بسم اللہ الرحمن الرحیم
عدنانی منہجِ خوارج سے موافقت کرتے ہوئے
عدنانی اپنے مارقہ بیان ’’معذرت امیرالقاعدہ‘‘سے مخاطب ہوا اور خوارج کے ساتھ
بہت سےامور میں موافقت کی
کاتب:
@ahmad_3393
عدنانی منہجِ خوارج سے موافقت کرتے ہوئے
عدنانی اپنے مارقہ بیان ’’معذرت امیرالقاعدہ‘‘سے مخاطب ہوا اور خوارج کے ساتھ
بہت سےامور میں موافقت کی
کاتب:
@ahmad_3393
۱)ہم منہج اسامہؒ کی طرف واپس ہو رہے ہیں؟
عدنانی نے کہا:
اور ہم یہاں ایک بار پھر اپنے ہاتھ کو آپ کی طرف بڑھاتے ہیں، تا کہ آپ اپنے بہترین پیشرو(شیخ اسامہؒ) کے بہترین جانشین بن جائیں، شیخ اسامہؒ نے مجاہدین کو ایک کلمہ پر متحد کیا۔
ہم اس سے کہتے ہیں:
اس بات سے تم اپنے اجداد خوارج کی پیروی کرنے لگے، وہ انحرافِ سیدنا علیؓ کی دعوت دیتے تھے اور سیدنا ابوبکرعمرؓ کے معاملے میں رحم سے کام لیتے تھے؟
۲) شریعت کی تحکیم سے انکار ؟
عدنانی نے کہا:
اور جہاں تک معاملہ ہے غیرجانبدار شرعی محاکمہ کی بابت، جس پر آپ نے زور دیا ہے، تو ہم آپ سے کہتے ہیں: یہ امر تو ممکن نہیں ہے، بلکہ یہ تو ناممکن ہے، اور اس کا سوال کرنا تو بڑی تصوارتی خیالی بات ہے، کیوں؟ کیونکہ آپ نے مسلمانوں کے درمیان تفریق ڈال کر ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس میں کوئی بھی تیسرا گروہ باقی نہیں ہے۔ ایک گروہ دولۃ اور انصارانِ دولۃ کا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو غیر جانبدار شرعی محاکمہ کا مطالبہ کرنے والا ہے، پس اب روئے زمین پر کوئی بھی غیرجانبدارجمیعت موجود نہیں ہے، جس پر دونوں گروہ متفق ہوجائیں۔
ہم کہتےہیں:
غیرجانبدار تحکیم کا انکار سابقہ خوارج نے بھی کیا تھا جب انہوں نے سیدنا علیؓ سے کہا: ( ان الحکم الا للہ، حُکم تو صرف اللہ کا ہی ہے)،پس یہ بھی اس کا انکار کر رہے اور کہہ رہے: [ ممکن نہیں، بلکہ ناممکن، بلکہ یہ تو فقط تخیلاتی بات ہے] ، تو کیا اسے صرف یہ اعلانِ خلافت ( کی اجازت دینے)کی شرط پر قبول کریں گے؟
عدنانی نے کہا:
پس اب روئے زمین پر کوئی بھی غیرجانبدار جمیعت موجود نہیں ہے، جس پر دونوں گروہ متفق ہوں۔
ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:
[کسی بھی خوارج گروہ کی گمراہی کی اصل ان کا یہ اعتقاد ہے کہ ہدایت یافتہ ائمہ اور جماعت المسلمین اب یہ عدل وانصاف سے دور ہو چکے ہیں(یعنی شریعت کے معاملہ میں عدل نہیں کر رہے)، اور انہوں نے گمراہی اختیار کر لی ہے]
اسی لیے دولتِ بغدادی نے شیخ سلیمان العلوان کی قید سے قبل ان کی احرار الشام کی تحکیم سے انکار کیا اور شیخ ربیش کے معاملہ میں شیخ محیسني کے شرعی محاکمہ کے منصوبہ سے انکار کیا، بلکہ انہوں نے کسی بھی غیر جانبدار شرعی محکمہ قضاء کا انکار کیا، اور یہاں تک کہ مشترکہ شرعی محاکمہ قضاء کا بھی انکار کیا۔
۳) عمومی اصول و قواعد و احکامات کو ذکر کر کے تدلیس سے کام لینااور اس کو کسی پر معین حُکم لگانے کی منزل تک پہنچانا
عدنانی نے کہا:
شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ منہج جمہوریت اور جمہوریت پسندوں کے بارے میں کہتے ہیں:
