JustPaste.it

(وقَوْلُهُ فِي الدُّعَاءِ أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ) بتقديم العين علی القاف (الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك خِلَافًا لِأَبِي يُوسُفَ) فعنده لا بأس به وبه أخذ أبو الليث رحمه الله تعالی للأثر والأحوط الامتناع لكونه خبر واحد فيما يخالف القطعي (و) يكره (قَوْلُهُ أَسْأَلُك بِحَقِّ أَنْبِيَائِك) وأوليائك (وَرُسُلِك) أو بحق البيت إذا لا حق للخلق علی الخالق، ولو قال لآخر بحق الله أو بالله أن تفعل.
وكذا لا يلزمه ذلك وإن كان الأولی فعله. (قلت): وهذا مما يكثر وقوعه فليحفظ، وفي الخلاصة لا يقول بحق نبيك بل يقول بدعوة نبيك، وفي نسخة لاينبغي، ولم يذكر الكراهة

مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، بمعقد :عین کی قاف پر تقدیم کے ساتھ ، یعنی تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، برخلاف ابو یوسف رحمہ اللہ کے، کیونکہ ان کے نزدیک اس دعا میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی کو فقیہ ابو للیث نے لیا ہے اسلئے کہ یہ نبی علیہ السلام سے ایک اثر منقول ہے۔ اور زیادہ احتیاط اس دعا کی امتناع (رکنے) میں ہے، اس واسطے کہ خبر واحد ہے اس امر میں جو دلیل قطعی کے مخالف ہے، اس واسطے کہ متشابہ تو قطعی سے ثابت ہوتا ہے اور مکروہ ہے ، یوں کہنا دعا میں اس بِحَقِّ رُسُلِك وَأَنْبِيَائِك وَأَوْلِيَائِك یا بِحَقِّ الْبَيْتِ الله ( بحق اپنے رسولوں کے اور بحق اپنے انبياء کے اور بحق اپنے اولیاء کے ، یا بحق بیت اللہ دعا قبول کر)، اس واسطے کہ خلق کا کچھ حق ثابت نہیں خالق تبارک و تعالیٰ پراور اگر ایک نے دوسرے سے کہا کہ بحق خدا یا بخدا ایسا کرو تو اُس پر یہ کرنا لازم نہیں اگرچہ ویسا کرنا بہتر ہے۔
میں (علاء الدین الحصکفی) کہتا ہوں: اس کا وقع بکثرت ہے، فليحفظ، اور "الخلاصة" میں ہے کہ بحق نبيك (بحق اپنے نبی کے) نہیں کہے بلکہ یوں کہے کہ بدعوة نبيك تیرےنبی کی دعوت کے طفیل ۔ اور ایک نسخہ میں جو مجھ تک نہیں پہنچا، اس میں مکروہ ہونے کا ذکر نہیں۔

مجلد 04 صفحه 223
الكتاب: الدرّ المنتقی في شرح ملتقى الأبحر مع شرحه مجمع الأنهر
المؤلف: محمد بن علي بن محمد الحِصْني المعروف بعلاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية