بسم اللہ الرحمن الرحیم
اے متردد!
خوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف جنگ وقتال میں متردد ہونے والوں کے نام!
جبھۃ النصرہ کے شرعی مسوؤل
ابو ماریہ القحطانی
- حفظہ اللہ -
اے متردد!
خوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف جنگ وقتال میں متردد ہونے والوں کے نام!
جبھۃ النصرہ کے شرعی مسوؤل
ابو ماریہ القحطانی
- حفظہ اللہ -
الحمد لله رب العالمين، والعاقبة للمتقين، ولا عدوان إلا على الظالمين، والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:
جو بھی آج اہلِ شام کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ دیکھے گاکہ اللہ عزوجل کی جانب سے اُن پر مشکلات اور آزمائشیں آ رہی ہیں، اور یہ سب کچھ ایک عظیم مصلحت اور حکمتِ بالغہ کے سبب ہی ہورہاہے، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو فیصلہ فرماتےہیں اور اُس کو مقدر کردیتے ہیں۔ نصیری اور روافض اس بات کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو قتل کریں اور اُن کے ملکوں کو تباہ وبرباد کردیں، اور اِس کے لیے یہ تمام تر وسائل کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ اقوامِ عالم اِس کو دیکھ اور سن رہے ہیں،اورگویا یہ بیان کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خون بہانے اور انہیں نقصان پہنچانے میں جیسے کوئی حرج نہیں۔
پھر اس کے بعد ایک ماہ قبل، اہل شام پر ایک ایسے بھیانک چہرے کا ظہور ہوا اورایک نئے زہریلے خنجر کو آزاد کیا گیا ،جس کا خبث اور ضرر بہت جلدی سے آگے پھیل گیا ہے؛ اور وہ چہرہ خوارج العصر تنظیم ’جماعت الدولۃ‘ کا ہے، جنہوں نے جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لیتے ہوئے خود کو تنظیم قاعدۃ الجہاد کی پوشاک کے نیچے چھپائے رکھا، انہوں نے مجاہدین کی تکفیر کی،اُن کے خون ، مال اور مراکز کو حلال قرار دیا، اور انہوں نے مجاہدین اور اُن کی قیادت کو قتل کیا، جن کو قتل کرنے کی استطاعت نصیری اور روافض بھی نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے مجاہدین کےحمص اور دیگر علاقوں میں امدادی اوررسد کے رستے منقطع کیے، اور مسلمانوں کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرتے ہوئے علاقوں کو نصیری نظام کے سپرد کرنا شروع کر دیا اور یوں اُن کی حلب کے محاصرہ کرنے میں مدد کی،اسی طرح اِن سے متعلق اور دیگر چیزیں بھی ظاہر اور واضح ہوتی گئیں اورمجرم نصیری نظام اِن سے اور اِن کے اعمال کے سبب خوب استفادہ کرنے لگا۔
بہت سی تجاویز ان کو پیش کی گئیں اور ان کے لیے بہت سے ابتدائی ثالثی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوششیں کی گئی، اور ان میں سب سے آخری کاوش ہمارے امیر شیخ الجہاد شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی تھی، تاکہ اِن کو دوسروں سے دور رکھا جائے اور اِن کی اپنی گمراہی سے بیدار کیا جائے، اور ہم نے اُن کے احکامات کی پیروی کی اوراُن کی کاوشوں کی حمایت کی، اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ واپس ہدایت کی طرف پلٹ آئیں اور اپنے گناہوں سے تائب ہو جائیں، لیکن انہوں نے اس سب کو نظر انداز کیا، اور ہمارے قتال سے رکنے کے باوجود ہم پر ضربیں لگائیں اور دھوکے سے کام لیا۔
