JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعتِ بغدادی کےاعلانِ خلافت سے متعلق موقف
شیخ ڈاکٹر عبداللہ بن محمد محیسنی


اس سے قبل جماعتِ بغدادی سے متعلق موقف میں اس گروہ سے متعلق ملاحظات کو بیان کیا گیا تھا، تاہم اب ایک نئی صورتحال سامنے آئی ہے جو اپنے نتائج کے اعتبار سےبہت بڑھ کر ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ مجاہدین کی معاملات کو آسان بنا دیں۔ اس معاملے کا تعلق جماعت الدولۃ کے خلافت کے اعلان سے ہے، کچھ بھائیوں نے مجھ سے اس امر سے متعلق شرعی موقف بیان کرنے کوکہاہے، جو کسی بھی جذبات سے آزاد ہو۔

دین کا امر اس معاملہ میں کیا ہے، اس کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے بعد مندرجہ ذیل عنوان کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی تھی:
نريدها على منهاج النبوة
[ ہمیں یہ (خلافت) منہج ِنبوت پر مطلوب ہے]

شروع میں منہج نبوت کےاوپر قیام ِ خلافت کے سلسلے میں کوشش ایک ضروری امر ہے ،جو خلافت امتِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے چھینی گئی تھی، صرف اس وجہ سے کہ امت ’وہن‘ (زندگی سے محبت اور موت سے نفرت) کی بیماری میں مبتلا ہو گئی، جب انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیا اور امت نے ایسے علماء اور حکمرانوں کے آگے خود کو جھکا دیا ،جو فقط حکام کی مرضی کے مطابق بیان کرتے ہیں اور انہی حکام کے لیے فتاوی دیتے ہیں اور امت کے لیے حق کو باطل کے ساتھ ملاتے ہیں، واللہ المستعان۔ اس لیے خلافت کے قیام اور اس کیلئے کوشش واجبات میں سےہے، اورامت کی شان و شوکت ان کے متحد ہونے اور دین سے جڑ جانے میں ہے۔

اسی غرض سے یورپی ممالک نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ’سایکس پیکو‘ کی فرضی حدود کا اہتمام کیا، اسی لیے اقامتِ دین اور احکاماتِ شریعت کامکمل نفاذ اسی خلافت سے منسوب ہے، اور مسلمانوں کے لیے مکمل امن خلافت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔

میں ہر اس شخص سےجو ’وہن‘ کی بیماری میں مبتلا ہے اورجو مغرب کی قوت و شوکت کو دیکھ کر یہ گمان کرتاہے کہ خلافت کی کوشش فقط ایک خیال اور وہم ہی ہے، بلکہ یہ توراہِ جنون ہے،اس سے یہی کہوں گا کہ جان لو، خلافت یقیناً ضرور قائم ہونے والی ہے، اور میں اس ذاتِ واحد کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں کہ امت کی عزت اور خلافت ضرور بضرور۔۔رغبتی یا بے رغبتی سے۔۔۔ ضرور واپس آئے گی۔ یہ وعدہ تو ہمارے نبی ﷺ کا ہے، اور ایسے وہن میں مبتلا افرادتو اسے دور دیکھتے ہیں جبکہ ہم اس امر کو قریب دیکھ رہے ہیں۔

آپ اس امر کو دنیاوی پیمانے پر تولنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہم اس امر کو تیونس میں ایک بدلتی رات کے موافق حالات کی طرز پر دیکھتے ہیں، اسی طرز پر حاکمِ مصر (حسنِ مبارک) کا معاملہ جبکہ وہ قیدی بن گیا، اور ایک قیدی(مرسی) حکمران بن گیا، اور پھر اس کے بعد حکمران پھر سے قیدی بنا لیا گیا۔

جو ذات ان تمام حالات کو بدلنے پر اسطرح قادر ہے، وہ امت کے حالات بھی اسی طرز پر بدل دینے کی باکمال صلاحیت فقط اپنے ایک قول سے رکھتی ہے، (کن فیکون)، پس ہو جا! اور وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فقط اس خلافت کے لیے کوشش کریں،جبکہ تنائج کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

