JustPaste.it

الرّحمٰن الرّحیم

وزیرستان کی القاعدہ ، منہج و افعال کے آئینے میں

-اندرونی گواہی-

(از: برادر ابو جریر الشمالی(ابو ثائر

 اللہ  سبحانہ و تعالیٰ کے نام سے ابتدا کرتا ہوں۔ درود و سلام ہو اللہ کے رسول  محمدصلّی اللہ علیہ وسلّم   پر جنہیں تلوار دیکرتمام مخلوق کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا۔اور رحمت و سلامتی ہو  آپ کے اہل و عیال پر ، امّہات المومنین پر ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اور قیامت تک آپ کی حقیقی اتباع  کرنے والے نیکو کاروں پر۔

امّابعد۔

میں اردن اور اسکے  شہر عمّان،زرقا ،اِربد،وغیرہ کی مساجد  میں وہاں کے چند باسیوں سے متعارف ہو ا جو کہ اپنے آپ کو جماعت التوحید کہلواتے تھے۔ ہمارے درمیان الولاء و البراء کے عقیدہ کے علاوہ  کوئی تعلق   نہیں تھا،  جسے ہم نے قرآن اور توحید کی کتابوں سے سیکھا تھا،  وہ کتابیں جنہیں ابو محمد المقدسی وفقہ اللہ  نے کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ کے حوالے سے  اور دیگر علماء  جیسے عبدالقادرابن عبدالعزیز  [سید امام ]نے توحید کے عنوانات کے تحت لکھا ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو واپس حق پر لائے جس پر وہ پہلے تھے [آمین]۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ جیسے سلف صالحین کی پرانی کتابوں سے ہم نے یہ عقیدہ ازبر کیا۔ ہم نے شرعی علم پر دسترس رکھنے والے پرانے بھائیوں  کی رہنمائی میں ان کتابوں سے علم سیکھا۔

ہم اخوان المسلمون ، تبلیغی جماعت ، صوفیوں  اور دیگر بھٹکے ہوئے گروہوں سے (عقیدہ و منہج میں)جھگڑتے تھے۔ یہ معاملہ اس قدر شدت پکڑ گیاکہ انٹیلی جنس اور دوسرے سکیورٹی اداروں نے ہمیں گرفتار کر کے مختلف جگہوں پر بکھیر دیا  ، کچھ کو گھروں میں نظر بند کردیا اور اسی طرح دوسری پابندیاں عائد کردیں۔

ابو مصعب الزرقاوی رحمہ اللہ جہادی موحّدین کیلئے ایک مثال تھے۔ وہ ہمارے سب بھائیوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ ہمارے لئے ایک امیر کی حیثیت  رکھتے تھے۔میرے علم میں اس میدان میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو کہ اس اتفاق رائے سے اختلاف رکھتا ہو۔ گیارہ ستمبر سے پہلے ہم تنظیم القاعدہ کواسکے بعض قائدین کےاسی کی دہائی کے آواخر اور نوے کی دہائی کے بیانات کی  وجہ سے  ایک اِرجائی سوچ کی حامل جہادی جماعت سمجھتے تھے  مثلاً مرتد حکمرانوں خصوصا سعودی خاندان اور ان کی افواج  کے بارے خیالات کی وجہ سے اور ان حکمرانوں اور افواج کے ارتداد کو ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ  کی وجہ سے۔

(ایڈیٹر نوٹ:شیخ زرقاوی رحمہ اللہ اور تنظیم القاعدہ کے مابین عقیدہ و منہج کے اختلافات  کو القاعدہ کےچوٹی کے قائد سیف العدل نے یوں بیان کیا ہے”ابو مصعب کے ساتھ ہمارے اختلاف کے نکات نہ  ہی نئے تھے نہ ہی منفرد کیونکہ دنیا کے کونے کونے سے سینکڑوں ایسے بھائی آتے تھے جن سے ہم متعدد امور میں اختلاف کرتے تھے۔اس کی وجہ عقیدہ الولاء و البراء ،تکفیر اور ارجاء کے فہم کا اختلاف تھا- دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال سے کیسے نپٹا جائے اور ہر مجاہد اپنے مقامی علاقے میں صورتحال کا کیسے مقابلہ کرے ؟ابو مصعب کا سب سے اہم نکتہ  سعودی حکام  کے متعلق مؤقف  اور ایمان اور کفر کے بارے میں وارد  شرعی نصوص  کی روشنی میں اس سے کیسے نپٹا جائے  کے متعلق تھا”(تجربتی مع ابو مصعب الزرقاوی)۔واضح رہے کہ سیف العدل نے  اپنی تحریر میں ان اختلافات کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے)

 ہم افغان طالبان کو بھی اپنے ساتھیوں کی توحید کے بارےمیں ناقص تربیت کا ذمہ دار گردانتے تھے۔تربیت میں اس کوتاہی کی وجہ سے ان کے بہت سے لوگ قبروں کے طواف  اور تعویذ پہننے جیسےشرکیہ اعمال میں مبتلا ہوگئے ۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ابھی تک یہ معاملات موجود ہیں۔

ابو مصعب الزرقاوی  رحمہ اللہ روس کے افغانستان پر حملے کے دوران وہاں گئے تاکہ افغانستان کی مسلم سرزمین  پر حملہ آور  ملحد دشمن کو وہاں سے نکالا جائے  باوجود اس کے  کہ انہوں نے  وہاں کی عام عوام کی شرعی مخالفتوں  کا مشاہدہ کر لیا تھا۔ اس وجہ سے ہمارا گروہ دو  حصوں  میں بٹ گیا۔ ایک حصہ افغانستان میں  ہمارے  ان مشاہدات کے باوجود جہاد کرنے کا حامی تھا جبکہ دوسرا گروپ اس بات کا مخالف تھا۔

ابو مصعب  رحمہ اللہ پہلی خلیجی جنگ سے پہلے واپس اردن لوٹ آئے۔جنگ کے اختتام پر ان کو پانچ سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا ۔ ان کواردن میں دوران قید،  جیل میں ابو محمد المقدسی وفقہ اللہ  کے ساتھ رکھا گیا  اور   اردنی حکومت نےاُس وقت  اُن پر “امام کی بیعت” نامی  مقدمہ قائم کیا۔جیل سے رہائی کے فورا بعد انہوں نے رخت سفر باندھا اور افغانستان کی  راہ لی۔ گیارہ ستمبر کے واقعہ تک وہ وہاں ہی موجود تھے۔وہ وہاں اس لئے ٹھہرے رہے کیونکہ افغانستان کا علاقہ کفریہ نظاموں کے اثر سے بچا ہونے، ملک کے طول و عرض میں مجاہدین کی موجودگی،نقل و حرکت کی آسانی اور تربیت و تیاری کے لئے اسلحہ کی فروانی کی وجہ سے  جہاد کے لئے بہت سازگار تھا۔ لیکن جیسا کہ سب کومعلوم ہے کہ امریکہ افغانستا ن میں داخل ہوا اور اس پر قبضہ کر لیا۔

امریکہ کی اس مہم جوئی کے آغاز پر تمام مجاہد گروہوں نے اس  علاقہ کو خالی کردیا اور دوسرے علاقوں خصوصاً وزیرستان کی طرف رخ کر لیا۔یہ علاقہ جہاد سے منسلک مختلف عقیدہ و منہج رکھنے والے گروہوں کا مسکن بن گیا۔ان سب نے امریکہ کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ان گروپوں میں سے ایک تنظیم القاعدہ بھی تھی جو کہ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی، امریکی بحری بیڑے یوایس ایس کول پر حملہ  اور نیروبی اور دارالسلام میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں جیسی کاروائیوں کی وجہ سے شہرت حاصل کرچکی تھی۔

نوے کی دہائی کے آخر میں  افغانستان کے شہر ہرات، جوکہ شیعہ اکثریت کا علاقہ تھا اور مہاجر مجاہدین  گروپوں کے مراکزسے بہت دور تھا، میں ابو مصعب الزرقاوی رحمہ اللہ  نے اپنے چند ساتھیوں پر مشتمل مرکز قائم کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ابھی اپنے گروپ کو باقی گروہوں سے علیحدہ  رکھنا اور روز مرہ کی ملاقاتوں جیسے معمولات سے بچنا چاہتے تھے،تاکہ اس بہانے  خفیہ اداروں کے اندر گھس آنے سے بچا جاسکے۔انہوں نے اس لئے بھی اپنے آپ کو  علیحدہ رکھا کیونکہ باقی گروپوں کے لوگ  ان پر  شدت پسند ، خارجی اور تکفیری جیسے الزامات  لگاتے تھے۔

جہاں تک  ہمارے دوسرے ساتھیوں کا گروپ ، جوکہ اردن میں ہی مقیم رہا، کا تعلق ہے تو اس نے افغانستان میں جاری  جہاد کی حمایت نہیں کی[ گیارہ ستمبر سے پہلے تک]۔اسکی بجائے انہوں  نے اردن میں قیام اور توحید کی دعوت پھیلانا بہتر تصور کیا  ، خصوصاً جب ایک ساتھی افغانستان  سے واپس آیا اور وہاں کے حالات ، طالبان اور ان کی شریعت کی خلاف ورزیوں کے بارےمیں بات ہوئی۔

نئی صدی کے آغاز پر افغانی طالبان نے اپنے امیر ملا محمد عمر کے حکم پر بدھا کے مجسمہ کو مسمار کیا تو ہماری روحیں بھی افغانستان کے میدانوں کا رخ کرنے کے لئے تڑپ اٹھیں۔لیکن چونکہ جانے کی کوئی سبیل نہ تھی اس لئے یہ معاملہ حالات کی وجہ سے التواء کا شکار ہوگیا۔

سن ۲۰۰۱ میں تنظیم القاعدہ کے بھائیوں نے اللہ کی نصرت سے امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کو حملہ کرکے زمین بوس کردیا۔اس واقعہ سے جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کا اللہ تعالیٰ سے  اخلاص ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