پس اس لیے کہ ہم جہادِ شام کی اس پیش قدمی کی تکمیل کر سکیں، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس خبیث مرض کا خاتمہ کریں اور ساحاتِ شام کو اس سے پاک کر دیں، اور جب ہم شریعتِ الہی میں نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں سوائے سیفِ علیؓ کے علاوہ اِن کا اور کوئی علاج نہیں ملتا ہے،جس تلوار کو انہوں نےعصرِ حاضر کے خوارج کے اجداد کے خلاف نہروان کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نکالی، اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی کہ وہ اِن کی قمر توڑ دیں اور ان کی جڑیں کاٹ دیں، اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کی کہ اِن کے خلاف قتال کیا جائے اور اِن کو قتل کیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کے مطابق اجر کی بھی امید رکھی جائے،جس کا انہوں نے وعدہ کیا جب انہوں نے فرمایا:
(طوبى لمن قتلهم وقتلوه)
[اس کے لیے طوبیٰ(جنت کا درخت؛ بشارت) ہے، جو ان(خوارج) کو قتل کریں یا ان(خوارج) کے ہاتھوں قتل ہوں]
ارضِ شام میں مجاہدین لوگوں کو اس بات کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ اس عظیم استحقاق کے سامنے شریعتِ الٰہی کے حکم کی طرف آئیں، جس میں وہ شریعت کے اس حکم کے تابع ہو جائیں اور خوارج سے قتال کریں ،جن کا معاملہ اب واضح ہو چکا ہے اور اُن کے عقائد نظر آنے لگے ہیں، اور یہ اپنے ظلم میں مزید بڑھے جب انہوں نے تمام ثالثی اقدامات کا بھی انکار کر دیا، اورانہوں نے اُن ثالثی اقدامات کا استعمال فقط کچھ مزید وقت حاصل کرنے کے لیے کیا، اور اپنے تکبر اور فجور میں مزید بڑھ گئے:
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
(وكذلك من كَفَرَ المسلمين أو استحل دمائهم وأموالهم ببدعة ابتدعها ليست في كتاب الله ولا سنة رسوله فإنه يجب نهيه عن ذلك، وعقوبته بما يزجره ولو بالقتل أو القتال، فإنه إذا عُوقِب المعتدون من جميع الطوائف وأكرم المتقون من جميع الطوائف كان ذلك من أعظم الأسباب التي ترضي الله ورسوله ويصلح أمر المسلمين) ا.هـ من الفتاوى.
[اسی طرح جو کوئی مسلمانوں کی تکفیر کرے اور ان کے خون اور اموال کو بدعت کی بنیاد پرحلال کرے، وہ ایسی بدعت ہے جو نہ ہی کتاب اللہ میں موجود ہے اور نہ ہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے، اس کو اس بدعت سے باز رکھنا واجب ہے،اس کو سزا دینی چاہیے جس کا وہ حقدار ہے،چاہے وہ اس کے قتل یا اس کے خلاف قتال سے کیوں نہ ہو، اور جب تمام گروہوں سے تعلق رکھنے والے معتدین کو سزا دی جائے اور تمام گروہوں سے تعلق رکھنے والے متقی لوگوں کا اکرام کیا جائے، تو یہ وہ بڑے اسباب ہیں جس سے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے معاملات درست ہوتے ہیں]
وقت آ گیا ہے کہ اہل حق اُس سر کو کھول دیں جو دینِ ذوالخویصرہ(خارجی) کا قائل ہے، اور اس چیز سے راضی ہے جس پر ذوالثدیہ (خارجی)قائم تھا، اوراُس پر اِس چیز کا غلبہ ہو گیا ہے،جس کا غلبہ ابن ملجم(خارجی) کو ہوا تھا، کیونکہ اب ساحاتِ شام مزید اِن کے خبث اور ضرر کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔
اللہ کی قسم، اہل حق کے لیے یہ وقت آ گیا ہے کہ وہ ان گناہگار ہاتھوں کو کاٹ دیں، جو مسلمانوں کے خون کو ناحق بہاتے ہیں اور اِس سبب روافض اور نصیریوں کی اعانت کرتے ہیں، اُ ن کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں اور اُن کے دلوں کو خوش کرتے ہیں۔
اللہ کی قسم! اہلِ حق کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ ان زبانوں کو خاموش کر دیں جنہوں نے شریعتِ حنیف پر زبان درازی کی اور اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کی، اور لوگوں کو اللہ کے رستے سے روکا اور مبارک وحی کی باطل تاویلات کیں۔