لیکن ہم اس با ت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضرور بیان کرتے ہیں کہ جس خلافت کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں جس کا گھونٹ ہم اپنی گردنوں سے اتارنے کے خواہشمند ہیں، وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے وعدہ کی گئی وہ خلافت ہے جو (علی منھاج النبوۃ)،منہجِ نبوت کی طرز پر، قائم ہو ۔ اس کے علاوہ باقی اقسام ِخلافت فقط ملوکیت ہے جو امت پر سابقہ بھی موجود رہی ہیں اور جس کا ذائقہ دوسرے علاقوں نے بھی چکھا ہے۔

کوئی اعلان ِ خلافت جوشروط کا لحاظ رکھے بغیر ہی کر دیا جائے، ایک ایسی کیفیت کو جنم دیتا ہےجس میں جذبات کے ذریعے خوشگوار بے چینی کا ماحول بنادیا جاتا ہے یا ناجائز طور پر جذبات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ایسے اعلانات دین کے لیے فائدے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ جماعت بغدادی کا خلافت کا اعلان کوئی پہلا امر نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ایسے اعلان الجزائر میں بھی ہو چکے ہیں۔ اس الجزائر گروہ نے ناجائز قتل و غارت کی، امت افراتفری کا شکار ہوئی اور مغرب اور انکے آلہ کار اس سے خوش ہوئے۔ یہ اس سبب ہوا کہ اس گروہ نے خلافت کے اعلان میں تمکن (غلبہ) سے قبل ہی عجلت دکھائی۔

دو دسال پہلے، ابو البنات اور انکے حواریوں نے شام میں خلافت کا اعلان کیا اور بیعت کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے خود کو شورائیتِ امت سے علیحدہ کیا، پس وہ نیست ونابود ہو گئے۔

کچھ نوجوانوں نے افغانستان میں خلافت کا اعلان کیا اور مجاہدین کے خلاف برسرِ پیکار ہوئے، اور امت پر اپنے گروہ کی بیعت کو لازم کیا اور اس بنیاد پر قتال کیا اورخود بھی قتل ہوئے اور دوسروں کو بھی قتل کیا۔

پس ان واقعات سے یہ عبرت حاصل ہوئی کہ خلافت کے شعار کا اعلان فقط اُس سے وابستہ شروط کے بغیر نہیں کیا جانا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ خلافت منہجِ نبوت پر قائم ہو، اگر ایسا نہ ہوا تو جو چیز حاصل ہو گی، وہ بے سود ہی ہو گی۔

آج ہم اسی پس منظر میں مجاہدین کے درمیان ایک اور تفریق کے شاہد ہیں،جس میں اختلاف رائے بڑھ رہا ہے، جہاد کونقصان ہو رہا، فرقہ بندی کی بنیاد پڑ گئی اور ناحق خون بہایا جا رہا۔
اے اللہ! ہم آپ کے سامنے ہی یہ تمام شکایات کوبیان کرتے ہیں۔

آج جماعت ِبغدادی نے خلافت کا اعلان کیا ہے، جسکو صرف عراق وشام تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کا اطلاق پوری امت پر مشرق سے لے کر مغرب تک کر دیا ہے، اور وہ بھی بغیر مشورے اور شورائیت کے، اور اس امر میں کسی ایک معتبر عالم ِ دین سے مشورے کی حاجت ضروری نہیں جانی ہے!

ہر راست باز شخص سے میں یہ کہوں گا، اللہ سے ڈریں، یہ معاملہ فقط جہاد کی صفوں میں تفریق پیدا کرنے والا وہی سابقہ واقعات (الجزائر، شام اور افغانستان میں اعلانِ خلافت )جیسا تکرار ہی ہے، جس میں عجلت پسندی غالب آ رہی ہے، جس میں باقی جہادی جماعتوں، انکے علماء، اہل عقل اور امت کے اہل حل وعقد سے رجوع کیے بغیر تمام معاملا ت کیے گئے ہیں۔آپ لوگ اللہ کے سامنے ان افعال کا بوجھ ضرور اٹھانے والے ہیں۔

اے حق کے متلاشی،
اہل علم نے کسی حاکم کی امامت کے لیےتین صورتیں بیان کی ہیں:

۱) استخلاف (سابقہ حاکم کی طرف سے ولی عہد کا انتخاب ہونا)
۲) شوری (منہج نبوت کی طرز پر)
۳) متغلب (جو حکومت پر غلبہ پا لے)