سن ۲۰۰۲میں، میں  نےابو مصعب الزرقاوی  رحمہ اللہ سے اردن میں ملاقات کی اور انہیں اپنی خواہش سے آگاہ کیا کہ میں اردن چھوڑ کر کسی بھی جگہ جہاد کے میدان میں جانا چاہتا ہوں۔ شیخ رحمہ اللہ نے میرے لئے ایک رستہ منتخب کیا اور میں اردن سے نکل پڑا۔ میں افغانستان جاتے ہوئے ،بغداد کے سقوط کے بعد ایران میں گرفتار کر لیا گیا۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کےکچھ  بعد شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے اپنے چند خطابات میں حرمین الشریفین کے حکمرانوں  اور ان کی افواج کےمرتد ہونے کو واضح کیا اور ان کے خلاف جہادکے فرض کی یاد دہانی کروائی۔

اب شیخ زرقاوی رحمہ اللہ کے موحّد مجاہدین اور شیخ اسامہ رحمہ اللہ اور اُن کی تنظیم کے درمیان  اتحاد میں جو رکاوٹیں تھیں وہ ختم ہوگئیں۔

بعد ازاں سن ۲۰۰۴ کے آواخر میں جب مجاہدین ،شیخ ابو مصعب الزرقاوی  رحمہ اللہ  کی قیادت میں رافضیوں ، امریکیوں  ، ان کے ایجنٹوں  اور پوشیدہ مرتدین کے خلاف قہر برسانے میں مصروف تھے، تو شیخ زرقاوی رحمہ اللہ نے شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی بیعت کا اعلان کیا۔ ہم، ابو مصعب رحمہ اللہ کے گروپ کے جو لوگ ایران میں قید تھے، نےبھی اسی طرح بیعت کرلی۔ہمارے ساتھ رافضیوں کی قید میں القاعدہ کے ساتھیوں کا بھی ایک گروپ تھا۔وہ اس وقت سے ہی قید میں تھے جب  خالد العروری [اللہ انہیں رہائی نصیب فرمائے] اور میں پکڑے گئے تھے۔ہم جماعت التوحید و الجہاد، ابو مصعب رحمہ اللہ کے گروپ کے ساتھیوں نےبیعت  کرلی سوائے خالد العرعوری اور صہیب الاردنی کے۔(ایڈیٹر نوٹ:یہ دونوں بھائی ،شیخ ابو مصعب الزرقاوی رحمہ اللہ کے قدیم ترین رفقاء میں سے ہیں-اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کو  قید سے آزادی دلائے آمین)انہوں نے اس مسئلہ پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ القاعدہ ابھی تک مرتد حکومتوں اور افواج کے بارے میں نرم رویہ رکھتی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ تنظیم کے جو لوگ اُن کے ساتھ ایران میں قید تھے وہ رافضیوں اور قید خانے کے محافظوں کو  مرتد شمارنہیں کرتے تھے۔

شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے بیان کے بعد ہمارے تنظیم القاعدہ کے بارےمیں جو پرانے خیالات تھے وہ بدل گئے۔یہ جماعت بھی اب ہمیں اردن کی جماعت التوحید کے بھائیوں کا عکس دکھائی دینے لگی۔ میری اب شدید خواہش تھی کہ میں رہا ہوں اور ابو مصعب رحمہ اللہ  سے گلے ملوں کہ کس طرح انہوں نے اس بیعت کے ذریعے سے  توحید کی بنیاد پر مجاہدین کی صفوں کو مجتمع کردیا اور نتیجتاًدشمن کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے۔یہ تصّور میرے ذہن پر راسخ ہو گیا۔میں اب قید سے رہا ہونے کا منتظر تھا کہ جہاد کے میدانوں میں اپنے نئے ساتھیوں کےساتھ جاملوں اور اُس وسیع اور نئی جماعت جو کہ اب میری بھی تھی ،میں جا شامل ہوں۔

آخر کار ۲۰۱۰ کے آخر میں ہم سب قید سے رہا ہوگئے۔ لیکن رافضیوں نے خالد العرعوری اور صہیب الاردنی ،جنہوں نے ابھی تک القاعدہ کی بیعت نہیں کی تھی، سمیت کچھ ساتھیوں کو قید میں ہی رکھا۔میرا خیال ہے کہ ان کو رہا نہ کرنے کی وجہ تنظیم کی بیعت نہ کرنا ہے۔

میں پاکستانی شہر کوئٹہ گیا اور چھ ماہ تک وہاں ٹھہرا رہا ، پھر جا کر مجھے تنظیم کی طرف سے وزیرستان آنے کی اجازت ملی۔ اس تاخیر کی وجہ امریکہ کی طرف سے وزیرستان میں ساتھیوں پر شدید حملوں  کا تسلسل تھا۔پس میری یہ گواہی ان تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے جو کہ وزیرستان میں تنظیم کے بانی اور امیر شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی ایبٹ آباد میں امریکی حملہ میں شہادت کے بعد میرے ساتھ پیش آئے۔

سب سے پہلا اور بڑا صدمہ جو مجھے پہنچا وہ یہ تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ وزیرستان کا علاقہ مکمل طور پر آزاد ہےاور کوئی بھی آدمی وہاں مرتد پاکستانی فوج سے مڈبھیڑ کئے بغیر آسانی سے اسکے طول و عرض میں گھوم پھر سکتا ہے۔میری سوچ تھی کہ وہاں مجاہدین ہی فیصلہ ساز ہیں اور انہوں نے وہاں شرعی قوانین نافذ کررکھے ہوں گے۔لیکن صد افسوس کہ قبائلی قوانین ہی وہاں غالب تھے۔اس زمین پر شرعی قوانین کی برکات کی بجائے یہی قبائلی قوانین ہی لوگوں پر مسلط تھے۔ مرتد پاکستانی فوج نے ہر چوٹی اور ہر پہاڑ پر قبضہ کررکھا تھا اور ہر قریہ و شہر کے لوگ اس کی نظر میں تھے۔یہ پاکستانی فوج ہر ہفتے ایک دن کرفیو نافذ کرتی تھی تاکہ وہ اپنے مختلف کیمپوں کے مابین نقل و حرکت کرسکے اور خوراک و اسلحہ کی ترسیل کرسکے۔ اور اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا تو وہ حسب ِخواہش اس کرفیو میں اضافہ کرسکتے تھے۔اگر مجاہدین کو سفر کرنا  پڑتا تو انہیں محتاط رہنا پڑتا تھا کہ وہ سٹرکوں سے دور رہیں تاکہ کہیں وہ ان کی چوکیوں کی طرف نہ چلے جائیں اور ان کےقابو آجائیں۔ان کی چوکیاں جگہ جگہ پھیلی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے سفر لمبا، مشکل اور مصائب سے بھر پور ہوجاتا تھا۔

جہاں تک مجاہدین کے زمینی حقائق کی بات ہے تو بڑے عجیب و غریب حالات تھے۔ سب سے بڑی جماعت، قاعدۃ الجہاد  جو کہ بلاشبہ مسلمانوں کی اکثریت کے دلوں کی دھڑکن اور آنکھوں کا تارہ بن چکی تھی اور وہ اس میں شمولیت کے شدت سے خواہش مند تھے،اور توقع کرتے تھے کہ یہ جماعت ان کی آزادی کی جدوجہد، طاغوتی نظاموں کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرنے، زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ ، اُن کے  حقوق کی حفاظت اور مظلوموں کی مدد  جیسے کاموں میں رہنمائی کرے گی۔لیکن اِس علاقے میں ہم نے ان میں سے کوئی بھی بات نہیں پائی،بلکہ اِس کی بجائے تنظیم القاعدہ اس علاقے کے مجاہدین کومتشدد تکفیری ، خارجی اور جزوی تکفیری جیسے خانوں میں بانٹنے میں مصروف عمل تھی۔وہ ہر اس شخص کو اپنے قریب کرلیتے جو  ارجاء میں ڈوبا ہوتا  تاکہ تنظیم سے خارجی سوچ کوکچلا جائے(اپنے مزعومہ نظریے کے مطابق:از مترجم) اورنکال باہر کیا جائے۔یہی وجہ تھی کہ وہ تنظیمی ڈھانچہ  جو القاعدہ کی قیادت سے رابطہ میں تھا اپنے مزعومہ منہج کی بنیاد پر لوگو ں کو پرکھتا  تھا۔اسکا نتیجہ یہ تھا کہ ایسا بھائی جو کہ حقیقی طور پر صحیح منہج کا حامل ہوتا جسے یہ اپنا مخالف گردانتے  تھے وہ  اِس قابل نہیں تھا  کہ وہ تنظیم کی شرعی یا عسکری غلطیوں پر تنقید کرسکے یا اصلاح کر سکے۔اس کی بجائے ان بھائیوں کے تنظیم سے مکمل اخراج، تنہا کرنا، رکاوٹیں ڈالنا،علاقہ بدر کرنا اور حتی کہ بے عزتی کرنے جیسے حربے استعمال کیے جاتے تھے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ رافضیوں (شیعوں)کی شیطانیت روزروشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے،خصوصا ًان کےمنصوبے، تدبیریں اوراسلام و مسلمانوں خصوصاً صحابہ، تابعین، علماء و صالحین کےبارے میں انکے دلوں کا بغض ظاہر ہو چکا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کواور ان کی مکاریوں کو ظاہر کر  دیا ہے۔ انکے  سیٹلائیٹ ٹی وی سٹیشن رافضیوں کی سیاہ کاریوں  اور اسلام اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے خلاف ان کی تہمتوں کے واضح اور کھلے ثبوت ہیں۔اِن کا میڈیا دنیا میں اور روزقیامت بھی  ہمارے خلاف ایک ثبوت ہوگا کہ ہم نے ان ملحدوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔

میرانشاہ پہنچنے کے چند دن بعد تنظیم القاعدہ کی شرعی کمیٹی کے امیر نے مجھے اس بات پر دھمکایا اور برا بھلا کہا کہ میں نے ایران کے بارے میں رافضی کا لفظ استعمال کیا ہےجہاں میں نے آٹھ سال قید میں گزارے۔میں نے یہ لفظ تب استعمال کیا جب ساتھی وہاں پہنچنے پر مجھ سے ملنے آئے اور مجھ سے میرے حالات اور رہائی وغیرہ کے متعلق دریافت کیا۔پھر مجھ پر خارجی اور تکفیری ہونے کا الزام لگایا گیا اور شرعی کمیٹی کے اس وقت کے امیر سلیم الطرابلسی اللیبی رحمہ اللہ  نےمجھے کہا کہ”اردن واپس چلے جاؤ اور وہاں جس کی مرضی تکفیر کرو ہم تمہاری حمایت کریں گے”۔ یہ دوسرا صدمہ تھا جو مجھے پہنچا۔

