے حکم سے اس نسل کے بعد کئی نسلیں اس کے پیچھے آئے گی۔
پس امریکہ تیرے لیے اس کی خوشخبری ہے جو تجھے برا لگتا ہے۔
یقینا آج دولت اسلامیہ اللہ کے فضل سے دوسرے دنوں کی نسبت زیادہ طاقتور ہے اور وہ اب تک ایک قوت سے دوسری قوت تک میں بڑھتی چلی جارہی ہے۔ الحمدللہ
امریکہ اور اس کے اتحادی اللہ کے فضل سے تمام دنوں کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہوچکے ہیں اور وہ سب اللہ کے فضل سے ایک کمزوری سے دوسری کمزوری تک منتقل ہوتے چلے جارہے ہیں۔

آج امریکہ کمزور ہے بلکہ عاجز آچکا ہے۔ امریکہ اپنی کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے دولت اسلامیہ کیخلاف جنگ کے لیے آسٹریلیا سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے، ترکی کی منتیں کررہا ہے، روس سے فریاد کرتے ہوئے مدد مانگ رہا ہے، ایران کو راضی کرنے میں لگا ہوا ہے اور اپنے منہ سے امریکہ ببانگ دہل یہ کہہ رہا ہے کہ
وہ شیطان کے ساتھ بھی اتحاد قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔

خبردار!امریکہ سن لے اور اچھی طرح سمجھ لے!
مجاہدین کیخلاف تیری جنگ کا جو دن بھی گزرتا ہے ، اس میں ہم طاقتور ہوتے اور تو کمزور ہوتا چلا جارہا ہے۔
آج معرکہ اللہ کے فضل سے اسی طرح رواں دواں ہے جس طرح ہم نے اس کی منصوبہ بندی کی تھی؛
بلاشبہ ہم نے ہی تجھے خراسان اور عراق میں دو جنگوں میں گھسیٹ کر لائے ، جہاں تجھے ویتنام کی ہولناکیاں بھول گئی۔
یہ تیسری جنگ ہے جو شام میں پھیلنے جارہی ہے اور اس میں تیرا خاتمہ ہوگا، تیری تباہی اور تو اللہ کے حکم سے زوال پذیر ہوجائے گا۔
اگر تو اپنے نقصانات کم کرانا چاہتا ہے تو تجھ پر لازم ہے کہ تو ہمیں جزیہ دے اور اپنے آپ کو سر نڈر کردے۔
بیوقوف خچراوباما نے یہ سمجھا کہ اس کے بس میں ہے کہ وہ فضا سے اس معرکے کو اپنے نمائندوں، ایجنٹوں اور غلام صحوات کے ذریعے ختم کرسکتا ہے۔
اس طرح اس نے جنگ کو اسی طرح طول دیا اور معرکہ کو لیٹ کردیا جیساکہ ہم چاہتے تھے۔
حالانکہ بیوقوف کو چاہیے تھا کہ وہ جلدی کرے اور حل کی تدبیروں میں اپنا وقت ضائع مت کرے۔
بیوقوف نے زمینی طور پر آنے کو سب سے آخری تدبیر (آپشن) میں رکھا ہے، حالانکہ وہ ناکام ہے اور اس کے پاس کوئی حل کی تدبیریں نہیں ہیں۔
امریکہ عنقریب تو نیچے اترے گا اور تو زمینی طور پر جلد ہی آئے گا۔
اس طرح بلاشبہ تیری تباہی، بربادی اور تیرا خاتمہ ہوگا۔

اوبامہ تیری مثال شیعوں کے بیوقوف نوری کی مثال کی طرح باقی رہے گی۔
عنقریب تجھ پر اوباما! امریکہ لعنت بھیجتا رہے گا جب تک وہ خود باقی رہے گا۔

ہاں امریکہ؛
عنقریب تجھے دھچکا لگے گا۔ دولت اسلامیہ کے بارے میں جو تو سمجھتا ہے اور جو تو چاہتا ہے، آج دولت اسلامیہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

ہاں امریکہ؛
عنقریب تو شکست خوردہ ہوگی اور مغلوب ہوکر رہ جائے گی۔ تو بربادی کو چکھے گی۔ بیجی، الانبار، تدمر اور الخیر اس کی بہترین دلیل ہے۔
امریکہ نے اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو بیجی لینے اور اس کے آئل ریفائنریوں کی حفاظت کرنے میں لگادی ۔ لیکن آج آٹھ ماہ کے شدید معرکے بعد امریکہ بیجی میں شکست خوردہ ہوا اور وہاں سے ذلیل ورسوا ہوکر نکال باہر کردیا گیا۔
امریکہ نے دس سے زائد مرتبہ بیجی پر اپنا کنٹرول قائم ہونے کے جھوٹے اعلانات غرور میں کیے۔

بلاشبہ امریکہ بیجی کو حاصل کرنے میں اپنی ناک خاک آلود ہونے کے باوجود بری طرح ناکام رہا۔ بیجی آئل ریفائنری کی حفاظت کرنے سے امریکہ عاجز آگیا اور ہم نے اللہ کے فضل سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے نہ چاہتے ہوئے بیجی کو زبردستی چھین کر اس پر اپنا کنٹرول قائم کیا۔
امریکہ یہ دعویں کرنے میں لگا رہا کہ دولت اسلامیہ کمزور ہوچکی ہے، دفاعی حالت میں آگئی ہے،پیش قدمی کرنے سے عاجز آچکی ہے اور وہ پسپا ہوکر پیچھے ہٹ رہی ہے۔
ایسے میں اللہ تعالی نے ہم پر انعام فرماتے ہوئے ہمیں رمادی (شہر) بھی دیدیا اور ہم نے رمادی کو امریکہ سے زبردستی چھین کرحاصل کر لیا۔
پھر ہم نے سخنہ، تدمر اور القریتین (شہروں) تک پیش قدمی کرتے ہوئے ان کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اس طرح امریکہ کا جھوٹ یقین کی آنکھ سے عیاں ہوگیا اور امریکہ کی ناقابل شکست شہنشاہیت ملیامیٹ ہوکر رہ گئی جبکہ امریکہ کی عاجزی اور کمزور پن نمایاں ہوگیا۔
آج امریکہ مجاہدین پر جو سب سے بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے وہ یہ ہوتی ہے:
مجاہدین کو یہاں کسی محلے یا وہاں کسی گاؤں سے نکال باہر کرنا یا مسلمانوں کے کسی ایک فرد کو مارنا۔
امریکہ شیخ ابو معتز القریشی رحمہ اللہ کو قتل (شہید) کرنے پر خوش ہوا اور اسے اپنی بہت بڑی کامیابی تصور کرنے لگا۔

اے ابو المعتز !اللہ آپ پر رحم فرمائے!؛
آپ تو مسلمانوں کے ایک فرد تھے؟!
ہم نے ان کی تعزیت نہیں کی ہے اور میں ہرگز ان کی تعزیت نہیں کروں گا؛
ہرگز تعزیت نہیں کروں گا کیونکہ ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ مرے نہیں ہے؛
بلاشبہ آپ نے نوجوانوں کو تربیت دی اور اپنے پیچھے ایسے بہادروں کو چھوڑ کر گئے، جن کے ہاتھوں اللہ کے حکم سے امریکہ ان تکلیفوں کا انتظار کررہا ہے جو اسے بری لگتی ہیں۔
میں ہرگز ان کی تعزیت نہیں کروں گا کیونکہ انہوں نے وہ (شہادت) پالی جس کے وہ خواہشمند تھے۔
آپ رحمہ اللہ اس حال میں قتل ہوئے کہ اس دنیا میں آپ کی صرف ایک ہی خواہش تھی کہ آپ (اللہ کی راہ) میں بغیر کسی تبدیلی وتغیر کے قتل ہوجائے۔ آخری دنوں میں آپ اس (شہادت) کی دعائیں کثرت سے کرنے لگے تھے۔ بلکہ آپ کے اردگرد جو (بھائی) موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ آپ نے محتاط رہنا اس قدر چھوڑدیا تھا کہ گویا کہ آپ اپنی موت دیکھ رہے ہو۔
آپ رحمہ اللہ قتل (شہادت) ہونے کی تمنا اور اسے پانے کی دعا اللہ تعالی سے کسی مایوسی یا اکتاہٹ یا پریشانی یا کمزوری یا بدحالی کی وجہ سے نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے رب سے ملاقات کا شوق ورغبت اور اپنے سے پہلے اس راہ (جہاد وشہادت) پر سبقت لیجانے والوں (سے ملنے ) کے مشتاق ہونے کی وجہ سے کیا کرتے تھے۔
میں آپ کی تعزیت نہیں کروں گا کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی آپ کے قتل(شہید) ہونے پر خوش ہوئے جبکہ امریکہ کے ایجنٹوں اور کتوں نے غرور سے اپنا سراونچا کیا۔ وہ سب خوش ہوئے اور انہوں نے اپنا سر مسلمانوں کے ایک ایسے فرد کو قتل (شہید) کرکے اونچا کیا جس کی اس دنیا میں صرف ایک ہی دلی خواہش تھی کہ وہ اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے۔