اے سچے مجاہدین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلقِ عظیم کے مالک تھے اور مومنین کے لیے رؤف ورحیم تھے،اور اگر وہ دو (جائز) معاملہ کے متعلق فیصلہ فرماتے، تو ہمیشہ اُن میں سب سے آسان کا انتخاب کرتے، پس اللہ کی قسم! وہ خوارج کو جنہوں نے اہل اسلام کی تکفیر کی اور اُن کا ناحق خون بہایا کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتے،اگر اس کے علاوہ خوارج کا اور کوئی مؤثر علاج ہوتا؛ تو پھر بعض مجاہدین کے ساتھ یہ معاملہ کیسا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کی تنفیذ کرنے پر عمل نہیں کرتے؟
کیا جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی ہو اور یہ بھی علم رکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب میں افضل ہیں، ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اور اللہ کی قسم! علی رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سب سے بہترین تھے، اور شریعت کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور انہوں نے اُن (خوارج) کے خلاف قتال میں کسی بھی قسم کا تردد نہ کیا ، جب اُن(خوارج) نے ناحق خون بہایا اور مسلمانوں پر گرجنے لگے، اور اللہ کی قسم! صحابہ رضوان اللہ علیہم اُن لوگوں میں سے نہ تھے جو اُن مارقہ (خوارج) کے ہاتھوں اللہ کے دین کی تشریح کو چھوڑ دیتے، اور اُن (خوارج) کی تلواروں سے پھر ناحق مسلمانوں کا خون بہتا رہتا،اور نبی کی سنت کا نفاذ اِن کے بیٹھ رہنے سے ساکت رہتا اور وہ اُن کے خلاف قتال سے رک جاتے!
اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا آپ نہیں جانتے کہ سب سے بڑا جرم اللہ کے رستے سے روکنا ہے، اوردین کا غلط تصور پیش کرنا ہے،اور لوگوں کو شریعت کی حاکمیت سے متعلق دور بھگانا ہے، جس سے شرک اور باطل کی تزین وآسائش ہو گی، بےشک،آپ لاشعوری طور پر ایسے ہو جاؤ گے جب آپ اپنے بھائیوں کو ،جو اِس خبیث غالی درخت کے کاٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جس نے سابقہ بیان کیے گئے عظیم مفاسد کو جمع کر لیا ہے، کی معاونت کرنے کو ترک کر دو گے۔
اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا تمہیں علم نہیں کہ آپ مجرم نصیری نظام کی طوالت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہو، جو پھر مزید ناحق خون بہائے گا، اورخوارج العصرکی اِس معاونت سے استفادہ کرتے ہوئے مزید حرمات کی پامالی کرے گا،کیونکہ وہ نصیری انہیں کے وجہ سے مزید پھیلے ہیں بلکہ انہیں (خوارج) کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں۔
اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیاآپ نہیں جانتے کہ اِن کے خاتمہ کا فائدہ اور مصلحت نہ صرف شام کے مسلمانوں کو ہو گی، بلکہ اس کا فائدہ اہل عراق کے مسلمانوں کو بھی ہوگا،جنہوں نے اِن کی لگائی گئی آگ سے مدتوں نقصان برداشت کیا ہے، پس اپنے اِن بھائیوں کے لیے اُن کی طرف سے لگائے گئے فتنہ کی آگ کو بجھانے کے لیے حق والے صاف پانی کی مثل بن جاؤ۔
اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا تمہیں علم نہیں کہ ناحق خون بہنے کا تسلسل ،جس کی ابتداء خوارج نے خیارمجاہدین اور ان کی قیادت کو ہدف بنانے سے کی ہے، یہیں پر نہ رکے گا ، بلکہ یہ تمام علاقوں تک جائیں گے جہاں تک جانے کی یہ قدرت رکھتے ہوں گے، اور ہم نے اِن کو اجتماعی قتلِ عام کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے،جس کے لیے انہوں نے حجت یہ بیان کی کہ یہ مرتدین کے گھر والے ہیں،اُن کی اولاد ہیں اور صحوات ہیں!
