بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلافت ِ بغدادی کے اعلان سے متعلق بیان
هيئة الشام الإسلامية
خلافت ِ بغدادی کے اعلان سے متعلق بیان
هيئة الشام الإسلامية
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، سوائے ظالموں کے کسی پر جارحیت نہیں، اور درود وسلام ہو اُن پر جو واضح حق لے کر آئے(صلی اللہ علیہ وسلم)،اُن کی آل پر، اُن کے اصحابؓ پراور اُن پر جو احسان کے ساتھ اُن کی قیامت تک پیروی کریں، بعد ازاں:
فتنے یکے بعد دیگرے نازل ہو رہے ہیں، آزمائشیں امتِ اسلام پر گردش کی مانند آ رہی ہیں حتی کہ میل کچیل ایسے زائل ہو رہے ہیں جیسے لوہے کی دھات کا زنگ ختم ہو تا ہے، انہی آخری فتن میں سے،ایک ’خلافت‘کا دعوی ہے جس کا اعلان جماعتِ بغدادی نے کیا ہے،جو پہلے اہل شام پر زخموں سے چورمصائب کو لائے، بالکل ویسے ہی جیساکہ انہوں نے پہلے اہل عراق پر یہی زخم لگائے تھے، جس میں قتل وغارت اور تکفیرکی گئی، اور انقلاب و جہاد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور(مسلمانوں کی) وحدت میں تفریق پیداکرنا شامل رہا ۔
ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ بودے قسم کا دعوی جو اپنے ظاہرپر باطل پرکھڑا ہوا ہےکی بابت کوئی بیان کرنے کی ضرورت ہے، لیکن جماعت ِبغدادی نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دھوکہ دینے میں مہارت حاصل کی ہوئی ہے،جس کے ذریعے وہ اپنی تنظیم کےجملۂ امور کے معاملہ میں غلو کرتے ہیں، تعداد کو بڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور بہت سے دوسروں کی حاصل کردہ فتوحات کو خود سے منسوب کرتے ہیں، اور جس گروہ کی امت کے دشمن ذرائع ابلاغ بھی معاونت کرتے ہیں،جنہیں ایک ایسا گروہ میسر آ گیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والا باغی گروہ ہے اور مجاہدین کے نام کو بدنام کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
یہ واقعات تمام لوگوں سے غوروفکر اور ہوش مندی کا مطالبہ کرتے ہیں، اور ہر جگہ سے تعلق رکھنے والےاہل علم ، اہل فکر، اہل جہاد پر اس بات کو نئے انداز سےفرض ہونے کی حیثیت سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس فتنہ سے متعلق اپنے سکوت و خاموشی کو توڑیں، اِن سے متعلق بات کریں، معذرت سے پرہیز کرتے ہوئے، اِن(داعش) کے خلاف اس طریقے سے بیان جاری کریں، جو اس سے قبل نہ کیا گیا ہو۔
اور اس خلافتِ مزعومہ سے متعلق ان مختلف وجوہات کی بنا پر اِس کے باطل ہونے کو واضح کرتے ہیں:
(۱)اس اعلان کا بیان ایک باغی مارقہ فرقہ کی طرف سے ہونا ہے، جو تکفیر پر کھڑا ہے اور(ناحق) خون کو جائز قرار دیتا ہے، جو منہجِ نبوی سے منحرف ہیں، وہ منہج جو اصل میں خلافتِ راشدہ کی اقامت پر کھڑا ہے۔
(۲)دولت (امارت) سے متعلق شرعاً اور عرفِ عام میں ضروری عناصرموجود نہیں ہیں،اور نہ ہی اِن کو تمکین حاصل ہے، نہ ہی لوگ اِن کے تابع ہیں، اگر پھر بھی ان کی کچھ شخصیات کو ظاہراً تمکین اور غلبہ حاصل ہے، تو یہ دولت کی نسبت ایک گروہ کے زیادہ قریب ہے۔
