بسم اللہ الرحمن الرحیم
شہید ِفتنہ شیخ ابو خالد السوریؒ کی جماعت الدولۃ کوفتنہ کے وقت
ناحق تکفیر پرنصیحتِ عام
شیخ ابو خالد السوریؒ
شہید ِفتنہ شیخ ابو خالد السوریؒ کی جماعت الدولۃ کوفتنہ کے وقت
ناحق تکفیر پرنصیحتِ عام
شیخ ابو خالد السوریؒ
الحمد لله والصلاۃ والسلام علی من لا رسول بعدہ أما بعد:
ان حالیہ واقعات کے پیش نظر جو جہادِ شام میں رونما ہو رہے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ [الدین النصیحه]، کہ دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے ،( صحابہؓ کہتے ہیں )ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس کے لیے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی اوراس کے رسول ، اورمسلمانوں کے اماموں اورعام مسلمانوں کے لیے، پس ہم جماعت ’دولتِ اسلامیہ عراق وشام‘ کی قیادت اور افراد کو اللہ سے مدد مانگتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:
اول:
بلاشبہ شیطان اولادِ آدمؑ کے شکار کے لیے ہرجگہ گھات لگائے بیٹھا ہے، اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے اس کا وار اُن کو غلو کی طرف اور مسلمانوں کے خون کو حلال کرنے کی طرف لے کر جانا ہے، اور یہ وہ مسلک ہے جس نے الجزائر کے جہاد اور دیگر ساحاتِ جہادکو تباہ کر دیا، پس اس عورت کی طرح نہ ہو جانا جس نے اپنا سوت مضبوط کاٹنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کےتوڑ ڈالا ہو، اورجہادِ شام کو اس(غلو)کی طرف پھیرتے ہوئےفساد میں مت بدلو!
دوم:
بلاشبہ احکامِ تکفیر اور ارتداد کا اطلاق اور اسی طرز پر دیگر گروہوں پرملتے جلتے الزامات جیسا کہ یہ صحوات ہیں کی تطبیق کرنا ،جو ان پر ثابت اور واضح نہ ہوئی ہوں کبائر گناہوں میں سے ہے، اور بہت عظیم جرم اور گناہ ہیں،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: [جس نے اپنے بھائی کو کہا اے کافر، تو یہ (تکفیر) ان میں سے کسی ایک پر لازم لوٹےگی]، پھر اس شخص کا معاملہ کیسا ہو گا جو احکاماتِ ارتداد کا اطلاق مجاہدین کی اُن جماعتوں پر کرے جو تحکیمِ شریعت اور اقامتِ دین چاہتے ہیں، جیسا کہ ان قائدین سے ہم واقفیت کے ذریعے جانتے ہیں اور ان کی طرف سے بیان کی گئی خبر سے بھی یہ امرمعلوم ہے ؟
سوم:
آج جو ہم اِن جرائم اور اعمالِ خاطی کے بارے میں سن رہے ہیں، جن کا ارتکاب جہاد اوراقامتِ دولتِ اسلامیہ کے نام پر کیا جا رہا، اور جن کو منسوب مشائخ الجہاد شیخ اسامہؒ، شیخ ایمن الظواہری( حفظہ اللہ)، شیخ عبداللہ عزامؒ، شیخ ابو مصعب السوری (فک اللہ اسرہ) اور شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ کی طرف کیا جا رہا ہے، جو جہاد فی سبیل اللہ کو بلند کرنے جیسے معماروں میں سے ہیں، تو یہ اعمال ان قائدین کے منہجِ سلیم سے بہت ہی دور ہیں۔میں تمہیں ایک ایسے نصیحت کرنے والے کی حیثیت سے خبر دیتا ہوں، جس نے ان اکابرین کے ساتھ عمر کا ایک حصہ گزارا اور ان کو قریب سے جاننے کی معرفت کا حق بھی ادا کیا ، بلاشبہ یہ اکابرینِ جہاد اِن تمام اعمال سے بری ہیں جو آج ان کی طرف منسوب کیے جا رہے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے وہ بھیڑیا حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے (حضرت یوسفؑ) کے خون سے بری تھا، پس تمہیں تلبیس کرنے والوں کی تلبیس دھوکےمیں نہ ڈالے، اور نہ ہی جھوٹی خبریں پہنچانے والے تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔
چہارم:
کفار پر عزت اور اللہ کی زمین پراللہ کے دین کی تمکین جہاد فی سبیل کے ذریعے اس وقت تک کفایت نہیں کرے گی ،جب تک ہم تمام مومنین کے سامنے عاجزی اختیار نہ کر لیں اور ان کو نصیحت نہ کر لیں؛ عامۃ المسلمین اور باقی مجاہدین کے ساتھ غرور وتکبر کا معاملہ اہل تمکین کی اپنائی ہوئی راہ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ اُس کا راستہ ہے، بےشک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ انکساری اختیار کریں، اور کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے، نہ ہی ایک دوسرے پر ظلم کرے، چنانچہ کسی بندے کے دل میں اپنے بھائیوں پر فخر کا پیداہونا ،اسے ان کے خلاف ظلم کی طرف ہی اکساتا ہے، اور بدقسمتی سے یہی وہ چیز ہے جو آج ہم ساحاتِ شام میں دیکھ رہے ہیں۔
پنجم:
اس داخلی جنگ و قتال سے سب سے فائدہ اٹھانے والا نظامِ (بشار) اسد ہے؛ ان جماعتوں کا صفِ اول سے پسپائی اختیار کرنا، اور آپس میں جنگ وقتال کا ہونا، اُن پر احکاماتِ ارتداد کا اطلاق کرنااوران کے جان و مال کو حلال کرنا، اس بنیاد پر کہ صرف ہم ہی اکیلے خیار(امت کے بہترین نیکوکار لوگ) میں سے ہیں اور ہمارے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے اورباقی سب کو اس سبب دفع کرنا لازم ہے جیسے فکر وعمل سے ہر اول دستے کمزور ہو جائیں گے اور بشاری نظام پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی پہلی حالت پر مستحکم ہو جائے گا، لیکن ساتھ اس کے مجاہدین کے درمیان عداوتیں ہوں گی اور شامی عوام کواِس کا خسارہ اٹھانا پڑے گا، اور یہ اسلامی منصوبے سے عوام کی نفرت کا سبب بنے گا۔
ششم:
یہ خون جو شہداء نے بشاری نظام کو گرانے اور علاقوں کو آزاد کروانے کے لیے پیش کیا ، وہ اس مقصد کے لیے نہیں تھا،وہ صرف اسی لیے پیش کیا گیا تاکہ اقامتِ شریعت اور صفوں کی وحدت ہو سکے، [آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گےاورتمہاری ہوا اکھڑ جائے گی] ،پس جہاد کی ہواکو اکھیڑنے سےگریز کرو اوراس کا سبب نہ بنو، بلاشبہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
ہفتم:
جماعت ’دولت ِ اسلامیہ عراق و شام‘ کا اِن مجاہدین کےمعاملات پر اصرار کرنا، جنہوں نے ملک کو آزاد کروایا اور اس کے لیے شہداء کو پیش کیا، اور ان(جماعت الدولہ) کا یہ کہناکہ یہ جماعتیں ہیں اور یہ دولت (ریاست) ہے، اصلاً لوگوں کے حقوق کو کم کرتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:[ لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو]، اور یہی وہ بات ہے جو نہایت ضروری ہے، اوریوں شام کے میدانِ جہاد میں وہ پیچیدگی داخل ہو گئی جس سے وہ(جہاد) بری ہے، پس اس راہ سے نکلنے اور حل کی طرف جانے کے لیے ضروری ہے کہ ان حقائق کا اعتراف کیا جائے اور قرآن کے حل(اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے) کی طرف جایا جائے۔
اختتاماً:
ہم جماعت ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کے قائدین اور مہاجرین و انصار بھائیوں کو جو دولۃ کےسپاہ میں سے ہیں کو کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور اس کے امر اور شریعت کی طرف آئیں، اور ہم آپ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے تنبیہ کرتے ہیں [جو میری امت پر دست درازی کرے کہ اچھے بروں کو قتل کرے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہے اس کا عہد بھی پورا نہ کرے تو وہ مجھ سے تعلق نہیں رکھتا]
ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائیں جوبات کو سننے والے ہوں، اس کی بہترین انداز میں پیروی کرنے والے ہوں، اور جو کسی ملامت کرنے والےکی ملامت کا خوف نہ رکھنے والے ہوں۔ (آمین)
شہید فتنہ شیخ ابو خالد السوری (رحمہ اللہ)
مصدر:
https://justpaste.it/khalid0