ابو معتز رحمہ اللہ نے اپنی سفید داڑھی کو پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا تھا :
"اللہ کی قسم ! تو خون سے رنگین ہوگی، اور اللہ کی قسم ! تو خون سے رنگین ہوگی"۔
اللہ تعالی نے آپ کی سن لی اور آپ کی قسم کو پورا کرڈالا۔ میں نے (شہادت کے بعد) آپ کی داڑھی کو خون سے رنگین ہوئے دیکھا ہے، تو بس پھر میں کس چیز پر تعزیت کروں؟
میں ہرگز اظہار غم نہیں کروں گا۔

اگر آنکھیں پیارے ابو المعتز باللہ کی جدائی کے غم سے نم ہوگئی ہیں
توبلاشبہ دل تو صدموں کا عادی ہوچکا ہے اور اسے کسی غم کی اب کوئی پرواہ نہیں ہے۔

(اشعار)
دل کو صدمے پہنچتے رہے یہاں تک کہ *
میرا دل (صدموں کے )تیروں سے بھر کر ڈھک گیا

پھر میں ایسا ہوگیا کہ جب مجھے تیر لگتا تو *
وہ (پرانے) تیروں پر ہی ٹوٹ جاتا

ہلکا ہوگیا ہوں میں اس قدر کہ اب صدموں (کی درد) کچھ بھی نہیں رہی *
کیونکہ اب پرواہ نہیں کرتا ہوں میں تیروں کی


ابو المعتز باللہ ! میں آپ کی تعزیت نہیں کروں گا بلکہ میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوکہ وہ آپ کو زندہ شہداء میں قبول فرمائے، آپ کو فردوس اعلی میں صدیقوں اور انبیاء کے ساتھ جگہ دے،
آپ کے بعد ہمیں آپ کے راستے پر ثابت قدم رکھے اور ہمارا اچھا خاتمہ فرمائے اور آپ نے جو کچھ چکھا ہے ہمیں اس سے زیادہ سخت کو چکھائے۔

امریکہ خوش مت ہو؛
تو ضرور بالضرور اپنی فورسز کو اکٹھا کرتا رہے گا اور اپنے صلیبی اتحادیوں کو جمع کرتا رہے گا یہاں تک کہ بالآخر تم دابق میں اترآؤ گے جہاں اللہ کے حکم سے تمہارے ٹکڑے ہونگے اور تم شکست خوردہ ہوکر مغلوب ہوجاؤگے۔

’’بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے۔‘‘(آل عمران)


ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک روم (شام کے) اعماق یا دابق میں نہ اترجائے۔ پس مدینہ سے ان کی طرف ایک لشکر نکلے گا، جو روئے زمین کے سب سے بہترین لوگوں پر مشتمل ہوگا، پس جب یہ دونوں آمنے سامنے صف بندی کرلینگے تو روم کہے گا: ’’ہمیں اوران لوگوں کو لڑنے کے لیے تنہا چھوڑدو جو ہماری صفوں سے تمہارے ہاتھوں قیدی بنے (اور اسلام قبول کرکے تم سے جاملے ہیں)، مسلمان جواب دینگے۔ نہیں! اللہ کی قسم ہم تمہارے اور اپنے بھائیوں(کو تنہا چھوڑ کر ان) کے درمیان میں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ پھر وہ لڑینگے۔ پھر (مسلمانوں کے لشکر کا) ایک تہائی شکست خوردہ ہوکر بھاگ جائے گا جنہیں اللہ تعالی کبھی معاف نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید ہوجائے گا اور وہ اللہ کے پاس سب سے بہترین شہداء ہونگے ، اور تیسرا تہائی فتح پائے گا ، جو کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہونگے اور پھر وہ قسطنطینیہ کو فتح کرینگے۔‘‘


ہاں ! یہ اللہ کا وعدہ ہے؛
اے صلیبیو! عنقریب تم ضرور آؤں گے اور بلاشبہ ہم تمہارا انتظار کررہے ہیں۔


باقی تم اے ارتداد اور ایجنٹ گری کے گروپو!
اے دنیا بھر میں موجود ذلت کی تنظیمو! اے گھٹیا رذیلو!

کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تم اپنے سے پہلے عراق میں ان تمام برسوں میں موجود گروپوں سے عبرت پکڑو؟
یا تم کو جو اسباق شام میں ملے ہیں، ان سے تم نے استفادہ نہیں کیا ہے؟

خبردار! اے تمام محاذوں، تحریکوں اور تنظیموں سن لو!
اے بریگیڈوں، گروپوں، لشکروں، جماعتوں اور اتحادوں سن لو!
اے پارٹیوں اور گروپوں سن لو!
اے برادریوں اور قبائل سن لو!
اے تمام لوگوں سن لو اور اچھی طرح ذہن نشین کرلو!

یقینا اسلام بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکے گا۔ اہل اسلام کسی ایک روز بھی پست حوصلہ نہیں تھے۔
بلاشبہ ہمیں ہمارے رب نے یہ سکھایا ہے کہ بیشک تمام قوت اللہ کے لیے ہے، بیشک ساری عزت اللہ کے لیے ہے، بیشک مومنین ہی غالب رہینگے اور بیشک کافرلوگ ہی ذلیل ہونگے۔
ہمارے تعلقات اللہ کے ساتھ ہیں اور ہم اللہ کے حکم سے ہی چل رہے ہیں۔ ہم کوئی ایک قدم بھی اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کی دلیل روشن کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔
ہمارے بارے میں تم جو چاہو کہتے رہو ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔

(شعر)میں ڈوبنے والا ہوں تو گیلا ہونے سے مجھے کیا ڈرلگے۔

تم تحریف اور ردوبدل کرو، بدنام کرو، طعنہ زنی کرو، بھڑکاؤ، جھوٹ بولو اور بہتان گھڑو۔
ہرگز تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا اور تم اللہ کے حکم سے نامراد ہوگے۔ہمیں یہ معمولی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچاسکے گا اور عنقریب اللہ تعالی ہمیں اس سے چھٹکارا دیدے گا۔
ہم چلتے رہینگے، ہرگز پیچھے نہیں پلٹیں گے اور ہرگز پرواہ نہیں کرینگے۔ تم سے جو ہوتا ہے اور جو تم کرنا چاہتے ہو کرلو۔
تم اتحاد قائم کرو، ٹوٹ کر جھپٹ پڑو، سازشوں کرو، چالیں چلو، افواج تشکیل دو اور لشکروں کو اکٹھا کرو۔
ہرگز تم کامیاب نہیں ہوگے اور نہ ہی تم غالب آسکوگے بلکہ تم شکست خوردہ ہوگے اور اللہ کے حکم سے مغلوب ہوکر رہ جاؤ گے۔
ہمیں نہیں ڈراسکتے ہو اور ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ ہم چلتے رہینگے ۔ ہم نہ روکیں گے اور نہ ہی پرواہ کرینگے۔