"پس یہ اور ان جیسی دوسری وجوہات کی بنا پر ہم نے اس خبیث منھج کے خلاف ایک سخت جنگ کا اعلان کیا ہے اور ہم نے اِس باطل عقیدہ اور ناکامی کے راستے پر چلنے والے افراد کے حکم کو بھی واضح انداز سے بیان کیا ہے۔ پس جو کوئی حمایت اور نصرت کے ذریعے سے اس منہج کو قائم کرنے کی سعی کرتا ہے، تو وہ دینِ جمہوریت اور اس کے پیروکار لوگوں کا نگرانِ حال مانا جائے گا۔ اور اس کا حکم اُن لوگوں کے حکم کی طرح ہے جو اس دینِ جمہوریت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں۔
انتخابی امیدوار ربوبیت اور الوہیت کا دعوی کرنے والے ہیں، جبکہ ان کے لیے ووٹ کا استعمال کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کو اللہ کے ساتھ رب اور شریک ٹھہرایا۔ اور اللہ کے دین میں ان سب کا حکم کفر اور اسلام سے ارتداد کا ہے۔
اے اللہ ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اےاللہ! آپ گواہ رہیے گا"۔ (کلام ختم ہوا)
یہاں پر عدنانی نے تدلیس(حق بات چھپانا) کی ہے:
وہ عام قواعد اور مطلق احکامات کو دلیل کے طور پر سامنے لایا ، اور اس کو حکمِ معین کی منزل تک پہنچا کر ، اس کا اطلاق سب پر کر دیا ہے ۔
اس نے مشائخ القاعدہ سے انہیں تقاریر کا انتخاب کیا جس میں تکفیر اور ارتداد کا ذکر ہے، گویا کہ جیسے القاعدہ (کی فکر) میں تکفیر اور ارتداد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے؟ یہ کس قسم کی خطا اور تلبیس ہے جو اس دماغ میں پائی جاتی ہے؟
اس قابلِ کراہت باطل کا رد ہم شیخ عطیۃ اللہؒ کے اقوال سے کرتے ہیں،
شیخ عطیۃ اللہ اللیبیؒ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جن کو انتخاب کے لیے چنا جاتا ہے:
جہاں تک سوال کےپہلے حصہ کا تعلق ہے جو کہ انتخابی امیدواروں سےہے، جو پارلیمینٹ کے انتخابات میں حصہ لیتےہیں یا دیگر حکام وغیرہ، تو اس میں بھی (فقہ) واقعہ کی تفصیل میں جانا لازم ہے، اس میں جو کوئی اللہ کے دین کے علاوہ قانون سازی کرے، اور اللہ کی شریعت کےعلاوہ قانون سازی میں مصروف ہو جائے، تو ایسا شخص کافر ہے، اور یہ حکمِ نظری ہے (جس کی تطبیق کسی معین پرنہیں کی گئی بلکہ مطلقاً حکم بیان کیا گیا ہے)، اور اسی طرح جو کوئی کسی مرتد حکمران کا انتخاب کرے تاکہ مسلمانوں کے اور دیگر مسلمان ممالک کے فیصلے کرے، تو وہ بھی اسی طرح کافر ہے، لیکن جب ہم فقہ الواقعہ میں جاتے ہیں، تو مسئلہ بالکل اسی طرح سیدھا سادھانہیں ہے، کیونکہ عام لوگ ان افعال کا ارتکاب اس لیے نہیں کرتے کہ یہ اللہ کی شریعت کے علاوہ قانون سازی کریں گےیا مرتد حاکم کا انتخاب کریں گے، مقصود بتانے کا یہ ہے کہ تفصیل میں جانا ضروری ہے، ہم لوگوں کی عمومی تکفیراس قاعدے کے ساتھ نہیں کرتے اور جو کوئی ایسے ( عمومی تکفیر) کرے، بے شک وہ بڑی واضح گمراہی میں جا پڑا ہے اور اصولِ علم وفقہ سے خارج ہو گیا ہے، اور وہ عامۃ المسلمین پر اس حالِ کفر کا اطلاق کر دے گا، جس کا اطلاق اُن پر نہیں ہوتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں۔
شیخ عطیۃ اللہ ؒنے حماس اور ان کی حکومت کے بارے میں کہا:
جو خطا حماس حکومت سے سرزد ہوئی ہم ان کو معذور، متاول (تاویل کرنے والے) سمجھتے ہیں، اور اس بنیاد پر کہ کچھ فتاوی انہوں نے اخذ اُن اہل علم سے کیے ہیں جن پر انہیں اعتماد ہے، بلکہ وہ ہمارے نزدیک مسلمان ہیں جو خطاکار ہیں، اور ہم انہیں نصیحت کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور جس طرح ہم باقی تمام مسلمانوں کو ہدایت کی طرف لانے کا کام کرتے ہیں وہی معاملہ ادھر رکھتے ہیں، اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو منکر ہیں، اور ان کی اخطاء کو صراحت سے بیان کرتے ہیں جو ان سے وقوع پذیر ہوں، ہم نہ ہی انہیں دھوکہ دیتےہیں اور نہ ہی امتِ مسلمہ کو۔
پھر شیخ عطیہ اللہؒ نے فرمایا:
لیکن ہم حماس کا جمہوریت اور مجلسِ قانون سازی میں داخلے کو، اور اسی طرح دوسری اشیاء کی طرف جانے کو جو دین کے مخالف ہیں، اس اضافہ کے ساتھ جو کہ دیگر مجموعات سے سرزد ہوئیں جن میں وہ افکار، قولی اور فعلی ضابطے شامل ہیں جو کہ شریعت کے مخالف ہیں، ان کو ہم منکر، باطل اور فسادِ عظیم سمجھتے ہیں، ہم اللہ کے سامنے ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں، اور ان کا انکار کرتے ہیں، اور اپنے بھائیوں کو نصیحت کرتےہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کر کے توبہ کریں، اس سے اجتناب کریں،اپنی اصلاح کریں اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لیں۔
جب شیخ عطیہ اللہؒ سے سوال ہوا:
کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ حماس کو ارتداد کے اوصاف سے متصف کیا جائے؟
پھر شیخ عطیہ اللہؒ کہتے ہیں:
نہیں بالکل نہیں، یہ بات جائز نہیں کہ ہم انہیں ارتداد کی صفت سے متصف کریں یا ان پر کفر کا حکم لگائیں۔۔۔بلکہ یہ غلطی ہے جس کی طرف توجہ ہم نے تمام جگہوں پر بسنے والے نوجوانانِ ملت کو دلائی ہے کہ وہ اس چیز سے اجتناب کریں، اور جہاں پر ان مسائل کا سامنا ہو وہاں پر کسی ایک پر کفر کا حکم لگانے میں جلدی نہ کریں، ایسے مسائل جن میں خطا اور تاویل سامنے آ جائے، اور یہاں تک کہ اگر غلطی بڑی بھی ہے، اور اس طرف معاملہ(تکفیر) کرنا پڑے،تو یہ (تکفیر)ناقابل واپسی نہ ہو، اور کوئی عذر بھی انکے ساتھ باقی نہ رہنے پائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
مزیدشیخ عطیہ اللہؒ کہتے ہیں:
ہم یہ نہیں کہتے کہ حرکتِ حماس یا یہاں تک کہ حکومتِ حماس طاغوت بن گئی ہے، کیونکہ وہ مسلمان ہیں جو خیر کی طرف تاویل کا شکار ہوئے ہیں، اور غلطی کر لی ہے، طاغوت تو ہر وہ شے ہے، جو بندگی سے تجاوز کرتے ہوئے خود کو معبود بنا لے یا اس سےبھی بڑھ جائے یا پھر اللہ سے بھی خود کو بڑھا لے، تو پھر کیا اے محبوب بھائی، کیا اس کی تطبیق حماس پر ہو سکتی ہے؟ نہیں! اس کی تطبیق نہیں ہوتی ہے۔
۴)تکفیر میں غلو:
جس طرح یہ سابقہ نقاط بیان کیے گئے ہیں، اس کی تائید کرتے ہوئے عدنانی نے عمومی طور پر مسلمانوں کی تکفیر کی ہے، جس میں انتخابات کے اندر شرکت کو بطور دلیل، بغیرتفصیل میں جائےبنایا گیا ہے، جس طرح کہ شیخ عطیہ اللہؒ نے اس موضوع پر صراحت کے ساتھ وضاحت کر دی ہے۔
وصلى الله وبارك على نبينا محمد . مصدر:
http://justpaste.it/fnv9