(۳)خلافت کا اعلان انفرادی طور پر بغیر اہل علم اور اہل رائے اور مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کرنا، جیسا کہ حزبِ بغدادی کے ذہنوں میں یہ بات سرایت کر گئی ہے کہ یہ خود ہی اہل شوری اور اہل حل و عقد ہیں، اور ان کے علاوہ افراد پر مرتدین اور صحوات کے حکم کے علاوہ کچھ نہیں لگتا، جیسا کہ متعدد بار انہوں نے اس بات کو واضح کیا ہے! یہ انفرادی فیصلہ امت پر نیا استبدادوظلم ہے اور امت کےاقتدار سے تجاوز کرنے والا امر ہے،امت کی رائے پر رسوائی لانے والا اور مصلحت ِ امت کو نظرانداز کرنے والا معاملہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے امت پر اِس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:
[پس اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی، تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے] (امام بخاری اور دیگر نے اسے روایت کیا ہے)۔
ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ
[جس نے یہ (بغیر مشورے کے) بیعت والا معاملہ کیا ، تو اس نے گویا خود کو اور صاحب ِ بیعت کو بھی قتل کےخطرے سے دوچار کر دیا]
(۴)لوگوں پر اُس بیعت سے متعلق غضب ناک ہو رہے ہیں، جس کا اصلاً انعقاد ہوا ہی نہیں ہے، جب انہوں نے کہا:
[ہم مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ خلیفہ کے اعلان کے بعد تمام مسلمانوں پر خلیفہ ابراہیم(ابو بکر بغدادی) کی بیعت اور نصرت واجب ہو چکی ہے۔۔۔]
اور پھر یہ کہ:
[وہ تمام دنیا میں بسنے والوں مسلمانوں کے امام اور خلیفہ بن گئے ہیں]
اور یہ بات بھی ان کی طرف سےبیان ہوئی کہ:
[جو صفوں میں تفریق پیدا کرنا چاہے، اس کے سر کو گولیوں سے اڑا دو اور اس میں موجود سب کچھ باہر نکال دو، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور اس کے لیےکوئی عزت نہیں ہے]
(۵)ایک مجہول الحال (نامعلوم غیر معروف)خلیفہ کا تعین کرنا،جس کا کسی ایک بھی اہل علم نے تزکیہ نہیں کیا، یہ اپنی جماعت کے افراد سمیت جمہور مسلمانوں کے لیے(فالوقت) مجہول العین ہے، اگر اس کا نام معلوم بھی ہو، تو بھی علمائے امت کی طرف سے ایک معتبر خلیفہ کے شروط کو نظر انداز رکھا گیا ہے، اور یہ امت کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے، یہ تو بالکل جابرانہ حکومتوں جیسا طرزِ عمل ہی ہے۔
(۶)بغدادی کا اپنے امیر(ایمن) ظواہری کے ساتھ عہد شکنی کرنا اور بیعت کو توڑ دینا جب کہ بغدادی نے کہا تھا:
[آپ (شیخ ایمن الظواہری)ہمارے معاملات میں ولی الامر ہیں اور جب تک ہم باقی ہیں ،ہم پر آپ کی سمع و اطاعت کا حق ہے!]
اور(شیخ ایمن) ظواہری نے شام میں دولت کی توسیع کو اپنے فیصلے میں باطل قرار دے دیا تھا، اور اُس فیصلہ والے بیان کے بعد لی گئی تمام بیعات باطل و مردود ہیں ۔ کیا مسلمانوں کے’خلیفہ‘ کا پہلا عمل غداری، خیانت اور عہد شکنی ہوتا ہے!