اے اہلِ شام، ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے اپنے مجاہدین بھائیوں کو دیکھا کہ وہ شجاعت اور بہادری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نصیریوں اور روافض کے مقابلے میں دکھائی دیے، آپ اُن کو اِن (خوارج العصر)عناصرکے خلاف بھی دیکھیں گے، جو آپ کی تکفیر کرتے ہیں اور آپ کے خون اور اموال کو حلال کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ کی گردنیں دراصل ہماری گردنیں ہیں، اور آپ کا خون ہمارا خون ہے، اور کوئی بھی آپ پر شر کو نہ لا سکے گے سوائے جب کہ ہم کسی ماضی کا حصہ بن چکے ہوں یا ہمارے جسموں کے ٹکڑےٹکڑےکیے جا چکے ہوں!
اے ارضِ شام کی مبارک سرزمین پر ہمارے مجاہد بھائیو، ظلم وعدوان کے ایک سال بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے، اور اس جماعت مارقہ[(شریعت سے )نکلی ہوئی جماعت)] کی جانب سے ناحق تکفیر سے بھی یہ وضاحت ہوچکی کہ مجرم نصیری نظام کے سقوط اور جہادِ شام کی کامیابیوں کوتب تک حاصل نہیں کیا جا سکتا، جب تک ساحاتِ شام کو خوارج جماعت الدولۃ کے وجودسے پاک نہ کر لیا جائے، اور اس معاملہ میں تاخیر کرنا ایک شرعی واجب کی تکمیل کرنے میں نقص ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس شرعی واجب کی ادائیگی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کریں،کیونکہ ہمیں نصیریوں اور روافض کے ساتھ بہت زورآور معرکے لڑنے ہیں، اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری نصرت ان حاقدین کے خلاف کریں گے،جب وہ(نصیری) دیکھ لیں گے کہ جہادِ شام کے اندروہ ایک اہم عوامل (جماعت الدولۃ) سے محروم ہو گئے ہیں، جو کہ ان کی فتح میں تاخیر کا سبب بنا ہوا ہے۔
پس اے ادلب وحماۃکے شیرو، اے حلب و حمص کے شہسوارو! اے ساحل ودمشق کے ابطال، اپنے رب کے لیے اٹھو، اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تکمیل کرو، اور اپنے شرقیہ (مشرقی شام) میں بھائیوں کی مدد کرو،جو کہ اس ملاحم کو جماعت الدولۃ المارقہ کے خلاف رقم کر رہے ہیں ،جو مرابطین صفِ اول کی خندقیں سنبھالے ہوئے ہیں، اور جماعت الدولۃ نے ان کا محاصرہ پیچھے سے کر رکھا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء اور ذخائر کی ناقع بندی اُن پر کر رکھی ہے، نصیری اُن کے آگے ہیں اور یہ مارقہ(خوارج) ان کے پیچھےایسا حقیر پن دکھا رہےہیں کہ اسے بیان نہیں کیا جا سکتا، اور ہم ایک بار پھر حمص میں ہونے والے ظلم کو دہرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، پس اٹھو اور خود کو عزم وایمان اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے لیس کرو،کیونکہ کوئی بھی فتحِ مبین اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں، اِن لوگوں سے قتال کرو جن سے قتال کرنےکا حکم تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دیا،جنہوں نے ہمیں خبر دی کہ اگر وہ ان(خوارج) کا ادراک کر لیں، تو وہ انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیں، پس اگر تم ایسا کرو گے، تو آپ کا رب اپنے وعدے کے مطابق آپ کی نصرت فرمائیں گے:
(ولينصرن الله من ينصره)
[جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا]
اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے، ہمارے اور فتح کے درمیان سوائے تمام سچے مجاہدین گروہوں کےجمع ہو جانے کےعلاوہ کوئی چیز حائل نہیں،جو کہ اللہ کی رضا اور اطاعت چاہتے ہوں،اور اکیلے اس سے مدد مانگتے ہوں، اور اپنی تمام خواہشوں اور فیصلوں کو اللہ کے تابع کر لیں، اور اللہ کی حفاظت میں جانے کے لیے سچے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں جانے میں ابتدائی قدم خود اٹھائیں، پھر ان کو نصرت کی خوشخبری دی جائے گی اور فتح قریب آن لگے گی، ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ یہ بات بیان کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو چھوڑ دیں گے جن کی حالت اوپر بیان کی گئی ہے، وہی اللہ عزوجل ہمارا دفاع کرنے والےہیں، اور بہترین حفاظت فرمانے والے ہیں اور بہترین مددگار ہیں۔
میں جماعت المارقہ(جماعت الدولۃ) کےابن ملجم(خارجی) کے جانشین، مارقہ رسمی ترجمان ’’زوابری الشام‘‘(شام کے خارجی) سے وہی کہتا ہوں جو بلند مرتبت پہاڑ کی مانند علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا:
(فمن أضل ممن هذه سيرته واختياره ولكن حق لمن كان أحدًا يمينه ذو خويصرة الذي بلغه ضعف عقله وقلة دينه إلى تجويره رسول الله ﷺ في حكمه والاستدراك ورأى نفسه أورع من رسول الله ﷺ هذا وهو يقر أنه رسول الله ﷺ إليه وبه اهتدى وبه عرف الدين ولولاه لكان حمارًا أو أضل ونعوذ بالله من الخذلان)
[اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جواس(خوارج) کی سیرت کو اپنائے اور اس کو اختیار کرے، لیکن جو کوئی بھی ذوالخویصرہ کی طرف رغبت دکھائے وہ اسی کا مستحق ہے، جس کی چھوٹی عقل اور قلتِ دین اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پراُن کو غلط کہنے کی طرف لے گیا،اور اس نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ وفاشعار سمجھنا شروع کیا،جبکہ وہ اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور انہیں کے ذریعے اسے ہدایت ملی، اور انہی سے دین کی معرفت حاصل کی ہے، اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو وہ گدھے کی مانند ہوتا یا اس سے بھی زیادہ گمراہ ہوتا، اور ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوڑ دیے جانےسے اُس کی پناہ مانگتے ہیں]
تم نے قیادتِ جہاد کے سامنے جرأت دکھائی، اور اپنی حدود سے تجاوز کیا،اور ان لوگوں کے ساتھ حد سے بڑھے جنہوں نے تمہیں عزت بخشی، اور تم اُن کے ساتھ منسوب ہونے کو فخر سمجھتے تھے، یہاں تک کہ اسی کی بنیاد پر تم نے کم سن ناپختہ ذہن لوگوں کی اپنی طرف متوجہ بھی کیا، جس کے لیے تم نے سحرانگیز شعارات اور فریب کن عنوانات کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے تمہارا بازو مضبوط ہوا اور تمہاری چھڑی بھی مضبوط ہوئی، اور تمہارے اوپر شاعر کی یہ بات صادق آ گئی:
أُعَلِّمُه الرمايَة كُلَّ يَومٍ *** فَلَمّا اشتدَّ ساعِدهُ رَماني