میں گروپوں ، جماعتوں، پارٹیوں، گروہوں اور تنظیموں کے سربراہان اور قائدین سے کہتا ہوں

جو خلافت کیخلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ خلافت کو واپس لانے کے لیے سرگرم ہیں۔

ان سب سے اور ان کے ہم خیالوں سے کہتا ہوں:
ہم اللہ کے حکم سے اپنی اس راہ پر چلتے رہینگے اور یہ بلاشبہ خلافت ہی ہے۔

اگر یہ تم کو پسند ہو؛
تو تم توبہ کرو، واپس پلٹ آؤ، اس کی کشتی میں سوار ہوجاؤ اور اس کی مدد کرو کیونکہ کچھ شک نہیں ہے کہ یہ خلافت ہی ہے۔
ہم نے اسے تلوار کی دھار پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خاک آلود کرتے ہوئے زمین کے طواغیت اور ان کے حکمرانوں کو مغلوب کرکے قائم کیا ہے۔
بلاشبہ ہم اپنے رب کے حکم سے رواں دواں رہینگے اور اس کی عمارت کو بلند کرکے اس کی کھوئی ہوئی عزت کو واپس لائینگے۔

اور اگر یہ تم کو پسند نہ ہو؛
توپھر بھی ہم چلتے رہینگے اور جو چاہیں گے اپنے رب کی شریعت کے مطابق کرتے رہینگے۔
اگر تمہارے مناظرین کے فتاوی ہمیں روکنے سے عاجز آجائے، اور تمہارے بیوقوفوں، یعنی تمہارے حکیموں کے ارشادات ہمیں پیچھے دھکیلنے اور روکنے میں ناکام ہوجائے؛
تو تم سیکورٹی کونسل یا اقوام متحدہ کی طرف رجوع کرکے اس کا سہارا لے لینا ، شاید کہ وہ تمہارے لیے ہمیں روکنے یا منع کرنے کی کوئی قرارداد پاس کردے۔
یا تم چاہو تو صلیبیوں کے ساتھ اتحادقائم کرلو یا طاغوتوں میں سے کسی سے بھی یا شیعی رافضیوں سے یا نصیریوں سے یا شیطانوں سے فریاد کرکے مدد مانگ لو،
شاید کہ وہ تم کو فضائی کوروسپورٹ یا زمینی مدد بھجوادے۔

اور اگر یہ تم کو پسند نہ ہو؛
تو پہاڑ پر جاکر ٹکر مارو یا اسے منہدم کردو
یا تم سمندر میں جاکر کھیتی باڑی کرو یا اگر چاہو تو اس کو پورا پی جاؤ۔
اگر یہ پسند نہ آئے تم کو اے بدبختو؛
تو تم زمین میں کوئی سرنگ تلاش کرو یا آسمان پر چڑھنے کے لیے کوئی سیڑھی
اور اگر یہ تم کو پسند نہ ہو؛
تو تم (انگلیاں چباکر اور دانت پیستے ہوئے) غیظ کے مارے مرتے رہو، تم اپنے غصے میں ہی مرجاؤ!
ہم جو چاہیں گے اسے جس وقت میں چاہیں گے کرینگے۔
ہمارے پاس کتاب وسنت کے بعد کوئی ریڈ لائنز نہیں ہیں۔ ہمارے قدموں تلے اقوام کے قوانین ہیں۔
ہاں؛ ہمیں عرب وعجم کی افواج ہرگز خوفزدہ نہیں کرسکتی ہیں۔
ہم ہر اس کی تکفیر کرینگے جس کی تکفیر اللہ کی شریعت نے کی ہوگی، اور ہم اللہ کے حکم سے چلتے رہینگے ۔
اور ہم بارود سے اڑانے ، بم دھماکہ کرنے، تخریب کاری کرنے اور تباہ وبرباد کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
خواہ الزام تراشی کرنے والے اور بیوقوف لوگ ــ جو اپنے آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے علماء وحکیم کہلواتے ہیں ــہمارے بارے میں کتنے ہی جھوٹ باندھیں۔
وہ جس چیز کی تکذیب کرنا چاہے تکذیب کریں اور جتنی مرضی جھوٹی تہمتیں لگانا چاہے جھوٹی تہمتیں لگالیں۔

(اشعار)
دیتے رہینگے ہم توحید کی دعوت سارے زندگی *
ہر لمحے، پس پردہ اور اعلانیہ

لڑتے رہینگے ہم خبیث شرک اور اہل شرک سے *
گھمسان کی جنگ، زبان سے بھی اور ہاتھ سے بھی

اسی طرح تمام خبیث بدعتوں کا *
ہم مسجد کے دروازے کے باہر بھی خاتمہ کرتے رہینگے

یہ ہمارا مسلک ہے اور یہ ہمارا منہج ہے *
تو پھر تم کیوں ہماری گھات میں ہو ۔


بلاشبہ ہم سے ہمارے بہت سے بھائیوں نے مطالبہ کیا کہ ہم ان سلسلوں اور قسطوں کا رد کریں جنہوں نے آفاقِ عالم کو جھوٹ اور من گھڑت بہتانوں سے بھردیا ہے۔
پس ہم اللہ تعالی سے مدد مانگ کر نرمی برتتے ہوئے کہتے ہیں :

(اشعار)
بیشک بوڑھے (شیخ) کی بیوقوفی کے بعد کوئی دانشمندی نہیں ہے * بیشک نوجوان بیوقوفی کے بعد دانشمندہوسکتا ہے۔
بیوقوف سے چپ رہا تو اس نے سمجھ لیا کہ میں * جواب دینے سے قاصر ہوں لیکن میں قاصر نہیں ہو۔


کیا جو مردے (میت) کی بیعت کرے اور امت کو بھی مردے کی بیعت کرنے کی طرف بلائے،اس کا بھی کوئی رد کیا جاتا ہے۔


ہم عنقریب جماعتوں کے ٹکڑے کردینگے اور تنظیموں کی صفوں کو چیر پھاڑدیں گے۔
ہاں! اس وجہ سے کہ ایک (امت کی) جماعت کے ساتھ جماعتیں نہیں ہوتی ہیں۔ پس تنظیموں کے لیے ہلاکت وبربادی ہو۔
ہم عنقریب تحریکوں ، اتحادوں اور محاذوں سے قتال کرینگے۔
ہم بریگیڈز، دستوں اور افواج کو تہس نہس کرتے رہینگے یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے تنظیموں کا خاتمہ کردیں۔
سو مسلمانوں کو کمزور بنانے اور کامیابی کے لیٹ ہونے کی وجہ صرف یہ تنظیمیں ہیں۔
ہاں! ہم آزاد شدہ کو دوبارہ آزاد کرینگے، کیونکہ اگر وہاں اللہ کی شریعت کی حکمرانی قائم نہیں تھی تو پھر وہ آزاد شدہ ہے ہی نہیں۔
پس اے مسلمانوں اپنی سمجھ بوجھ کی طرف واپس پلٹ آؤ!
تم اپنی عقل ورشد کی طرف واپس آجاؤ بلاشبہ یہ خلافت ہی ہے۔
بیشک یہ تمہاری عزت ہے۔ تحقیق یہ تمہاری کامیابی ہے، یقینا یہ تمہاری عظمت ہے۔