لیکن میں نے وہاں ہی رہنے اور جس حد تک مجھ سے ممکن ہو اصلاح کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔میں نے اِس علاقے میں جو کوتاہیاں مجھے نظر آئیں اُن کے بارے میں تنظیم کی ہر سطح اور ہر ساتھی کو نشاندہی کرنا شروع کردی۔یہ مندرجہ ذیل تھیں۔

۱۔ یہ علاقہ مسلح مجاہدین سے بھرا پڑا ہے اور اِن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ علاقے کا کنٹرول سنبھال سکیں، تو پھر کیوں اللہ کے قانون کا نفاذ نہیں کیا جارہا ؟

۲۔ کیوں طاغوتی قبائلی قوانین (جرگہ سسٹم )بغیر کسی حیل و حجت کے لوگوں پر جاری و ساری ہے حتی کہ لوگوں کو اس کے بارے  میں نصیحت تک کرنا گوارا نہیں کیا گیا؟

۳۔ مجاہدین امریکہ سے لڑنے کے لئے  افغانستان میں داخل ہونے اور واپس آنے کے لئے پاکستانی فوج کی مدد کیوں لیتے ہیں؟

۴۔ کیا وزیرستان کے علاقے میں پاکستانی حکومت کی جانب سے سٹرکوں کی تعمیر و بحالی اس بات کی نشاندہی نہیں کرتی کہ وہ اس علاقہ میں کوئی خاص مشن رکھتی ہے؟

۵۔کیوں علاقے کے بچے ،بچیاں گورنمنٹ کے لادینی سکولوں میں کثیر تعداد میں داخلہ لے رہے ہیں اور علاقہ کے عمائدین کو اس بارے میں کوئی نصیحت یا روک ٹوک نہیں کی جاتی، اور مجاہدین کے لئے سکول کیوں نہیں قائم کیے جاتے؟خصوصا ًالقاعدہ کی مرکزی قیادت نے مہاجر اور انصارمجاہدین کے بچوں کے لئے سکول اور تربیت کے نظام میں بہت لاپرواہی کا مظاہرہ کیا، سوائے حالیہ عرصے میں تنظیم کے مخصوص بچوں کے لئےکچھ اقدامات کیے گئے۔

۶۔وزیرستان کے لوگوں کی شرعی اور اخلاقی خامیوں پر نصیحت نہ کرنے پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے؟اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس میں بھی شرعی فوائد ہیں اور اِن کو اپنے آپ سے متنفرکرنے یا اِن سے محاذ آرائی سے  گریز کیا جائے

۷۔میں نے تنظیم کی قیادت سے ان کے سکیورٹی سربراہ اور منصوبہ ساز ابو عبیدہ المقدسی [عبداللہ   العدم رحمہ اللہ ]کے ذریعے درخواست کی تھی کہ وہ عرب بیداری کی تحریکوں یعنی عرب سپرنگ کی بہت زیادہ ستائش  نہ کریں۔

۸۔ہمیں مجاہدین کی مختلف جماعتوں کو جوڑنا ، اکٹھا کرنا اور ان کےاور تنظیم کے درمیان جو کوئی مسائل زیر التواء ہیں ان کوحل کرنا چاہیئے۔

۹۔ ہمیں خواتین کو اس علاقے سے نکال لینا چائیے تاکہ اُن کی موجودگی کسی اچانک فوجی آپریشن  جیسا کہ متوقع ہے، کی صورت میں مجاہدساتھیوں کی نقل و حرکت میں حائل نہ ہوجائے اور وہ مشکل میں پڑ جائیں۔ علاقہ میں بلند پہاڑی چوٹیوں کی وجہ سے خواتین کی موجودگی میں نقل و حمل مشکل ہوجاتی ہے۔اور ویسے بھی وہاں ان کے قیام کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی۔

یہ تجاویز یا تو تحریری پیغامات کی شکل میں ابو صالح المصری رحمہ اللہ کے ہاتھ دیے جاسکتے تھے یا پھر ابو عبیدہ المقدسی  رحمہ اللہ کو ، جو کہ علاقے کے مجاہدین اور تنظیم کی قیادت کے درمیان رابطہ کار تھے ۔ ابو صالح المصری میرے اُس وقت سے بہت قریبی دوست تھے جب ہم ایران میں اکٹھے قید تھے۔وزیرستان میں بھی ہمارے یہ تعلقات برقرار رہے۔تنظیم کی قیادت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے اِس بھائی کو اللہ نے میرے لئےایک ڈھال اور حمایتی بنادیا۔وہ کچھ خصوصی کاموں میں جو ہم نے اکٹھے سرانجام دیے، میرے امیر بھی تھے۔

تنظیم کو بارہا اِن حالات کی طرف توجہ دلائی گئی ، لیکن وہ نہ ہی سننا اور نہ  ہی دیکھنا چاہتے تھے اور نہ ہی کوئی تبدیلی چاہتے تھے، بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ یہ ایک خفیہ جماعت تھی اور اسکی قیادت تک رسائی بہت مشکل کام تھا، سوائے کچھ نایاب موقعوں کے کہ جب کوئی امیرپہاڑوں پر موجود معسکرات کے دورے پر آتے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر کسی بھائی کو کوئی ضرورت ، پریشانی یا کوئی سوال ہوتا تو اسکو کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملتا تھا، اور اگر کبھی مل ہی جاتا تو وہ بہت خوش قسمت تصور ہوتا تھا۔کوئی ردعمل آتا تو ہفتے اور مہینے لگ جاتے یاپھر سرے سے آتا ہی نہیں۔یہ ایک ناقابل رسائی تنظیمی ڈھانچہ تھا۔ جو بھی قیادت کے منہج  کی مخالفت نہیں کرتا تھا وہ آسانی سے تنظیم کی قیادت کی سیڑھی چڑھ سکتا تھا۔افسوس کہ میں نے تنظیم قاعدۃ الجہاد کو شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد اُسی پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے پایا  جو کہ شیخ رحمہ اللہ کے اُن بیانات سے پہلے والی تھی جس میں انہوں نے سعودی بادشاہ اور افواج کی واضح الفاظ میں تکفیر کی تھی۔پس جو القاعدہ میری قید سے پہلے تھی ،  رہائی کے بعد بھی اسی  القاعدہ  سے میرا سامنا ہوا۔اور یہ ڈگر اِرجاء  کی تھی جو کہ احتیاط اور فوائد کے حیلے بہانوں کے لبادوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ سب سے حیران کن بات عصر ِحاضر کے رافضی طبقہ کی تکفیر میں ہچکچاہٹ تھی،  جن کی شیطانیت ہر خاص و عام پر روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔جہاں تک میرے زمانہِ قید کے دوران تنظیم کے مؤقف کی بات ہے تو مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت کیا صورت حال تھی۔

میں اُنہیں اہانت آمیزانداز میں یا  سختی سے  نصیحت نہیں کرتا تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ انداز مقصد کے حصول میں قطعی کارگر ثابت نہیں ہوگا۔میرا گمان تھا کہ میں آخرکار کوئی نصیحت قبول کرنے والا تلاش کرہی لوں گا یا تنظیم میں کوئی تبدیلی دیکھ ہی لوں گا۔لیکن افسوس کہ کسی نے میری بات پر کان نہ دھرے،حتیٰ کہ تنظیم کے دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت نے بھی ایسا ہی رویہ اپنایا۔اسکی بجائےہمیں ہٹ دھرمی، انکار ، تجاویز کا ٹھکرانا اور فرار ہی دیکھنے کو ملے۔

ابو عبیدہ المقدسی،القاعدہ کی اِرجائی سوچ کےحامل تھےلیکن انہوں نے کبھی بھی باہمی گفت و شنید یا تبادلہ خیال کو ترک نہیں کیا، بلکہ وہ بات سنتے ،جواب دیتے اور اِس پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔میرا انکے بارے میں گمان  تھا کہ ان میں بہت اچھائیاں ہیں ،باوجود کہ عام یا نجی محفلوں میں ہمارے درمیان بحث و مباحثہ میں تیز کلامی بھی ہوجاتی۔حتیٰ کہ میں نے ان سے بہت عجیب و غریب باتیں  سنیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ تنظیم  القاعدہ ،جامعہ الازہر کے سابقہ مفتی طنطاوی اور یوسف القرضاوی کو بھی مسلمان مفکّر مانتی ہے اور انکی تکفیر نہیں کرتی۔

اسی اثناء میں  طالبان کے عربی رسالے “الصمود” میں ملّا محمد عمر مجاہد  وفقہ اللہ کے حوالے سے ایک بیان چھپا جو کہ انہوں نے سن ۱۴۳۳ہجری کی عید الفطر کے موقع پر مسلم امّہ کے نام  دیا تھا اور امریکیوں کے نکلنے کے بعد افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے وضاحت کی تھی۔ انہوں نے کچھ ایسے خیالات کا بھی اظہار کیا جو کہ اسلام کے لئےمضر تھے اور قوم پرستانہ اور وطنیت کی چھاپ لیے ہوئے تھے۔اِس میں انہوں نے بین الاقوامی معاہدوں اور سرحدات کا احترام کرنے کو کہا، عرب انقلابات کے ذریعے خطے میں حکومتوں کو گرانے پر اِن قوموں کو مبارک باد دی اور ان ممالک کو خیر باد کہنے والے ستم رسیدہ مہاجر مجاہدین کو واپس اپنے ملکوں میں جانے کو کہا۔(ایڈیٹر نوٹ :ملا عمر مجاہد کے اس بیان  اور اس جیسے دیگر بیانات کے متعلق مزید تفصیلات اسی شمارے کے دوسرے مضمون  “ظواہری،ھراری اور نظاری کی القاعدہ اور مفقود یمنی حکمت” میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں)

