بھڑکیں مت ماریں، یہ ایک طویل جنگ ہے
کالم: نوکِ قلم
خالد قریشی
پچھلے ماہ کے اواخر میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے وزیرستان کا دورہ کیا، ذرائع کے مطابق انہوں نے فوجی افسران اور نچلے طبقے کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں اور بارڈر پر جاری کام کا جائزہ لیا ـ دورے کے بعد میڈیا سے بات چیت میں کوئی نئی بات نہیں کہی اور نہ ہی انکے پاس ہوتی ہے، بلکہ وہی پرانی باتیں ہوئیں جو ہم 2007ء سے سنتے آ رہے ہیں ـ
”فوج مضبوط ہے“
”دشمن ٹوٹ چکا ہے“
”پہلے اکا دکا حملے ہوتے تھے اب نہیں ہوں گے“
”فوج دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے“ ”عوام فوج کے شانہ بہ شانہ ہے“
”ہر وقت قربانی کیلئے تیار ہیں وغیرہ...
یہ وہ جملے ہیں جو کہتے کہتے تین جبابرہ اور ان کے اتنے ہی ترجمان ریٹائر ہوچکے ہیں اور اب ان کا بھی وقت نکلا جا رہا ہے ـ عوام پاکستان کو انہوں نے اسکے علاوہ کوئی خاطرخواہ تسلی دی بھی نہیں بلکہ اب تو انکے حامی بھی سمجھتے جا رہے ہیں کہ ان کی فوج نے انہیں دھوکے میں رکھا ہوا ہے ـ
پچھلے ماہ سے ہی آج تک دیکھ لیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے جانبازوں نے قبائلی و بندوبستی علاقوں میں ان کے مختلف عسکری اداروں کو کیسے کیسے نشانہ بنایا، جس دوران کراچی، بلوچستان، شمالی و جنوبی وزیرستان اور باجوڑ ایجنسی میں حملے ہوئے جس میں پولیس، ایف سی کے بیس سے زائد اہلکاروں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ـ اس دوران جھڑپ کے دوران ہمارے صرف دو ہی ساتھی شہید ہوئے (تقبلھم اللہ) جسے انہوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہا، ان پر استشہادی حملہ ہوا، متعدد فوجی ہلاک و زخمی ہوئے اور کیپٹن موت کے کنوے کے کنارے رک گیا، اسی طرح کل ہی جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے ناصر نامی ایک لفننٹ کو مجاہدین نے بارودی سرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا جس کی ہلاکت کے بعد میڈیا پر اٹھتی چیخوں سے واضح ہو رہا ہے کہ اس جنگ میں فوج کو کتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ـ مزے کی بات یہ ہے بکاؤ میڈیا فوجیوں کی ہر قسم کی موت کو ”آپریشن کے دوران“ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ حقیقت اس سے بلکل مختلف ہوتی ہے، میڈیا کا یہ طریقۂ کار فوج کی غفلت اور لاپرواہی کو چھپاتا ہے جو عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ـ
ہم ہمیشہ سے یہی کہتے آ رہے ہیں کہ ہماری اور پاکستان کیلئے اسلام و قوم دشمن پالیسی بنانے والوں کے درمیان جنگ ایک طویل جنگ ہے، اس میں اونچ نیچ ہوتی رہے گی، اموات واقع ہوں گی اور گرفتاریوں اور گمشدگیوں سمیت جانبین کو مخلتف حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور عموما جنگوں میں ایسا ہی ہوتا ہے جس کی مثالیں ہمیں تقسیم ہند، عراق، شام اور افغان جنگ کی صورت میں ملتی ہیں لیکن یہاں فوجی بیانیہ پیش کرنے والا جانبدار میڈیا اور سوشل میڈیا پر انکے مجرمانہ حمایت کرنے والے صارفین کسی ایک واقعے یا ہمارے ایک ساتھی کی شہادت پر یا بظاہر کہیں ہمارا راستہ روک کر اسے فتح کا