باقی تنظیموں کے سپاہیوں سے ہم کہتے ہیں :
آپ نے اپنے قائدین وامراء کے لیے ہمارا پیغام سن لیا ہے، پس میں جو کہنے جارہا ہو اسے غور سے سنو اور سمجھو۔
بلاشبہ ہم اللہ کے حکم سے تمہاری طرف آرہے ہیں۔ یقینا ہم اللہ کی قسم آپ لوگوں پر رحم دل ہیں۔
پس ہم سے چند جملے لے لوں اور ان پر غور کرو۔ اگر تم کو حق نہ لگے تو ان کو چھوڑدینا۔
ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے ہر کسی کی نیتیں مختلف ہیں اور تم میں سے ہر کسی کے حالات ومقاصد مختلف ہیں۔
تم میں سے کچھ ہم سے ہمارے دین کی وجہ سے لڑرہے ہیں اور ان کو دولت اسلامیہ (اسلامی مملکت وریاست) نہیں چاہیے۔ وہ اللہ کی شریعت سے نفرت، طواغیت کی مدد کرنے اور وضعی قوانین (جمہوریت) پر رضامند ہیں۔ اس قسم کے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ الحمدللہ
تم میں سے اکثر ہم سے لڑرہے ہیں اس حال میں کہ وہ اللہ کی شریعت کی حکمرانی چاہتے ہیں لیکن وہ گمراہ ہوچکے ہیں اور ان کو ابھی تک ہدایت نصیب نہیں ہوئی ہے۔
تم میں سے کچھ ہم سے اس لیے لڑرہے ہیں کہ وہ ہمیں چڑھائی کرنے والا جارح دشمن خیال کرتے ہیں۔
کچھ اس لیے لڑرہے ہیں کہ ان کو دنیا کا تھوڑا سازوسامان یا تنخواہ چاہیے جو تنظیموں سے ملتی ہے۔
تم میں سے کچھ عصبیت یا دلیری یا اس کے علاوہ دیگر نیتوں اور فاسد اشیاء کی لیے لڑرہے ہیں۔

پس جان لو ! ہم ان تمام قسم کے لوگوں اور مقاصد میں کوئی فرق نہیں کرتے ہیں ؛
اور ان سب کا حکم گرفت میں آنے کے بعد ہمارے پاس صرف ایک ہی ہے:
سر کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے والی ایک گولی یا گردن کو کاٹ دینے والی چھری ۔

خبردار ! اے ہم سے ہمارے دین کی وجہ سے لڑنے والو!
اللہ کی قسم ہے کہ تم ہی مغلوب ہو۔ اگر تم سلامتی چاہتے ہو تو بھاگ جاؤ اور اپنی چمڑی کے ساتھ راہ فرار اختیار کرلو یا ہماری گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کرلو۔

اور اے ہم سے جارحیت کو روکنے کی خاطر لڑنے والو!
ہم سے رک جاؤ۔ ہم (جہاد کے لیے) اس لیے نہیں نکلے ہیں کہ ہم اپنی جانیں کسی فانی سامان یا اموال کی خاطر قربان کریں۔ تم اپنی جان کو سکون دو اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا رکھو۔ اللہ کی قسم ہم تمہارے مال یا تمہارے سازوسامان کو پانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔

اور اے ہم سے اس حال میں لڑنے والو جبکہ تمہارا مقصد اللہ کی شریعت کی حکمرانی قائم کرنا ہے!
کیا تم کو ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ ہم اللہ کی شریعت کے ساتھ حکمرانی کرتے ہیں؟!
کیا تم اسلام کو ہر اس بالشت میں بلند ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہے ہو جسے دولت اسلامیہ فتح کرتی ہے اور وہاں دین کو نافذ کیا جاتا ہے؟!
پس جان لو! تم مجاہدین سے لڑ کر اللہ کی شریعت کے دشمنوں اور مخالفین میں سے ہوچکے ہو۔
اگر تم کو علم کے گدھے اور اس کے خچروں نے دھوکے میں مبتلا کررکھا ہے ۔ تو میں تم کو ایک ایسی چیز کی طرف راہنمائی کرتا ہوں کہ جس پر تم نے غیر جانبدارانہ غور کیا تو تمہیں اس کے ذریعے سے حق کی پہچان ہوجائے گی:
پس تم ان لوگوں پر غور کرو جو ہر روز اپنی تنظیموں کو چھوڑ کرخلافت کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں؛
تو تم کو پتہ چل جائے گا کہ وہ بہترین میں سے بہترین اور قوم کے مایہ ناز ہیں۔ پس تم خصوصی طور پر ان لوگوں پر غور کرو جو تمہاری تنظیم چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
پھر اپنے نفس سے سوال کرو:
کس وجہ سے تنظیموں کے اچھے سے اچھے لوگ دولت اسلامیہ کی کشتی میں سوار ہورہے ہیں؟
اگر تمہارا جواب وہی رائے ہو جو اپنے آپ کو مناظر اور بڑے عالم دین سمجھنے والوں کی ہے کہ وہ سب گمراہ ہوچکے ہیں۔ تو پس تم اپنے نفس کو اور ان سب سے کہہ دو:
ہرگز نہیں ! اللہ کی قسم اگر یہ گروپ اور تنظیمیں حق پر ہوتی تو ان میں تفرقہ نہیں ڈالے رکھتی اور پھر دولت ان کو گمراہی پر کبھی اکٹھا نہیں کرپاتی۔ نہیں یہ سب تو صرف حق ہی پر اکھٹے ہوئے ہیں۔
ہرگز نہیں ! اللہ کی قسم اگر وہ (تنظیموں والے) مجاہدین ہوتے تو کبھی حق میں تفرقہ نہیں ڈالتے اور گمراہی پر اکٹھے نہیں ہوتے کیونکہ مجاہدین کبھی گمراہی پر اکٹھے نہیں ہوتے ہیں۔

اس چیز پر آپ غور کریں اور اپنے آپ سے یہ سوال کریں :
اگر دولت باطل پر ہے تو اس کے الٹ معاملہ کیوں نہیں ہوتا؟
کیوں بہترین واچھے لوگ دولت کو چھوڑ کر تنظیموں میں شامل نہیں ہورہے؟
اس کا جواب آپ کو ابو سفیان کی ہرقل سے ہونے والی گفتگو میں مل جائے گا۔
تم تنظیموں والوں کا ہمارے خلاف جنگ لڑنے کے بعد صرف حلب کی تنظیموں میں سے ہزاروں افراد ہم سے جاملے ہیں۔
تم اپنی تسلی اور دل سے شک کو مکمل طور پر نکال باہر کرنے کے لیے رابطہ کرو۔
رابطہ کرو ان لوگوں سے جو تمہاری تنظیموں میں سے تھے اور وہ جاکر دولت میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، ان سے دولت کی حقیقت کے بارے میں پوچھو؟
دولت پر اس کے مخالفین اور اس کے دشمن جو الزامات لگاتے ہیں ، وہ حقیقت میں کہاں ہیں؟

سو اے اللہ کی شریعت کی حکمرانی کے لیے لڑنے والو!
اگر تم سچے ہو تو جماعت میں شامل ہوجاؤ اور تنظیموں کو چھوڑ دو۔
یہ تنظیمیں مجاہدین کی کامیابی اور مسلمانوں کی عزت کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹی دیوار بن چکی ہیں، اور اللہ کے حکم سے ہم ان کا صفایا کرکے رہینگے۔
اے تنظیموں کے فوجیو!
تم جہاں کہی بھی ہو ہم اللہ کے حکم سے آرہے ہیں ، خواہ کچھ عرصہ گزر بھی جائے۔
ہم تم سے بس یہ چاہتے ہیں کہ تم مجاہدین کے سامنے رکاوٹ بن کر مت کھڑے ہو۔
پس جو توبہ کرتے ہوئے اپنا ہتھیار پھینک دے تو اس کے لیے امان ہے۔
جو کوئی توبہ کرکے مسجد میں بیٹھ گیا تو اس کے لیے امان ہے۔
جس کسی نے اپنے گھر میں داخل ہوکر اپنا گھر توبہ کرتے ہوئے بند کرلیا تو اس کے لیے امان ہے۔
پس تنظیموں اور گروپوں میں سے جس کسی نے توبہ کرتے ہوئے ہم سے جنگ کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی تو اس کے لیے امان ہے۔
پس ان سب کی جانیں اور اموال محفوظ ہیں ، خواہ ماضی میں مجاہدین کیخلاف ان کی دشمنی کتنی ہی کیوں نہ تھی اور خواہ انہوں نے کتنے ہی جرائم کا ارتکاب ہی کیوں نہ کررکھا تھا۔
اے اللہ!
ہم (ان پر حجت قائم کرکے) بریٔ الذمہ ہوگئے ہیں۔
اے اللہ! پس آپ گواہ رہنا۔