یہ شریعت کی مخالفت پر مبنی اعلان اہل اسلام پر بہت سے فتن و شرور اور مفاسد و مصائب لے کر آیا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں:
(۱) اس طریقے پر ’خلافت‘ کا اعلان کرنااور ایسے طبقہ کی جانب سے اس کا اعلان خلافت کے مقاصد کو فوت کر دیتا ہے، جس کے ذریعے دین اور سیاستِ دنیا کی حفاظت ہوتی ہے، بلکہ یہ تو اسلام کی صورت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے جس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دولت تو دراصل دولتِ قتل اور دولتِ جرائم ہے، جوفقط سروں اور ہاتھوں کو کاٹنے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
(۲)پوری امت ِ اسلامیہ کواِس مجہول(مامعلوم و غیر معروف) ’خلیفہ‘ کی بیعت نہ کرنے پر گناہگار قرار دینا، اور ان کے ساتھ قتال کو جائز قرار دینا اور اُن کے خون کو مباح سمجھنا اگر وہ اِس جماعت کےخلیفہ کی اطاعت کو قبول نہیں کرتے! اس بات کو ملحوض رکھتے ہوئے کہ کوئی بیعت(عامہ) اُس وقت تک معتبر نہیں ہوگی، جب تک باقی لوگ (تمام نہیں تو جمہور) اس کے تابع نہ ہو جائیں، اور ایک امرِ عامہ جیسا نظم سامنے نہ آ جائے، یہی اس حدیث سے مقصود ہے [جو شخص اس حالت میں مر جائےکہ اس کی گردن پر بیعت نہ ہو،تو اس کی موت جاہلیت پر ہوئی]، اِس حدیث کا اطلاق اُس طبقہ یا گروہ پر نہیں ہوتا جس کو امت ہی نہ جانتی ہو اور نہ ہی سابقہ ومابعد علمائے امت جانتے ہوں۔
(۳)مسلمانوں اور اُن کے فتوحات اور جہاد کو شام و عراق میں کمزور کرنا، ان کے درمیان فتنہ کو بھڑکانا، اور انہیں دشمن کے گروہوں سے قتال سے ہٹا کر دوسری طرف مشغول کرنا۔
(۴)ان تمام کتائب اور مجموعات کو جو اِن(الدولۃ) کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہوئے، ان کی طرف سے کیے جانے والے دعوتی، علمی، جہادی، رفاعی کاموں کو کالعدم اور بےکارقرار دینا۔
(۵)مسلمانوں کے ممالک میں اسلام دشمنوں کو تمکین فراہم کرنا، اور ان کو نئے انداز سے ایک موقع عطا کرنا، اِن دشمنوں کی سیاست و مفاداس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس نقصان دہ ’خلافت‘ کی ترویج اور نشرواشاعت کریں؛ اس لیے وہ اِن کی مزاحمت (اُس طرز پر)نہیں کرتے بلکہ اِن کے لیے مسلح ہونے اور انتشار پھیلانے کو آسان بناتے ہیں ، تاکہ وہ مجاہدین کے علاقوں کا حصار کر سکیں، اور یہ جماعتِ مارقہ مسلمانوں کے دشمنوں پر سوار ہوتے ہوئے سنی علاقوں کو تباہ کر سکے اور اُن کی تقسیم میں معاونت کرے، پھر یہ اِن (الدولۃ) سےاور باقی مسلمانوں کے خلافت قتال کرتے ہیں اور شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ناموں کو بنیاد بناتے ہیں ۔
اس بڑی مخالفت اور عظیم مفسدے کے سامنے تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کا سامنا کر کے مقابلہ کریں:
اول: اہل علم اور اہل فکر کو چاہیے کہ ابتدائی قدم اٹھائیں اور ان امور کو تعین کر کے ان کی وضاحت کریں:
(۱) خلافتِ اسلامیہ کے مفہوم کی وضاحت کریں، جو سوائے اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق نصرت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، اور جس نصرت کے بعد دولتِ اسلامیہ پھیلتی ہے اور اس کا قیام ممکن ہوجاتا ہے، یہ صرف کسی شخص کے اپنی مرضی کا دعوی کر لینے سے وقوع پذیر نہیں ہوتی،اور نہ ہی خلافت کی شرط اقامتِ دین کے لیے کسی محدود ملک کے ساتھ مشروط ہے اور نہ ہی کسی خاص معین کیفیت کے ذریعے قائم ہوتی ہے، بلکہ جیسے جیسےاللہ کا دین قائم ہوتا جاتا ہے اسی طرز پر دولتِ اسلام قائم ہوتی جاتی ہے، اور مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تمکین حاصل کرنے میں جلدبازی کریں جبکہ اس کے مادی اسباب بھی سامنے نہ پاتے ہوں ، اور نہ ہی اس تمکین کے مسئلہ میں اُجلت دکھائیں یا اپنی جماعت کے ذریعے بغیر باقی مسلمانوں کو شامل کیے، اس کی یکتا کوشش کریں ؛ بلاشبہ یہ ایک واضح ضلالت وگمراہی ہے، اور امت میں بہت سے جھوٹے اور دجال ظاہر ہوئے ہیں، جوسب مختلف گمان رکھتے تھے کہ اُن میں کوئی نبی ہے، یا مہدی ہے یا خلیفہ ہے۔
(۲)اس اعلانِ خلافت کا شریعت سےمتصادم ہونے کی تصدیق کی جائے، جیسا کہ کئی اعتبار سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، جیسے اس خلافت کا اعلان کرنے والے امت کی رائے میں غالی خوارج مارقہ ہیں، اور ان کے آگے تسلیم ہونے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ کسی کے آگے تسلیم ہو جانے کا حق متغلب حاکم کے پاس محفوظ ہوتا ہے جو مسلمانوں کی جان کی حفاظت کرتا ہے، اور اِن (الدولۃ)کے پاس کسی قسم کا سلطہ نہیں ہے، بلکہ اِن کے سامنے تسلیم ہونے سے مزید ناحق خون بہے گا، اور اِن خوار ج کے بڑوں نے کہا ہے [ہم خون پیتے ہیں اورکھوپڑیوں کے گھر بناتے ہیں]، اور یہ رائے ہمارے معصوم لوگوں کے ناحق خون اور مال کے متعلق بیان کرتے ہیں، بلکہ اُن مجاہدین کے خلاف جو دشمنوں سے لڑ رہے ہیں۔
(۳) امت ، اُس کے انقلاب، اُس کے جہاد پر اِن کی طرف سے اپنائی گئی حکمتِ عملی کے ضرر اثرات کی وضاحت کریں، جو اس اعلان کی وجہ سے سامنے آئے ہیں، اور اس سے قبل بھی دئے گئے بیان اور دیگر بیانات کی روشنی میں اِس کو عامۃ الناس پر واضح کریں۔
(۴) تاریخ میں غالیوں اور خوارج کے موقف کا انکشاف کرنا، اور سابقہ دہاہیوں میں دولتِ اسلام پر ان کی تخریب کاری اور بگاڑ کے اثرانداز ہونے کو سامنے لانا، اور فتوحات کا راستہ روکنا، اہل ایمان کو قتل کرنا، اہل شرک کو چھوڑ دینا، اور اِن کی پناہ میں گئے ہوئے لوگوں کے ساتھ کی گئی غداری کو واضح کرنا۔
(۵) خوارج کے احوال کو دولتِ بغدادی کی مماثلت کو استعمال کرتے ہوئے واضح کرنا، جس میں علمائے امت کا سقوط کرنا، اِن (جماعت الدولۃ)کی طرف سے نشر جہالت کو واضح کرنا، اور ان کے اندر موجود منحرف سمت بندی کو منکشف کرنا، اوراِن کی بعض قیادت کا روافض کو چھوڑ دینے کا(اہل سنت پر) معاملہ کرنا، اور اِن (روافض)کی خدمت امت کے دشمنوں کی مصلحت کو فائدہ پہنچا کر کرنا(جیسا کہ مجاہدین سے لڑنا)، اور بعض محاذون پر براہِ راست اِن سے قتال کو روکے رکھنا، اور بعض علاقوں میں ڈاکؤں اور راہزنوں سے لڑائی کرنے سے گریز کرنا، اور اس معاملہ کی وضاحت کرنا کہ سابقہ اولین خوارج کے اپنے نماز، روزے اور تلاوتِ قرآن کی ریاضت بھی ان کو کوئی اطمینان نہ دلا سکی تھی۔