نام دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب کی بار تو بس ”کمر ٹوٹ ہی گئی“ـ تو انکے لئے واضح کروں کہ ایسے بیانیئے ایک فریق تب دیتا ہے جب وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب مجھے فتح نہیں ملنے والی اور میرا دشمن بلکل ختم ہونے والا نہیں، بلکہ یہاں تو الٹا انکے دشمن نے بحمداللہ ایک ہونے کا فیصلہ کیا اور اسے لیکر بھی میڈیا پر جاری رپورٹس سے معلوم پڑ رہا ہے کہ یہ وار کس گہرائی سے انکے سینے پر لگا ہے؟ـ
مجاہدین بھی یہ بات سمجھ لیں کہ ہماری وقتی کامیابی کو کامیابی نہ سمجھیں بلکہ یہ امتحان ہوسکتا ہے، جیسا کہ غزوۂ احد میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے چند صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو ایک جگہ مقرر فرمایا جن سے ایک چھوٹی سی بھول ہو گئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا یہ بھول وقتی کامیابی کی خوشی میں ہوئی تھی (واقعہ طویل ہے آپ نے سنا ہوگا ان شاءاللہ) اور یہ بھی کہ ہمارے ساتھیوں کی تکالیف بھی وقتی ہی ہیں، بلکہ امتحان کا ایک جھونکا ہے اسے دل پر لے کر آپ مایوس نہ ہوں اور اس اونچ نیچ کو معیار نہ بنائیں ـ مجاہدین تاریخ کا مطالعہ کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جنگیں کس طرح ٹھنڈے دل سے لڑی جاتی ہیں، ٹھنڈے دل سے یوں کہ وہ لاشوں کو دیکھ کر فیصلے نہیں کرتے تھے پھر چاہے وہ لاشیں دشمن کی ہوں یا اپنی، اور نہ ہی وہ آدمیوں کو گنتے تھے بلکہ وہ تولتے تھے، ان کے افکار و نظریات کو پرکھتے تھے کہ وہ کتنے مضبوط ایمان کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں، غزوۂ میں مسلمانوں کی کثیر تعداد سے جب صحابہ خوش ہوئے اور انہیں وقتی شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے مسلمانوں کو تا قیامت یہ درس دیا کہ گنتی سے نہیں یہ عمل ترازو سے ہوگا ـ قرآن مجید میں لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو نصیحت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے:
يا بني أقم الصلاة وامر بالعرف وانه عن المنكر واصبر على ما أصابك إن ذالك من عزم الأمور•
بیٹا نماز پڑھا کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر اور تجھ پر جو مصیبت آئے اس پر صبر کیا کر، بے شک یہ ہمت
کے کاموں میں سے ہیں ـ {لقمان: 17
شیوخ یہاں ترجمہ کرتے ہیں کہ ”یہ (برے کاموں سے روکنا اور مصائب پر صبر کرنا) مَردوں کے کرنے کا کام ہے ـ تو ہماری مروت اور مردانگی صبر سے معلوم ہوگی نہ کہ مصائب پر آہ و بکا کرنے سے اور گلے شکوے کرنے سے ـ جو حالات ہیں اس پر بھی اللہ رب العزۃ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ کس طرح انہوں نے اپنی خصوصی مدد سے ہمیں اپنے راستے میں کھڑا رکھا ہے ـ
تو ان خطوط کا ”ما حصل“ یہ ہے کہ فوج اس طویل جنگ میں بے جا بھڑکیں نہ مارے بلکہ حقائق کا سامنا کرتے ہوئے جنگ لڑے اور بدلتے ایام کا تماشا کرے ـ طاقت کے استعمال کا نشہ کرتی فوج اب اس موڈ میں قطعا نہیں کہ وہ اب جنگ لڑے بلکہ میڈیا اور اپنے بکاؤ اداروں کو استعمال کرکے عوام کو دھوکے میں رکھ کر انہیں جہاد اور وطن عزیز کے حصول سے بے خبر رکھ کر عیاشیاں کریں ـ