اے مسلمانو!
اب وقت آگیا ہے کہ تم جان لو کہ تمہاری نجات صرف خلافت میں ہی ہے۔
تمہارے ملکوں کے حکمران یہودیوں اور صلیبیوں کے پیروکار اور غلام ہیں؛
وہ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو ان کے حکم سے کرتے ہیں، اور وہ کوئی بھی راستہ اختیار کرتے ہیں تو وہ ان ہی کے راستوں میں سے ہوتا ہے۔
اگر تم اس حقیقت کا ادراک عراق اور افغانستان کی گزشتہ جنگ سے نہیں کرسکے ہو
تو یہ تمہارے سامنے شام کا میدان ہے جو سب کچھ کھول کر بیان کررہا ہے۔
اے مسلمانو! تمہاری کمزوری اور ذلت کی وجہ
بلاشبہ خلافت کا سقوط ہونا ہے جس کے بعد تم بکھر کر رہ گئے تھے۔
ہاں اے مسلمانو!
خلافت کا سقوط ہی تمہاری بیماری کا سبب ہے اور خلافت کے واپس آنے میں تمہاری شفاء ہے۔
پس خلافت کے اردگرد اکھٹے ہوجاؤ ، اللہ کے بعد اس کی پناہ میں آجاؤ اور گروپوں، جماعتوں اور تنظیموں کو اکھاڑ پھینکو۔
اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری دوائی ہوگی اور اگر تم نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو یہ تمہاری بیماری ہوگی۔

اے مسلمانو!
اگر تم کو امن چاہیے تو تمہارے لیے کہی پر بھی کوئی امن نہیں ہے سوائے دولت اسلامیہ کے سائے تلے کے،
جو تمہارا دفاع کرتی ہے، تم پر حملہ آور ہونے والے کو روک کر دور کرتی ہے، تمہاری حرمتوں کی حفاظت کرتی ہے اور تمہارے اموال اور تمہاری عزتوں کو محفوظ بناتی ہیں۔


اے مسلمانو!
اگر تم کو اللہ کی شریعت چاہیے تو اللہ کی شریعت صرف دولت اسلامیہ کے سائے تلے ہی قائم ہوسکتی ہے۔
اللہ کی شریعت کا نفاذ صرف لوہے اور آگ ، گھونپنے و مارنے اور کفار سے صبح وشام اور دن ورات مقابلہ کرکے ہی ہوسکتا ہے۔
اللہ کی شریعت صرف مخلص سچے موحد مجاہدین کے جسموں کے ٹکڑوں، چیتھڑوں اور خونوں پر ہی قائم ہوسکتی ہے۔


بیوقوف، خبطی، پرلے درجہ کا جاہل اور احمق ہے
وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ جنگ مظلوموں کی مدد کے لیے یا کمزوروں کا دفاع کرنے کے لیے یا بدحال لوگوں کی مدد کرنے کی خاطر لڑرہے ہیں، اور ان کی یہ جنگ اسلام ومسلمانوں کیخلاف نہیں ہے۔

بیوقوف، خبطی، پرلے درجہ کا جاہل اور احمق ہے
وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کی شریعت کا قیام امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے معاہدے کرنے یا کفری قوموں کو راضی کرنے یا ان سے قراردادیں پاس کرانے کے ذریعے ہوسکتا ہے۔
اللہ کی شریعت کا قیام صرف اور صرف زبردستی تمام کفری قوموں کی ناکوں کو خاک آلود کرکے ہوسکتا ہے۔
اللہ کی شریعت کا قیام صرف اور صرف کفری افواج سے لڑنے اور ان پر کاری ضربیں لگاکر ان سب کو شکست سے دوچار کرنے سے ہوسکتا ہے۔

بیوقوف، خبطی، پرلے درجہ کا جاہل اور احمق ہے
وہ جو سمجھتا ہے کہ مسلمان بے بس یا کمزور ہیں۔
ہرگز نہیں ! اے مسلمانوں بلاشبہ تم طاقتور ہوں؛
جب تک تم اپنے دین کو قائم کرتے ہو، اپنی توحید کو عملی جامہ پہناتے ہو،
اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہو، اسی پر بھروسہ کرتے ہو،
اسے سے مدد مانگتے ہو اور اسی سے فریاد کرتے ہو ، جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

﴿أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ ....(٣٦)

... أَلَيْسَ اللَّـهُ بِعَزِيزٍ ذِي انتِقَامٍ (٣٧)﴾.

’’کیا اللہ تعالٰی اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ اور یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں...
... کیا اللہ تعالٰی غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ہے؟ ‘‘ (الزمر)



تعجب ہے اس پر جو مومن ہوکر ان آیات کی تلاوت کرتا ہے تو پھر وہ کیسے ڈرسکتا یا کمزورپڑسکتا یا ذلت برداشت کرسکتا ہے۔
اے مسلمانو؛
بیشک تم طاقتور ہو۔
یقینا امریکہ اور اس کے تمام اتحادی، روس اور تمام کفری امتیں مجاہدین کے سامنے کمزور ہیں۔
کیا تم سے تمہارے پروردگار نے یہ نہیں فرمایا ہے :

﴿فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا﴾.
’’پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو یقین مانو کہ شیطانی حیلہ (بالکل بودا اور) سخت کمزور ہے۔‘‘ (النساء)


کیا تم سے تمہارے رب عزوجل نے ان کو شکست دینے اور تم کو کامیابی عطا کرنے کا وعدہ نہیں کیا ہے کہ جب تم ان سے لڑو :

﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْ*كُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ* قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ﴾.
’’ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالٰی انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل اور رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مؤمنین کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا۔‏‘‘(التوبۃ)


پس تعجب در تعجب ہے اس پر جوایماندار ہو کر ان آیات کی تلاوت کرتا ہے تو پھر وہ کیسے کمزور یا ڈرپوک یا غمزدہ یا نرم پڑسکتا ہے؟
تعجب ہے اس پر جو ان آیات پر ایمان رکھتا ہو ، پھر وہ کیسے (کفر کے سامنے)جھکنے والے گھٹیا پن اور سمجھوتے پر راضی ہوسکتا ہے۔
تعجب ہے اس پر جو ان آیات پر ایمان رکھتا ہو ، پھر وہ کیسے کفر کے ساتھ کمپرومائنز ومصالحت یا پرامن پسندی اختیار کرسکتا ہے؟
تعجب ہے تم پر اے مسلمانو!
تعجب ہے تم پر کہ تم کس چیز سے ڈرتے ہو؟!
کیا تمہارے ساتھ رب العزت نہیں ہے؟
کیا اس نے نہیں فرمایا کہ بلاشبہ عزت تمہارے لیے ہے۔

﴿وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَ*سُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾.
’’اور(سنو!) عزت تو صرف اللہ تعالٰی کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمانداروں کے لئے ہے لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘ (المنافقین)


کیا اللہ تعالی نے تم سے کہہ نہیں دیا کہ بلاشبہ تم ہی غالب رہوگے؟
کیا پس تم پڑھتے نہیں ہو؟
کیا تم ایمان نہیں رکھتے ہو؟
اے مسلمانو!
بلاشبہ جس نے فرعون کو غرق کیا، عاد وثمود کو ہلاک کیا اور احزاب (اتحادی لشکروں) کو شکست دی ؛
وہ عنقریب روس، امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کرے گا اور ان کو مجاہدین کے ہاتھوں سخت عذاب کا مزہ چکھائے گا۔
یہ اللہ کا وعدہ ہے جب تک تم اس کی راہ میں لڑتے ہو۔
پس ہلکے ہو یا بھاری جہاد کے لیے نکل کھڑے ہو اور اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرلو ۔

اے پیٹھ پھیر کر جہاد کی سرزمین چھوڑ کر بلاد کفر کی طرف بھاگ کر جانے والے!

