JustPaste.it
بسم اللہ الرحمن الرحیم
موانعِ تکفیر(کسی خاص کلمہ گو کو کافرقرار دینے میں احتیاطیں)
مولاناعاصم عمر حفظہ اللہ
مسؤول عام: جماعت قاعدۃ الجہاد برِ صغیر


موانعِ تکفیر سے مراد وہ رکاوٹیں ہیں جو کسی مرتکبِ کفر شخص کو کافر ہونے سے بچاتی ہیں۔ اگر کوئی کفریہ قول یا فعل کسی مسلمان سے سرزد ہو جائے تو شریعت ان پر ایک دم کافر ہونے کا حکم نہیں لگاتی بلکہ کچھ توقف کرتی ہے، یعنی کسی مسلمان کے کفریہ قول و فعل کے باوجود اس کو ایک دم کافر نہیں کہتی۔ بلکہ اس صورت میں چند باتیں ایسی ہیں جو اس کو کافر ہونے سے بچا سکتی ہیں، جن میں سے اہم موانع کی طرف مختصراً اشارہ یہاں کیے دیتے ہیں:

۱) عذرِ جہل:
جہالت یا لا علمی کا عذر کسی مسلمان سے کفریہ قول یا کفر کا ارتکاب ہونے کے باوجود بہت سی صورتوں میں خود اس مسلمان کو کافر قرار دینے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس بات کو تمام اہل ِ علم نے فتوے کے اصول و آداب میں نقل کیا ہے۔ پھر بالخصوص جمہوریت جیسے مبنی بردجل نظام کی بحث میں جہاں جمہوریت کی حقیقی شکل اور اس کے شرعی حکم سے جاہل ہونے کے بیسیوں اسباب آج موجود ہیں، بہت سے نامور علماء اس کے حق میں فتوی دے چکے ہیں جس کے سبب عوا م مغالطے میں پڑ گئے ہیں، جمہوریت کی مخالفت کرنے علماء کے بزور گلے گھونٹ کر ان کی آواز عام مسلمان تک پہنچنے سے روکی جا رہی ہے۔

ان سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو یقیناً کسی فرد کے جمہوریت کو درست سمجھنے یا جمہوری نظام میں شامل ہونے کی بنا پر اسے کافر قرار دینے سے قبل جہالت کے عذر کو سامنے رکھنا مفتی کا اہم ذمہ داری ہے۔ کم از کم جو لوگ اس نظام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے یا اس کاکفر ان پر واضح نہیں ہوا، وہ معذور قرار دئے جائیں گے اور اگرچہ وہ ایک نہایت خطرناک جرم میں مبتلا ہیں لیکن ان پر کفر کا فتوی لگانے سے قبل توقف اختیار کرنا، تحقیق کرنا اور جہل دور کرنا ضروری ہے۔ علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الاشباہ والنظائر‘‘ کےفن’الجمع والفرق‘ میں اور ’الیتیمہ‘ مذکور ہے:

’’جس شخص نے اپنی جہالت کی بنا پر یہ گمان کر لیا کہ جو حرام و ممنوع فعل میں نے کیے ہیں وہ میرے لیے حلال و جائز ہیں، تو اگر وہ (افعال و اعمال) ان امور میں سےہیں جو کا دینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا قطعی اور یقینی معلوم ہے(یعنی ضروریاتِ دین میں سے ہیں) تو اس شخص کو کافر کہا جائے گا، ورنہ نہیں‘‘ (اکفارالملحدین: ۱۹۷)

۲)اکراہ (یعنی مجبوری)
کسی کفر کو کرنے کے لیے جان سے مارنے یا جسم کا اساسی عضو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے اور غالب گمان بھی یہ ہو کہ اگر اس نے کلمۂ کفر نہیں کہا تو اسے قتل کر دیا جائے گا یا اس کے جسم کا کوئی اساسی عضو تلف کر دیا جائے گا، اسی صورت میں کلمۂ کفر اس شرط کے ساتھ کہنے کی اجازت ہے کہ اس کا دل ایمان پر جما ہو اور مطمئن ہو۔ ہاں، افضل یہی ہے کہ وہ کلمۂ کفر کی بجائے وہ شہید ہونے کو ترجیح دے۔ ایسے جبر کو شریعت کی اصطلاح میں ’اکراہ‘ کہتے ہیں۔ البتہ واضح رہے کہ ’’مجبوری‘‘ (اکراہ) کی وجہ سے ہر جرم کے ارتکاب کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جیسا کہ اپنی جان بچانے کے لیے کسی دوسرے مسلمان کی جان لینا، اپنا ملک بچانے کے لیے دیگر مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دینا وغیرہ؛ مجبوری کا عذر بنا کر یہ سب شنیع اعمال کرنا درست نہیں ہو گا۔ پش اکراہ بھی کسی کی تکفیر میں مانع ہو سکتا ہے، یہ ایک مفصل بحث ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