وَكَمْ عَلَّمْتُهُ نَظْمَ الْقَوَافي *** فَلَمَّا قَال قَافِيَةً هَجَاني
میں اسے ہر روزنشانہ بازی سکھاتا *** اور جب اس کابازو مضبوط ہوا، اس نے مجھے ہی نشانہ بنا ڈالا
اور کتنی ہی میں نے اس کو نظمیں سکھائیں *** پھر جب وہ نظم کہنے کے قابل ہوا، تو میری ہی تضحیک کر ڈالی
علامہ المناوی ’فیض القدیر‘ میں کہتے ہیں:
(كلاب أهل النار هم قوم ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون أنهم يحسنون صنعًا، وذلك لأنهم دأبوا ونصبوا في العبادة وفي قلوبهم زيغ، فمرقوا من الدين بإغواء شيطانهم حتى كفروا الموحدين بذنب واحد، وتأولوا التنزيل على غير وجهه، فخُذلوا بعدما أيدوا حتى صاروا كلاب النار فالمؤمن يستر ويرحم ويرجو المغفرة والرحمة، والمفتون الخارجي يهتك ويعير ويقنط وهذه أخلاق الكلاب وأفعالهم، فلما كلبوا على عباد الله ونظروا لهم بعين النقص والعداوة ودخلوا النار صاروا في هيئة أعمالهم كلابًا كما كانوا على أهل السنة في الدنيا كلابًا بالمعنى المذكور)
[’جہنم کے کتے‘ (یعنی خوارج) ایسی قوم ہے جن کی کاوش دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی، جبکہ وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ نیک اعمال کر رہے ہیں،اور یہ اس سبب ہوا کہ وہ عبادت میں تو ریاضت کر رہے تھے لیکن دل میں گمراہی تھی،وہ اپنے شیاطین کے دھوکے میں آ کر (دین کی تشریح سے) نکل گئے،حتی کہ انہوں نے موحدین کی تکفیر صرف ایک گناہ کی بنیاد پر کرڈالی، اور اللہ کی وحی کو ایک غلط جہت میں پیش کر دیا، پس انہیں مدد دیے جانے کےبعد چھوڑ دیا گیا اور وہ جہنم کے کتے بن گئے، ایک مومن چھپاتا ہے، رحم کرتا ہے اور مغفرت اور رحمت کی امید رکھتا ہے، اور سحرذدہ خارجی منکشف کرتا ہے، ذلیل کرتا اور رسوائی دیتا ہے، اور یہ تمام کلاب(کتوں) کےاسلوب اور افعال ہیں، اور جب انہوں نے اللہ کے بندوں کی طرف شدت دکھائی،اور اُن کی طرف نقص والی آنکھ سے دیکھا اور اُن سے دشمنی کی، تو جہنم میں اپنے اعمال کی وجہ سے داخل کر دیے گئے، بالکل ویسے ہی جیسےکہ یہ اہل سنت پر دنیا میں کلاب(کتوں)والااسلوب رکھتے تھے، جیسا کہ مذکورہ بالا بیان کیا گیا ہے]
آپ رحمہ اللہ نے مزید بیان فرمایا:
(كلاب أهل النار أي: يتعاوون فيها كعواء الكلاب أو هم أخس أهلها وأحقرهم كما أن الكلب أخس الحيوانات )
[’جہنم کے کتے‘ کا مطلب ہے: کہ جہنم میں کتوں کی طرح بھونکیں گے یا وہ جہنم کے لوگوں میں ذلیل ترین اور حقیر ترین ہوں گے جیسا کہ کتا حیوانات میں سب سے ذلیل ترین جانور ہے]
ہم عراقی اہل سنت کو کہتے ہیں،جوعراق میں زخموں سے چور ہیں، اےمعزز قبائل اور مجاہدین جماعتوں کے شیرو! اللہ تعالیٰ آپ میں اور آپ کے جہاد اور مبارک انقلاب میں برکت عطا فرمائیں، جو اس ظلم اورعدوان کے سامنے سینہ سپر ہیں، ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ اپنی کوششوں کو ظالمین اور شدت پسندوں کے ہاتھوں چوری ہونے سے بچائیں، اور اپنا یہ ہدف بنائیں کہ اپنے مسلمانوں سے ظلم کو دورکریں گے،اور اس جہادی سفر کو واپس درست سمت کی طرف لے آئیں، اورعر اق کو اپنی صاف سنی شخصیت واپس دلوائیں، جو کہ افراط و تفریط سے پاک ہو۔