حشر کے دن اللہ سے تو کہاں بھاگے گا؟
تو نے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنایا؟
یا تو نے گھٹیا ذلیل قوم سے عزت کو حاصل کرنا چاہا؟

﴿أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا﴾.
’’کیا ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟ تو (یاد رکھیں کہ) بلاشبہ عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالٰی ہی کی ہے۔‘‘(النساء)


اللہ کی قسم! بلاد کفر میں مسلمان صرف ذلیل ،حقیر اور رسوا ہوکر ہی رہ سکتا ہے۔
اللہ کی قسم مسلمانوں کے لیے اس وقت تک امن نہیں ہے ، نہ ہی عزت اور اکرام ہے جب تک وہ جنگ کے ماہر اور ہتھیاروں کے ساتھی نہ بن جائے۔

اے اسلام کے نوجوان !آپ کو کیا ہوگیا ہے؟
کیا آپ کے اباء واجداد دنیا کے مالک نہیں بنے اور انہوں نے لوگوں کی قیادت نہیں کی ہے؟
کیا ان کے لیے زمین کے تمام بادشاہ کمتر نہیں ہوئے اور ممالک ان کے ماتحت نہیں آئے تھے؟
کیا ان کو جہاد کے ذریعے سے کامیابی ، عزت اور قیادت نہیں ملی تھی؟

اے مسلمانوں کے نوجوانو!
مجاہدین کی کشتی میں سوار ہوجاؤ ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم عزت دار ومکرم، زمین کے بادشاہ اور دنیا کے حکمران ہوگے۔
اگر تم نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو تم ذلیل ، بدبخت اور نقصان اٹھانے والے حقیر ہوگے۔

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ*سُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْ*ءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُ*ونَ (٢٤) وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (٢٥)﴾.
’’‏ اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی آدمی کے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔‏ اور اس فتنے سے ڈرو جو خاص کر ان ہی لوگوں پر واقع نہیں ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‏‘‘(الانفال)


اے بلاد حرمین میں ہمارے اہل خانہ !
اے سعد اور العلاء کے پوتو! اے مجزأۃ اور البراء کے پوتو!
کب تک تم بدبخت کافر آل سلول طاغوتوں کی حکمرانی پر رضامند رہوگے؟
کب تک تم کو ان کے جادوگر کبار منافقین کمیٹی اوران ایجنٹ دھوکے میں مبتلا رکھیں گے؟
یہ دیکھو ملحد روسی مسلمانوں کے گھروں کے بیچ بلاد شام پر حملہ آور ہوئے ہیں۔
ان روسیوں کے چرچ نے اس جنگ کو مسلمانوں کیخلاف لڑی جانے والی مقدس جنگ قرار دینے کا اعلان بھی کرچکا ہے؟
پس کبار شیطانوں کی کمیٹی کے فتاوی کہاں ہیں؟
کیا انہوں نے تم کو روس کیخلاف اس سے پہلے افغانستان میں جہاد کرنے کے لیے نکلنے کا نہیں کہا تھا؟
یا اس وقت کے فتاوی ان کے آقاؤں امریکیوں کی طرف سے تھے ؟!
کیا اس وقت خراسان میں مسلمانوں کی تعداد کافی نہیں تھی ؟!
یا اہل شام افغانیوں سے زیادہ سخت جنگجو ہیں؟!
اے مسلمانوں تمہیں کیا ہوگیاہے؟!
کیا ہر مرتبہ تم عقل نہیں کرتے ؟
تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟!
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ کیا تم سنتے نہیں ہو؟
کہا تم دیکھتے نہیں ہو؟
کیا تم کو شام میں موجود کمزور مسلمانوں کی مدد کی فریادیں سنائی نہیں دیتی ہیں اور تم ان کی حالت دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان پر تمام دشمن جھپٹ پڑے ہیںَ؟!
کیا تمہاری آنکھیں دنیا نے پھیر رکھی ہیں اور شہوات نے تمہارے کانوں کو بند کررکھا ہے یا پھر تم میں الولاء(اللہ کے لیے وفاداری ودوستی) اور البراء (اللہ کے لیے دشمنی کرنا) مرچکا ہے۔ !
یا تم آنکھوں اور بصیرت کے اندھے شیطان سے فتوی کا انتظار کررہے ہو جو امریکیوں کا مفتی ہے؟
ہرگز نہیں، تم پر درباری علماء نے جادو کررکھا ہے ، جس کی وجہ سے تم فتنے میں مبتلا اور (نشے میں) سُن ہوچکے ہو۔

پس حرمین کے فرزندو! جاگو اور اٹھ کھڑے ہو!
سو تمہارے ہاتھوں میں (جنگ کا) توازن بگاڑنا اور الٹ پلٹ کرکے رکھ دینا ہے ۔ پس بیماری بھی تمہارے پاس ہے اور اس کا علاج بھی تمہارے پاس ہے۔
آل سلول اور اس کے ایجنٹوں کی کمیٹی کیخلاف اٹھ کھڑے ہو جس سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بکھرنے کی گرہ کھل جائے گی۔
پس وہ تمہارے ہاں سے (جنگ لڑنے کے لیے) جاتے ہیں اور تمہارے پٹرول سے (صلیبی جنگ کے لیے) ان کو فنڈ (وسرمایہ) مہیا ہوتا ہے۔
تمہارے شیطانوں کے فتاوی کی وجہ سے مسلمانوں کو بے یارومددگار چھوڑے جاتے ، حوالے کیے جاتے، بے گھر کیے جاتے اور قتل کیے جاتے ہیں۔

پس حرمین کے بیٹوں اٹھ کھڑے ہوجاؤ!
قیامت کے دن تمہارے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا۔ ہم تم سے جہاد کے لیے نکلنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ہم تم سے دینی معاملات میں مدد طلب کرتے ہیں۔
اگر تم پیچھے رہے تو پھر تمہارے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔
ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہر اس شخص کی دستبرداری سے اعلان براءت کرتے ہیں جس نے ہمیں تنہا چھوڑا اور شہوات کی مستیوں اور آرام طلب خوشگوار روزگار کی طرف مائل ہوا۔
ہمارے لیے تم پر حجت قائم کرنے کی خاطر سعد اور عبد العزیز العیاش ہی کافی ہیں۔ اللہ تعالی ان دونوں کو اجر سے نوازے کہ انہوں نے کیا ہی خوب کام کردکھایا۔

(اشعار)
’’وہ دو شیر تھے جو سرخ تیز دانت سے نوچنے میں سخت دلیر تھے۔ * وہ غصے سے بپھرے چتکبرے کے زمانے میں طوفان تھے۔‘‘

وہ دونوں کافی ہوگئے، حجت قائم کرکے بریٔ الذمہ ہوگئے اور انہوں نے عہد کو پورا کردیا۔
ان دونوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر سمیٹنے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو خوشی، شادمانی اور مسرت ان دونوں نے اپنے بہادرانہ وجرأتمندانہ عمل سے مسلمانوں کے دلوں میں ڈالی ہے۔
اور جو ان دونوں نے کافروں کو ذلیل ورسوا کیا، دہشت زدہ کیا ، غیظ وغضب میں مبتلا کیا اور بربادی سے دوچار کیا۔
یہی ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں۔
اللہ تعالی سے ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ فردوس میں ان کے درجات بلند فرمائے۔
بلاشبہ ان دونوں نے جو کچھ کیا وہ ہمیں بیسیوں بارودی گاڑیوں کی کارروائیوں سے زیادہ محبوب ہیں۔

(اشعار)
وہ ایسے دو شیر ہیں جو کبھی ذلت قبول نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی حفاظت گاہ کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔
آپ ان دونوں کو آسمان کے بیچ میں دو نیزوں والے راستے دیکھیں گے

ان دونوں نے بغیر کسی تکلف کے عظمت وشرافت کی قیادت کی کہ اس کی گونج تک پہنچنا ناممکن ہے۔
ہاں اللہ کی قسم ، ان دونوں کی گونج تک پہنچنا ناممکن ہے۔