(نوٹ از مترجم:ملا عمر مجاہد کے ان متنازعہ بیانات کے کچھ اقتباسات ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں تاکہ قاری کے ذہن میں اس بارے میں کوئی ابہام نہ رہے

1- عیدالفطر 1435 ہجری پر ملا محمد عمر کا بیان
“”
عالمی دنیا اور پڑوسی ممالک کو حسب سابق ایک بارپھر یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ ہماری جنگ آزادانہ اسلامی نظام اور اپنے ملک کی آزادی کے لیے ہے ۔ ہم پڑوسی خطے اور عالمی ممالک کے معاملا ت میں مداخلت کا ارادہ رکھتے ہیں نہ ان کی جانب سے کوئی ضرررساں اقدام قابل برداشت سمجھتے ہیں ۔اور ان سے بھی ایسے ہی موقف کی امید رکھتے ہیں ۔ تمام سرحدی علاقوں میں موجود مجاہدین کو ہدایت دیتا ہوں کہ اپنے سرحدوں کی حفاظت کریں اور دوطرفہ احترام کی بنیاد پر پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم کریں ۔

دیکھیے
http://bit.ly/1AKEyUh

2- 2 ستمبر 2014 کو برطانیہ میں نیٹو کے اجلاس کی بابت امارت اسلامیہ کا بیان مندرجہ ذیل ہے

“” امارت اسلامیہ سبھی کو تسلی دیتی ہےکہ کسی کی داخلی امور میں مداخلت کریگي اور نہ ہی اپنے داخلی امور میں کسی کی مداخلت کو برداشت کرسکتی ہے۔ کسی کے لیے ضرر کی پالیسی رکھتی ہے اور نہ ہی کسی کے ضرر کو تحمل کرسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو اجازت دیگی کہ افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کریں۔

دیکھیے
http://bit.ly/1C7KMZD

3- 31 دسمبر 2014 کو استعماری افواج کی پسپائی کے آخری لمحات کے آمدکی مناسبت سے امارت اسلامیہ کا اعلامیہ دیکھیے

افغانستان افغانوں کا ملک ہے اور اس سے متعلق تمام فیصلوں کا اختیار بھی انہیں کو حاصل ہے ۔افغان کسی اور کو اپنے ملک میں کسی کو مداخلت کی اجازت دیتے ہیں نہ کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ بے سروپا بہانوں سے یہاں آکر افغانوں کی سرزمین پر اپنی ناجائز جارحیت کو طول دیں یا اس کے لیے اپنے کٹھ پتلیوں کے ذریعے حالات برابر کریں ۔
دیکھیے
http://bit.ly/1K1Nsiw

4-” مذہبی اور ملکی تقاضوں کے مطابق خودمختاراسلامی نظام” کے نام سے امارت اسلامیہ کی طرف سے ایک مقالہ شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ

 عالی قدر امیرالمؤمنین اسلامی خودمختار نظام کا قیام اور ملک کی آزادی کوافغان عوام کی طویل مزاحمت کا واحد مقصد سمجھتا ہے۔عالمی، خطے اور ہمسائیہ ممالک کےساتھ رویہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ “عالمی اور ہمسائیہ ممالک کو حسب سابق ایک مرتبہ پھر تسلی دیتے ہیں،کہ ہماری جدوجہد ایک اسلامی خودمختار نظام اور اپنے ملک کی آزادی کےلیے ہے”۔

http://bit.ly/1lx3MyC

نیز ایسے ہی کئی دیگر بیانات ہیں   جنکو  طوالت کی وجہ سے ہم یہاں نقل نہیں کر رہے-از مترجم)

ایسے حالات میں ,میں اپنے آپ سے یہ پوچھنے پر مجبور ہوگیا کہ وہ تنظیم القاعدہ  کہاں گئی جو کہ کفر اور جمہوریت کے سرغنہ امریکہ کے خلاف تو لڑتی ہے ، لیکن کیا وہ اب اس بیان کے ردعمل میں بھی کھڑی ہوگی؟۔کیا یہ بیان بھی قاعدۃالجہاد کے حلق سے اتر جائے گا؟۔یہ بیان پیرس کانفرنس کے ابتدائی اعلامیہ کے بعد آیا اور ٹوکیو یونیورسٹی میں ملّا محمدعمر مجاہد وفقہ اللہ  کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں بھی سامنے آیا  جہاں انہوں نے افغانستان سے امریکہ  کے انخلاء کے بعد اسکے مستقبل اور طالبان کی نئی سیاسی حکمت عملی پر مغربی دنیا سے بات کی۔یہ سوال خصوصاً اس لئےبھی اٹھتا تھا کیونکہ تنظیم القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری وفقہ اللہ  بارہا اس بات کا اعلان کرچکے تھے کہ وہ ملّا محمد عمر وفقہ اللہ  کی بیعت میں ہیں اور باقی گروپوں اور تنظیم کی شاخوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

میرے دل و دماغ میں بہت سے سوالات نے جنم لیا۔

میں نے ملا عمر وفقہ اللہ کے اس  بیان کا رد لکھا اور تنظیم کو بھی اسکے بارے توجہ دلائی۔ابو عبیدہ المقدسی  رحمہ اللہ نے مجھے لکھنے پر ابھارا۔میں نے حقانی گروپ سے بھی اس  بارے میں  پوچھا جو کہ ملا محمد عمر وفقہ اللہ  کی وزیرستان میں نمائندگی کرتا تھاتو انہوں نے بھی مجھے ملا محمد عمر  وفقہ اللہ کے بیان کے رد میں لکھنے کو کہا۔پس میں نے اسکا رد لکھا اور حقانی گروپ کے  ذریعے  ملا عمر  وفقہ اللہ کو بھیجا۔اُدھر سے جواب ملا کہ اسکا ردِّعمل عید الاضحی پر آپ کو مل جائے گا۔لیکن افسوس کہ ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔میں ملا عمر  وفقہ اللہ کے نمائندے محب اللہ سے ملا اور اس رد کی ایک نقل  اسے بھی دی۔لیکن افسوس کہ پھر بھی ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔

میں نے اپنے اردگر د نگاہ ڈالی تو مجھے کہیں پر بھی اسلام اپنی حقیقی شکل و صورت میں قائم ہوتے ہوئے نظر نہ آیا۔زمین مجھ پر تنگ ہوگئی۔اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ برما جا کر لڑوں۔میں نے علاقے کے تجربہ کار اور ممتاز پنجابی مجاہدین میں سے ایک  دوست اور ساتھی سے مشورہ کیا۔اس نے بتایا کہ برما جانا طویل اور مشکل راستے اور بنگلہ دیش کی طاغوتی اور نسل پرست حکومت کی وجہ سے تقریبا ًناممکن ہے۔پھر میں نے یمن جانے کا سوچا،پھر اسی منصوبہ پر عمل کرنے کا ٹھان لیا۔

لیکن مجھے پتہ چلا کہ شمالی وزیرستان اور  خیبر کے علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھی موجود ہیں۔ وہ بہت اعلیٰ خوبیوں کے حامل ہیں ۔ اورسلفی منہج  و فکر کے حامل اور اپنے علاقے میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔آخر کار میں نے فیصلہ کر  لیا اور ۲۶ جنوری ۲۰۱۳ کو انکے پاس چلا گیا۔میں ۷ مارچ ۲۰۱۳ کو کوکی خیل کے علاقہ میں پہنچا۔میں نے اس علاقے کی فطرت ، لوگوں اور دوسرے معاملات جن کے بارے میں ،میں غیر واضح تھا، سیکھا۔میں نے مختلف گروہوں اور خصوصی طور پر طالبان کہلانے والے مختلف دھڑوں کے بارے میں جانا۔

۱۔ افغان طالبان جیسا کہ حقانی گروپ ہے۔انکی اصل افغانی تھی۔ اور انکا مقصد افغانستان تھا، جیساکہ وہ کہتے ہیں۔وہ ملا محمدعمر وفقہ اللہ  کو اپنا اعلیٰ رہنماء مانتے ہیں۔

۲۔وزیرستانی طالبان جو کہ اپنے آپ کو پاکستانی کہلواتے ہیں۔انکے بہت سے کمانڈر ہیں جن میں  سے گل بہادر، غلام خان،گوڈ عبدالرحمان وغیرہ شامل ہیں۔وہ اپنے آپ کو پاکستان کے پختون شمار کرتے ہیں۔یہ  علاقے میں دوسرے گروپوں کے نفع ونقصان سے بالاتر ہوکرصرف اپنے مفادات کے لئےکام کرتے ہیں۔انکا پاکستانی جاسوسی اداروں سے بہت مضبوط تعلق ہے۔یہ بھی ملا عمر کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔

۳۔قبائلی علاقہ میں خیبر  ایجنسی  اور شمالی وزیرستان کے علاقے کے آزاد طالبان۔یہ لوگ پاکستانی حکومت کے مضبوط اتحادی ہیں۔افیون اور چرس کی پیداوار پر گزر بسر کرتے ہیں۔تحریک ِطالبان پاکستان کے خلاف لڑتے ہیں اور بزور قوت انکو  سٹرکوں پر سفر سے روکتے ہیں۔وہ بہت سے ناموں سے جانے جاتے ہیں، مثلاً لشکر اسلام، انصارا لاسلام،جماعت التوحید، منگل باغ  وغیرہ ۔(ایڈیٹر  نوٹ: خیبر ایجنسی کی انصار الاسلام کا عراق کی انصار الاسلام سے کوئی تعلق نہیں)