پھر میری نصیحت شام میں اور دیگر علاقوں میں مجاہدین جماعتوں کی قیادت سے ہے: خود کو ناموں کی بنیاد پرحزبیت اورمزموم تعصب سے بچائیں،جن کو آپ نے ہی وضع کیا ہے، اور اپنی اصل شناخت اور مصدر کی طرف آئیں جو دنیا اور آخرت میں فخر دلانے کا باعث ہے، وہی نام جو اللہ تعالیٰ نےآپ کے لیے منتخب کیا ہے، اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:
(وجاهدوا في الله حق جهاده هو اجتباكم وما جعل عليكم في الدين من حرج ملة أبيكم إبراهيم هو سماكم المسلمين من قبل)
[اور اللہ کی راه میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں برگزیده بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے]
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
(وكيف يجوز التفريق بين الأمة بأسماء مبتدعة، لا أصل لها في كتاب الله ولا سنة رسوله ﷺ ؟ وهذا التفريق الذي حصل من الأمة علمائها ومشايخها وأمرائها وكبرائها، هو الذي أوجب تسلط الأعداء عليها)
[بدعتی ناموں کے ذریعے کس طرح امت میں تفریق پیدا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جبکہ اس کی کوئی اصل نہ کتاب اللہ میں موجود ہے، نہ ہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں؟ امت کے اندر پائی جانے والی یہی تفریق جو ان کے علماء و مشائخ اور امراء وکبار میں پیدا ہوئی کے سبب ہی امت پردشمنوں کا تسلط ہوا]
أبي الإسلامُ لا أبَ لي سواهُ *** إذا افتخروا بقيسٍ أو تميمِ.
جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس کے علاوہ میرا کوئی اور والد نہیں ہے *** اگرچہ باقی قیس اورتمیم(قبیلے) پر فخرہی کیوں نہ کریں
اس بات سے متنبہ رہیں کہ آپ ریاست کے عہدوں کو اپنا محور نہ بنائیں، اور آزاد شدہ علاقوں پر تسلط حاصل کرنے کے لیے تنازعات اورجھگڑےپیدا نہ کریں،کیونکہ اگرآپ اس نااتفاقی پر رہو گے، تو آپ کوئی بھی دوست نہ بنا سکو گے اور نہ ہی کسی دشمن کو اداس کر سکو گے، پس اس لیے دل کے امراض اور دنیا اورعز ت کی چاہت سے خبردار رہیے، کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے راضی ہوئے اور اس سے متعلق سبب بھی بیان فرمایا: ( فعلم ما في قلوبهم فأنزل السكينة عليهم وأثابهم فتحا قريبا ) [ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی] (۴۸: ۱۸) اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ اُن کے دل میں ایمان اور اخلاص میں کیا موجود ہے، اور یہی وہ نتیجہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہ کامیاب ہوئے کہ اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور اللہ کی طرف سے جلد فتح مل گئی۔
اے اللہ، ہمیں جمع فرما دیجیے، ہماری دراڑوں کو بھر دیجیے،ہمارے ضعف کو طاقت میں بدل دیجیے، ہماری صفوں میں اتحاد پیدا فرما دیجیے، اورظالموں اوردشمنوں کے خلاف ہماری نصرت کیجیے۔
سبحان ربك رب العزة عما يصفون، وسلام على المرسلين، والحمد لله رب العالمين
ویڈیو لنک:
http://vimow.com/watch?v=Vy38mPB5ZWU