پس اٹھ حرمین کے بیٹے اور ان دونوں کے نقش قدم پر چل، اٹھ کھڑا ہوجا !
اگر تجھے ہتھیار نہ ملے تو رسی اور چھری تو تم کو مل سکتی ہے
اور تمہارے سامنے طاغوت کے فوجی ہیں۔
پس اسے ایسا پکڑو یا وہ مردار ہوگا یا تم شہادت پاجاؤگے

(اشعار)
بلندی (وحق) کے متلاشی موت کے (ساتھی و) دوست * جبکہ لمبی زندگی کے خواہش مند نفس کے پیروکار
اگر اس زندگی میں عزت (وقیمتی) نہ ہو تو * طویل زندگی کی خواہش کس کے لیے ؟
بے شک، موت کا خوف موت سے زیادہ کڑوا ہے * نوجوان تک کو خوف ہے تیز تلوار کا سر پر
اگر تم موت میں شعور محسوس کرو زندگی کا تو ، موت کا ذائقہ میٹھا لگے گا جب چکھو گے اسے



اے دنیا بھر میں موجود اسلام کے نوجوانوں آگے بڑھو!
روس اور امریکیوں سے جہاد کرنے کی طرف بڑھو؛
کیونکہ یہ مسلمانوں کیخلاف صلیبیوں کی شروع کردہ جنگ ہے۔
یہ مشرکوں اور ملحدوں کی مومنین کیخلاف جنگ ہے۔

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُ*وا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْ*ضِ ۚ أَرَ*ضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَ*ةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَ*ةِ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا تَنفِرُ*وا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَ*كُمْ وَلَا تَضُرُّ*وهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ* (٣٩)﴾.

’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں (ہجرت وجہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب) زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو ۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔ اگر تم نہ نکلوگے تو تمہیں اللہ تعالٰی دردناک سزا دے گا اور تمہارے سوا اور لوگوں کو بدل لائے گا، اور تم اللہ تعالٰی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔‏‘‘ (التوبۃ)

اور اے دولت اسلامیہ کے سپاہیو؛
ہم سے چند جملے لیکر ذہن نشین کرلو:
تم خلافت کی فکر اور اس کے بارے میں مت ڈرو ، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی ہی اس خلافت کی حفاظت کررہا ہے اور اس کو مستحکم کرنے والے کو سیدھا وہی رکھے گا۔
لیکن تم اپنے نفسوں کی فکر کرو اور ان کے بارے میں ڈرو، ان کا محاسبہ کرو ، توبہ کرو اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔

اے مجاہد خبردار رہنا!
کہی آپ کا بھی روز قیامت ان لوگوں جیسا حال نہ ہو جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا :

﴿يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَ*بَّصْتُمْ وَارْ*تَبْتُمْ وَغَرَّ*تْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ* اللَّـهِ وَغَرَّ*كُم بِاللَّـهِ الْغَرُ*ورُ﴾.

’’یہ چلا چلا کر ان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے وہ کہیں گے ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسا رکھا تھا اور (ہمارے حق میں حوادث کے) انتظار میں ہی رہے اور شک وشبہ کرتے رہے اور (اپنے خیالات کے) دھوکوں میں پڑے رہے اور تم اپنی فضول تمناؤں میں بہکتے رہے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں رکھنے والے(شیطان) نے دھوکے میں رکھا۔‘‘(الحدید)

آپ میں سے کوئی کبھی یہ خیال نہ کریں کہ وہ محض ہتھیار اٹھانے اور مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے سے نجات پاجائے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے:

﴿مِنكُم مَّن يُرِ*يدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِ*يدُ الْآخِرَ*ةَ﴾.
’’تم میں سے بعض دنیا چاہتے ہیں اور تم میں سے بعض آخرت چاہتے ہیں۔‘‘(آل عمران)

نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ؛ کیا آپ نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی بہادری کے لیے لڑتا ہے، ایک حمیت(قومیت وعصبیت ) کے لیے لڑتا ہے اور ایک شہرت و ریاکاری کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے کون اللہ کے راستے میں ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا :


(مَن قاتَلَ لتكون كلمةُ الله هي العليا فهو في سبيلِ الله).
’’جس نے اس لیے قتال کیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو پس وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ ‘‘


نبی ﷺ کے پاس تذکرہ ہوا کہ فلاں شہید ہے ؛ تو آپ ﷺ نے فرمایا :

(كلّا؛ إنّي رأيته في النار في عباءةٍ غَلَّها).
’’ہرگز نہیں! میں نے اسے جہنم میں اس چادر میں لپٹا ہوا دیکھا ہے جو اس نے مال غنیمت میں سے (چپکے سے) زائد لے لی تھی۔‘‘


آپﷺ نے فرمایا :

(الغزو غزوان؛ فأما مَن ابتغى وجهَ الله، وأطاع الإمام وأنفق الكريمة، وياسَرَ الشريك، واجتنب الفساد فإن نومَه ونبهَهُ أجرٌ كلُه، وأما مَن غزا فخراً ورياءً وسُمعة، وعصى الإمام، وأفسد في الأرض فإنه لا يرجع بالكفاف).

’’ غزوہ ( جہاد کی جنگیں )دو قسم کی ہوتی ہیں، جس نے اللہ کی رضا چاہی، امام کی اطاعت کی، عمدہ مال خرچ کیا، اپنے شریک کار سے نرمی کا برتاؤ کیا اور فساد سے بچتا رہا، تو بلاشبہ ایسے (مجاہد) کا سونا اور جاگنا سبھی اجر و ثواب (کا مستحق) ہے لیکن جس نے (جہاد) فخر، دکھلاوے اور شہرت کے لیے کیا، امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد کیا تو بلاشبہ ایسا آدمی (کو کچھ نہیں ملنے والا اور ثواب تو کیا) برابری کے ساتھ بھی نہیں پلٹے گا (گناہگارہونے سے بچ آنا بھی مشکل ہے)۔“



دیکھو! (اپنے آس پاس دنیامیں راہ جہاد سے)انحراف کا شکار ہونے والے ، گمراہ ، اوندھے لڑھکنے اور پلٹ کر پھیر جانے والے کس قدر زیادہ موجود ہیں۔

آپ خلافت کے بارے میں گھبراؤ مت، کیونکہ بلاشبہ اللہ عزوجل اپنے دین کو محفوظ رکھے گا اور اپنے بندوں کی بھی حفاظت فرمائے گا۔
دولت اسلامیہ پر اس کے دس سال سے زائد عرصہ پہلے ابتدائی قیام سے آج تک کئی فتنے، مصیبتیں، سختیاں اور جھنجوڑ دینے والی ایسی آفتیں گزری ہیں جن سے پہاڑ تک لرزا اٹھے۔
قائدین (کی شہادتوں سے ان) کے بچھڑنے، خونریزی عام ہونے، گرفتاریاں زیادہ ہونے اور جانوں، پھلوں اور مالوں میں کمی کا سامنا کرنا پڑا
لیکن صرف ایک اللہ یکتا کے فضل سے دولت اسلامیہ ایک سختی سے دوسرے سختی، ایک تکلیف سے دوسری تکلیف، ایک مشقت اور فتنے سے دوسری مشقت اور فتنے میں ڈٹی رہی۔
دولت پر کوئی بھی بڑی آفت آتی ہے تو اس کے حال جاننے والا کہتا ہے کہ وہ ہلاکت میں پڑگئی۔
لیکن کچھ وقت گزرتا ہے تو وہ بڑی آفت ٹل جاتی ہے اور صرف اللہ وحدہ کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آفت کس طرح دور ٹلی۔
اس کے فوری بعد دوسری بڑی مصیبت آجاتی ہے اور حال جاننے والا کہتا ہے کہ یہ ختم نہیں ہوگی لیکن اللہ تعالی اسے بھی ہٹادیتا ہے۔
اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، لیکن کوئی بھی آفت نازل ہوتی ہے یا کوئی بھی تکلیف آتی ہے تو اس سے چھٹکارا ہمیں ایسے راستے سے ملتا ہے جس کے بارے میں ہمیں توقع بھی نہیں تھی اور نہ ہی ہم نے کبھی سوچا تھا۔
ہم سے کوئی قائد جیسے ہی بچھڑتا ہے یا کوئی امیر شہید ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کے جگہ پر ایسے کو لے آتا ہے جو بہترین تدبیر کرنے اور کارواں کو رواں دواں رکھتا ہے کہ
ہم اس کی اچھی کارگردگی، اس کی سخت آزمائش ہونے اور اس کا کام کو باریک بینی سے بخوبی انجام دینے کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔
وہ اللہ کے دشمنوں پر کاری ضرب لگانے اور ان کو اپنے سے پہلے جانے والے سے بھی زیادہ غیظ وغضب میں مبتلا کرنے والا ہوتا ہے۔
جبکہ ہم اس سے پہلے یہ گمان کررہے ہوتے ہیں کہ (جوچلاگیاہے)اس کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پورا کرنے کے لیے ہمیں کوئی نہیں ملے گا۔
پس تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ، اپنے لشکر کی مدد فرمائی اور تنہا اس خلافت کا قیام کیا۔