۴۔ وادی سوات اور پشاور کے گردونواح میں پاکستانی فوج  کے آپریشن کے بعد وہاں سے نقل مکانی کرکے آنے والے تحریک طالبان پاکستان کے لوگ۔یہ لوگ غالباً وزیرستان کے علاقے میں موجود سب گروہوں میں  سےبہترین لوگ تھے۔لیکن بد قسمتی سے پاکستانی انٹیلی جنس  ان کے اندر نقب لگانے میں کامیاب ہوگئی، اور انکے کچھ قبائلی عمائدین کو بھڑکایا اور قیادت کے مسئلے پر آپس میں لڑائی کرنے پر اکسایا۔وہ مختلف قبائلی حلقوں  میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر حلقے کا اپنا امیر ہوتا ہے۔ میری وزیرستان آمد سے پہلے انہوں نے وادی ِسوات میں شرعی نظام کا نفاذ کیا تو تنظیم القاعدہ نے فوراً اپنا ایک پختون نمائندہ مفتی حسن نامی تحریک کے لوگوں سے ملنے کے لئے بھیجا تاکہ وہ انہیں قائل کرے کہ وہ بڑی اور اَرفع حکمت کی خاطر شریعت کے نفاذ میں جلدی نہ کریں۔جب مفتی حسن ،شیخ مقبول( شاہد اللہ شاہد)، تحریک کے مفتی سے ملے تو شیخ مقبول نے ان کو شریعت کے  فوری نفاذ کی اہمیت کا قائل کرلیا۔پس مفتی حسن نئے خیالات کے ساتھ واپس پلٹے اور تنظیم القاعدہ کے سامنے اِن  سوالات کو پیش کیا۔لیکن اس کا صلہ انہیں تنظیم سے اخراج کی صورت میں ملا۔اَب وہ تحریک طالبان پاکستان کےایک رکن ہیں۔یہ باتیں مجھے تحریک کے کچھ رہنماؤں نے بتائیں جو کہ ان واقعات کےگواہ ہیں۔

پاکستانی حکومت شمالی وزیرستان میں موجود تحریک ِ طالبان پاکستان کے لوگوں کے خلاف تمام مختلف طالبان گروہوں کو بھڑکانے میں کامیاب رہی ، کیونکہ یہ توقع کی جارہی تھی کہ تحریکِ طالبان اس خطے پر اپنا تسلّط قائم کرلے گی۔

خیبر ایجنسی کے علاقے “میدان” جو کہ پاکستانی حکومت کے اتحادی انصارالاسلام اور اسکے کمانڈر محبوب الحق کے کنٹرول میں تھا، تحریک اسکے بہت بڑے حصے پر حملہ آور ہوکر اس میں داخل ہونے اور آزاد کروانے  میں کامیاب ہوگئی تھی۔اس سے پاکستانی فوج کے سپاہیوں اور انکے اتحادیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی اور وہ بغیر لڑے  وہاں سے بھاگ نکلے۔ہم وہاں تین ماہ موجود رہے حتی کہ آرمی نے وہاں بمباری شروع کردی۔میدان پھر پاکستانی فوج کے لئے چاندماری کی مشق کا علاقہ بن گیا اور شیلنگ سے اسکی فضاء بارود سے اَٹ گئی۔ہم وہاں سے پسپا ہوکر واپس کُوکی خیل اور تور درّہ کی جانب آگئے۔پھر آرمی وہاں پر اپنے سب سے مضبوط دشمن یعنی تحریک کو نقصان پہنچا کر اور اِس علاقے سے بیدخل کرکے فاتحانہ انداز میں “میدان “میں داخل ہوئی۔

اسکے بعد حکومت کا پروگرام میرانشاہ ، میرعلی وغیرہ کی جانب سے وسطی وزیرستان کی طرف پیش قدمی کا تھا، جہاں پر مہاجر مجاہدین پہلے  سےموجود تھے۔اب یہ علاقہ مجاہدین سے تقریبا خالی ہوچکا تھا کیونکہ وہ اس علاقہ سے دوسرےجہادی میدانوں کی طرف چلے گئے تھے۔تنظیم القاعدہ اس بیدخلی کی ذمہ دار تھی۔میں تنظیم  ا لقاعدہ کے امیر اور ہر وہ شخص جو انکے کاموں کو خوشنما بنا کرپیش کرتا ہے اور حمایت کرتا ہے، کو اس خطے سے  انخلاء کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔

تحریک ِطالبان پاکستان کے لوگ اس خطے میں موجود تمام مجاہدین سے جنہیں میں ملا، بہترین تھے۔وہ بہترین خوبیوں کے مالک تھے۔ان کے قائدین میں سے اکثر اچھے عقائد رکھتے تھے اور سلف کے منہج پر تھے، جیسا کہ انکے بارے ہمارا گمان ہے۔جہاں تک انکے عام مجاہدین  کا تعلق ہےتو اُن میں دینی تعلیم کی کمی اور مذہبی تعصب کی بناء پر کچھ خامیاں موجودہیں۔

انکے رہنماء مولانا فضل اللہ پندرہ سال پہلے ملا عمر سے ملے تھے اور انکے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ملا عمر نے اُنکو اپنی پگڑی بطور تحفہ دی تھی۔وہ ابھی تک ملا عمر سے وفادار ہیں باوجود انکی اہم  شرعی غلطیوں کے،جن سے فضل اللہ لاعلم ہیں۔

میں نے تنظیم القاعدہ میں موجود بچے کچھے ساتھیوں اور قیادت کو تبلیغ و نصیحت  کی غرض سے میرانشاہ جانے کا فیصلہ کیا، انہیں اِکرام سے سمجھانے کا ارادہ لیکر،اور اسکے بعد شمالی وزیرستان  اور اس خطے سے ہمیشہ کے لئے  نکل کر افغانستان جانے کا عزم ِصمیم کر لیا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے لئے کوئی اور اچھائی تیار کر رکھی تھی۔

جب میں میرانشاہ پہنچا تو میں نے لجنہ بخارا کو پیغام لکھا، یہ شیخ عطیۃ اللہ اور شیخ ابو یحیی اللیبی رحمہ اللہ کی شہادت کے بعدالقاعدہ کے انتظامی امور سے متعلقہ کاموں کے لئے بنی  امراء کی ایک کمیٹی تھی۔میں نے اس میں تفصیل سے ،گزرے ہوئے واقعات  اورمستقبل قریب میں وزیرستان میں پیش آنے والے حالات پر اپنا تجزیہ پیش کیا  اور پاکستانی فوج کی دیگر علاقوں  میں اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد  وزیرستان میں متوقع پیش قدمی کا اظہار کیا۔میں نے اِس پیغام کے ساتھ ملا عمر کے سابقہ بیان کا جو رد میں نے لکھا تھا اسکی نقل بھی منسلک کی تاکہ بھائیوں  کو باور کرایا جاسکے کہ اب افغانستان اور وزیرستان کا یہ علاقہ قومیت پرستی  اور قبائلی انا پرستی کی چکی میں پھنس چکا ہے۔بدقسمتی سے اس بات پر بھی مجھے تنظیم  القاعدہ کی طرف سے کوئی ردعمل موصول نہ ہوا۔

 شمالی وزیرستان  سے چھ ماہ کی  میری غیرحاضری کے دوران کافی واقعات رونما ہوئے۔اِن واقعات نے تنظیم کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا۔سب سے سنگین مسئلہ تنظیم کے کچھ ساتھیوں کی اولاد  کا تھا ، شہید [جیسا کہ انکے بارے ہمارا گمان ہے]ساتھیوں کے بیٹوں کا،قائدین کے بیٹوں کا۔یہ لوگ لواطت کے فحش کام میں مبتلا ہوئے  اور بالآخر جاسوسی کے مرتکب ہوئے تھے،جیسا کہ اِس سے پہلے سوڈان میں کچھ دوسرے بھائیوں کے ساتھ یہ ہوچکا تھا۔انکی غداری کے نتیجہ میں دسیوں فضائی حملے ہوچکے تھے اور نتیجتاًکافی ساتھی شہید ہوگئے۔ہم نے تنظیم کی خاموشی کے خلاف آواز اٹھائی اور اُن پر دباؤ ڈالا کہ وہ امارتِ اسلامی افغانستان سے ہٹ کر آزادانہ اِن لوگوں پر مقدمہ چلائیں۔لیکن تنظیم نے یہ موقف اپناتے ہوئے کہ وہ امارتِ اسلامیہ سے بیعت  ہے اور انکی پابند ہے ، اس بات پر اصرار کیا کہ وہ امارت ِاسلامیہ سے ہی فیصلہ کے لئے قاضی بلوائیں گے۔ہم نے تنظیم القاعدہ سے امارت  ِاسلامیہ سے ہٹ کر آزادانہ مقدمہ چلانے  کی درخواست اس لیے کی تھی  کہ  ہمارے اور امارت کے درمیان  امارت کے فقہی تعصب کی وجہ سے جاسوسی اور فحاشی کی سزاء میں  فقہی اختلافات  موجود تھے ۔
(
ایڈیٹر نوٹ:امارت اسلامیہ کے قاضی دیوبندی(ماتریدی حنفی) ہیں۔مرتد ہونے والے “مسلم” جاسوس  پر حُکم لگانے میں اُن کے اندر ارجاء ہے۔جاسوسی اور لواطت کی سزائیں ان کے ہاں دوسرے مکاتب ِ فکر کے مقابلے میں نرم ہیں-القاعدہ کا امارت اسلامیہ کو حَکم بنانے پر اصرار اسی لیے تھا تاکہ مجرموں  کو قتل کی سزا سے بچایا جا سکے- اسی وجہ سے مصنف اور اسکے ساتھیوں نے اصرار کیا کہ مقدمہ تنظیم القاعدہ خود چلائے -)

امارت نے اس معاملہ میں دخل دینے سے معذرت کرلی اور اسکی بجائے واپس تنظیم کی طرف فیصلہ لوٹا دیا۔(ایڈیٹر نوٹ : امارت کا یہ معاملہ تنظیم کی طرف واپس بھیجنے سے تنظیم القاعدہ کے پاس اس مقدمہ کا خود فیصلہ نہ کرنے کا عذر ختم ہو گیا)

اِن نوجوانوں کی کہانی ہر طرف پھیل گئی اور تنظیم ایک مذاق بن کررہ گئی۔مجاہدین اور عام لوگوں کی طرف سے سوالات اُٹھنا شروع ہوگئے، کہ تنظیم اِن پر حد قائم کرنے میں تاخیر کیوں کررہی ہے اور فیصلہ ہوئے بغیر تنظیم  القاعدہ نے کیوں ملزموں کو قید سے رہا کردیاہے۔؟