جہاں تک معاملہ استخلاف سے امام بننے کا ہے تو وہ وقوع پذیر نہیں ہوا ہے، پس جہاں تک بغدادی کا معاملہ ہے تو اب صورت متغلب کی بچتی ہے یا منہج نبوت پر شورائیت کی۔

اب جہاں تک معاملہ شوری کا ہے، تو ہمیں جو مطلوب خلافت ہےوہ منہجِ نبوت کے اوپر ہے جسکا ہم سے وعدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا ہے اور اسی خلافت کے لیے ہم فی سبیل اللہ اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تاکہ اس مطلوبہ خلافت کا احیاء ہو سکے۔ پس یہ وہ خلافت ہرگزر نہیں ہے جس کا اعلان بغدادی نے (بغیر شوری) کے کیا ہے۔

شریعت نے تمام اعمال سے متعلق شروط و موانع سمجھانے کا اہتمام کیا ہے تاکہ کسی بھی عبادت سے متعلق خطا ہونے کی غلطی کے احتمال کو روکا جا سکے، پس اسی طرح نقصان پہنچانے والا اور فائدےسے روکنے والا شخص اس گمان میں ہوتا ہے کہ وہ تو خیر اور اچھائی پر ہے۔اہل بدعت اور اہل تصوف جب اپنی بدعت پر مبنی تسبیحات اور نمازوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے بارے میں عند اللہ یہی گمان رکھتے ہیں کہ وہ تو خیرکا معاملہ کر رہےہیں۔

نماز کے اوقات ہیں اور اس کی قبولیت کی شرائط ہیں، اسی طرح دیگر فرض عبادات کا احوال ہے جیسے حج، روزہ، زکوۃ؛ ہماری نماز، روزے، حج، خلافت سے محبت ہم سے اس چیز کا تقاضا ہرگز نہیں کرتی ہے کہ ہم اس اسے جب وقت بھی چاہیں اپنی منشاء کے مطابق ان عبادات کو قائم کرلیں اور ساتھ یہ گمان بھی رکھیں کہ دین اور عملِ صالح سے محبت کے پیش نظر یہ تمام اعمال کر رہے ہیں۔ پس اس طرح تو ہم بدعت کی طرف قدم بڑھا دیں گے، اور یہی معاملہ خلافت کے ساتھ بھی ہے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق بغیر شروط کا اہتمام کیے قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

جس طرح باقی عبادات کے لیے شروط ہیں، اسی طرز پر خلافت کے لیے بھی شرائط موجودہیں، اور ان میں سب سے اہم ترین شرط تمکن اور شوری کی ہے۔

[ایک حقیقی معتبر تمکن جو کسی وہم سے بالا تر ہو اور منہجِ نبوت کی طرز پر شورائیت پر مبنی ہو، نہ کہ کسی ایک گروہ کی نمائندگی کرتا ہو]
[خلافت امت کے لیے ہے کسی خاص جماعت کے لیے نہیں ہے]

ظہورِ بغدادی شرعی طور پر اس خلافت کے صحیح ہونے کے لیے دلیل نہیں، سب سے ضروری امر یہ ہے کہ دیکھا جائے گاکہ شرائطِ خلافت پوری ہوئی ہیں کہ نہیں، اور ان میں سب سے اہم شرط جس کا پورا ہونا ضروری ہے وہ تمکن کا ہے، اور یہ اہل حل و عقد کو اختیار دینے پر منحصر ہے، جن کا انتخاب امت خلافت کے مسئلہ پر کرتی ہے۔ خلافت شرعی اور فقہی حوالے سے نمائندگی کا نام ہے، اور خلیفہ امتِ اسلامیہ کا نائب ہے، اور یہ اہل حل و عقد ان معتمدین کی طرح ہیں جن کی بیعتِ خاصہ کے ذریعے یہ نمائندگی خلیفہ کو منتقل ہوجاتی ہے۔

یہ نیابت یا نمائندگی شرعی،عقلی اور روایتی طرز پر تب ہی ثابت ہو گی ،جب تک امت (ان اہل حل و عقد کی بیعتِ خاصہ کے ذریعے) خلیفہ کا انتخاب نہ کر لے،جبکہ یہاں پرصرف ایک جماعت کا اعلانِ خلافت خلیفہ کے انتخاب کے لیے کافی نہیں ہے۔