۳) تاویل کا عذر:
کسی مسلمان میں کفریہ چیز پائی جانے کے باوجود اس کا کافر قرار دئے جانے میں ایک رکاوٹ ’’تاویل‘‘ بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی کا یہ تاویل کر کے جمہوریت میں اترنا کہ اگرچہ وہ اس نظام کو غلط سمجھتا ہے لیکن چونکہ اس کے خیال میں اسلامی حکومت قائم کرنا کا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا اس لیے وہ اس کے ذریعے سے شریعت لانے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ ہمیں اس تاویل سے اختلاف ہے اور اس تاویل کو غلط ثابت کرنے کے لیے درجنوں دلائل دینا ممکن ہے، اور اگرچہ اس تاویل کے ساتھ بھی اس غلیظ کفریہ نظا م میں شریک ہونا ایک سنگین جرم ہے، لیکن یہ تاویل بہت سی صورتوں میں جمہوریت میں شریک شخص کو کافر قرار دئے جانے سے روک دیتی ہے۔ یہی تاویل وہ فرق ہے جو سیکولر دین دشمن جماعتوں اور جمہوریت میں شریک دینی جماعتوں میں فرق کرنے کا باعث ہے۔ اور یہ تفریق کرنا اور سب کو بلا تفریق ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے سے رکنا ضروری بھی ہے۔ الغرض، تاویل میں کسی کو کافر قرار دینے میں مانع ہو سکتی ہے، البتہ شریعت میں اس کی تفصیل بھی موجود ہے کہ کون سے تاویل قابلِ قبول ہے اور کن مواقع پر۔

کسی پر کفر کا حکم لگانا عام آدمی کا کام نہیں:
بعض موانعِ تکفیر کا بیان ہم نے یہاں اختصار سے کر دیا تاکہ قارئیں اس فرق کو اچھی طرح ذہن نشین کرن لیں کہ نظام ِ جمہوریت و دینِ جمہوریت کا فکر بے شک ثابت شدہ ہے، لیکن اس میں شریک متعین افراد یا جماعتوں پر حکم لگانا ہمارا مطمع نظر نہیں۔ نیز جمہوریت کو کفر کہنے سے سیدھا یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں کسی بھی سطح پر اور کسی بھی انداز سے شریک ہونے والے تمام لوگ ہمارے نزدیک بلا تفریق دین سے خارج ہو گئے ہیں۔ یہ نہ تو ہم نے کہا ہے اور نہ ایسی غیر محتاط اور مبنی برغلوآرا اختیار کرنا مجاہدین کا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمہ وقت ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے:

اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہ احدھما۔ (بخاری)
’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو یہ کفر ان میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا‘‘۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کو کافر کہا گیا ہے، اگر اس میں واقعی کفریہ بات ہے تو پھر تو وہ کافر ہے، لیکن اگر اس میں کوئی کفریہ بات نہیں ہے، اور اس نے بغیر تحقیق کے اس کو کافر کہہ دیا، تو پھر اب یہ کہنے والا خود ایک بہت سنگین گناہ کو مرتکب ہوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یجتمع رجلان فی الجنۃ احدھما قال لاخیہ: یا کافر (مسند اسحاق بن راھویہ؛ الجزء الاول: ص ۴۶۲)
’’وہ دو آدمی جنت میں اکھٹے نہیں ہوں گے جن میں سے ایک نے دوسرے مسلمان بھائی کو کافر کہا‘‘۔

یعنی جس کسی نے کسی مسلمان کو کافر کہا(جس کے اندر کوئی کفریہ بات نہیں تھی) تو یہ کہنے والا ایسا عمل کر گیا جو اسے جنت سے محروم کر سکتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص کسی کفر میں مبتلا ہے تو عام آدمی اس کو اس وقت تک کافر نہ کہے جب تک علمائے حق اس کے کافر ہونے کا فتویٰ نہ دیں، البتہ اس کفریہ عمل کو کفر ضرور کہا جائے گا۔

یوں تکفیر کی بحث کے اعتبار سے ہم لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

۱)عام مسلمان:
کسی بھی عام مسلمان کے لیے (خواہ مجاہد ہی کیوں نہ ہو)، جائز نہیں کہ وہ ان مباحث کو پڑھ کر عام لوگوں پر یا کسی عالم پر کفر کے فتوے لگاتا پھرے۔ ایسا کرنا یقیناً اس کے ایمان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لہٰذہ غیر عام کو صرف اتنا کرنا ہے کہ خود کو اپنے گھر والوں اور اقارب کو اس کفر(جمہوریت) سے بچانا ہے، نہ کہ دوسروں پر حکم لگانا۔

۲)عالمِ دین:
اہل ِ علم حضرات خود کو اس کفر سے بچائیں اور جمہوریت کا کفر لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ البتہ کسی خاص جماعت،افراد یا کسی عالم پر کفر کا حکم لگانا ہر عالمِ دین کا کام بھی نہیں ہے کیونکہ اس کام میں علم میں گہرائی ورسوخ کی ایک خاص سطح درکار ہے، جو کم کم علماء کو میسر ہوتی ہے۔

۳) محقق علمائے کرام:
کسی کو کافر کہنا، یہ ہر کس وناکس کا کام نہیں، بلکہ انتہائی نازک مسئلہ ہے۔ چنانچہ محقق علماء ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ نہ کریں اور قیامت کے دن کتمانِ حق کے جرم میں پکڑ لیے جانے سے ڈریں۔ دلی جذبات، نفسانی خواہشات، ذاتی رغبتوں، سب کو ایک طرف رکھ کر علمی قواعد اور فتوے کے آداب و اصولوں کے مطابق حق کو ہر حال میں بیان کریں، خواہ اہل اقتدار اور خوہی الٰہ ورب بن جانے والوں کو کتنا ہی ناگوارکیوں نہ لگے۔ ایک دن سب کو معبودِ حقیقی کے سامنے جا کھڑا ہونا ہے،کامیاب وہی ہے جو اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر جائے اور دنیا کی ہر قوت کے خوف سے آزاد ہو جائے۔ آج بھی موت و زندگی وہی بانٹا ہے، ہر چیز پر اسی کی بادشاہت ہے۔ جیلوں میں زہر کے ٹیکے لگانے والے، علمائے حق اور مجاہدین کو شہید کر کے سڑکوں پر پھینک دینے والے کچھ بھی نہیں !

بشکریہ:
نوائے افغان جہاد