سو اے خلافت کے سپاہیوں خوش ہوجاؤ!
تمہاری دولت (مملکت) ان شاء اللہ تا قیامت باقی رہے گی
کیونکہ اللہ تبارک وتعالی ہی دولت کی نگرانی ، اس کے معاملات کی تدبیر کرنے، اس کی مدد ونصرت کرنے اور اس کی سرپرستی کرتے ہوئے اسے چلا رہا ہے۔
پس تم دولت پر خوف کھانے کی بجائے اپنے نفسوں کے بارے میں خوف میں مبتلا ہو۔
تم نہ کبھی ظلم کرنا، نہ کسی کو دھوکہ دینا، نہ بزدلی دکھانا ، نہ ہمت ہارکر پیچھے ہٹنا ، نہ سست پڑنا
اور اس رذیل دنیا سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے مخلوق کے رب کی طرف بھاگو۔

﴿اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ* بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ* فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ* نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَ*اهُ مُصْفَرًّ*ا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَ*ةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَ*ةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرِ*ضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُ*ورِ*﴾.

’’خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر (وغرور) اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وہ خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ بالکل چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی محض دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔‏‘‘ (الحدید)


اے دولت اسلامیہ کے فرزندو!
آگاہ رہو! ابھی تک جنگ زوروں پر نہیں آئی ہے اور آگے تو اس سے زیادہ ہولناک ، سنگین اور سخت ہوگی؛
پس تم عزیمت کو اختیار کرتے ہوئے کمر بستہ ہوجاؤ اور حملہ کرتے ہوئے ٹوٹ پڑو۔ پس عظمت تمہارے سامنے ہے۔

(اشعار)
جو کوئی عظمت وبلندی میں سے وہ چاہتا ہے جو ہم چاہتے ہیں *
تو اس کے نزدیک جنگ لڑنے میں زندگی وموت یکساں ہوجاتی ہے۔


پس دنیا سے ہجرت کرو اور بلندی کے طالب رہو۔
تم آپس میں صلح کیا کرو اور ایک دوسرے سے درگزر کیا کرو۔
تم سب موافقت اور رضاکاری کو اختیار کرو اور لڑائی وجھگڑوں سے بچو۔
تم سب مشتاق وحریص رہا کرو اس جگہ پر ہونے کے جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے۔ تم مورچوں پر ہوا کرو نہ کہ گھروں اور آرام گاہوں میں۔
رباط پر ہوا کرو نہ کہ بازاروں اور گپ شپ کی مجلسوں میں
غبار آلود پراگندہ اور خون سے رنگے ہوئے مضبوط وباعظمت ہو کررہا کرو نہ کہ آسودہ حالی اور فراخی میں مست مزے اڑاتے ہوئے ۔
پس تم عظمت کے جس مقام پر کھڑے ہو اسے اچھی طرح سمجھ لو، اور جو امانت تم نے اٹھا رکھی ہے، وہ کس قدر بڑی ہے ، اسے اچھی طرح جان لو۔
تم معاملے کی سنگینی اور حالات کی نزاکت کا شعور رکھو۔


(اشعار)
اے میرے رب! تیری محبت میں میرے سینے میں دھڑکنے والا (دل) ہے *
اور یقیناً میں تیری طرف لوٹنے والا اور تجھ سے ڈرنے والا ہوں۔

دار(الاسلام) پر بڑھتی ہوئی ہولناکیاں اور فتنے *
گردش کررہے ہیں جبکہ انہی کے بیچ آنکھیں آنسوؤں بہارہی ہیں۔

خون پھیلا ہوا ہے اور لاشیں بکھری ہیں *
جھٹکے و زلزلے ہمارے ارد گرد منڈلا رہے ہیں۔

پوری دنیا ہمارے درپے ہوکر ہم پر ٹوٹ پڑی ہے، اور آرہے ہیں *
دشمنوں کے لشکر یکے بعد دیگرے دیار میں آگے بڑھتے ہوئے

گویا کہ وہ اپنے ایک پیالے کی طرف جھک رہے ہو *
اس حال میں کہ انہوں نے اس کے لیے اپنے لشکروں اور گروہوں کے ذریعے شوروغل اور ادھم مچارکھا ہے۔

اے میرے رب! یہ میری امت ہے کہ پارہ پارہ کررکھا ہے من مانی نے *
اس کی قوت کو اور ڈھانپ رکھا ہے اسے رنگینیوں اور خواہشات نے

اور گمراہ اس (امت) کے قدموں کو اندھیرے میں آگے بڑھارہا ہے *
اور منحرف اسے طوفانوں میں دھکیل رہا ہے۔

زمین کے ہر حصے میں ایک کے بعد ایک فتنہ ہے *
اور ہر سو سخت مصیبتیں اور ہولناکیوں کا راج ہے

حالات وواقعات ہم سے ایسے گزررہے ہیں کہ گویا وہ *
کسی کتاب کی کہانیاں اور ماضی کے قصے ہیں۔

اے میرے رب! مسلمانوں کے لیے کون ہے جبکہ وہ سوئے ہوئے ہیں *
اور ان کو آیات اور مصحف (قرآن) بھی نہیں جگاسکے ہیں۔

اے میرے رب! ہماری مدد فرما اور ہمارے درمیان اپنا نور انڈیل دے *
ایسے دلوں کے ساتھ جن پر حق کا راستہ تنگ ہوچکا ہے

اور ان دلوں میں الفت پیدا کردے جن کے درمیان بغض نے جدائی ڈال رکھی ہے *
شاید کہ ایک دن یہ الفت مخالفین کو ایک کردے

اور ہمارے دلوں کو ثابت قدمی عطاکردے کہ تاکہ ہم *
جنگ کے میدانوں کی طرف لپکیں اور فتوحات حاصل کریں

اور ہم پر ایسی رحمت برسادے کہ جو پاک کردے *
ہمیں ہمارے گناہوں اور برائیوں سے

اور جو ہم سے ہمارے گناہوں کو ایسی توبہ کے ساتھ دور کردے کہ شاید کہ *
اس کے ساتھ جاگ اٹھے وہ جو موسیقی کے ساز میں مست ہوکر غافل ہیں

سو امڈ آئے ہم میدان میں ایسے بڑے لشکروں کے ساتھ *
جو اسلحے کے شوقین اور ہمدردوں سے ٹھاٹیں مارتا ہو

اور ہم دنیا کو اپنے رب کا پیغام پہنچائے *
اور اس کی راہنمائی میں ہم لڑیں اور نرمی کریں

اور ہم اس کے ساتھ ایسے صف بستہ ہوکر چلیں کہ گویا کہ اس کے سپاہی *
علماء اور جنگجوؤں پر مشتمل سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیواریں ہیں۔

تاکہ اے رب تو نازل فرما ہم پر فتح اور اپنی رحمت *
اس وقت جب جنگوں کے میدانوں میں جم کر رہنے والے ثابت قدمی دکھائیں۔