کیا ملا عمر، الظواہری،امیرِ قوقاز،الوحیشی (یمن کے امیر) اور دیگر دوسرے امرائے جہاد نے یہ انتخاب ِ خلیفہ کیا ہے؟ کیا علمائے ارض یا دیگر دوسرے علاقوں میں موجود علماء نے اس کا انتخاب کیا ہے؟

کیا مجاہدین میں سے موجود اہل حل و عقد (اہل شوکت) اور دیگر مجموعات نے یہ انتخاب کیا ہے؟ ہم’ مجاہدین کی خلافت‘ کے لیے کوشاں نہیں ہیں بلکہ ’امت کی خلافت‘ کے لیے کوشاں ہیں، پھر کیاخلافتِ بغدادی امت کے لیے ہے یاصرف اپنی مخصوص جماعت کے لیے خاص ہے؟

اے حق کے متلاشی!
کسی ملک میں امارت کا قیام اہل حل وعقد(اہل شوکت) کی مشاورت (شوری) کے بغیر جائز نہیں ہے۔

کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے:
[اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے]

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا:
[اگر مجھے بغیر شوری(مشاورت) کے امیر بنانے کی اجازت ہوتی، تو میں ابن مسعودؓ کو امیر منتخب کرتا]

یہ بہت ضروری امر ہے کہ اہل حل وعقد ہی امتِ محمدﷺ کے اصل نمائندے ہوں۔ یہ کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا انتخاب خود ہی مجلس شوری میں کر لے، اور اس کو ’اہل شوری‘ کا نام دے دے، یہ تو ظالموں کا طریقہ کار ہے، خلافت کا طریقہ کار ہرگزر نہیں ہے۔

پھر ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے بغدادی کا انتخاب کیا اورانکی شوری کے حوالے سے یہ بتایا جائے کہ ان افرادکے نام کیا ہیں؟ ان کا احوال کیسا ہے؟ وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ان کو اس چیز کا اختیار کس نے دیا ہے؟

یہ اعلان جسے (دولۃ العراق و الشام) کے نام نے منسوب کیا جاتا ہے ایک بہت بڑی غلطی ہے، امت کےاوپر جرأت کرنے والا معاملہ ہے اور جنہوں نے اس معاملہ میں حمایت و نصرت کی اور بیعت دی ہے، ان کے لیے ہلاکت ہے اور ان کو اس امر کے تباہ کن تنائج کا بوجھ اٹھانا ہو گا۔ ہم ایک ایسی خلافت کا سامنا کر رہےہیں جو تمکن اور شوری کے بغیر قائم کی گئی ہے، جو ظلم پر قائم کی گئی ہے، منہجِ نبوت پر قائم نہیں ہوئی، اب اس استبداد پر مبنی خلافت کےلیے اور کتنا خون بہایا جائے گا؟

میں نے ذاتی حیثیت میں بھی اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بغدادی کو شام کے کثیر علاقوں پر غلبہ اور تمکن حاصل نہیں ہے جیسے حلب، ساحل، حمص، دمشق، غوطہ اور دیگر دوسرے علاقے۔

پھر کس طرح امت پراس خلافت کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ ، اللہ کی قسم یہ ایک سنگین غلطی ہے اور اندھا فتنہ ہے۔

پھر یہ غلطی مزید اسطرح بھی بڑھ جاتی ہے جب اس کے ساتھ ناحق خون بھی بہایا جائے اور عزتوں کو پامال کیا جائے، پس بغدادی کا اپنے لیے خلافت کا اعلان کرنا اور پھر جو کوئی اس استبداد (جابرانہ طرز پر) پر مبنی بیعت کو قبول نہ کرے اس سے قتال کرنا اور اس بیعت کے لیےموحدین کا خون بہانا ایک بھیانک امر ہے۔

ان انصارانِ بغدادی اور بیعت دینے والوں کے لیے ہلاکت ہے جو اس ناحق قتل میں اس کی نصرت کرتے ہیں، پس جب انہیں جبار سبحانہ تعالیٰ کے سامنے محاسبہ کے لیے پیش کیا جائے گا، ان کے لیے پھر ہلاکت و بربادی ہے۔

ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جنہوں نے پورے عالمِ اسلام میں جہادی صفوں میں تفریق پیدا ک۔۔۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ فتنہ یمن، مغرب، صومال اور دیگر جگہوں پر (اللہ محفوظ فرمائیں) منتقل ہو سکتا ہے، اس دن یہ لوگ امریکا اور انکے حواریوں کو کتنا خوش کر دیں گے!