اسی اثناء میں کچھ ساتھی شمالی افغانستان سے دولتِ اسلامیہ کی جانب جاتے ہوئے میرانشاہ میں ہمارے پاس پہنچے۔اس وقت تک دولتِ اسلامیہ ہر خاص و عام کی توجہ  اور تجسس کا مرکز بن چکی تھی۔اِس علاقہ میں انٹرنیٹ کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے میں اس کے بارے کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔یہاں انٹرنیٹ بہت سست اور خطرات کا پیش خیمہ تھا۔شام کے علاقے کے بارے میں معلومات کا واحد ذریعہ بذات خود تنظیم ہی تھی۔وہ دولتِ اسلامیہ کے بارے میں کسی کوبھی کچھ نہیں بتاتے تھے۔ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اسکا کوئی وجود ہی نہیں۔اور جب ابو عمر البغدادی رحمہ اللہ  نے دولت ِاسلامیہ عراق کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ۔کفری ذرائع ابلاغ نے بھی اِس اعلان کو بالکل چھپا دیا تھا۔ہم بھی اُس وقت دنیا سے مکمل طور پر بے خبر  ایران کی قید میں تھے۔ دولتِ اسلامیہ ہمیں ایک چھوٹا سا گروپ یا تنظیم محسوس ہوتی تھی  جوکہ  محدود اور وقتی کاروائیاں کررہی تھی۔حتی کہ جب دولت ِاسلامیہ امیر المومنین ابو بکر البغدادی حفظہ اللہ کی زیر قیادت پھل پھول رہی تھی تو بھی میڈیا کی بددیانتی اور قید کی رکاوٹوں کی وجہ سے ہم اسکے بارے حقیقی معلومات سے لاعلم تھے۔

بدقسمتی سے جب دولت ِاسلامیہ ،جبھتہ النصرہ کی شکل میں شام میں داخل ہوئی توبھی امت، دولت ِاسلامیہ کے امنیت کے اقدامات کی وجہ سے اس واقعہ سے لاعلم رہی۔معاملات پیچیدہ ،دھندلے  اور شدید  ترہوتے گئے۔وزیرستان کے علاقے میں تنظیم  القاعدہ کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے بھی میں نےشام میں ہونے والے واقعات کی حقیقت جاننے میں دلچسپی نہیں لی۔

لیکن پھراللہ تعالیٰ نے مجھ  پر اپنا فضل کیا اور شمالی وزیرستان سے آنے والے انٹرنیٹ کے استعمال کا اچھا تجربہ رکھنے والے ساتھیوں نے  میری مدد کی۔اللہ تعالیٰ انکو اس کی جزائے خیر عطا کرے۔میرے سامنے حقیقت حال واضح ہونا شروع ہوگئی اور ساتھ ہی دولتِ اسلامیہ کا سچائی سے بھرپور اور واضح موقف بھی سامنے آنے لگا۔دولتِ اسلامیہ اللہ تعالیٰ کا ایک فضل اور احسان تھی، جو کہ اِس وقت خطے میں پھیلے ہوئے انتشارکا نعم البدل تھی۔

تنظیم کے ساتھ اختلافات شدید تر ہوتے گئے۔ہم نے تنظیم کو ملزموں کا فیصلہ کرنے پر ابھارنے کے لئے بہت سے خطوط لکھے۔ ان پر دباؤ  ڈالنے اور لجنہ بخاری کی طرف سخت الفاظ میں لکھے گئے خط کی وجہ سے اس کمیٹی کا سربراہ ابو دجانہ الباشا[ البحطیطی ]مجھ سے ملا۔اِس ملاقات کے دوران اس نے فقہی تعصب سے بالاتراور  امارتِ  اسلامیہ سے ہٹ کرمقدمہ چلانے سے انکار کردیا۔اس مسئلہ پر اس نے کہا کہ اِس وقت مشتبہ افراد پر مقدمہ چلانا بے وقوفی اور حکمت کے خلاف ہے، کیونکہ وہ مشتبہ افراد اپنے جرائم کا اقرار نہیں کریں گےاور اس وجہ سے اُلٹا الزام لگانے والوں کو کوڑے پڑیں گے۔ملزموں کے خلاف مدعی، لجنہ امنیہ (سکیورٹی کمیٹی)  کا امیر  اور اسکا نائب تھے۔بہت بحث و مباحثہ کے بعد  اور اِس درخواست پر کہ مشتبہ افراد کو واپس قید میں ڈال دیا جائے اور ان پر مقدمہ چلایا جائے،اُس نے اِس مشکل سے نکلنے کے لئے کہا کہ “اچھا ہم سب کو اکٹھا کریں گے۔یہ آسان ہے ۔ پھر ہم ان پر مقدمہ چلائیں گے اور انہیں رہا کردیں گے۔

الباشا کے ساتھ یہ ملاقات بالآخر اس بات پر ختم ہوئی کہ وہ لجنہ بخاری کے ساتھیوں کو اس بات پر آمادہ کرے گا کہ وہ مشتبہ افراد کو دوبارہ گرفتار کرلیں اور اُن پر مقدمہ چلائیں۔اسی اثناء میں دولتِ اسلامیہ کا معاملہ اِن تمام معاملات پر اثر انداز ہونے لگا[ دولتِ اسلامیہ مضبوط ہو چکی تھی اور تنظیم کی حالت کے برعکس شرعی حدود کا نفاذکررہی تھی]۔مشتبہ افراد کا معاملہ لاحاصل ہوتا جارہا تھا کیونکہ تنظیم  اس خوف کا اظہار کر رہی تھی  کہ ان لوگوں کی مائیں غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے رابطہ کریں گی یا میرانشاہ کی سٹرکوں پر احتجاج کریں گی اور لوگوں کو تنظیم  القاعدہ کے خلاف اکسائیں گیں۔الباشا نے کہا کہ پھر تنظیم  القاعدہ اس مسئلہ کو سنبھال نہیں سکے گی۔

جولانی کے مسئلے اوراپنے  امیر کے ساتھ اسکی غداری کی باتیں بھی سرِعام زیر ِبحث آنےلگیں اور تنظیم کی اس حوالے سے تصویر مزید واضح ہونے لگی۔

ماضی کی یادوں سے مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ وزیرستان سے انخلاء کا فیصلہ تنظیم  القاعدہ نے جانتے بوجھتے کیا ۔مجھے یاد ہے کہ کیسے ابو عبیدہ المقدسی نے شام میں جہادی سرگرمیوں کے آغاز پر شام میں جانے والے  ہر مہاجرکے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کہا کہ وہ  جبھۃ النصرہ میں شامل ہونے پر انکو بیعت(عہد) دے، حالانکہ اُس وقت تک جبھتہ النصرہ دولتِ اسلامیہ سے علیحدہ نہیں ہوئی تھی اور شام  میں زیادہ گروپ بھی نہیں تھے۔سب سے مضبوط گروہوں میں سے اسدی حکومت،آزاد شامی فوج(جیش الحر) اور جبھتہ النصرہ تھے۔یہ میرے لئےایک معمہ تھا جو  میں اس وقت نہ سمجھ سکا۔شام جانے والے مجاہد سے جبھۃ النصرہ میں جانے کی بیعت لینے کا کیا مقصد ہے جبکہ وہ مجاہد خود اقرار کر رہا ہے کہ وہ جبھۃ النصرہ میں ہی شامل ہو گا ۔ابو عبیدہ المقدسی متعدد بار اس عزم کا اعادہ کرچکا تھاکہ “ہم  اُس  خطے(شام) میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں”۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس مجاہد کو جبھۃ النصرہ  کے ساتھ ہی منسلک کرنا چاہتا تھا کیونکہ تنظیم مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ تیار کرچکی تھی۔

اسکے بعد جولانی نے شام کے اندر دولتِ اسلامیہ کی توسیع کو ماننے سے انکار سمیت  جو کچھ کیا ،لامحالہ یہ سب ایمن الظواہری اور انکے ساتھیوں کا منصوبہ تھا جوکہ جولانی کو ایمن الظواہری کے ساتھ منسلک کرنے کے خفیہ اور نجی پیغامات لیکر گئے تھے،تاکہ دولتِ اسلامیہ کی قیمت پر شام میں تنظیم القاعدہ کی جگہ بنائی جائے۔ایمن الظواہری کی طرف سے جولانی کی بیعت فورا قبول کرلینا اس بات کا ایک واضح ثبوت ہے۔ایمن الظواہری نے دولتِ اسلامیہ کے امیر کو بھی عراق واپس پلٹ جانے کو کہا اور اسکے بدلہ میں ابو بکر البغدادی کو امیرالمومنین اور انکی حکومت کو اسلامی ریاست تسلیم کرلینے کا عندیہ دیا۔یہ سب کچھ اس صورت میں ہوگا اگر امیر المومنین عراق واپس لوٹ جائیں وگرنہ انکی حکومت خارجی شمار ہوگی اور وہ انہیں امیر المومنین تسلیم نہیں کریں گے۔

الظواہری اسکے بعد متواتر ذرائع ابلاغ پر  ایک معصوم صلح کار کے طور پر نمودار ہوتے رہےاور ریاست اور بیعت کے معاملے میں فیصلہ کرنے  میں قیادت کے “حق” اور اسکی سمع و اطاعت  کے “فرض ” ہونے پر  زور دیتے رہے۔انہوں نے دولتِ اسلامیہ اور اسکے رہنماء کو  بدترین خصلتوں کے حامل کے طور پر پیش کرنا شروع کردیایہاں تک کہ شام میں ہتھیار اٹھانے والے ہر گروہ نے دولت ِاسلامیہ کو اپنا نشانہ بنالیا، اور الظواہری کے پرپیچ خیالات کے جال میں آکر بہت سے گروہ ان بھول بھلیوں میں پھنس گئے۔انکے خیالات جہاد اور مسلح جدو جہد سے متصادم تھے اور پرامن طریقوں [یعنی ناختم ہونے والے احتجاجی سلسلوں] کی حوصلہ افزائی کرتے تھے، اور عوامی حمایت حاصل کرنے پر زور دیتے تھے ۔ان طریقوں کے ثمرات  اس سے پہلے مصر اور دیگر ممالک میں نئے فرعونوں کے اقتدار پر قبضہ کی صورت میں سامنے آچکے تھے۔