دوم: ہم قیادتِ جہاد اور انقلاب کے داعی حضرات کو کہتے ہیں ، جن کو عامۃ الناس نے اپنی قیادت کرنے کی ذمہ داری سپرد کی، اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد وہ اس معاملہ میں ہمارے معاون و مددگار ہیں، اور ان سے بھی ہم مندرجہ ذیل فرض کی ادائیگی کی درخواست کرتے ہیں:
(۱) اہل علم کے ساتھ تعلق استوار کیجیے، اور ان کے ساتھ مستقل مشاورت کا عمل جاری رکھیے اور اسی طرح اہل خبر اورمختلف اہل تخصص کے ساتھ بھی مشورہ کیجیے، تاکہ اکٹھے ہو کر مشترک رائے اور حکمتِ عملی کو وضع کیا جا سکے جس سے یہ نازل ہونے والی آفت کو دور کیا جا سکے، اور ان جیسے افراد کے ساتھ تعامل اور اُن کی طرف دعوت دینے والوں کے ساتھ تعامل کی وضاحت ہو سکے۔
(۲)تمام لوگوں کو ایک کلمہ پر جمع کرنے کے معاملہ کو فوقیت دی جائے، اور اُن تمام اسلوب کو اپنایا جائے جس سے اِس طریقے پر جانے میں معاونت ہوسکے، اور اسلام کے ساتھ ولاء کو فوقیت دی جائے ،چاہے وہ کسی بھی وجود یا جماعت کے ساتھ ہو، اور تمام کے ساتھ سچائی کے ساتھ تعامل کیا جائے، حسنِ ظن رکھا جائے، اور کسی مصیبت پہنچنے پر صبر سے کام لیا جائے۔
(۳)مسلمانوں کے علاقوں میں اس خبیث شجر کے خاتمے کے لیے مکمل عزم اور ارادہ ہو، اور اس میں کسی بھی قسم کے تردد سے پرہیز کیا جائے، اور موجودہ صورتِ حال اور حسبِ حال کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان (داعش) کے خلاف قتال اور دشمنوں کے خلاف قتال میں ایک متوازن ملاحظہ برقرار رکھا جائے، اور ان پر ظاہری حکم کے فریب سے بچنے میں احتیاط ہو یا اِن کی فکراور روابط جس کے ذریعے جہاد اور اہل جہاد کو نقصان پہنچتا ہو، اس سے غفلت برتنے میں پرہیز کیا جائے۔
سوم: ہم امت کے غیور نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے ان امور میں نصیحت کرتے ہیں:
(۱) اس امر سے متعلق غوروفکر کریں، اور اہل علم سے سوال کریں جب ان کو کوئی اشکال ہو جائے، اور یہ بات جان لیں کہ صفِ بغدادی میں کوئی بھی مشہور عالم نہیں ہے، جس کا مسلمانوں نے نزدیک مقام ہو، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نےاِن (داعش)کے اسلافِ خوارج سے ان کی جہالت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بات بیان کی تھی:
[ ہم تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ کی طرف سے آئے ہیں، جو مہاجرین اور انصار میں سے ہیں؛ تاکہ تم پر یہ بات واضح کریں جو وہ صحابہؓ بیان کرتے ہیں، اور تمہیں وہ بات پہنچائیں جس کی وہ خبر رکھتے ہیں، اور اِن صحابہؓ کے دور میں قرآن اترا، اور وہ تم سے زیادہ وحی کا علم رکھتے ہیں، اور اُن کے عہد میں وحی کا نزول ہوا ہے، اور تمہارے درمیان اِن صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی نہیں ہے] (حاکم نے اس کی تخریج کی ہے)