اس معاملہ میں سب سے ناجائز منظرنامہ یہ بن جائے گا، جس میں خونِ مسلم ناحق بہایا جائے گا۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے، اللہ کی قسم، ہم اس لیے نہیں نکلے یا مجاہدین کو اس لیے نہیں نکالا ہے کہ وہ ناحق خون بہائیں اور اُن کی عزتوں کو پامال کریں بلکہ ہم تو ان کے اوپر ڈھائے جانے والے ظلم، کفر اورفتنہ کو ختم کرنے کےلیے آئے ہیں، پس ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرو!

مجاہدین اور علمائے امت سےبغیرمشورے کےاس شعار کا اعلان کرنا ایک شدید فتنہ ہے جو مجاہدین کے درمیان قتال کا سبب ہے اور جس سے ناحق خون بہایا جائے گا۔ یہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک یہ اللہ کے حکم کے مطابق اس معاملے کو علمائے امت کی طرف نہ لوٹا دیں۔

پس اگر یہ خلافت منہج نبوت پر نہیں ہے تو یہ لازم بات ہے کہ یہ متغلب اور استیلاء پر مبنی ہے، پس اس کا حکم جبری ملوکیت کا ہے نہ کہ اس خلافت کا جس کی بشارت ہمیں نبی اکرمﷺ نے دی۔

اگر وہ اس بات کاگمان رکھتے ہیں کہ بغدادی کی امامت شوری کے ذریعے نہیں تھی بلکہ استیلاء ہے، تو اہل علم متغلب امام کے فسق پر متفق ہیں، اور یہ بات واجب ہو جاتی ہے کہ اس کوان علاقوں سے پچھاڑ دیا جائےجہاں اسکو ولایت ، سلطہ اور اختیار حاصل نہیں ہے۔

اگر وہ تم سے کہیں کہ وہ متغلب ہے، اور اس کی بیعت اہل رقہ (شام کا شہر)پر درست ہے اور اس کو بطور متغلب اہل رقہ نے بیعت دی ہے،توپھر باقی علاقوں اور ملکوں میں جو اسےبغیر مشاورت (شوری) کے امام (خلیفہ) نہیں مانتے کیونکہ وہ متغلب ہے اور اس وجہ سے فاسق ہے ، تو باقی علاقوں کے لیے اس کو بیعت دینا جائز نہیں ہے بلکہ ان کو چاہیے کہ وہ اپنا دفاع کریں۔

جس طرح پہلے بیان کیا گیا ہے کہ بیعت بغداد ی خلافت کے لیے درست نہیں، بلکہ یہ ایک باطل بیعت ہے جس میں امت کے اوپر جرأت دکھائی گئی ہے، صفوں میں تفریق پیدا کی گئی ہےاور ناحق خون بہایا گیا ہے۔

آخر میں،
اے حق کے متلاشی،
یہ اعلانِ خلافت جو باقی اہل حق جماعتوں کو چھوڑ کر فقط ایک جماعت نے کیا ہے، یہ اس کے باطل ہونے پر دلیل ہے اور مسلمانوں کے حق میں ظلم پر مبنی ہے۔

امام اعظم (خلیفہ) کو نصب کرنے کا مقصود تو وحدتِ کلمہ، وحدت ِ امت، اقامت دین اور احکاماتِ الہی کا نفاذ، ظلم کو دور کر کے انصاف کوپھیلانا ہے۔ میں تم سے اللہ کے لیے سوال کرتا ہوں، تم نے اپنے افعال سے امت کو کلمۂ حق پر جمع کیا ہے یا اس کو سیپارہ کر ڈالا ہے؟

اے حق کے متلاشی،
جو اپنے سلطہ کو تمام اسلامی ممالک تک وسعت دینے پر قادر ہو ، اسی کے لیے ہی امامت کا انتخاب کیا جائے گا، پھر اس کے بعد ہی اس کو بیعت دی جائے گی۔