بے شمار خواتین ،بچے اور مرد ان لاحاصل طریقوں کی وجہ سے مارے جاچکے تھے۔وہ گلیوں ، چوکوں ، بازاروں  میں احتجاج کے سواء کوئی کام نہیں کرسکے،سیاست کی وہ نئی قسم جس کے متعلق الظواہری اور اس جیسے دوسرے لوگوں کا دعوی تھا کہ یہی احتجاج حقیقی جہاد ہے جو کہ ظلم کو انصاف اور کفر کو اسلام میں بدل دے گا۔اسی  پالیسی کی وجہ سے حق  ابھی تک باطل  سے جدا  نہیں ہوپارہاتھا۔طاغوت مرسی کی تعریفیں  کی جارہی تھیں اوراسکے لئے نیک تمناوں کا اظہار ہورہاتھا، جبکہ سچ اور اسکا ساتھ دینے والے لوگوں پر تنقید کی جارہی تھی۔پس اِس طرح اُس نے تنظیم القاعدہ کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
اسی دوران اوپر مذکورہ جرم [لواطت اور جاسوسی ]کے مجرموں کو تنظیم القاعدہ نے نہ پکڑا ۔ اس کی بجائے انہوں نے اِن لوگوں کے لیے تنظیم کے معسکروں میں سے ایک خاص معسکر “اسامہ بن زید  “رضی اللہ عنہم بنا دیا۔تنظیم کی اس مسئلہ سے لاتعلقی نظر آنے پر  لجنہ امنیہ (سکیورٹی کمیٹی) نے مشتبہ افراد میں سے دو جاسوسوں یعنی تنظیم کے دو کمانڈروں کےبیٹوں کو مار دیا۔اس بات پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا جس سے ابھی تک تنظیم باہر نہیں نکل سکی باوجود اس کے کہ سکیورٹی کمیٹی نے  اِن سے پہلے صدیق اللہ کے گروہ کو مارا جس نے گوڈ عبدالرحمان کے گروہ کی مدد سے ان جاسوسوں کو قید سے رہا کرانے کی کوشش کی تھی(واضح رہے کہ گوڈ عبدالرحمان ،پاکستانی انٹیلی جنس  کے ساتھ منسلک ہے اور تنظیم کےقائدین کے ان بیٹوں کو بحیثیت جاسوس گوڈ عبدالرحمان نے ہی بھرتی کیا تھا) ۔سیکورٹی کمیٹی کو  میدان جنگ سے ہٹا کر گھروں میں نظر بند کر دیا گیا  اور تنظیم  القاعدہ سے نکال دیا گیا۔

 لجنہ امنیہ (سکیورٹی کمیٹی) اور دیگر بہت سے ساتھیوں کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے تنظیم اس معاملے کو  شیخ ابو مالک التمیمی کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوگئی، جو افغانستان میں نورستان سے دولتِ اسلامیہ کی طرف ہجرت کرنے کی غرض سے میرانشاہ پہنچے تھے۔شیخ ابو مالک التمیمی نے ان مرنے والے جاسوسوں کےقتل کو جائز قراردے دیا۔

میری شام کی طرف ہجرت سے پہلے میں اور دوسرے بہت سے ساتھی جنہوں نے دولتِ اسلامیہ کی بیعت کا اعلان کیا تھا، نے  تنظیم القاعدہ کی خرابیوں کو ہر ممکن طریقے سے سامنے لانے کا عزم کیا اور تنظیم کے خلاف مہم چلائی۔ہم عرب اور غیر عرب، مہاجر اورانصار باہم مل کر اس بات کی کھوج میں لگ گئے کہ علاقے میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ہم نے تنظیم کے لئے سوالات کی ایک فہرست تیار کی تاکہ وہ انکی وضاحت کرے ، اور اگر وہ انکا معقول جواب نہ دے تو یہ تنظیم القاعدہ کے ساتھ ہمارے تعلق کا آخری موڑ ثابت ہو سکے۔

تنظیم نے مال ودولت اور عہدوں کی شکل میں ہمارے دل جیتنے اور ان میں موجود غصہ کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن اللہ کے فضل سے وہ اس  میں ناکام ہوگئے۔

جو سوالات ہم نے تنظیم القاعدہ کے سامنے پیش کیے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ تنظیم اپنا عقیدہ شائع کرے بالخصوص روافض کے بارے میں۔

۲۔طاغوت مرسی کے بارے  میں ایمن الظواہری کی دعا کا  شرعی ثبوت پیش کریں۔

۳۔الظواہری کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کو خارجی قرار دینے کی وجوہات بیان کریں۔

۴۔ جہادی لائحہ عمل کو قتال سے ہٹاکر پرامن مظاہرو ں اور عوامی حمایت  کے حصول کی طرف پھیرنے کی وجوہات بیان کی جائیں۔

ان سوالات کا کوئی جواب نہیں آیا حتیٰ کہ میرانشاہ  سے آخری مجاہد بھی نکل گیا چونکہ  جون ۲۰۱۴ میں پاکستانی فوج اس علاقے میں داخل ہوگئی تھی اور اسکا محاصرہ کر لیا تھا ۔اس موقع پر  ہم نے تنظیم کو الٹی میٹم دیا کہ وہ دوبارہ غور کرے اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے باز آجائے۔ لیکن بدقسمتی سےاس مضمون کی اشاعت تک بھی  ایمن الظواہری تنظیم کو ذلت کی پستیوں تک لے جانے میں مصروف عمل ہے۔

ہم نے اپنے آپ کو تنظیم القاعدہ اور ایمن الظواہری کی شرعی خرابیوں سے  الگ کر لیا اور دولتِ اسلامیہ اور امیرالمومنین ابو بکر البغدادی  حفظہ اللہ کی بیعت کرلی۔یہ انکی توحید اور شریعت پر ثابت قدمی کی وجہ سے تھی، جس کی ہمیں عرصہ سے تلاش تھی اور ہماری روح اور دل ودماغ کی فرحت کا سامان تھی، اور ہمارے دل نے گواہی دی کہ ہمارا حق کی تلاش کا سفر اختتام کو پہنچا،جہاد کا صحیح رستہ،جماعت کا رستہ جو کہ باذن اللہ جنت الفردوس کی طرف لے کر جاتا ہے۔

ہاں ہم نے امیر المومنین ابو بکر البغدادی حفظہ اللہ کی بیعت کرلی باوجود اسکے کہ ہم ملامحمد عمرکی امارت کی بیعت میں تھے اور شیخ اسامہ اور اسی طرز پر ڈاکٹر ایمن الظواہری کی بیعت میں بھی تھے۔لیکن ملا عمر اور ڈاکٹرایمن الظواہری کی بیعت کی منسوخی کا جواز ملا عمر کے عیدین کے موقعوں پر مسلمانوں کے نام تباہ کن  پیغامات  سامنے آنے سے پیدا ہوا۔اور جہاں تک الظواہری کا تعلق ہے تو انکا شرعی حدود کے قیام سے روگردانی [بودے دلائل دے کر کہ اس میں حکمت پوشیدہ ہے]،اس پر اصرار کرنااور اپنے امیر ملا محمد عمر کی سنگین شرعی کوتاہیوں سے نظریں  چرانااسکی وجہ بنا۔اس وجہ سے وہ اپنی سمع و طاعت کا حق کھو چکے ہیں اور میں اس پر قابل ملامت نہیں ہوں۔

تنظیم القاعدہ  ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی مانند ادھر ادھر چکرانے لگی،اسکے حمایتی ہر جگہ اور ہر خاص وعام ،مجاہد ہو یا غیر مجاہد،جماعت ہو یا فردکے گرد چکر کاٹنے لگےتاکہ  تنظیم کی بھنور میں پھنسی کشتی اور اسکے تھکے ہوئے ملاح کو بچایا جا سکے-

انہوں نے ہمارے خلاف جھوٹ کے پُل باندھ دیے اور سخت ترین الفاظ میں ہمار ا تذکرہ کیا۔تکفیری ، خارجی، مسلمانوں کے قاتل اور وہابی جیسے القابات دیئے،اور لوگوں کو ڈرایا کہ ہم قاتل ہیں اور ان سب کو ذبح کردیں گے۔

پھر تنظیم نے مسلکی منافرت کا پتہ کھیلنے کی کوشش  کی ،خصوصا ًاس لیے کہ زیادہ تر لوگ حنفی مسلک تھے۔انہوں نے دعوی کیا کہ اس بیعت کی وجہ سے ہم نے  انکے مسلک اور انکے امیر کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، اور اِس علاقے میں دولتِ اسلامیہ کے سپاہیوں کے طور پر ہماری موجودگی انکی تنظیم اور امیر کے خلاف بغاوت ہے۔

لیکن اللہ کے فضل وکرم سے لوگ اپنے سوالات کی تلاش میں ہماری جانب جوق در جوق آنے لگے،ان میں سے کچھ معلومات چاہتے تھے جبکہ باقی تنظیم کی طرف سے ہمارے بارے میں لوگوں میں پھیلائے ہوئے شبہات کو دور کرنے کےلئےآرہے تھے۔

کچھ بھائیوں نے انٹر نیٹ کے ذریعے روابط تلاش کرلئے اور دولت ِاسلامیہ کی اندرونی تصاویر اور انکی جاری ہونے والی ویڈیو ز، ہوٹلوں او رقہوہ خانوں میں لوگوں کو پہنچانے لگے، اللہ انہیں اسکا اجر عطا کرے۔یہ اُنکی طرف سے دولتِ اسلامیہ کے نقطہ نظر ، حقیقی جہادی عمل اور اسکے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ فتوحات کی ترویج و تبلیغ تھی۔اسکا عوام اور انصار پر  بہت اچھا عمومی اثر پڑا۔اور اللہ کے فضل سے اس بات سے تنظیم ہل گئی اور لوگوں نے انکی عمل سے خالی ویڈیوز  کو مسترد کرنا شروع کردیا۔