(۲) ان کی طرف کسی بھی قسم کی موافقت سے اجتناب برتا جائے، یا ذرائع ابلاغ میں ان کو کسی قسم کا فروغ دیا جائے یا اِن کے حق میں کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائی کے ذریعے معاملہ کو ابھارا جائے، اور لوگوں کو اس بات کا ادراک کروایا جائے کہ جماعت الدولۃ جھوٹ اور جعل سازی سے کام لیتی ہے، اور اپنی حقیقت کو چھپانے اور تقیہ کرنے کے معاملہ میں روافض کی تقلید کرتی ہے۔
(۳)جماعت الدولۃ کے اعلانِ خلافت کے باطل ہونے پر کسی قسم کا شائبہ نہ رکھا جائے، کیونکہ بلاشبہ یہ کہیں سے بھی منہجِ نبوت پر اپنی ہیت، نہ ہی معنی کے اعتبار سے قائم ہے، کہ جماعت الدولۃ ایک باغی ظالم تنظیم ہے جو اللہ کے رستے سے منحرف ہو چکی ہے، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو اپنے دین کی حفاظت کی جانشینی عطا فرماتے ہیں جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، نہ کہ وہ جو ( اہل اسلام کو قتل کریں اور اہل شرک کو چھوڑ دیں)۔
(۴) اہل علم کی توقیر کی جائے اور ان کی عزت کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، اور اُن پر تہمتیں لگانے سے گریز کیا جائےکہ وہ جماعت ِ بغدادی سے حسد کرتے ہیں یا اُس کی مخالفت کرتے ہیں، یا یہ کہ وہ اقامتِ خلافت کے خلاف ہیں، یا یہ کہ وہ طواغیت کے سامنے جھکتے ہیں اور اُن سے راضی ہیں، بلاشبہ یہ سب بہتان باتیں ہیں۔
(۵)اللہ کے حکم کے معاملہ میں اپنے نفس کی حفاظت کی جائے، اور کسی مصیبت پر صبر سے کام لیا جائے، اور باطل کے خلاف اپنا دفاع کیا جائے، اور شیطان کے ان وسوسوں سے بچا جائے کہ اللہ کے امر کو موت فی سبیل اللہ سے ہی باندھ دیا جائے، اور زندگی فی سبیل اللہ گزارنے کے معاملہ کو وقعت نہ دی جائے، کیونکہ شہادت کا انتخاب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، نہ کہ وہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آپ خود انتخاب کرنے لگ جائیں۔
چہارم: عامۃ المسلمین کو، جو امت کا حصہ ہیں، اس کا جزو ہیں، اس کو قائم رکھنے والے ہیں، اُن سے ہم کہتےہیں:
(۱)اس تنظیم کو بے نقاب کریں اور اس کے خطرے کو واضح کریں اور عامۃالمسلمین پر اِن کی حقیقت کو آشکار کریں، اس کی مسوؤلیت اُن تمام لوگوں پر ہے، جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔
(۲)آپ سب اپنے اموال کے بارے میں خود ذمہ دار ہیں،اس لیے اِن اموال کو سچےعملی کام کرنے والوں کو دیجیے، اور وہ الحمدللہ کثرت سے ہیں، اور وہ کسی خاص معین تنظیم تک محدود بھی نہیں ہیں۔
(۳)آپ کے بیٹے بھی آپ کی گردنوں پر ایک ذمہ داری ہیں اور (ہر کوئی شخص اپنی رعایا سے متعلق ذمہ دار ہے)، اس لیے انہیں اہل غلو کے دھوکہ میں جانے سے روک لیجیے، جو یہ دھوکہ خلافت کے دعوی سے کر رہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ ان مجرمین کے ہاتھوں میں ایسا آلہ بن جائیں، جس کے ذریعے یہ مسلمانوں کے خلاف قتال کریں۔
اے اللہ، ان شریر لوگوں کے شر کو روک دیجیے، فاجر لوگوں کے غدر سے ہمیں بچا لیجیے، کفار کے فریب سے ہمیں نجات دیجیے، اے عزیز، اے غفار۔ (آمین)
الحمدللہ رب العالمین
مصدر(عربی):
http://islamicsham.org/letters/1892