آپ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر قبلہ رو کھڑے ہونا، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکنا، زمین پر ہاتھ ٹیک کر سجدہ کرنا اور چند مقرر الفاظ زبان سے ادا کرنا بس یہی چند افعال اور حرکات بجائے خود عبادت ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ رمضان کی پہلی تاریخ سے شوال کا چاند نکلنے تک روزانہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہنے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں قرآن کے چند رکوع زبان سے پڑھ دنیے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مکہ معظمہ جا کر کعبہ کے گرد طواف کرنے کا نام عبادت ہے۔غرض آپ نے چند افعال کی ظاہری شکلوں کا نام عبادت رکھ چھوڑا ہے۔ اور جب کوئی شخص ان شکلوں کے ساتھ افعال کو ادا کر دیتا ہے تو آپ خیال کرتے ہیں کہ اس نے خدا کی عبادت کر دی اور وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون کا مقصد پورا ہو گیا۔ اب وہ اپنی زندگی میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔
لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جس عبادت کیلئے آپ کو پیدا کیا ہے اور جسکا آپکو حکم دیا ہے وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ وہ عبادت یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں ہر وقت، ہر حال میں خدا کی اطاعت کریں اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو قانون الہی کے خلاف ہو۔ آپکا ہر فعل اس طریقے کے مطابق ہو جو خدا نے بتا دیا ہے۔ اس طرز پر جو زندگی آپ بسر کریں گے وہ پوری عبادت ہے اور جاگنا بھی، کھانا بھی عبادت ہے اور پینا بھی۔ چلنا پھرنا بھی عبادت اور بات کرنا بھی حتی کہ اپنی بیوی کے پاس جانا اور اپنے بچے کو پیار کرنا بھی عبادت ہے۔ جن کاموں کو آپ بالکل دنیاداری کہتے ہیں وہ سب دینداری اور عبادت ہیں، اگر آپ انکو انجام دینے کی مقرر کی ہوئی حدوں کا لحاظ کریں اور زندگی میں ہر قدم پر یہ دیکھ کر چلیں کہ خدا کے نزدیک جائز کیا ہے اور ناجائز کیا، حلال کیا ہے اور حرام کیا، فرض کی اچیز کی گئی ہے اور منع کس چیز سے کیا گیا ہے، کس چیز سے خدا خوش ہوتا ہے اور کس چیز سے ناراض ہوتا ہے؟ مثلا آپ روزی کمانے کیلئے نکلتے ہیں اس کام میں بہت سے مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں حرام کا مال کافی آسانی کے ساتھ آپکو مل سکتا ہے۔ اگر آپ نے خدا سے ڈر کر وہ مال نہ لیا اور صرف حلال کی روٹی کما کر لائے تو یہ جتنا وقت آپ نے روٹی کمانے پر صرف کیا یہ سب عبادت تھا اور روٹی گھر لا کر آپ نے خود کھائی اور اپنی بیوی بچوں اور خدا کے مقرر کئے دوسرے حقداروں کو کھلائی، اس سے سب پر آپ اجو ثواب کے مستحق ہوں گے۔ آپ نے اگر راستے میں کوئی پتھر یا کانٹا ہٹا دیا، اس خیال سے خدا کے بندوں کو تکلیف نہ ہو تو بھی عبادت ہے۔ آپ نے اگر کسی بیمار کی خدمت کی، یا کسی اندھے کو رستہ چلایا، یا کسی مصیبت زدہ کی مدد کی تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ نے اگر بات چیت کرنے میں جھوٹ سے، غیبت سے، دگوئی اور دلآزاری سے پرہیز کیا اور خدا سے ڈر کر صرف حق بات کی تو جتنا وقت آپ نے بات چیت میں صرف کیا وہ سب عبادت میں صرف ہوا۔
پس خدا کی اصلی عبادت یہ ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے مرتے دم تک آپ خدا کے قانون پر چلیں اور اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس عبادت کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ یہ ہر وقت ہونی چاہئے۔ اس عبادت کی کوئی ایک شکل نہیں ہے ہر کام اور ہر شکل میں اسی کی عبادت ہونی چاہئے۔ جب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں فلاں وقت خدا کا بندہ ہوں اور فلاں وقت اس کا بندہ نہیں ہوں، تو آپ یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ فلاں وقت خدا کی بندگی و عبادت کیلئے ہے اور فلاں وقت اسکی بندگی و عبادت کیلئے نہیں۔
بھائیو! آپکو عبادت کا مطلب معلوم ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زندگی میں ہر وقت، ہر حال میں خدا کی بندگی و اطاعت کرنے کا نام ہی عبادت ہے، اب آپ پوچھیں گے کہ یہ نماز، روزہ، اور حج وغیرہ کیا چیزیں ہیں؟ اسکا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ عبادتیں جو اللہ نے آپ پر فرض کی ہیں، انکا مقصد آپکو اس بڑی عبادت کیلئے تیار کرنا ہے جو آپکو زندگی میں ہر وقت ہر حال میں ادا کرنی چاہئے۔ نماز آپکو دن میں پانچ وقت یاد دلاتی ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو، اس کی بندگی تمہیں کرنئ چاہئے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ پورے مہینہ تک آپکو اسی بندگی کیلئے تیار کرتا ہے۔ زکوۃ آپکو بار بار توجہ دلاتی ہے کہ یہ مال جو تم نے کمایا ہے یہ خدا کا عطیہ ہے۔ اسکو صرف اپنی نفس کی خواہشات پر صرف نہ کردو بلکہ اپنے مالک کا حق ادا کرو۔ حج دل پر خدا کی محبت اور بندگی کا ایسا نقش بٹھاتا ہے کہ ایک مرتبہ اگر وہ بیٹھ جائے تو تمام عمر اسکا اثر دل سے دور نہیں ہو سکتا۔ اب سب عبادتوں کو ادا کرنے کے بعد اگر آپ اس قابل ہو گئے کہ آپکی ساری زاندگی خدا کی عبادت بن جائے۔ تو بلا شبہ آپکی نماز، نماز ہے اور روزہ روزہ ہے، زکوۃ زکوۃ ہے اور حج حج ہے، لیکن اگر یہ مقصد پورا نہ ہوا تو محض رکوع اور سجدہ کرنے، بھوک پیاس کے ساتھ دن گذارنے، حج کی رسمیں ادا کردینے اور زکوۃ کی رقم نکال دینے سے کچھ حاصل نہیں۔
صفحہ: 135 ۔ 138
الكتاب: خطبات
المؤلف: سید ابو الاعلی مودودی
الناشر: اسلامک پبلی کیشنز (پرئیویٹ) لمیٹڈ۔ لاہور
اشاعت: 2001 ء