اسی طرح علاقے کے مجاہد گروپوں میں تنظیم القاعدہ کی پرامن بقائے باہمی اورعوامی حمایت جیسی تجاویز اور  دولتِ اسلامیہ کے شروع کردہ جہادی عمل جیسے کاموں پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا  اور تنظیم  القاعدہ کے  جہادی عمل کو چھوڑ کر پرامن مظاہرات کے طریقے  اپنانے  کی پالیسی جس کے نتیجہ میں نہ ہی  طاغوت سے چھٹکارا نصیب ہوا اور نہ ہی عوام کی گردن سے ظلم و ستم کے پہاڑ اترے، پر لے دے ہونے لگی۔بلکہ یہ پالیسی  بدعنوانی کا ایک بڑا ذریعہ تھی۔حالانکہ پرامن مظاہروں کے نتیجے میں خواتین اور بچوں کا عوامی مقامات پر طواغیت کی افواج اور پولیس کی طرف سے قتل عام کیا گیا جبکہ قاتلوں کو روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں تھا-درحقیقت تنظیم القاعدہ کا یہ نظریہ نئے فرعونوں کو جنم دے رہا تھا-

القاعدہ کے حمایتیوں نے بغیر کسی شرم وحیا کےہمارے خلاف جنگ شروع کردی ، اور جن ساتھیوں نے دولتِ اسلامیہ کی بیعت کا اعلان کیا تھا،تنظیم نے فورا ً انکے کفالے/مشاہرے بند کردیے اور خواتین ، بچوں اور بیماروں تک کا بھی  لحاظ نہیں کیا۔پس مخیر حضرات جو صدقات و اموال جہادی عمل کو چلانے اوراللہ کی رضا کی خاطر القاعدہ اور اسکے ارکان کو دیتے تھے، اس کو الظواہری نے مستحق افراد کے ہاتھوں میں جانے سے اس وجہ سے روک دیاکہ وہ حق کی حمایت کرتے تھے اور اپنے دین کا نظام غالب کرنا چاہتے تھے۔اسکی بجائے الظواہری نے ان صدقات و اموال  کو حق اور اہل حق کےخلاف جنگ بڑھکانے میں صرف کیا۔سبحان اللہ۔اگر وہ اپنی موجودہ حالت سے تائب نہیں ہوتا اور اللہ کی طرف نہیں پلٹتا تو وہ اس بوجھ کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔اور اللہ اور مظلوم کی دعا کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔

تنظیم القاعدہ نے اسی پر بس نہیں کیا۔بلکہ اسکے آدمی ازبک طاہر جان گروپ اور اسکےامیر عثمان کے پاس گئے ،باوجود اسکے کہ تنظیم اور انکے درمیان سن ۲۰۰۸ میں وانا کی لڑائی کے بعد سے بہت گہری خلیج موجود تھی۔اُس وقت جب قاری طاہر جان  ازبک گروپ وہاں پاکستانی فوج اور اسکے اتحادی نذیر سے مصروف جنگ تھا، تنظیم القاعدہ نے یہ بہانہ کرتے ہوئے انکی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا کہ یہ ازبک تکفیری ، خارجی اور انتہا پسند ہیں ، جس کے نتیجہ میں بہت سے ازبک شہید ہو گئے ۔یہ گروپ وہاں سے نکل کر شمالی وزیرستان میں میر علی اور میرانشاہ کی طرف جانے پر مجبور ہوگیا۔تنظیم القاعدہ والے دولت ِاسلامیہ کی بیعت کرنے والے ساتھیوں کے خلاف اکھٹے کھڑے ہونے کے لئے اس گروپ کے آگے گڑگڑائے، لیکن انہیں  وہاں سےناکام و  نامراد واپس آنا پڑا۔

وہ روشن آقا گروپ کے امیرحمیداللہ اور دوسرے لوگوں سے ملے اور اس مسئلہ پر بات کی۔وہ افغانستان کے ازبک گروپ سے ملے۔ تاجک ساتھیوں اور انکے امیر عبدالولی سے ملے۔ حاجی  بشیر کے ازبک گروپ سے ملے۔ ترکستانی ساتھیوں کے گروپ سے ملے۔ میران شاہ میں امارت اسلامی قوقاز کے عبداللہ الشیشانی کے مجموعہ سے ملے۔ القاعدہ کے اتحادی، حقانی نیٹ ورک سے ملے ، جو کہ ملا محمد عمر کی امارت اسلامیہ افغانستان کے نمائندے تھے۔ اور تحریکِ طالبان پاکستان کے کچھ لوگوں سے بھی ملے۔حتٰی کہ انہوں نے ایک گروپ بھی نہ چھوڑا کہ اس کے پاس جا کر اسے ہمارے اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف بھڑکایا نہ ہو-لیکن انکی تمام کوششیں رائیگاں گئیں-۔ بلکہ وہ جِن جِن کے پاس گئے ان میں سے اکثر نے یا تو دولت اسلامیہ کی بیعت کرلی یا اس امر پر غور و فکر کر رہے ہیں۔

تنظیم القاعدہ  پھر امارتِ اسلامیہ  افغانستان کے نمائندہ گوڈعبدالرحمان ، جو کہ امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں کے لئے جاسوس بھرتی کرنے میں بھی ملوث تھا، کے پاس گئی۔تاکہ اسکے اور تنظیم  القاعدہ کے درمیان تعلقات جو کہ اس پر ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد خراب ہوگئے تھے کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کریں۔ تعلقات کی بحالی کی یہ کوششیں ثمر مند ثابت ہوئیں اور گوڈ  عبد الرحمان اور تنظیم  آپس میں شیر و شکر ہوگئے۔ اسکے بعد گوڈ عبدالرحمان نے یہ بیان دیا کہ اسکی دشمنی اُن لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اسکو مارنے کی کوشش کی تھی اور اسکا اشارہ  تنظیم القاعدہ کی طرف نہیں تھا۔بلکہ وہ تنظیم کی سابقہ سیکورٹی کمیٹی کو اسکا ذمہ دار گردانتا تھا ، جس کو پہلے ہی تنظیم  القاعدہ نے نکال دیا تھا اور اب وہ دولتِ اسلامیہ کی بیعت کرچکےتھے۔

تنظیم القاعدہ کے پاس انصارالاسلام عراق کا ایک نمائندہ آیا تاکہ وہ اور تنظیم القاعدہ  ملکر عراق میں دولت ِاسلامیہ کے خلاف کاروائیاں کریں ۔تنظیم نے اس نمائندے کو اپنے کُردی ارکان سے ملایا اور انکو پہاڑوں سے میرانشاہ شہر میں بلا لیا اور صلاح مشورہ اور منصوبہ بندی شروع ہوگئی۔یہ صلاح مشورہ اور منصوبہ بندی اس سلسلہ میں تھی کہ تنظیم کے عسکری اور علمی  کرد ارکان کو اکٹھا کیا جائے اور انکی افغانستان میں تربیت کی جائے تاکہ وہ ایران کے راستے عراق جاکر لڑائی میں شامل ہوں۔انہوں نے “ملا غازی عبدالرشید تربیتی معسکر “کے نام سے  ایک ویڈیو بھی جاری کی۔عبدالرشید غازی اسلام آباد میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔ ہم انہیں شہداء میں ہی شمار کرتے ہیں اور اصل بات تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔اللہ نے ان کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا،کیونکہ انصار الاسلام(کی اکثریت) نےدولتِ اسلامیہ کی بیعت کا اعلان کردیا۔اللہ کی  عطا کردہ موصل شہر اور اس جیسی دوسری عظیم فتوحات نے تنظیم  القاعدہ کے اس منصوبہ پر پانی پھیر دیا۔
اور بلاشبہ میرا دل اُس وقت مسرت سے بھر جاتا ہے جب میں ان مخلص پنجابی ساتھیوں کے گروہ کو یاد کرتا ہوں جنہوں نےتنظیم القاعدہ کو خیر باد کہ دیا۔اور جو کچھ تنظیم القاعدہ  میں باقی بچا اس پر الظواہری اور عاصم عمر اور احمد فاروق نامی دواشخاص کی شکل میں   دیو بندی صوفیوں کے گروہ  کا راج ہوگیا۔تنظیم نے ان کو اپنے دماغ یعنی “السحاب میڈیا” کے اردو  شعبہ کا اختیار دے کر سب کچھ بگاڑ کر  رکھ دیا۔تنظیم کے انجینئر مختار المغربی جوکہ تنظیم اور ان دو دیو بندیوں کے درمیان رابطہ کار ہیں ، نے تنظیم القاعدہ برصغیرکے نام پر القاعدہ کو ایک دیوبندی تنظیم بنا کر رکھ دیا ۔اور انہوں نے مہاجر مجاہدین کو  دور ہٹا دیا کیونکہ وہ اب انکی ضرورت محسوس نہیں کر رہےتھے-(ایڈیٹر نوٹ :مصنف نے یہ گواہی القاعدہ برصغیر کے اعلان سے پہلے لکھی تھی۔مصنف کو اس اعلان کی پہلے سے معلومات تھیں۔اسی شمارے کے مضمون “ظواہری،ھراری اور نظاری کی القاعدہ اور مفقود یمنی حکمت” کا مطالعہ کریں  جس میں امارتِ اسلامیہ کے ایک بیان کا تذکرہ ہے جو القاعدہ برصغیر کے اعلان کی نفی کرتا ہے)
اے اللہ عزّوجلّ، دولت ِاسلامیہ کے خلاف جنگ بھڑکانے والے تمام منصوبوں کو تباہ کردے۔اے مالک ان تمام منصوبوں کو نیست و نابود کردے۔ اے عظمت و رفعت کے مالک ، اے عرشِ عظیم کے مالک میں تجھ سے دستِ سوال دراز کرتاہوں کہ دولت ِاسلامیہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھ اور اسکی مدد فرما، اسکے امیر کو حق پر ثابت قدم رکھ،اسکے جھنڈے کو بلند کردے اور ہمیں ہمت دے کہ جو دشمن ہمارے دین کےخلاف صف آراء ہیں اُنکو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔بلاشبہ وہی تمام عظمتوں کا مالک اور دعاؤں کا قبولکرنے والا ہے۔اور آخری بات یہی ہے کہ  تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیےہیں جو تمام  مخلوقات کا خالق ہے۔

 

(خیر کا متلاشی ، آپکا بھائی (اور اللہ ہی نیتوں کے بھید جانتا ہے
ابو جریر الشمالی
[
۱۹ شوال1435 ہجری [۱۵ اگست ۲۰۱۴

الحمد للہ بنعمتہ تتم الصالحات