جس کے پاس قدرت نہیں ہے نہ ہی اکثر مسلمانوں، انکی بری، بحری، فضائی، وسائل،خدمات پر سلطہ حاصل نہیں ہے، اس کے پاس خلافت میں سے کوئی بھی چیز نہیں ہے سوائے ایک نام کے۔ اسلام کے اندرکسی والی(خلیفہ) کے فرائض کی ادائیگی بہت عظیم معاملہ ہے اور یہ ان شرعی القابات کو اپنی ذات کے لیے مخصوص کر لینے سے بہت بڑا معاملہ ہے۔

کیا اس خلیفہ کے پاس جس کا انتخاب تم لوگوں نے کیا ہے کویمن یا صومال یا دوسرے دیگرشہروں میں موجود مسلمانوں کے دفاع کا اختیار حاصل ہے؟ پھر یہ کس طرح خلیفہ ہو سکتا ہے جبکہ حدیث میں بیان ہوتا ہے [امام ڈھال ہے]؟

کیا یہ اپنی بیعت یافتہ رعایا کے لیے عملی طور پر ایک ڈھال ہے اور ان سے منسلک نقصان اور خوف کو دور کر سکتا ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا [امام ڈھال ہے]؟

بیعت دینے کا مطالبہ کرنا اور جسکی بیعت دی جا رہی اس کی عدم استطاعت کہ وہ ان کے احوال کی درستگی کر سکے جو اسکے علاقوں سے دور ہیں کے اندر واضح نشانی موجود ہے کہ خلافت کے معاملات اور اختیار میں غفلت پائی جاتی ہے۔

یہ اعلانِ خلافت جوتم لوگوں نے کیا ہے یہ فقط اہل سنت کا مزید خون بہانے کی تیاری ہے اور بغاوت کومزید بڑھکانے کے لیے اس کا سنگِ بنیاد ڈالا گیا ہے، اور اس خلافت کوجواز بنا کراپنے مخالفین کے قتل کی راہ ہموار کی جائے گی۔

یہ تمام جہادی جماعتوں اور دیگر افراد جو انکی خلافت سے موافقت کا اظہار نہ کریں گے کے خلاف لڑنے اور انہیں قتل کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔

یہ القاعدہ اور اس سے وابستہ تمام فروع کے خلاف جنگ ہے، اس امر سے مغرب اور اسکے حواری خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ القاعدہ نے اس (خلیفہ) کی تابعداری قبول نہیں کی ہے، اور یہ اس جنگ کو اہل سنت پر باقی رکھنے کے لیے اہل سنت کے نام سے ہی سامنے لائےہیں۔

یہ خلافت کا اعلان جہادی تنظیموں کےلیے خلافتِ موعود کے مرحلے سے قبل ہی ایک حصار اور جال ہے، جو دین کا نام استعمال کرتے ہوئے ہی ایک جنگ مجاہدین پر مسلط کر دی گئی ہے۔

اے حق کے متلاشی،
یہ خلافت صرف اپنے مخالف کو گمراہی کی تہمت بلکہ اسے قتل کرنے کی تحکیم کا نام ہے،یہ تحکیم بھی اس کے اوپر ہو گی جو سچا سنی مسلمان ہے۔۔۔یہ بات ان کی گمراہی پر سب سے بڑی دلیل ہے۔

اے جماعت بغدادی اور انصارانِ بغدادی،
یہ حق بات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی علماء نے اس حق بات کی تصدیق کی ہے:

بلاشبہ امت اور اسلامی ریاست فقط رقہ (شام کا شہر) یا موصل(عراق کا شہر) تک محدود نہیں ہے، یہ امت تم سے بھی اور ہم سے بھی وسعت میں ہے، پس اس معاملہ میں فتوے جاری نہ کرو اور اللہ کا تقوی اختیار کرو۔

افغانستان، یمن،چیچنیا،مغربِ اسلامی میں موجود مجاہدین کی جماعتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈر جاؤ، مسلمانوں پر ان کے جہاد کو فساد میں مت بدلو۔

اللہ تعالیٰ کے دین کا دفاع گونج دار نعروں اور نہ ہی رومانوی کشش رکھنے والے کلمات سے ہوتا ہے، تم ضرور اپنے اعلان کا نتیجہ دیکھ لو گے، بے شک اس میں کچھ وقت ہی کیوں نہ لگ جائے!

اور اللہ تعالیٰ کے لیے امر پہلے بھی تھا اور بعد میں بھی اسی کا امر ہے!


اختتام